سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب فرمودہ سالانہ اجتماع لجنہ یوکے 2005ء

لجنہ کی تنظیم جو احمدی عورتوں کی تربیت کے لئے بنائی گئی ہے اسی لئے بنائی گئی ہے کہ احمدی عورتوں میں یہ احساس ہو کہ ہماری جماعت میں الگ اور علیحدہ پہچان ہے۔یہ احساس ہر وقت رہنا چاہیے کہ اس پہچان کو ہم نے جماعت کے وقار کے لئے قائم رکھنا ہے اور مزید نکھارنا ہے۔
اگر تم سچ پر قائم رہنے والی ہو اور سچائی پھیلانے والی بن جاؤگی تو معاشرے کے حسن کو نکھارنے میں بہت بڑا کردار ادا کر رہی ہوگی۔
سورۃ الاحزاب کی آیت 36 کے حوالہ سے نہایت اہم نصائح
اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے چمٹے رہنے والی ہوں۔ آپ کے عمل اور آپ کی تربیت کی وجہ سے آپ کی گودوں میں پلنے والا ہر بچہ دنیائے احمدیت کا روشن چمکتا ستارہ بن جائے جو آپ کے لئے بھی قرۃ العین ہو اور جماعت کے لئے بھی۔ اللہ کرے کہ آپ کے نیکیوں پر چلنے کے عمل خلیفۂ وقت کو جماعت کی تربیت کی کمی کی پریشانی سے آزاد کرنے والے ہوں اور آپ میں سے ہر ایک خلیفۂ وقت کا دستِ راست بننے والی ہو۔
لجنہ اماء اللہ یوکے کے سالانہ اجتماع کے موقع پر
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب فرمودہ 20 نومبر 2005ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ ۔وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ۔ اَعَدَّاللہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا(الاحزاب:36)

اسلام میں عورت کا جو مقام ہے اُس کو ہر احمدی عورت کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے خاص طور پر اس معاشرے میں بعض باتوں کی اس حد تک آزادی ہے جس کی کوئی بھی مذہب اجازت نہیں دیتا۔ اگر آپ اپنے اس مقام کو پہچان لیں تو آپ نیک باپ بھی پیدا کر رہی ہوں گی، نیک خاوند بھی پیدا کر رہی ہوں گی، نیک بھائی بھی پیدا کر رہی ہوں گی، نیک بیٹے بھی پیدا کر رہی ہوں گی ، نیک داماد بھی پیدا کر رہی ہوں گی اور آج معاشرے میں جو جھگڑے اور فساد اور لڑائیاں ہیں اُن سے معاشرے کو صاف کر رہی ہوں گی۔ لیکن بہرحال اس کے لئے قربانی کرنی پڑے گی۔ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی پڑے گی اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی طرف توجہ دینی پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سورۃ احزاب میں جس آیت کی ابھی مَیں نے تلاوت کی ہے عورتوں اور مردوں کو بتایا ہے کہ اگر تم یہ یہ کام کرو تو تمہاری مغفرت بھی ہے۔ اس میں دس کام گنوائے گئے ہیں اور نہ صرف مغفرت ہے بلکہ اجرِ عظیم بھی ہے۔ اور جب خدا تعالیٰ یہ کہے کہ میں اجرِ عظیم عطا کروں گا تو اُس عظیم کا مطلب ہے کہ ایسا اجر جس کا تم سوچ بھی نہیں سکتے، ایسے انعامات جن کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ تم اس دنیا میں بھی اس کے پھل کھاؤگی اور مرنے کے بعد بھی یہ پھل ہیں یہ انعامات ہیں۔
ان باتوں میں پہلی بات یہ بیان فرمائی کہ کامل مسلمان بنو۔ صرف منہ سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کااظہار نہ کردو۔ تمہارے دل میں اس تعلیم پر عمل کرنے کی طرف توجہ بھی ہونی چاہیے۔ اور ایمان لانے کا اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ جب تم نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ؐ اُس کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک ہے اور
ربّ العالمین ہے کائنات کی ہر چیز کی پیدائش اُس کی ہے، اُس نے پیدا کی ہے تو پھر اس بات کو اپنے دل میں راسخ کرو۔ اس پر مکمل ایمان لائو اور ایمان کے تمام درجے طے کرو۔ قرآن کریم میں ایک مومن کے لئے جو باتیں درج ہیں اُن پر عمل کرنے والی بنو اور ایمان کی تاریخ میں تو قرآن کریم کے شروع میں ہی ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان کامل تب ہوگا جب تم غیب پر ایمان لانے والی ہوگی۔ یہ یقین ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہے اور سب قوتوں کا مالک ہے۔ نماز پڑھنے والی، عبادت کرنے والی اور وقت پر نمازوں کی ادائیگی کرنے والی ہوگی۔ اور پھر جب خدا تعالیٰ کی خاطر مالی قربانی میں بھی حصہ لوگی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور خلفاء کی مستقل تربیت کی وجہ سے آج احمدی خواتین میں مالی قربانی کا جذبہ بہت بڑھاہوا ہے۔
آج بعض خواتین انتہائی تنگی کی حالت میں بھی جب انہیں کہا جائے کہ دین کی خاطرقربانی کرو تو بے دریغ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لے رہی ہوتی ہیں اور اپنی پسندیدہ چیزیں بعض دفعہ زیور وغیرہ بھی پیش کر دیتی ہیں۔ لیکن دوسری جو چیزیں ہیں عبادت وغیرہ اُس کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پس جب تک اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین اور اُس کی عبادتوں کی طرف توجہ رہے گی اُس کی راہ میں جان مال اور وقت کی قربانی کا تصور قائم رہے گا اور کرتی رہیں گی کوئی چیز بھی آپ کی ترقی کی راہ میں روک نہیں بن سکتی۔
پھر فرمایا کہ ایک خصوصیت یہ بھی ہے جس پر ہر مسلمان اور مومنہ عورت کو قائم ہونا چاہیے کہ وہ فرمانبردار ہو۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنے والی ہو، نظامِ جماعت کی مکمل اطاعت کرنے والی ہو۔
لجنہ کی تنظیم جو احمدی عورتوں کی تربیت کے لئے بنائی گئی ہے اسی لئے بنائی گئی ہے کہ احمدی عورتوں میں یہ احساس ہو کہ ہماری جماعت میں الگ اور علیحدہ پہچان ہے ہماری کوئی اہمیت ہے اور اگر مردوں کے مقابلے پر بعض کام کرنے کے موقعے نہیں ملتے تو اپنی تنظیم کے تحت ہم وہ کام کریں جن سے بعد میں ظاہر ہوتا ہو کہ عورتوں نے کتنا کام کیا ہے اور مردوں نے کتنا کام کیا ہے۔ تو بہر حال یہ احساس ہر وقت رہنا چاہیے کہ اس پہچان کو ہم نے جماعت کے وقار کے لئے قائم رکھنا ہے اور مزید نکھارنا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے آپ کے مختلف پروگرام بنتے ہیں،تربیتی اجلاسات ہوتے ہیں، اجتماعات ہوتے ہیں۔ یہ اجتماع ہو رہا ہے تو اپنی تربیت کے لئے اپنے علم میں اضافے کے لئے اپنی فرماںبرداری کا ثبوت دینے کے لئے ،اپنی اولاد میں نظام جماعت کی روح پیدا کرنے کے لئے۔ضروری ہے کہ اجتماعوں جلسوں اور اجلاسوں کے یہ جو سارے پروگرام ترتیب دئے جاتے ہیں آپ لوگ بڑھ چڑھ کر ان میں حصہ لیں۔ جو اس معاملے میں کمزور بہنیں ہیں ان کو بھی اپنے ساتھ ملائیں ان کو بھی پیار اور محبت سے سمجھا کر ان پروگراموں میں شامل کریں اس سے آپ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسرے کی اصلاح کی فکر بھی کر رہی ہوں گی اور اس وجہ سے دوہرا ثواب کما رہی ہوں گی اور یہ جو دوسروں کی اصلاح کی فکر ہے یہ بھی انبیاء کی سنت ہے۔ انبیاء کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی رہتی ہے ۔کوئی یہ نہ سمجھے اس کی ضرورت نہیں ہے کہ پرائے معاملے میں ٹانگ اڑانے والی بات ہے۔ نہیں، بلکہ یہ فکر کرنی چاہیے لیکن طریقے سے، پیار سے، محبت سے۔
حدیث میں آیا ہے کہ جو چیز تم اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرو۔ تو جب ایک چیز آپ نے اپنے لئے پسند کی ہے تو اس نیکی کو دوسروں میں رائج کرنے کی کوشش کریں اس سے آپ معاشرے میں نیکیاں بکھیر رہی ہوں گی اور جب آپ اس طرح عورت کی اصلاح کر رہی ہوں گی تو مستقبل کی نسلوں کی بھی اصلاح کر رہی ہوں گی۔
پھر جس بات کی ہم سے توقع کی جاتی ہے اور وہ انتہائی اہم بات ہے ۔ وہ سچائی ہے۔ اگر تم سچ پر قائم رہنے والی ہو اور سچائی پھیلانے والی بن جائو گی تو معاشرے کے حسن کو نکھارنے میں بہت بڑا کردار ادا کر رہی ہوگی۔ اگر عورت میں یہ احساس ہو جائے کہ میں نے سچ پر قائم رہنا ہے اور ہر حالت میں جھوٹ کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دینا تو یہ ایک ایسا جہاد ہے جس سے نہ صرف اپنے آپ کو شرک سے پاک کر رہی ہوںگی بلکہ معاشرے کو بھی اس شرک سے پاک کرنے والی ہوںگی اور اپنی اولادوں کے دل میں بھی جھوٹ اور شرک کے خلاف احساس پیدا کر رہی ہوںگی اُن کی بھی تربیت کر رہی ہوںگی۔
اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو بھی شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں غلط بیانیاں جوہیں یہ ہوتے ہوتے بڑے بڑے جھوٹ بننے شروع ہوجاتے ہیں۔ بچے مائوں کی حرکتیں دیکھ رہے ہوتے ہیں اُن کے زیرتربیت ہوتے ہیں۔ وہ جیسا ماں کو دیکھتے ہیں تو غیر محسوس طریقے پر ویسا خود بھی ہوجاتے ہیں۔ پس میں آپ عورتوں اور بچیوں کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اگر معاشرے سے شرک کا خاتمہ اور اپنی اگلی نسلوں کی بقاء چاہتی ہیں اُن کو پاک بنانا چاہتی ہیں تو جھوٹ کو معاشرے سے ختم کرنے کے لئے اور سچ کو معاشرے میں قائم کرنے کے لئے ایک مہم چلائیں۔ لجنہ اماء اللہ یوکے خاص طور پر اس پر کام کرے۔ پہلے بھی میں اس بارے میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں۔ اب سچ صرف اتنا نہیں ہے کہ کہیں کسی نے پوچھا تو سچ بول دیا بلکہ قولِ سدید سے کام لینا ہے ۔کوئی بھی ایسی بات نہیں کہنی جس سے ہلکا سا بھی جھوٹ کا شبہ پڑتا ہو یا کہیں بات چھپی نظر آتی ہو۔ ہر احمدی کی جو بات ہے بڑی واضح اور ہر قسم کے ابہام سے پاک ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ چیز جہاں آپ کی مستقل اصلاح کا باعث بن رہی ہوگی وہاں آپ کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر میں بھی لپیٹ رہی ہوگی۔
پھر فرمایا کہ صبر کی عادت بھی ہے۔ صبر کرنا ایک مومن مسلمان عورت کا ایک امتیازی نشان ہے ۔ گھروں میں بھی معاشرے میں بھی بہت سے ایسے معاملات ہوتے ہیں جن سے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا ہے۔ انسان بے صبرا ہوجاتا ہے۔ بعض دفعہ ایسے حالات ہو جاتے ہیںکہ انسان صبر نہیں کرسکتا۔ فرمایا کہ ان حالات میں بھی ایک مومنہ عورت کا یہی امتیازی نشان ہے، اُس کی یہی شان ہے کہ وہ صبر کرنے والی ہو۔ چھوٹی موٹی سسرال کی زیادتیاں بھی ہیں اِن کو بھی برداشت کرنے والی ہو ۔خاوند سے اگر کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اس پر بھی صبر کرے۔ دعا کرے۔ اللہ سے دُعا مانگیں اُن کو کسی دوسرے موقعے پر اچھا موڈ دیکھ کر سمجھادیں لیکن فوراً لڑائی نہیں شروع ہوجانی چاہیے۔ اس سے پھر لڑائیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ اگر اس طرح صبر کرنے والی ہوںگی اور موقع دیکھ کے سمجھانے والی ہوںگی تو گھروں کے ماحول کی بہت سی بدمزگیاں دور ہو رہی ہوںگی اور یہی چیزیں ہیں کہ جو بچوں میں اس تربیت کی وجہ سے جب پیدا ہوںگی تو آئندہ کے حسین معاشرے کی آپ ضمانت بن رہی ہونگی۔
پھر گھر کے ماحول کے علاوہ معاشرے میں بہت سی ایسی باتیں ہو جاتی ہیں جو تکلیف کا باعث بن رہی ہوتی ہیں۔ ہمسایوں سے، ماحول سے ،دوستوں سے تکلیف پہنچ رہی ہوتی ہے۔ بعض دفعہ بعض جماعتی عہدہ داروں سے لجنہ کی عہدہ داروں سے، اجلاسوں میں اجتماعوں میں بعض دفعہ تکلیف پہنچتی ہے۔ اگر وہاں صبر نہ کریں تو یا تو موقعے پر لڑائی شروع ہوجاتی ہے یا جب گھر جاکر اپنے خاوندوں سے عزیزوں سے رشتے داروں سے ذکر کریں گی تو پھر اس وجہ سے اس پورے ماحول میں ایک فساد پیدا ہو جاتا ہے۔ کئی شکایتیں ایسی آجاتی ہیں کہ بعد میں گھروں میں جاکر لڑائیاں ہو رہی ہوتی ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ صبر کرنا بھی مومن کی ایک بہت بڑی شان ہے۔ ایک مومن عورت کی یہ بہت بڑی شان ہے اور اس صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بے انتہا اجر سے نوازتا ہے۔
پھر عاجزی ایک بہت بڑا وصف ہے۔ اگر یہ پیدا ہوجائے تو ہر انسان ہر عورت ہر مرد ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرنا شروع کر دے گا اور نتیجتاً معاشرے میں امن اور سلامتی قائم ہوجائے گی ،معاشرہ امن اور سلامتی کا گہوارہ بن جائے گا۔
کسی کو بعض دفعہ اپنے خاندان کی بڑائی کا احساس ہو رہا ہوتا ہے کسی کو اپنے امیر ہونے کا ، دولت مند ہونے کا زیادہ احساس ہو رہا ہوتا ہے۔ کسی کو اپنی اولاد کی بعض خصوصیات کی وجہ سے بڑائی کا احساس ہورہا ہوتا ہے غرض مختلف چیزیں ہیں جن سے انسان کے دماغ میں تکبر پیدا ہوتا ہے اور جہاں تکبر ہو وہاں عاجزی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔وہاں سے عاجزی ختم ہوجاتی ہے۔ ہم تو اُس مسیح و مہدی کے ماننے والے ہیں جس کو اُس کی عاجزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئی ہیں۔ پس اے مسیحِ محمدی سے منسوب ہونے والی عورتو! اِس عاجزی کو اپنا خاص وصف بنالو تاکہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں تم بھی پسندیدہ ٹھہرو۔
پھر ایک خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ سچی مومن عورتیں صدقہ کرنے والی ہیں۔ پہلے بھی اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ مالی قربانیوں میں جو احمدی خواتین کرتی ہیں بڑھ چڑھ کر آگے آنے والی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اور بھی توفیق دیتا چلا جائے۔
پھر روزہ رکھنے والیاں ہیں ،عبادتیں کرنے والیاں ہیں۔ روزہ کیا ہے اللہ تعالیٰ کی خاطر اُس کے حکم کے مطابق جائز باتوں سے کچھ وقت کے لئے رکنا۔ جن کی عام حالات میں اجازت ہو ان سے بھی اپنے آپ کو روک کے رکھنا۔ اس سے صبر کی بھی عادت پڑے گی، نیکیوں کی بھی عادت پڑے گی اور عبادتوں کی بھی عادت پڑے گی، قربانی کی بھی عادت پڑے گی، نظامِ جماعت سے تعاون کی بھی عادت پڑے گی۔ پس یہ جو دو ہفتے پہلے رمضان گزرا ہے اس نے آپ میں نیکیوں کو قائم کرنے کی عادت ڈالی ہے، صبر کی عادت ڈالی ہے اوربہت ساری نیکیاں کرنے کی عادت ڈالی ہے انہیں اب اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں۔ اسلام کے ہر عمل کی یہی شرط ہے کہ اس میں مستقل مزاجی سے عمل کرنے کی طرف توجہ رہے۔
پھر اپنے آپ کو باحیا بنانا ہے۔ کیونکہ یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ حیا بھی ایمان کا حصہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جس طرح اپنے آپ کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے اس طرح احتیاط سے ڈھانپ کر رکھنا چاہیے۔ زینت ظاہر نہ ہو۔ حیا کا تصور ہر قوم میں اور ہر مذہب میں پایا جاتا ہے۔ آج مغرب میں جو بے حیائی پھیل رہی ہے اس سے کسی احمدی لڑکی کو کسی احمدی بچی کو کبھی متا ثر نہیں ہونا چاہیے۔ آزادی کے نام پر بے حیا ئیا ں ہیں۔ لباس، فیشن کے نام پر بے حیائیاں ہیں۔
اسلام عورت کو باہر پھرنے اور کام کرنے سے نہیں روکتا اُس کو اجازت ہے لیکن بعض شرائط کے ساتھ کہ تمہاری زینت ظاہر نہ ہو ۔بے حجابی نہ ہو۔ مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب رہنا چاہیے۔ دیکھیں قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں بیان فرمایا ہے کہ جب وہ اُس جگہ پہنچے جہاں ایک کنویں میں تالاب کے کنارے بہت سے چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف دو لڑکیاں بھی اپنے جانور لے کے بیٹھی ہیں تو انہوں نے جب اُن سے پوچھا کہ تمہارا کیامعاملہ ہے تو لڑکیوں نے جواب دیا کیونکہ یہ سب مرد ہیںاس لئے ہم انتظار کر رہی ہیں کہ یہ فارغ ہوں تو پھر ہم اپنے جانوروں کو پانی پلائیں۔ تو دیکھیں یہ حجاب اور حیا ہی تھی جس کی وجہ سے اُن لڑکیوں نے اُن مردوں میں جانا پسند نہیں کیا۔ اس لئے یہ کہنا کہ مردوں میں Mix upہونے میں کوئی حرج نہیں ہے یا اکٹھی gatheringکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ علیحدگی فضول چیزیں ہیں ۔ عورت اور مرد کا یہ ایک تصور ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔عورت کی فطرت میں جو اللہ تعالیٰ نے حیا رکھی ہے ایک احمدی عورت کو اُسے اور چمکانا چاہیے، اُسے اور نکھارنا چاہیے، پہلے سے بڑھ کر باحیا ہونا چاہیے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے تعلیم بھی بڑی واضح دے دی ہے اس لئے بغیر کسی شرم کے اپنی حیا اور حجاب کی طرف ہر احمدی عورت کو ہر احمدی بچی کو ہر احمدی لڑکی کو توجہ دینی چاہیے۔ یہاں کا ماحول اس طرف بڑھ رہا ہے۔ مغرب میں اگر آزادی میں بڑھیں تو پھر بالکل ہی آزاد ہو جائیں گی۔
پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی بنو۔ اگر تم ان خصوصیات کی حامل ہو گئیں جو پہلے بیان کی گئی ہیں اور اللہ کا ذکر کرنے والی بن گئیں۔ بجائے دنیا کی چکا چوند کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی عبادت اور اس کی خوشی کو حاصل کرنا تمہارا مقصد بن گیا تو تمہیں ایسے اجر کی خوش خبری ہو جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ ایسا اجر ہے جو تمہیں پہلی امتوں کی عورتوں سے ممتاز کردے گا، ان سے علیحدہ کردے گا۔ اور اسلام کیونکہ دینِ فطرت ہے اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا بوجھ ہم پہ ڈال دیا ہے۔ اسلام کا دعویٰ ہے کہ اسلام کا کوئی حکم بھی انسان کی استعدادوں سے زیادہ نہیں ہے جو، طاقتیں اُن کو دی گئی ہیں اُن سے زیادہ نہیں ہے۔ اس لئے کوئی حکم بھی بوجھ نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دُعا بھی سکھادی ہے کہ اے اللہ مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈال جو میری طاقت سے زیادہ ہو۔ جب دُعا سکھادی تواس لئے سکھائی ہے کہ جو بوجھ بیان کئے گئے ہیں وہ تمہاری طاقتوں کے اندر ہی ہیں۔ ہر انسان کی استعدادیں ہوتی ہیں، اپنی طاقتیں ہوتی ہیں تو اس کے مطابق وہ عمل کرتا ہے اور اُس کے مطابق ہی عمل کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ ہر کام کے لئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا محنت بھی کرنی پڑتی ہے اور قربانی بھی کرنی پڑتی ہے تو یہ محنت اور قربانی کروگی تو اجرِعظیم پاؤگی۔ اب ایک مسلمان عورت کہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اجر بھی بڑھا کر دے جو کسی کے تصور میں بھی نہ ہو اور قربانی بھی نہ کرنی پڑے تو یہ تو نہیں ہو سکتا۔ ہر اچھی چیز حاصل کرنے کے لئے محنت اور قربانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان تمام حکموں پر عمل کرنے کے لئے قربانی تو کرنی پڑے گی معاشرے کے غلط اثرات سے اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بچانے کے لئے یہ عمل تو کرنے پڑیں گے اور نیک اعمال تو بجالانے پڑیں گے۔ معاشرے کے ہنسی ٹھٹھے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان احکامات پر چلنے کی کوشش تو کرنی پڑے گی تب ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی بھی ہوگی اور یہ کوئی ایسی باتیں نہیں ہیں جن پر پہلوں نے کبھی عمل نہیں کیا یا آج کل عمل نہیں ہوتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے اُن لوگوں میں جو انتہائی بُرائیوں میں پڑے ہوئے تھے آپ کو ماننے والیوں میں ایک انقلاب برپا ہوگیا تھا اور پھر آپ کے غلامِ صادق مسیح موعودؑ کے ماننے والیوں میں بھی ایک انقلاب برپا ہوا اُس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ان مثالوں کو ہمیں اپنے اندر بھی زندہ رکھنا ہے۔ اپنے آپ کو بھی مثالی احمدی بنانا ہے تاکہ ہم اگلی نسلوں کی بھی حفاظت کر سکیں۔
دیکھیں اسلام کی ابتدا میں مسلمان عورتوں پر ایسے ایسے ظلم ہوئے کہ ان کو اپنے ایمان چھوڑنے کے لئے کہا جاتا تھا اور جب وہ انکار کرتی تھیں تو اُن کو گرم تپتی ریت پر لٹایا جاتا تھا۔ بھاری پتھر اُن پہ رکھ دیئے جاتے تھے ۔ کوئلوں پر لٹا دیا جاتا تھا، ان کی ٹانگیں دو اونٹوں سے باندھ کر ان دونوں اونٹوں کو مختلف سمتوں میں دوڑایا جاتا تھا یہاں تک کہ ٹانگیں چر جاتی تھیں۔ دو علیحدہ ٹکڑے بن جاتے تھے ان عورتوں کے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے ایمان کو کبھی ضائع نہیں کیا۔ انہوں نے یہ سب کچھ صرف اپنے ایمان کی خاطر برداشت کیا ہے اور ثابت کردیا کہ ہمارا ایمان غیر متزلزل ہے اور کوئی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔کوئی سختی کوئی ظلم ہمیں ہمارے ایمان سے پرے نہیں لے جاسکتا ۔کوئی لالچ ہمارے ایمان کو کم نہیں کر سکتا۔ پھر مالی قربانیوں کا وقت آیا تو انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔عورتوں نے پھینک پھینک کے اپنے زیوروں کے ڈھیر لگا دئیے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عاشقِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانے میں بھی قربانیوں کی ضرورت پڑی تو عورتوں نے بڑھ چڑھ کر ان قربانیوں میں حصہ لیا۔ خلافتِ ثانیہ کے دَور میں افغانستان میں ایک شخص کو شہید کردیا گیا تو اس کی بیوی نے مردانہ جُرأت سے کام لیتے ہوئے اپنے خاوند کی لاش کا انتظام کیا، دشمنوں کے نرغہ میں سے نکال کے لائیں، پھر اپنے بچوں کو بڑے مشکل اور دشوار راستوں میں سے گزار کر لے کے آئیں۔ پاکستان میں انہوں نے خوف کے مارے یا ڈر کے مارے اپنے ایمان میں کمزوری نہیں دکھائی بلکہ اللہ تعالیٰ پہ مکمل ایمان تھا اور نیک اعمال کی طرف مکمل توجہ تھی اس وجہ سے اُس ایمان میں بھی ایک مضبوطی پیدا ہوئی۔
1920ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے برلن میں مسجد کے لئے اعلان کیا کہ عورتیں چندہ دیں تو ایک مہینے کے اندر اندر اُس زمانے میں ایک لاکھ روپیہ عورتوں نے اکٹھا کردیا حالانکہ ہندوستان کی غریب عورتیں تھیں اور تھوڑی سی آمد تھی۔ اُس کے با وجود اتنا روپیہ اکٹھا ہوگیا اور بعد میں جب مسجد فضل لندن جو بنی تواُسی رقم سے بنی ،یہ عورتوں کی قربانیاں ہی تھیں۔مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ آج بھی کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ کئی عورتیں میری کسی بھی مالی تحریک پہ اپنا زیور اور جمع پونجی لے کر آجاتی ہیں کہ آپ کی تحریک کے لئے ہے خرچ کرلیں۔ تو قربانیوں کی یہ مثالیں آج بھی ملتی ہیں لیکن ہمارے میں اور ہر عورت میں یہ مثال ہونی چاہیے۔ ان نیکیوں کو آپ نے زندہ رکھنا ہے۔ کسی وقتی جوش کے تحت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خالص بندی بننے کی کوشش کرتے ہوئے۔
حضرت مصلح موعود ؓ ایک واقعہ بیان کرتے ہیںکہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک احمدی عورت مجھے ملنے آئی تو اُس نے آکر اپنا زیورنکال کر دے دیا۔ جب پاکستان ہندوستان کی پارٹیشن ہوئی ہے یہ اس وقت کی بات ہے۔ تو حضرت مصلح موعودؓ نے کہا کہ لُٹ پُٹ کے آئی ہو، سب کچھ ضائع ہوچکا ہے، یہ ایک زیور ہے، اپنے پاس رکھو، تمہیں اس کی ضرورت ہے۔ اُس عورت نے کہانہیں جب میں چلی تھی تو میں نے یہ عہد کیا تھا کہ یہ زیور میں جماعت کی خاطر چندے میں دوں گی اور راستے میں سکھوں نے ہمیں لوٹ لیا ،سارا زیور ضائع ہوگیا لیکن یہ بچ گیا ہے اس لئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ میں اپنے پاس رکھوں ۔یہ مَیں آپ کو پیش کر رہی ہوں اور آپ اسے قبول کریں۔
تو یہ مالی قربانیوں کی مثالیں ہیں ۔ایک عہد کیا تھا کہ زیوردینا ہے تمام زیور راستے میں لوٹ لئے گئے، کچھ نہیں بچا صرف وہی ایک بچا لیکن کیونکہ عہد کیا تھا، اللہ تعالیٰ سے ایک وعدہ کیا تھا کہ میں نے چندے میں دینا ہے اس لئے اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی کہ یہ میں زیور دے دوںگی تو میرے پاس کیا رہ جائے گا۔ وہ وقتی جوش نہیں تھا جس کے تحت اُس عورت میں یہ زیور دینے کی تحریک پیدا ہوئی تھی بلکہ یہ اُس کے دل کی آواز تھی، ایمان کی گرمی تھی جس نے تمام نقصان ہونے کے باوجوداپنے خدا سے کئے گئے عہد سے منہ نہ موڑنے دیا۔ پس جب تک یہ مثالیں آپ لوگ قائم کرتی رہیں گی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجرِ عظیم کے وعدوں کی مصداق بنتی رہیں گی۔
پھر اولاد کی قربانی ہے ۔اب اولاد کی قربانی اس کے گلے پہ چھری پھیرنا تو نہیں ہے۔ ان کودین کی خاطر وقف کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج احمدی مائیں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ بہت سی کمزوریوں کے باوجود جو ہم میں پیدا ہوگئی ہیں، ان پہلی ماؤں کابعض معاملات میں تربیت کا ایک مسلسل اثر ہے کہ ان کمزوریوں کے با وجود بعض قربانیوں کے معیار پہلے سے بہتر ہوئے ہیں جو کہ آج سے پچاس ساٹھ ستر سال پہلے نہیں تھے تو یہ بات ایک مثال سے پوری ہوتی ہے ۔
حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں ایک لڑکی کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ ہوا کالج کی ایک سٹوڈنٹ میرے پاس آئی اور مجھے ایک رقعہ دیا جس میں دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے کا لکھا ہواتھا تو حضرت مصلح موعود ؓ نے اس سے کہا کہ ابھی تو ہمارے پاس ایسا نظام نہیں ہے کہ ہم لڑکیوں سے کوئی دین کی خدمت لے سکیں اور لڑکیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کرسکیں۔ یہی ہو سکتا ہے کہ تم کسی واقفِ زندگی سے شادی کرلو تو وہ خاموش ہوکر چلی گئی۔ لیکن اس کی نیت نیک تھی ۔کچھ عرصہ بعد اس کا واقفِ زندگی سے رشتہ ہوگیا لیکن اس کا باپ نہیں مانتا تھا۔ وہ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے پاس روتی ہوئی آئی کہ ایک واقفِ زندگی کا رشتہ آیا ہوا ہے اور میرا باپ نہیں مان رہا ۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے ذریعے سے اس کے باپ کو سمجھوایا کہ بچی کا رشتہ کردو۔ خیر باپ بھی مان گیا۔ اس کا رشتہ ہونے کے کچھ عرصہ بعد پھر وہ روتی ہوئی آئی کہ اب میرا باپ کہتا ہے تمہاری شادی تو ہوگئی لیکن اگر تم واقفِ زندگی کے ساتھ ملک سے باہر گئی تو میں تمہارا منہ نہیں دیکھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ اب مَیں بیمار ہوں اب مجھے تنگ نہ کرو۔ انہوں نے پھر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو بھیجا۔ انہوں نے پھر اس کے باپ کو جاکر سمجھایا تو خیر مسئلہ حل ہوگیا۔ تو یہ اس وقت اس احمدی بچی کی سچی روح اور تڑپ تھی جس کی وجہ سے وہ چاہتی تھی کہ مَیں دین کے لئے وقف کروں لیکن مرد راستے میں روک تھے۔ پس آج اس وقت کی لڑکی اور ویسی ہی بہت ساری لڑکیوں کی اپنی اولادوں کی نیک تربیت کا اثر ہے کہ باوجود اس کے کہ بعض معاملات میں جیسا کہ میں نے کہا تقویٰ کا معیار پہلے سے کم ہوا ہے خلیفئہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وقفِ زندگی اور دوسری بعض مالی قربانیوں کا معیار اور خواہش بڑھی ہے۔
اب وقفِ نو کی تحریک جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں آج تک بڑے جوش سے، بڑے جذبے سے مائیں اور باپ اپنے بچوں کو، (زیادہ تر مائیں اپنے بچوں کو پیش کرتی ہیں) وقفِ نو میں زندگی وقف کے لئے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ لڑکا ہو یا لڑکی اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ وقف کرنے کے بعد جب یہ بڑی ہوگی تو بچی یا بچے کو کہاں بھیجا جائے گا۔ جو بچیاں بڑی ہوگئی ہیں ان میں سے کئی کومختلف ملکوں میں مَیں نے پوچھا ہے نہ ان کو پرواہ ہے نہ ان کے ماں باپ کو پرواہ ہے کہ آج جماعت ان سے کیا کام لیتی ہے اور کہاں بھیجتی ہے بلکہ بڑے ایمانی جذبے کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کیا ہوا ہے۔
اس لئے ایک تو مَیں اس وقت جو واقفِ نو بچیاں ہیں اگر یہاں بیٹھی ہوئی ہیں تو ان سے بھی کچھ کہتا ہوں کہ ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے میں ایمان بھی پیدا کریں، سچائی بھی پیدا کریں، عاجزی بھی پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنے کے لئے ان کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں ۔جب تک سمجھیں گی نہیں عمل بھی نہیں ہوسکتا ۔غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا کیا حکم دیئے ہیں، کیوں دیئے ہیں اور پھر عمل کریں ۔اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف بھی توجہ دیں تاکہ مُسلِمَات بھی کہلاسکیں ،مومنات بھی کہلا سکیں اور پھر عملی زندگیوں میں آکر اسلام کی خدمت کا صحیح حق ادا کرسکیں۔
پس آج کی ماؤں کی بھی اور کل کی ماؤں کی بھی یہ ذمہ داریاں ہیں اور جب تک احمدی مائیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارتی رہیں گی، اپنی نسلوں میں بھی یہ روح پھونکتی رہیں گی تو نیک مائیں بھی پیدا ہوتی رہیں گی اور نیک باپ بھی پیدا ہوتے رہیں گے۔ قربانیاں کرنے والی بیٹیاں بھی پیدا ہوتی رہیں گی اور قربانیاں کرنے والے بیٹے بھی پیدا ہوتے رہیں گے جو حقوق اللہ ادا کرنے والے بھی ہوں گے اور حقوق العباد ادا کرنے والے بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں گے اللہ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے چمٹے رہنے والی ہوں۔ آپ کے عمل اور آپ کی تربیت کی وجہ سے آپ کی گودوں میں پلنے والا ہر بچہ دنیائے احمدیت کا روشن چمکتا ستارہ بن جائے جو آپ کے لئے بھی قرۃ العین ہو اور جماعت کے لئے بھی۔ اللہ کرے کہ آپ کے نیکیوں پر چلنے کے عمل خلیفۂ وقت کو جماعت کی تربیت کی کمی کی پریشانی سے آزاد کرنے والے ہوں اور آپ میں سے ہر ایک خلیفۂ وقت کا دستِ راست بننے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
آخر میں ایک بات میں کہنا چاہتا ہوں کل آپ کی لجنہ کی صدر کا انتخاب ہوا تھا۔ ایک بات تو واضح کردوں کہ جماعت کے نظام میں جو مجلسِ شوریٰ ہے، مجلسِ شوریٰ کا جو ایجنڈا ہے، اس کو تجویزیں دی جاتی ہیں، بحث ہوتی ہے۔ یہ خلیفہ وقت کے پاس ایک رائے ہوتی ہے، ایک مشورہ ہوتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ ہر مشورہ اور ہر رائے مانی جائے۔ اور اگر کوئی رائے نہ مانی جائے تو بڑی خوش دلی سے ہر فردِ جماعت کو خلیفۂ وقت کی رائے کو قبول کرنا چاہیے۔ بعض دفعہ یہ تصور ہوتا ہے کہ کیونکہ شوریٰ میں یہ پاس ہوگیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کیس کی منظوری ہوگئی اور یہ فیصلہ بن گیا۔ شوریٰ کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ شوریٰ کا مشورہ ہوتا ہے۔ لیکن بہر حال پریشان نہ ہوں۔ یہ جو الیکشن ہے اس بارے میں میں نے فیصلہ نہیں بدلا۔ اکثریت نے شمائلہ ناگی صاحبہ کے حق میں رائے دی تھی اُنہی کو میں آئندہ دو سال کے لئے صدر لجنہ اماء اللہ یوکے مقرر کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کو احسن رنگ میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ سب لوگ ان سے بہترین تعاون کرنے والی ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں