سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؓ

رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں مکرم مقصودالحق صاحب سابق صدر خدام الاحمدیہ جرمنی بیان کرتے ہیں کہ 1990ء میں حضورؒ نیشنل اجتماع میں شمولیت کے لئے تشریف لائے۔ اجتماع اس وقت ناصر باغ میں ہوا کرتا تھا اور ان دنوں ناصر باغ کی تعمیر کا کام بھی جاری تھا۔ اُن دنوں شدید بارش ہوئی اور ناصر باغ میں دلدل کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اس پریشانی میں ساری صورتحال عرض کرکے دعا کی درخواست کی گئی۔ حضورؒ کی دعا سے موسم معجزانہ طور پر تبدیل ہو گیا اور اجتماع کامیابی سے منعقد ہوا۔
حضرت خلیفۃ المسیح ؒ کے جرمنی میں جلسہ سالانہ اور خدام الاحمدیہ کے اجتماعات پر ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتارہا۔ حضورؒ عہدیداران کی ساتھ ساتھ تربیت اور اصلاح بھی فرما دیا کرتے تھے۔ ایک اجتماع کے دوران جب جمعہ کی نماز کے لئے اذان کا وقت آیا تو حضورؒ نے نیشنل امیر صاحب سے پوچھا کہ آپ نے جمعہ کی اذان دینے کے لئے کسی کو مقرر کر دیا ہے؟ امیر صاحب نے عرض کیا کہ نہیں، میرا خیال ہے کہ خدام الاحمدیہ نے انتظام کر دیا ہوگا۔ تو میں نے عرض کیا کہ جی حضور میں نے انتظام کر دیا ہوا ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ آپ کی بات بھی درست ہے۔ لیکن جہاں تک جمعہ کا تعلق ہے جب میرا دورہ ہو تو اس وقت اوّل ذمّہ داری امیرِ ملک کی ہوتی ہے کہ وہ یہ انتظام کریں۔
ایک اجتماع کے دوران جما عت کی مجلس عاملہ اور خدام الاحمدیہ کی مجلس عاملہ کے مابین ایک فٹ بال میچ ہوا۔ میچ کے بعد میں حضورؒ کے قریب آیا تو حضورؒ نے فرمایا کہ وہ آپ ہی تھے ناں جو پہلے اٹیک کرنے کے لیے جاتے تھے اور پھر تیزی سے پیچھے دوڑتے تھے تاکہ جاکر دفاع کریں، انسان اگر ایسی سوچ کے ساتھ چلے تو کامیاب رہتا ہے کہ جب حملہ کرنے کا وقت آئے تو بھرپور حملہ کرے اور جب اس پر حملہ ہو تو فوراً دفاع کے لیے نکل پڑے اور اپنا دفاع کرے۔
جب رسالہ نورالدین کا تازہ تازہ اجراء ہوا تھا تو اس وقت ہمارے کاتب صاحب نے صفحوں کو پورا کرنے کے لئے کچھ ادبی مواد رسالہ میں ڈال دیا اور اس طرح رسالہ میں ادبی مواد تھوڑا زیادہ ہی ہو گیا تھا۔ جب یہ رسالہ حضور اقدسؒ کی خدمت میں بھیجا گیا تو حضورؒ نے فوراً خط کے ذریعے ہماری اصلاح فرمائی کہ: ’’مجھے آپ کا رسالہ ملا ہے اور میں نے پڑھا ہے۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو ہماری روایت ہے اس کے حوالے سے یہ نہ ادبی رسالہ بن سکا ہے اور نہ جماعتی رہ سکا ہے۔ تو اگر آپ نے ادبی رسالہ نکالنا ہے تو پھر علیحدہ سے نکالیں جس میں صرف اردو ادب ہو۔ اگر جماعتی رسالہ نکالنا ہے تو پھر اس میں جماعتی رنگ ہونا چاہئے۔ ہماری کچھ روایات ہیں ہمارا انداز ہے ‘‘۔
جب خاکسار شعبہ تبلیغ میں کام کرتا تھا تو ایک دفعہ حضورؒ جب بیت الرحمان کا افتتاح فرمانے امریکہ تشریف لے گئے تو اس دوران خاکسار کو بھی امریکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ واشنگٹن میں جب حضور ؒ سے مصافحہ کا موقع ہوا تو فرمانے لگے کہ کیا خوشخبری لے کر آئے ہیں۔ دراصل حضورؒ کو ہمیشہ خواہش ہوتی تھی کہ تبلیغی میدان میں جماعت کی طرف سے خبریں آتی رہیں۔
ایک دفعہ خدام الاحمدیہ UK کے یورپین اجتماع میں ہم کبڈی کا میچ ہار گئے کیونکہ بعض مسائل کی وجہ سے بمشکل کھلاڑی لے کر جاسکے۔ جب خاکسار نے اس بات کا ذکر حضرت صاحب ؒسے کیا کہ ویزے کے مسائل کی وجہ سے پوری کوشش کے باوجود ہم مکمل ٹیمیں نہیں لاسکے تو حضورؒ نے فرمایا کہ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے جو کبڈی کھیلنے کے لئے کپڑے اتارے ہیں یہ تو پھر آپ کو شرمندہ کرنے کے لئے اتارے ہیں۔ اس بات میں ایک گہرا سبق تھا کہ صرف خانہ پری نہ کی جائے بلکہ مکمل تیاری کے ساتھ گراؤنڈ میں اترا جائے۔ نیز یہ کہ کھیل بھی عزت کا حصہ ہے۔
حضرت صاحب جب صدر مجلس خدام الاحمدیہ تھے تو ایک اجلاس میں آپؒ نے یہ نصیحت آموز واقعہ بیان فرمایا کہ ایک بہت شرارتی بچہ تھا۔ وہ ہر روز نئی نئی شرارتیں سوچا کرتا تھا۔ ایک دن وہ مسجد کے باہر نئی شرارتوں کے متعلق سوچ رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں آیا اور باہر جوتے اتار کر مسجد کے اندر چلا گیا۔ لڑکا بہت خوش ہوا کہ چلو آج شرارت کا موقع ملے گا۔ چنانچہ اس نے اس کے جوتوں میں کانٹے رکھ دئیے تاکہ جب وہ واپس آ کر جوتے میں پاؤں ڈالے اور چیخے تو وہ اس کا مزا لے۔ چنانچہ وہ اس انتظار میں کافی دیر تک بیٹھا رہا مگر وہ شخص باہر نہ آیا۔ لڑکے نے اندر جا کر دیکھا تو وہ شخص سجدے میں گرا رو رہا تھا۔ ایک تو اس بات کا اس کے دل پر بہت اثر ہوا۔ اس واقعہ کو ایک بزرگ بھی دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اس لڑکے کو بلایا کہ چلو آج ایک تجربہ کر کے دیکھتے ہیں۔ اس شخص کے ساتھ ایک نیکی کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ نیکی کا زیادہ مزا ہے کہ شرارت کا!۔ ایسا کرتے ہیں کہ اس کے جوتوں میں کانٹوں کی بجائے کچھ پیسے رکھ دیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اس شخص کو واقعی روپوں کی ضرورت تھی۔ چنانچہ جب وہ نماز سے فارغ ہو کر آیا اور جوتوں میں پاؤں ڈالے اور وہاں روپے دیکھے تو وہ واپس سجدہ گاہ کی طرف بھاگا اور جا کر دوبارہ سجدہ میں گر گیا۔ اس واقعہ کا اس لڑکے کے دل پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہ آئندہ سے شرارتیں چھوڑ کر نیک کام کرے گا۔
اپنے والد صاحب کے کاغذات میں مجھے حضورؒ کی ایک تحریر ملی کہ کل میں آپکے محلے کی مسجد میں گیا تھا، وہاں خدام اور اطفال کے علمی مقابلہ جات ہو رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کے بچے ہرعلمی مقابلہ میں نمایاں رہے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ کیونکہ میرا آپ کے ساتھ پرانا قادیان سے استاد اور شاگرد والا بھی تعلق ہے اور پھر وقف جدید میں بھی ہمارا تعلق ہے۔ اور جس کاغذ پر میں آپکو خط لکھ رہا ہوں یہ بھی آپ کا دیا ہوا ہے تو میں نے سوچا کہ آپ کے شکریہ کا اچھا موقع یہی ہے کہ اسی کاغذ پر لکھوں جو آپ نے مجھے دیا تھا۔ اتنی گہری نظر تھی ایک چھوٹی سی مجلس میں جانا اور پھر شکریہ ادا کرنے کے لئے وہ کاغذ ڈھونڈنا جو میرے والد صاحب نے انہیں تحفۃً دیا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں