سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی سیرۃ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سیدنا طاہر نمبر میں حضورؒ کی سیرت مبارکہ بحیثیت ہمدرد و شفیق باپ اور خواتین کے محسن کے طور پر محترمہ صاحبزادی فائزہ لقمان صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
آپ بیان کرتی ہیں کہ جب سے مَیں نے ہوش سنبھالا، ابا کو بہت پابندی سے نماز تہجد ادا کرنے والا پایا۔ ہر صبح ابا کی بہت پیاری خوبصورت تلاوت قرآن کریم ہمارے گھر کو روشن کردیتی تھی۔ نماز تو خیر اُن کی روح کی غذا تھی۔ اسی لئے بچپن میں ہی ہمیں احساس تھا کہ اگر ہم نماز پڑھ لیں تو باقی بچپن کی نادانیاں اور شرارتیں قابل معافی ہیں۔ صبح کی نماز کے لئے ہمیشہ خود مجھے اٹھایا۔ اگر دوبارہ سوجاتی تو پھر اُسی پیار سے اٹھاتے۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی اس بات پر چڑ کر ڈانٹا ہو البتہ نماز کا پابند بنانے کے لئے ضرور ڈانٹ پڑی۔ کبھی نماز تہجد یا نماز فجر کے لئے اٹھاتے تو بتاتے کہ کیا کیا دعائیں مانگو۔ یہ دعائیں انسانیت کی بہتری، تمام انبیاء، آنحضورﷺ، آپؐ کے صحابہؓ، خلفاء، تمام عالم اسلام، حضرت مسیح موعودؑ، آپؑ کے خلفاء، شہداء، تمام قربانی کرنے والے، واقفین زندگی اور ان کے خاندان، یتیموں، بیواؤں، اسیروں، بیماروں، غرباء کے بعد اپنے بزرگوں، خاندان، ماں باپ، بہن بھائیوں کے بعد فرماتے’’پھر اپنے لئے دعا کرنا‘‘۔
حضورؒ کی جماعتی مصروفیات خلافت سے پہلے بھی بہت زیادہ تھیں۔ لیکن جب بھی آپؒ گھر ہوتے تو ہمارے ذہن اور عمر کے مطابق ہر چیز ہم سے Share کرتے، کھیلتے بھی تھے، ہماری دلچسپی کی بات میں حصہ لیتے۔ مجھے بچپن سے شاعری سے لگاؤ تھا، آپؒ نے مختلف شاعروں کی کئی غزلیں مجھے سنائیں اور ہر شعر کی تشریح بھی فرمائی (اکثر تشریح شعر سے بھی خوبصورت ہوتی)۔ بہت بچپن میں مَیں نے ایک شعرکہا جو میری عمر کے لحاظ سے بالکل بچوں والا تھا۔ میری بہن نے اُسے کوئلہ سے کمرہ کی دیوار پر سفید پینٹ پر لکھ دیا۔ حضورؒ نے دیکھا تو بہت انجوائے کیا۔ بعد میں پانچ چھ سال تک (جب تک ہمارا نیا گھر نہیں بنا) حضورؒ نے اُس دیوار پر پینٹ نہیں کروایا۔
کئی بار دبے پاؤں آکر آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتے اور انتظار کرتے کہ دوسرا بوجھ لے۔ ہمیں ساتھ لے کر زمینوں پر جاتے تو فصلوں وغیرہ کے بارہ میں بتاتے۔ رات کو قرآن کریم سے اخذ کی ہوئی کہانیاں سناتے۔ ہمیں حضورؒ نے خود تیرنا، سائیکل چلانا اور گھوڑ سواری سکھائی۔ پردہ کی حدود میں رہتے ہوئے خواہش رکھتے کہ ہم ہر سرگرمی میں حصہ لیں۔
حضورؒ کی طبیعت میں سادگی اور سچی انکساری تھی۔ اپنے ذاتی کام خود کرتے۔ خلافت سے پہلے بعض دفعہ اپنے کپڑے بھی دھو لیتے۔ اپنا ناشتہ آخری بیماری شروع ہونے تک خود ہی بناتے رہے۔گھر کی چھوٹی چھوٹی چیزیں خود مرمت کرلیتے۔ آپؒ کو ہر شخص کی صلاحیتوں کو ابھارنے اور ان سے استفادہ کرنے کا خاص ملکہ تھا۔ بچپن میں مَیں آپ کی ڈاک کے کاغذات چھیڑتی تو آپ مجھے ڈانٹ کر اٹھا دینے کی بجائے فرماتے کہ میری پرائیویٹ سیکرٹری بن جاؤ اور جس طرح مَیں کہوں اُس طرح میرے کاغذات ترتیب دیا کرو۔ اس طرح مجھ میں احساس ذمہ داری بھی پیدا کردیتے اور خوش بھی کردیتے۔
میری بہن مونا کی پیدائش سے پہلے ابا کو فطری خواہش تھی کہ بیٹا ہو۔ مجھے نماز کیلئے اٹھاتے تو کہتے کہ بھائی کیلئے دعا کرنا۔ لیکن جب مونا پیدا ہوئی تو ابا نے بے حد خوشی کا اظہار کیا اور اس کے عقیقہ کے دو بکرے ذبح کروائے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ بیٹی پیدا ہونے پر اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی بیٹا پیدا ہونے پر ہوتی۔ آپ ہمارا بے حد خیال رکھتے۔ میری بہن شوکی دمہ کی وجہ سے بیمار ہوجایا کرتی تو ابا ساری ساری رات اس کے لئے جاگتے۔ کبھی میری آنکھ کھلتی تو آپؒ شوکی کو اٹھائے ٹہلتے نظر آتے۔
حضورؒ نے ہمارے دلوں میں سچ سے محبت پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہاں تک کہ فرضی کہانیاں سننا یا سنانا بھی ناپسند کرتے تھے۔ ہمیشہ کہتے: میری بیٹیاں جھوٹ نہیں بولتیں۔
مہمانوں کا بے حد اکرام کرتے۔ جلسہ سالانہ کا اس طرح اہتمام ہوتا جیسے شادی بیاہ کی تقریب ہو۔ ایک دفعہ سارا گھر مہمانوں کو دے کر خود صحن میں ٹینٹ لگاکر وہاں منتقل ہوگئے۔ ہر آنے والے کی تواضع کرتے۔ کئی بار کھانا بھی خود بنالیا۔
غرباء سے شروع سے پیار بھرا شفقت کا سلوک تھا۔ ہمیں نصیحت فرماتے کہ وہی خدا ان کا بھی خالق ہے جو ہمارا ہے، ان کی محرومی کی وجہ سے خود کو ان سے بہتر نہ سمجھنا، جن نعمتوں سے خدا نے تمہیں نوازا ہے، غرباء کا بھی ان میں حق ہے (اللہ تعالیٰ نے بھی ہماری املاک میں ضرورتمندوں کے لئے حق کا لفظ استعمال فرمایا ہے، حصہ کا نہیں)۔ خلافت کے بعد تو ابا نے ہر احمدی سے بے اندازہ محبت کی۔ امی نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ تمہارے ابا روزانہ (رات کی تنہائی میں) اس طرح تڑپ تڑپ کر دعائیں کرتے ہیں کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ کئی دفعہ دل چاہتا ہے کہ ان کو روک دوں کہ اپنی جان پر اتنا بوجھ نہ لیں۔ ابا کی وفات کے بعد کسی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے کبھی حضورؒ کی شخصیت میں کوئی کمزور پہلو محسوس ہوا؟ مَیں نے جواب دیا کہ آپؒ میں کوئی کمزوری کا پہلو تو نہیں دیکھا لیکن ایک چیز جو ہمیں بہت تکلیف دیا کرتی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی جان پر بے انتہا ظلم کرنے والے تھے اور مخلوق خدا کی ہمدردی میں اپنی جان کے ہر حق کو پس پشت ڈالنے والے انسان تھے۔ ہمیشہ مجھے یہ احساس ہوتا کہ ابا جتنا پیار مجھ سے کرتے ہیں، شاید اتنا یا اس سے بھی زیادہ ہر احمدی بچی سے کرتے ہیں۔ ان کے دکھوں کو دُور کرنے کے لئے دعائیں بھی کرتے اور عملاً کوشش بھی کرتے۔ جن بچیوں سے کوئی کام لیتے تو وہ آپؒ کی خاص توجہ اور محبت کی حقدار بن جاتیں۔ بہت باریک بینی سے اُن کی تربیت فرماتے اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ اپنی آخری عمر میں ’’مریم فنڈ‘‘ بھی اسی لئے جاری فرمایا کہ کوئی احمدی بچی جہیز کی وجہ سے زیادتی کا شکار نہ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں