سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے رؤیا وکشوف

جماعت احمدیہ برطانیہ کے سیدنا طاہر نمبر میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے رؤیا وکشوف سے متعلق ایک مضمون مکرم محمد حمید کوثر صاحب اور مکرم غلام مصطفیٰ تبسم صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے-
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے

وَمَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ اَوْیُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَایَشَآء اِنَّہ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ (الشوریٰ: 52)

ترجمہ:اور کسی انسان کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردہ کے پیچھے سے یا کوئی پیغام رساں بھیجے جو اُس کے اِذن سے جو وہ چاہے وحی کرے۔یقینا وہ بہت شان (اور ) حکمت والا ہے۔

اس آیت سے علم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ انسان سے تین طریق پر کلام کرتا ہے۔ یعنی وحی کے ذریعہ براہ راست۔ دوسرا طریق پردے کے پیچھے سے، اس سے مراد رؤیا کشف، خواب، القاء ہیں۔ اور تیسرا طریق کوئی پیغام رساں بھیج کر۔ اور یہ حقیقت تو کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ اللہ تعالیٰ بڑی شان والا اور حکمت والا ہے ۔ جو طریق پسند کرتا ہے۔اپنے نیک بندوں کو اس سے نوازتا ہے۔
ویسے ’’وحی‘‘ کے لفظی اور لغوی معنے ہیں: ’’الاشارۃ السریعۃ‘‘ (مفردات راغب) یعنی وہ اشارہ جو تیزی سے کیا جائے۔
عربی کی مشہور کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں تحریر ہے۔الرؤیا’’مَارَأیتہ فی منامِک وَقدْ جاء الرؤیا فی اً لیقظہ‘‘ یعنی ’’رؤیا‘‘ اُسے کہتے ہیں جو انسان نیند یا بیداری میں دیکھتا ہے۔
کشف اس نظارے کو کہتے ہیں جو بیداری یا نیم بیداری ، عالم ربودگی میں دکھایا جاتا ہے۔کشف کبھی تعبیر طلب ہوتا ہے اور کبھی ظاہری شکل میں پورا ہوتا ہے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشف کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جو میں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے۔یسوع مسیح سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے۔ یہ مکاشفہ کی شہادت بے دلیل نہیں بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی طالب حق نیت کی صفائی سے ایک مدّت تک میرے پاس رہے اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دُعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے ۔اُن سے باتیں بھی کر سکتا ہے۔اور ان کی نسبت اُن سے گواہی بھی لے سکتا ہے۔ کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے۔‘‘
(تحفہ قیصریہ صفحہ21)
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ رؤیاو کشوف بہت سے امور غیبیہ سے نوازا۔ حسب گنجائش چند رؤیا وکشوف کا تذکرہ درج ذیل ہے۔
خلیفہ بننے کے بعد پہلا کشف
6 ستمبر85ء کو خطبہ جمعہ میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:-
’’ مجھے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص تعلق عطا ہوا تھا اور جب خلیفہ بننے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے پہلا کشف دکھایا ہے تو تعجب کی بات نہیں کہ پہلے کشف میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہی دکھائے گئے اور وہ بھی ایک عجیب کشف تھا۔ میں حیران رہ گیا کیونکہ اس قسم کی باتوں کی طرف انسان کا ذہن عموماً جا ہی نہیں سکتا۔ ایک دن یا دو دن خلیفہ بننے کو گزرے تھے تو کسی نے پوچھا آپ کو خلیفہ بننے کہ بعد کوئی الہام یا کوئی کشف وغیرہ ہوا ہے، میں نے کہا مجھے ابھی تک تو کچھ نہیں ہوا بس میں گزر رہا ہوں جس طرح بھی خدا تعالیٰ سلوک فرمارہاہے، ٹھیک ہے۔ تو اس کے چند دن بعد ہی میں نے صبح کی نماز کے بعد کشفاً بڑے واضح طور پر یہ نظارہ دیکھا کہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب لیٹے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے باتیں کر رہے ہیں اور میںوہ باتیں سن رہا ہوں اور فاصلہ بھی ہے۔ مجھے یہ علم ہے کہ لیٹے لندن میں ہوئے ہیںلیکن جس طرح فلموں میں دکھایا جاتا ہے قریب قریب کے ٹیلیفون کہیں دُور اَور ہورہے ہیں اور کوئی اَور سن رہا ہے گویا کہ اس قسم کے اندازے کیمرے کے ٹرک(Trick)سے ہو جاتے ہیں تو کشفاً یہ دیکھ رہا تھا کہ چوہدری صاحب اپنے بستر پر لیٹے ہوئے اللہ تعالیٰ سے باتیں کر رہے ہیں اور میں سن بھی رہا ہوں اور اس پر ذہنی تبصرہ بھی ہو رہا ہے ساتھ، لیکن میری آواز وہاں نہیں پہنچ رہی۔ اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب سے یہ پوچھا کہ آپ کا کتنا کام باقی رہ گیا ہے تو چوہدری صاحب نے عرض کیا کہ کام تو چار سال کا ہے لیکن اگر آپ ایک سال بھی عطا فرمادیں تو کافی ہے۔ یہ سن کر مجھے بہت سخت دھچکا لگا اور میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ چوہدری صاحب! آپ چار سال مانگیں خدا تعالیٰ سے، آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں کہ ایک سال بھی عطا ہو جائے تو کافی ہے۔ مانگ رہے ہیں خدا سے اور کام چار سال کا بیان کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ سال ہی کافی ہے۔ تو مجھے اس سے بے چینی پیدا ہوئی لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیاہے کہ اس نظارے میں میں اپنی بات پہنچا نہیں سکتا تھا، صرف سن رہا تھا کہ یہ گفتگو ہو رہی ہے۔ میں نے چوہدری حمیدنصر اللہ صاحب اور ان کی بیگم کو لکھ کر بھیج دیا اورمجھے اس سے تشویش پیدا ہوئی کہ ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ لمبی زندگی نسبتاً دے دے لیکن کام کا صرف ایک ہی سال ملے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 1983ء میں آپ پر شدیدبیماری کا حملہ ہوا اور اس وقت تک جو وہ کام کر سکے ہیں عملاً اس کے بعد پھر رفتہ رفتہ عملی کام سے الگ ہونا پڑا ان کو یعنی بھر پور کام کی صرف ایک سال توفیق ملی ہے۔ پھر آپ کو پاکستان جانا پڑا بیماری کی وجہ سے۔ اس کے بعد پھر طبیعت گرتی چلی گئی ہے کمزور ہوتی چلی گئی ہے پھر صرف مطالعہ پر آگئے تھے۔
(ماہنامہ خالد دسمبر 85ء ص 16)
فرائیڈے دی ٹینتھ
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:
’’گذشتہ سال کے آخر پر سفر یورپ کے دوران اللہ تعالیٰ نے جو کشفی نظارہ دکھایا تھا جس میں جمعہ کے روز ایک ڈائل کی شکل میں دس کا ہندسہ چمکتا ہوا اور نبض کی طرح دھڑکتا ہوا دکھایا گیا تھا۔ اور اس پر میںیہ کہہ رہا تھا Friday The Tenth ۔ باوجود اس علم کے کہ یہ 10وقت کا ہندسہ ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے تصرّف کے تابع زبان سے یہی فقرہ جاری ہوا: Friday The Tenth ۔‘‘
(خطبہ جمعہ عید الفطر جمعہ21؍جون 1985ء)
نصرت کا وعدہ
’’ایک بہت ہی پیارا کشفی نظارہ دکھایا جو آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ چند روز پہلے یا تقریباً دو ہفتے پہلے شاید، اچانک میں نے یہ نظارہ دیکھا کہ اسلام آباد جو انگلستان میں ہے، وہاں میں داخل ہو رہا ہوں۔اُس کمرہ میں جہاں ہم نے نماز پڑھی تھی اور سب دوست صفیں بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں، اُسی طرح انتظار میں۔ عین مصلّی کے پیچھے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اپنے اُس عمر کے نظر آرہے ہیں جو پندرہ بیس سال کی تھی۔ اور رومی ٹوپی پہنی ہوئی تھی، وہ جو کہ کسی زمانہ میں پہنا کرتے تھے۔اور نہایت ہشاش بشاش عین امام کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی وہ نماز کی خاطر اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور میں اُن کی طرف بڑھنے لگا ۔ پوچھوں چوہدری صاحب آپ کب آگئے آپ تو بیمار تھے۔ اچانک کیسے آنا ہوا؟ تو وہ نظارہ جاتا رہا۔ آنکھیں کھلی تھیں، وہ جو منظر سامنے پہلے تھا وہ سامنے آگیا۔ تو اللہ تعالیٰ ایسی خوشخبریاںبھی عطا فرما رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے اللہ کی نصرت اور اُس کے ظفر کے وعدے انشاء اللہ تعالیٰ جلد پورے ہوں گے۔ یہ باتیں اُن کے علاوہ ہیں ۔جماعت توہر حال میں ترقی کر رہی ہے۔ جتنا خدا انتظار کروائے ہم کریں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
(خطبہ جمعہ16؍نومبر1984ء)
’’جن دنوں پاکستان کے حالات کی وجہ سے بعض شدید کرب میں راتیںگزریں تو صبح کے وقت الہاماً بڑی شوکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’السلام علیکم‘‘ اور ایسی پیاری روشن آواز تھی اور آواز مرزا مظفر کی معلوم ہو رہی تھی یعنی جو میں نے بھی سنی اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ میرے کمرہ کی طرف آتے ہوئے ’’السلام علیکم ‘‘ کہتے ہوئے۔ باہر ہی شروع کر دیا ہو ’’ السلام علیکم‘‘کہنا اور اندر داخل ہونے سے السلام علیکم کہتے ہوئے داخل ہونے والے ہیں۔ تو اُس وقت تو خیال ہی نہیںتھا کہ یہ الہامی کیفیت ہے۔کیونکہ میں جاگا ہوا تھا پوری طرح لیکن یہ ماحول تھا، اُس سے تعلق کٹ گیا تھا۔ اُس وقت چنانچہ فوراًمیرا ردّعمل یہ ہوا کہ میں اُٹھ کر باہر جا کے ملوںاُن کو، اور اُسی وقت وہ کیفیت جو تھی وہ ختم ہوئی اور مجھے پتہ چلا کہ یہ تو خدا تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ ’’السلام علیکم ‘‘کا وعدہ دیا ہے۔ بلکہ ظفر کا وعدہ بھی ساتھ عطا فرمادیا ہے۔ کیونکہ مظفر کی آواز میں ’’السلام علیکم‘‘پہنچا نا یہ ایک بہت بڑی اور دوہر ی خوشخبری ہے۔ اور پہلے بھی ظفر اللہ خاں ہی خدا تعالیٰ نے دکھائے اور دونوں میں ظفر ایک قدر مشترک ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 16 نومبر1984ء )
تباہ کن اور دردناک
حضورؒ فرماتے ہیں:-
1974ء میں پاکستان میں احمدیوں کے خلاف فسادات پھوٹ پڑے بلکہ باقاعدہ منصوبے سے یہ فسادات کروائے گئے جس میں احمدیوں کا جانی و مالی نقصان ہوا پھر ستمبر1974ء میں مسٹر بھٹو نے قومی اسمبلی سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا۔ احمدیوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے تھے ان پر میرا دل خون کے آنسو رورہا تھا۔ میں نے اپنے ربّ کے حضور التجا کی کہ اے میرے ربّ! میری بریت فرما۔میں نے یہ دُعا بھی کی کہ وہ ظالموں کو اُن کے ظلم کی سزا دے۔ کتنی ہی راتیں میں نے شدید کرب کی حالت میں جاگ جاگ کر کاٹی ہیں۔
ایک رات اچانک میری آنکھ کھل گئی اور میں بلا ارادہ اچھل کر بستر سے باہر آرہا۔ میں کسی طاقت کی ایسی گرفت میں تھا جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تجربہ اس روحانی تجرنے سے ملتا جلتا تھا جس میںسے میں ایام طفولیت میں گزر چکا تھا۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے مجھے پہلے پہل اپنے الہام سے نوازا تھا۔ اب بھی ایسی ہی کیفیت مجھ پر طاری تھی۔ مَیں شدت جذبات سے مغلوب ہو کر بآواز بلند یہ الفاظ بار بار دہرا رہا تھا: ادھیٰ وأمرْادھیٰ وأمرْ اور زیادہ تباہ کن اور زیادہ درد ناک۔ یوں لگتا تھا جیسے میرا وجود کسی اور طاقت کے قبضۂ قدرت میں ہو اور مجھے اپنے آپ پر کنٹرول نہ رہا ہو…میں نے محسوس کیا کہ یہ الفاظ دہرانے کے ساتھ ساتھ کانپ بھی رہا ہوں ۔پھر میں شعوری حالت کی طرف منتقل کیا گیا اور وہ الفاظ جنہیں میں دہرا رہا تھا۔ سمجھ میں آنے لگے اور یہ بات بھی کہ میں یہ الفاظ دہرا کیوں رہا ہوں۔ مجھے بحیثیت مجموعی ان الفاظ کے معنی کا تو علم تھا لیکن ان کا سیاق و سباق مستحضر نہ تھا۔ جونہی ربودگی کی یہ کیفیت ختم ہو گئی، میں اٹھا۔ ان الفاظ کا مقام تلاش کرنا شروع کر دیا کہ دیکھوں تو سہی کہ کس موقعہ اور محل پر قرآن کریم میں یہ الفاظ واردہوئے ہیں۔ اور وہ دن اور آج کا دن میں نے مکمل طور پراللہ تعالیٰ کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا کہ وہ جس طرح چاہے اپنی تقدیر کے رُخ سے پردہ اُٹھائے۔
(مرد خدا صفحہ 176۔177)
بھٹو کی پھانسی
مسٹر بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائے دو سال بیت چکے تھے۔ یہ کسی کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس سزا پر عمل درآمد بھی ہو گا۔ 4؍اپریل 1979ء کی صبح ہونے کو تھی۔ باہر ابھی تاریکی چھائی تھی کہ حضورؒ کی اچانک آنکھ کھل گئی۔ آپ فرماتے ہیں:
’’مجھے شدت سے احساس ہوا اور سیخ کی طرح یہ احساس میرے سینے میں گڑ گیا جیسے کوئی حادثہ ہو گیا ہو۔میں بیداری کے عالم میں بستر پر لیٹا ہو ا تھا یہاں تک کہ میرے بستر سے اُٹھنے اور تہجد اور فجر کی نماز کا وقت ہو گیا ۔ میں عموماً صبح کے وقت ریڈیوپر خبریں سننے کا عادی نہیں ہوں۔لیکن خلافِ معمول آج کے دن میں نے ریڈیو کا بٹن دبایا پہلی ہی خبر جو میں نے سنی وہ تھی کہ مسٹر بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ہے۔‘‘
(مرد خدا صفحہ179۔180)
افغانستان پر روسی قبضہ
حضور بیان فرماتے ہیں:
’’ جن دنوں میں ایران کا انقلاب آرہا تھا۔ ابھی شروع ہوا تھا 1977ء کی بات ہے۔ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ نظارہ کر رہا ہوں۔ لیکن مجھے سب کچھ دیکھنے کے باوجود گویا میں اس کا حصہ نہیں ہوں۔ موجود بھی ہوں،دیکھ بھی رہا ہوں لیکن بطور نظارہ کے مجھے یہ چیز دکھائی جارہی ہے۔ ایک بڑے وسیع گول دائرہ میں نوجوان کھڑے ہیں اور وہ باری باری عربی میں بہت ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں اور باری باری اس طرح منظر ادلتابدلتا ہے پہلے عربی پھر انگریزی پھر عربی پھرانگریزی اور وہ فقرہ جو اس وقت لگتا ہے جیسے قرآن کریم کی آیت…’’کوئی نہیں جانتا سوائے اس کے‘‘ اور یہ جو مضمون ہے یہ اس طرح مجھ پر کھلتا ہے کہ نظارے دکھائے جا رہے ہیں، میں نے جیسا کہ کہا ہے میں وہاں ہوں بھی اور نہیں بھی۔ایک پہلو سے سامنے یہ نوجوان گا رہے ہیں اور پھر میری نظر پڑتی ہے اس کی طرف ،شام مجھے یاد ہے عراق یاد ہے اور پھر ایران کی طرف پھر افغانستان ، پاکستان مختلف ملک باری باری سامنے آتے ہیںاور مضمون دماغ میں آتا ہے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے جو عجیب واقعات رونما ہو رہے ہیں، جو انقلاب آرہے ہیں، اُن کا آخری مقصد سوائے خدا کے کسی کو پتہ نہیں۔ ہم اُن کو اتفاقی تاریخی واقعات کے طور پر دیکھ رہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ اتفاقاً رونما ہونے والے واقعات ہیں مگر رؤیا میں جب وہ مل کر یہ گاتے ہیں تو اس سے یہ تاثر زیادہ قوی ہوتا چلا جاتا ہے کہ یہ اتفاقاً الگ الگ ہونے والے واقعات نہیں بلکہ واقعات کی ایک زنجیر ہے جو تقدیر بنا رہی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں مگر ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کیا ہو رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیںجانتا جس کا ہاتھ یہ تقدیربنا رہا ہے تو وہ رؤیا تھی جو چوہدری انور حسین صاحب ان دنوں تشریف لائے اُن کو بھی میں نے سنائی بعض اوردوستوں کو بھی …کہ یہ کچھ عجیب سی بات ہے۔ معلوم ہوتا ہے کوئی بڑے بڑے واقعات ان واقعات کے پس پردہ رونما ہونے والے ہیں ان کے پیچھے پیچھے آئیں گے۔ ہم جو سیاسی اندازے کر رہے ہیںیہ کچھ اور ہے، جو خدا کے اصل مقاصد ہیں وہ کچھ اور ہیں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کے ساتھ روس کی بیان شدہ پالیسی کا گہرا تعلق ہے کچھ سبق انہوں نے وہاں سیکھے ہیں کچھ اور سیاسی باتیں ان تجربوں میں ظاہر ہوئی ہیں کہ جن کے نتیجہ میں یہ بعد کے عظیم انقلابات پیدا ہونے شروع ہوئے۔
ساری زندگی کو بابرکت کرنے کی خوشخبری
ایک موقعہ پر بالکل بے حیثیت اور بے حقیقت ہو کر میں نے اپنے ربّ سے عرض کیا: اے خدا! میرے بس میں تو کچھ نہیں ہے میرا ذہن قطعاً خالی پڑا ہے، تُو نے جماعت کیلئے جو توقعات پیدا کر دی ہیں وہ میں نے تو پیدا نہیں کیں۔ جماعت احمدیہ کے امام کو دنیا ایک خاص نظر سے دیکھنے آتی ہے اور ایک توقع کے ساتھ اس کا جائزہ لیتی ہے ۔جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں تو اس پر پورانہیں اُتر سکتا اس لئے اے خدا تو ہی میری مدد فرما چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اتنی غیر معمولی مدد فرمائی کہ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میں خود نہیں بول رہا کوئی اورطاقت بول رہی ہے میرے ذہن میںازخود مضمون آتے چلے جارہے تھے۔
پھر اس کے بعد میرے دل میں ایک خوف پیدا ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی تائید ایک لمحے کیلئے بھی مجھے چھوڑ دے تو … چنانچہ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی میں میں نے دعا کی اے خدا تو وہ نہ بن کہ رحمت کا جلوہ دکھا کر پیچھے ہٹ جائے۔ تُو نے فضل فرمایا ہے تو پھر ساتھ رہ اورساتھ ہی رہ اور کبھی نہ چھوڑ۔
اسی رات میں نے خواب دیکھی اور اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس سارے سفر کوکامیاب کرے گا اور مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا یعنی جماعت کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ مسجد بشارت اسپین کے صحن میں میرے بھائی صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب آکر مجھے گلے لگا لیتے ہیں اور پھر چھوڑتے ہی نہیں۔ میں حیران کھڑا ہوں مجھے اس وقت کچھ سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے انسان سمجھتا ہے کہ اب ملاقات کافی لمبی ہو گئی ہے اب بس کریں۔ لیکن وہ چمٹ جاتے ہیں اور چھوڑتے ہی نہیں اسی حالت میں خواب ختم ہو گئی۔
صبح اُٹھ کر مجھے یاد آیا کہ میں نے یہ دعا کی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف اس سفر کو بابرکت کرے گا بلکہ باقی ساری زندگی کو بھی بابرکت کرے گا۔دنیا کو جماعت سے جو توقعات ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم ان کو پورا کریں گے۔ یہ ’’ہم‘‘ کا صیغہ میں اس لئے استعمال کر رہا ہوں کہ وہاں ایک شخص مرزا طاہر احمد مراد نہیں تھا۔ میری دعائیں نہ اپنی ذات کے لئے تھیں نہ ایک وجود کے لئے تھیں۔ میری دعائیں تو اس جماعت کے لئے تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آج اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنی ہوئی ہے اس لئے جماعت سے جو توقعات ہیںوہی اس کے خلیفہ سے ہوتی ہیں اس سے الگ توقعات تو نہیں ہوا کرتیں۔ پس میں اس خوشخبری کو ساری جماعت کے لئے سمجھتا ہوں۔
(الفضل 8؍مارچ 1983ء صفحہ2)
تین مبشر رؤیا
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے 17؍فروری 1984ء کے خطبہ جمعہ میں اپنے تین رؤیا بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’پرسوں رات کو اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے تین مبشر رؤیا دکھائے جو جماعت کے حق میں بہت ہی مبشر اور مبارک ہیں۔ مختصر نظارے تھے لیکن یکے بعد دیگرے ایک ہی رات میںیہ تین نظارے دیکھے اور اس مضمون کو زیادہ قوت دینے کیلئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعت کے لئے خوشخبری ہے۔ ایک عجیب واقعہ ہوا کہ میرے ساتھ کے کمرہ میں عزیزم لقمان احمد سوتے ہیں وہ جب صبح نماز کے لئے اُٹھے تو ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے بڑے زور سے القاء کیا کہ آج رات اللہ تعالیٰ نے مجھے کچھ خوشخبری دی ہے۔ تو اُن کے دل میں یہ ڈالا گیا کہ میں پوچھوں کہ رات کیا بات ہوئی ہے جو خدا تعالیٰ نے خاص طور پر خوشخبری عطا فرمائی ہے۔ پس بیک وقت یہ دونوں باتیں مزید اس بات کو یقین میں بدل دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کے ساتھ کامل نصرت اور حفاظت کا معاملہ فرمائے گا۔
میں نے پہلی رؤیا میںیہ دیکھا کہ ایک برآمدہ میں ایک مجلس لگی ہوئی ہے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے ساتھ دوسرے احمدی احباب کرسیوں میں بیٹھے آپ کی باتیں سن رہے ہیں۔ میں بھی اس مجلس میں جاتا ہوں تو خواب میں مجھے کوئی تعجب نہیں ہوتا بلکہ یہ علم ہے کہ اس وقت میں خلیفۃ المسیح ہوں اور یہ بھی علم ہے کہ آپ بیٹھے ہوئے ہیں اور اس بات میں آپس میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ یعنی ذہن میں یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ آپؒ فوت شدہ ہیںاس نظارے سے طبیعت میں کسی قسم کا تردّد نہیں پیدا ہوتا چنانچہ جب آپ کی مجھ پر نظر پڑی تو ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص جس کا چہرہ میں پہچانتا نہیں، ان کے ساتھ اور بھی بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہیںلیکن میں اُن کے نام نہیں جانتا۔ لیکن جو آپ کے قریب آدمی بیٹھا ہوا ہے اس کو اشارہ سے فرماتے ہیں کہ کرسی خالی کرو اور مجھے پاس بٹھا کر مصافحہ کرتے ہیں اور میرے ہاتھ کو اسی طرح بوسہ دیتے ہیں جس طرح کوئی خلیفہ وقت کے ہاتھ کو بوسہ دیتا ہے اور مجھے اس سے شرمندگی ہوتی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنے چاہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ تم خلیفۃ المسیح ہو۔ لیکن طبیعت میں سخت شرم محسوس ہوتی ہے اور انکسار پیدا ہوتا ہے ۔ میں فوراً آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیتا ہوں۔ تو آپ یہ بتانے کیلئے کہ میرا بوسہ باقی رہے گا تمہارے بوسے سے یہ منسوخ نہیں ہوتا دوبارہ میرے ہاتھ کو کھینچ کر پھر بوسہ دیتے ہیں۔ اور پھر میں محسوس کرتا ہوں کہ اب تو اگر میں نے یہ سلسلہ شروع کر دیا تو ختم نہیں ہو گا اس لئے اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں ۔چنانچہ میں اصرار بند کر دیتا ہوں۔
اس کے بعد مجھے فرماتے ہیں کہ اب تم خلافت کا پوری طرح چارج لے لو، اب مجھے رخصت کرو، میرے ساتھ رہنے کی اب ضرورت کیا ہے۔ تو میں کہتا ہوں کہ اس میں ایک حکمت ہے اور وہ یہ کہ خلافت کوئی شریکا نہیں، دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں جس میں کسی قسم کا حسد یا مقابلہ ہو بلکہ یہ ایک نعمت ہے اور انعام ہے۔ میں دنیا کو بتاناچاہتا ہوں کہ صاحبِ انعام لوگوں میں آپس میں محبت ہوتی ہے اور پیار کا تعلق ہوتا ہے اور کسی قسم کا حسد یا مقابلہ نہیں ہوتا۔ تو یہ مفہوم آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں اور یہ نظارہ ختم ہو جاتا ہے۔
ہاں ایک اور بات بھی آپ نے مجھے خواب میں کہی جو مبارک ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں نے ایک بات کہی ہے اور وہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے حق میں اچھی ہو گی۔ اس کے بعد یہ نظارہ ختم ہو گیا تو کچھ دیر کے بعد اسی رات خواب میں صر ف یہ چھوٹا سا نظارہ دیکھا کہ حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا جو حضرت مسیح موعودؑ کی صاحبزادی اور ہماری پھوپھی ہیں، وہ میرے گھر میں داخل ہو رہی ہیں اور اس کے سوا اَور کوئی نظارہ نہیں ہے صرف میں اُن کو گھر میں داخل ہوتے دیکھتا ہوں اور خواب ختم ہو جاتی ہے۔
تیسری خواب یہ دیکھی کہ ایک میزچنی ہوتی ہے اور اس پر ہم کھانا کھا رہے ہیں اور میری دائیں جانب حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیٹھی ہوئی ہیں اور بڑے پیار اور محبت کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں۔
پس یہ تینوں خوابیں جو اُوپر تلے نظر آئیں، اللہ تعالیٰ خاص نصرت بھی عطا فرمائے گا اور اگر کچھ حالات مخدوش ہوئے تو خدا خود ہماری حفاظت بھی فرمائے گا اور ہمیں کسی غیر کی حفاظت کی ضرورت نہیں۔
اور پھر انجام میں خدا تعالیٰ ایک دعوت دکھاتا ہے اور نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓجن کے متعلق الہاماًخدا تعالیٰ نے فرمایا تھاکہ ’’مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا ایسی آئی جنیں ایہہ مصیبت پائی‘‘ یہ الہام حضرت مسیح موعود ؑ کو پنجابی میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے متعلق ہوا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ نام بھی مبارک ہے اور اُن کی معیت بھی مبارک ہے اور کبھی یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ آئیں اور کوئی مصیبت ساتھ باقی رہے ان کے آنے سے مصیبتیں ٹل تو جائیں گی اکٹھی نہیں رہ سکتی۔
پس معنوی لحاظ سے بھی اور الہامات کی روشنی میں بھی یہ خوابیں اور پھر جس ترتیب میں آئی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مبارک ہیں۔ مجھے نظر آرہا ہے کہ خدا تعالیٰ جلدازجلدانشاء اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ جماعت کو غیر معمولی تائیدی نشان دکھائے گا۔
’’قدیر‘‘ کے ایک نئے معنی
حضور ؒ نے 10 جنوری 1986ء کو خطبہ جمعہ میں لفظ قد یر کے معنی کے ضمن میں ایک نئے مضمون کا تفصیل سے ذکر فرمایا جو گزشتہ خطبے کے دوران کشفاً اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا اور پھر تفصیل سے سمجھایا گیا اس کشف کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
گذشتہ خطبے میں مَیں نے قدراکے ایک معنی علمہ بیان کئے تھے یعنی اس نے سکھایا۔ دراصل میرے نوٹس میں یہ معنے لکھے ہوئے موجود نہیں تھے تردّد کے باوجود گذشتہ خطبہ کے دوران میں نے دوبارہ نوٹس دیکھے تو وہاں صاف طور پر علمہ لکھا ہوا تھا چنانچہ میں نے یہی پڑھا اور انہی معنوں کو بیان کیا لیکن پوری تسلی نہیں ہوئی چنانچہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اُس نے تفصیل سے یہ معنی سمجھائے جو بہت حیرت انگیز اور وسیع ہیں اور قرآن کریم سے قطعی طور پر ثابت ہیں۔
(ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جنوری 1986ء صفحہ3)
مالی نصرت کی بشارت
حضور نے ٹلفورڈ میں عید الفطر کا خطبہ دیتے ہوئے 9؍جون 1986ء کو اپنے ایک تا زہ رؤیا کا ذکر فرمایا جو آج صبح ہی عید کے تحفہ کے طور پر عطا ہوا تھا ۔جس میں حضور کی اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے بڑے پیار اور فرشتوں کی سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک شعر پڑھا (جو حضور نے فرمایا مجھے اس وقت یاد نہیں رہ سکا) جس کا مفہوم یہ تھا کہ شمع خود ہی اپنے پروانے کے پاس آگئی ہے۔
حضور نے فرمایا اس رؤیا میں بہت ہی عظیم الشان خوشخبری ہے اہل پاکستان کیلئے بھی اور ساری دنیا کی جماعتوں کیلئے بھی اور یہ پیغام ہے اُن کے نام بھی جو جماعت کی ترقی کے قدم جکڑنا چاہتے ہیں کہ تم ایک ملک میں جماعت کی ترقی کو روکنے کیلئے ساری جدوجہد کررہے ہو مگر خدا سارے جہان میں اپنی نصرتیں لے کر آئے گا اور تمام جہانوں میں اس جماعت کو غلبہ نصیب ہو گا۔ یہ خوشخبری تھی جو عید کیلئے عطا ہوئی اور جماعت کی امانت تھی جو میں جماعت کے سپرد کرتا ہوں۔
(ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جون 1986ء صفحہ 5)
خدا سے تعلق بڑھاؤ
حضور بیان فرماتے ہیں کہ آج رات میری توجہ ایک رؤیا کے ذریعہ مبذول کروائی گئی اس رؤیا میں خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ جماعت احمدیہ کو دراصل خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنا چاہئیںاور نتیجے کے لحاظ سے اپنی دُعاؤں پر ہی توکل کرنا چاہئے اس کا پس منظر یہ ہوا کہ کل مجھے بعض ایسی اطلاعیں ملیں جن کے نتیجے میں معلوم ہوا تھا کہ ہماری دنیا کی بعض جماعتوں نے حکومت پاکستان پر اخلاقی دباؤ ڈالنے کیلئے غیر معمولی کارروائیاں کی ہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے مجھے رؤیا میں سمجھایا کہ یہ دنیا کی کارروائی کوئی حقیقت نہیں رکھتی تم دُعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم رکھو اور اسے بڑھاؤ اور اسے مضبوط کرو تو خدا تعالیٰ یقینا اپنے فضل اور رحم کے ساتھ تمہارے حالات کو تبدیل فرمادے گا اور بے انتہا رحمتیں نازل فرمائے گا۔
رؤیا میں مَیں نے حضرت بانی سلسلہ کا وہ کلام ایک خاص انداز سے پڑھا جس میں حضرت بانی سلسلہ خوشخبری دیتے ہیں کہ کون وہ بدبخت ہوگا جو خدا کے در پر مانگنے جائے اور پھر واپس لوٹے اور یہ کلام اگرچہ اکثر ہمارے سامنے پڑھا جاتا ہے لیکن اس کلام کے بعض ایسے مصرعے جو رؤیا میں مجھے یاد رہے اور میں بار بار پڑھتا رہا۔ بیداری کی حالت میں یاد نہیں رہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک پیغام تھا ان مصرعوں میں سے ایک مصرعہ خصوصیت کے ساتھ جو بار بار زبان پر جاری ہوااور دل پر نقش ہو گیا۔ اس کا مضمون یہ تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرت نمائی پر قادر ہے، جب وہ چاہے گا حیرت انگیز قدرت کے کرشمے دکھائے گا۔ اس لئے دُعاؤں کے ذریعہ اس پر توکل کرتے ہوئے اس کی رحمت کے قدموںسے چمٹے رہو اور امید رکھو کہ وہ اپنے فضل کے ساتھ حیرت انگیز قدرت کے نشان دکھائے گا اور پھر ایک مصرعہ جو خاص طور پرمیں نے بار بارپڑھا اور دو چار مصرعوں کے بعد پھر وہ مصرعہ زبان پر آجاتا وہ یہ تھا: ’’ہوا مجھ پر وہ ظاہر میرا ہادی‘‘۔ اور ساتھ ہی ساتھ وہ دوسرا مصرعہ بھی اس شعرکا کہ

’’فَسُبحَان الّذی اخزی الاعادی‘‘

والا مصرعہ ہر دفعہ نہیں پڑھتا لیکن یہ مصرعہ جو ہے ’’ہوا مجھ پر وہ ظاہر میرا ہادی‘‘ یہ تو اس کثرت کے ساتھ رات اپنی رؤیا میں گنگناتا رہا اور با ربار پڑھتا رہا ہوں کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بار بار دوسرے مصرعوں سے میری توجہ اس طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اس کی تعبیر میں نے یہ کی کہ حضرت با نی سلسلہ کو خدا نے مہدی بنایا ہے اور خدا کا ہادی کے طور پر آپ پر ظاہر ہونا یہ بتاتا ہے یہ بڑی عظیم خوشخبری اپنے اندر رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دنیا کی ہدایت کے عظیم الشان سامان پیدا کرنے والا ہے۔
بچھڑی کی قربانی
اس کے ساتھ ہی مَیں نے ایک بچھڑی کو ذبح کرنے سے متعلق بھی نظارہ دیکھا اور اسی حالت میں جب میں یہ شعر پڑھ رہا ہوں ایک آدمی ایک خوبصورت بچھڑی لے کر آتا ہے یا بچھڑا ہے لیکن ذہن میں زیادہ بچھڑی کا تصور ہے جو بہت خوبصورت بے داغ صاف ستھری بچھڑی ہے اور اس کو ذبح کرنے کیلئے میری توجہ کو اپنے طرف نہیں کھینچا گیا بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ مجھے اپنے حال میں مصروف رہنے دیا گیا ہے مگر ساتھ ہی جس طرح تبرکاً چھری لگا دی جاتی ہے جسم کے ساتھ اور پھر ذبح کیاجاتا ہے جانور کو، اس طرح جو شخص بھی اس گائے کی بچھڑی کو لے کر ذبح کرنے کیلئے لے جا رہا ہے وہ پاس سے گزرتا ہے اور چھری کو میرے بدن کے ساتھ مس کرتا ہے اور پھر آگے جا کر (میرے ذہن میں یہ ہے کہ ) اس نے اب اس گائے کو ذبح کرنا ہے۔ لیکن وہ کسی انذاری رنگ میں محسوس نہیں ہوتا بلکہ خوشی کے اظہار کے طور پر (یہ مضمون میرے ذہن میں آتا ہے کہ )وہ گائے ذبح کی جائے گی یعنی خوشی کے اظہار کے طور پرنہ کہ صدقے کہ رنگ میں۔ لیکن چھری مس کرنا جو ہے یہ عموماً صدقے کہ ساتھ تعلق رکھتا ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ اس میں دونوں پہلو موجود ہوں۔ ہو سکتا ہے بعض فتنے ابھی کروٹیں بدل رہے ہوں اپنی ابتدائی حالت میں اور ظاہر ہونے کیلئے تیاری کر رہے ہیں اس پہلو سے اس رؤیا کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا یہ توجہ دلانا بھی مقصود مطلب ہو کہ صدقات بھی دو ، دعائیں بھی کرو اور اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ رکھو۔
(روزنامہ الفضل 5نومبر 1989ء)
نئی منزلوں کی فتح
حضور بیان فرماتے ہیں کہ ایک رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ جیسے سیاحوں کی بس ہوتی ہے ویسے ہی کسی بس میں میں اور میرے کچھ ساتھی سفر کرتے ہوئے ایک دریا کو عبور کرنے والے ہیں ۔ اب یہ جو بس کی حالت کا سفر ہے یہ مجھے یاد نہیں۔ لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ بس پل کے پاس آکر نیچے اس کے دامن میں رک گئی ہے اور کوئی وجہ ہے کہ وہ بس خود آگے نہیں بڑھ سکتی ۔تو جیسے ایسے موقع پر مسافر اتر کر چہل قدمی شروع کر دیتے ہیں، اس طرح اس بس میں سے مَیں اترا ہوں اور کچھ اوربھی مسافر اترے ہیں۔ لیکن میرے ذہن میں اس وقت اَور کوئی نہیں آرہا مگر یہ یاد ہے اچھی طرح کہ مبارک مصلح الدین صاحب جو ہمارے واقف زندگی، تحریک جدید کے کارکن ہیں، وہ ساتھ ہیں اور جیسے انتظار میں اور کوئی شغل نہ ہوتو انسان کہتا ہے کہ چلیں اب نہا ہی لیتے ہیں ۔میں اور وہ ہم دونوں دریا میں چھلانگ لگا دیتے ہیں میرے ذہن میں اس وقت یہ خیال ہے کہ ہم تھوڑا ساتیر کر واپس آجائیں گے۔ لیکن مبارک مصلح الدین مجھ سے تھوڑے سے دُور دو ہاتھ آگے ہیں اور وہ مجھے کہتے ہیں کہ چلیں اب اس طرح ہی دریا پار کرتے ہیں۔ تو میرے ذہن میں یہ خیال ہے کہ دریا تو بھر پور بہہ رہا ہے جیسے دریائے سندھ طغیانی کے وقت بہا کرتا ہے اگر چہ کناروں سے چھلکا نہیں لیکن لبا لب ہے اور بہت ہی بھر پور اور قوت کے ساتھ بہہ رہا ہے۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ پتہ نہیںہم یہ کر بھی سکیں گے کہ نہیں۔ تو مبارک مصلح الدین کہتے ہیں کہ نہیں ہم کر سکتے ہیںاور میں کہتا ہوں کہ ٹھیک ہے پھرچلتے ہیں ۔ لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اگر چہ میں کوئی ایسا تیراک نہیں مگر اس وقت تیراکی کی غیرمعمولی طاقت پیدا ہوتی ہے اور چند ہاتھوں میں بڑے بڑے فاصلے طے ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ جب میں مڑ کر دیکھتا ہوں تو وہ پچھلا کنارہ بہت دُور رہ جاتا ہے۔ اور پھر دو چار ہاتھ لگانے سے ہی وہ باقی دریا بھی عبور ہو جاتا ہے اور دوسری طرف ہم کنارے لگتے ہیں۔ اورتعجب کی بات یہ ہے کہ اگرچہ مبارک مصلح الدین مجھے رؤیا میں اپنے آگے دکھائی دیتے ہیںمگر جب کنارے لگتا ہوں تو پہلے میں لگتا ہوں پھر وہ لگتے ہیں اور اس طرح ہم دوسری طرف پہنچ جاتے ہیں۔ اور پھر یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ کسی طرح یہاں سے باہر نکل کر دوسری طرف کنارے سے باہر کی عام دنیا میں ابھریں۔
یہ رؤیا یہاں ختم ہو گئی اور چونکہ یہ ایسی رؤیا تھی جو عام طور پر دستور کے مطابق انسان کے ذہن میں آتی نہیں اس لئے رؤیا ختم ہونے کے بعد میرے ذہن پر یہ بڑا بھاری اثر تھا کہ یہ ایک واضح پیغام ہے جس میں اللہ تعالیٰ کسی نئی منزل کو فتح کر نے کی خوشخبری دے رہا ہے اور اگرچہ ایک حصہ اس کا ابھی تک مجھ پر واضح نہیں ہواکہ وہ ساتھی جو ہیں ان کو ہم کیوں پیچھے چھوڑ گئے ہیںاور ہم دو کیوں آگے نکل جاتے ہیں لیکن بہر حال ذہن پر یہ تاثر ضرور ہے کہ اس میں کوئی انذار نہیں تھا بلکہ خوشخبری تھی کہ دریا کی موجوں نے اگرچہ بس کو روک دیا ہے لیکن ہمارے سفر کی راہ میں وہ حائل نہیں ہو سکیں تو اللہ تعالیٰ اس رؤیا کو بھی جہاں تک میرا تاثر ہے اور یقین ہے کہ مبشر ہے، توقع سے بڑھ کر مبشر بنائے اور جماعت کے حق میں اس کی اچھی تعبیر ظاہر فرمائے۔
(روزنامہ الفضل 15 ؍1996ء صفحہ4)
محترم ملک سیف الرحمان صاحب کا وصال
ایک اور رؤیا میں جس میں انذار کا پہلو بھی تھا اور خوشخبری کا رنگ بھی رکھتی تھی۔ … جب حضرت ملک سیف الرحمان صاحب کا وصال ہوا تو جس دن اس کی اطلاع ملی اس سے پہلی رات میں نے رؤیا دیکھی کہ اقبال کی ایک مشہور غزل کے دو اشعار میں پڑھ رہا ہوں اور خاص اس میں درد کی کیفیت ہے۔ اور اقبال کی یہ وہ غزل ہے جو بچپن میں کالج کے زمانہ میں مجھے بہت پسند تھی لیکن چونکہ مدت سے پڑھی نہیں اس لئے خواب میں کوشش کرکے یاد کر کے وہ شعر پڑھتا ہوں اور پھر آخر یاد آجاتے ہیں اور وہ رواں ہو جاتے ہیں اور وہ شعر یہ تھے ؎

تھا جنہیں ذوقِ تماشا وہ تو رخصت ہوگئے
لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا
آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دَم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

تو بہت ہی دردناک اشعار ہیں ۔ اور جب آنکھ کھلی تو میرے دل پر بہت ہی اس بات کا گہرا اثر تھا اور غم کی کیفیت تھی کہ معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ کے کوئی بزرگ، جن کا خدا کے نزدیک ایک مرتبہ ہے، رخصت ہونے والے ہیں جو انتظار کی راہ دیکھتے دیکھتے میرے جانے سے پہلے وصال پا جائیں گے۔ دوسرے دن صبح جب ملک سیف الرحمان صاحب کے وصال کی اطلاع ملی تو اس وقت لاہور کے دوست چوہدری حمید نصراللہ صاحب اور ان کے ساتھ دو اوروکلا ء بھی تھے، یہ ملنے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ان سے میں نے بیان کی بعد میں۔ مَیں نے کہا کہ میں نیک فال کے طور پر یعنی اگرچہ لفظ نیک فال کا اطلاق پوری طرح تو نہیں ہوتا مگران معنوں میں نیک فال کے طور پر کہ گویا انذار ٹل چکا ہے اور جو ہونا تھا ہو چکا ہے، اس خواب کے مضمون کو ملک سیف الرحمان صاحب کے وصال پر لگا رہا ہوں۔ اگرچہ وہ اس عرصہ میں ملتے بھی رہے ہیں لیکن جس رُتبے کے انسان تھے، خواب میں جیسا کہ میرے ذہن پر اثر تھا کہ اس مرتبہ کا کوئی انسان رخصت ہونے والاہے یہ اُن پر صادق آتا ہے اور دوسرا خیال یہ تھا کہ ملک صاحب کو خواہش تو بہرحال یہی ہو گی کہ میں بھی ربوہ جاؤں اور پھر ربوہ میں واپسی ہو اور اس تقریب میں شمولیت ہو تو اس خیال سے اگر اس پر اطلاق ہو جائے تو کوئی بعید ازقیاس بات نہیں۔
آپ کو میں یہ رؤیا بتاتے ہوئے اس دُعا کی تحریک کرتا ہوں کہ اللہ کرے کہ یہ انذار کا پہلو یہاں تک ہی ٹل جائے اور جو دوسرا پہلو ہے واپسی کا اس کے آثار جلد از جلد ظاہر ہوں اور اللہ اپنے فضل کے ساتھ ایسی حالت میں لے کے جائے کہ کم سے کم تکلیف کی خبریں ملیں۔ اب کے بعد خدا کرے یعنی میں تو دُعا کے رنگ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بظاہر ہر چیز ناممکن بھی ہوتو دُعا کے ذریعہ ممکن بن سکتی ہے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اب کے بعد واپسی تک کوئی فوت نہ ہو وفات کا جو سلسلہ ہے وہ تو جاری رہے گا لیکن دُعا کرتے وقت یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ کوئی بھی نہ ہو۔ اس لحاظ سے میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ دُعا کریں کہ کم سے کم لوگ، اگر فوت ہونا کسی کا مقدربھی ہے، تو کم سے کم لوگ اس عرصہ میں وفات پائیں اور کم سے کم لوگوں کے متعلق پھر یہ دردناک مضمون صادق آئے کہ

تھا جنہیں ذوق تماشا وہ تو رخصت ہوگئے
لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا

(الفضل 15؍فروری 1990ء)
ایک غزل کا پس منظر
حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے غزل ’’آپ کے لئے‘‘ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’رؤیا جو پچھلے دنوں دیکھی جس کے نتیجے میں میں نے غزل کہی۔ غزل تو جماعت تک پہنچ چکی ہے لیکن اس کا پس منظر نہیں پہنچا۔اس لئے میں وہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں ۔
پچھلے دنوں ہم نے سوچا کہ دسمبر میں چونکہ ربوہ میں جلسہ نہیں ہو سکتا اس لئے کثرت کے ساتھ جماعتوں میں جلسے کئے جائیں اور اللہ کے فضل کے ساتھ جو رپورٹیں مل رہی ہیں، بہت ہی بھرپور جلسے سارے پاکستان میں ہوئے ہیں۔ اور دوستوں کے بڑے اطمینان کے خط مل رہے ہیں کہ بڑی مدت کے بعد دل کی یہ خلش دُور ہوئی اور جو اس جلسہ میں لطف آیا اگرچہ یہ سالانہ جلسہ نہیں تھا اور وہ ربوہ والی کیفیت نہیں تھی مگر چھوٹے پیمانے پر ہونے کے باوجود بہت ہی زیادہ ایمان افروز اور تسکین بخش تھا۔
چونکہ میں عموماً جلسہ کے موقعہ پر کوئی نظم پیش کیاکرتا ہوںمیں نے ایک غزل بھجوائی تھی جس کا عنوان تھا:

’’غزل آپ کیلئے‘‘

وہ عام دستور سے کچھ ہٹی ہوئی ہے اور شاید سننے والوں نے تعجب بھی کیا ہومجھے یہ کیا سوجھی اس طرز پر غزل کہنے کی اور کیا مقصد ہے تو چونکہ ایک خواب کے نتیجہ میں کہی گئی تھی اس لئے وہ خواب آپ کو بتاتا ہوں۔
میں نے رؤیامیں دیکھا کہ کوئی عزیز ہے وہ میرے لئے ایک مصرعہ پڑھتا ہے اور وہ مصرعہ خواب میں بالکل موزوں ہے یعنی باقاعدہ باوزن مصرعہ ہے لیکن اُٹھنے کے بعد پورا یاد نہیں رہا۔ لیکن آخری حصہ اس کا یاد رہا جس کے مطابق پھر یہ غزل کہی گئی۔ مضمون اس کا یہ تھا کہ لوگ آجکل کے زمانہ میں، ابتلاء کے زمانہ میں، ایسے ایسے شعر لکھ کر بھجواتے رہتے ہیں، نظمیں کہتے رہتے ہیں تو اجازت ہو تو میں بھی کہوں ایک غزل آپ کیلئے۔
’’غزل آپ کیلئے‘‘ کے لفظ بعینہٖ وہی ہیں جو رؤیا میں دیکھے گئے تھے … چنانچہ اس ’’آپ کیلئے‘‘کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو میں نے غزل کہی اُس کے پہلے چند اشعار اور آخری دراصل نعتیہ ہیں۔ وہ میں نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب کر کہے ہیں۔ اور بیچ کے چند اشعار دوسرے مضامین کے ہیں لیکن یہ میں سمجھا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے متعلق نہیں کہہ رہا۔ میں نے خود اپنے متعلق تو وہ غزل نہیں کہی تھی۔ اگرچہ کسی اور کے خیال سے بعض دفعہ انسان اپنے متعلق بھی ایک آدھ شعر کہہ لیتا ہے کسی انسان کی زبان میں کہ گویا تم یہ چاہتے ہو کہ مجھے یہ پیغام دو۔ ایسے بھی ایک دو شعر اس میں ہیں لیکن دراصل اس کے اکثر شعر نعتیہ ہیں۔ پہلے چند اور آخری خصوصیت کے ساتھ۔ تو اس کا پس منظر ہے جو اُمید ہے معلوم ہونے کے بعد اس غزل کی طرز بھی سمجھ میں آجائے گی کہ کیا طرز ہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 15 ؍فروری 1990ء صفحہ 5)
فرنچ سپیکنگ ممالک میں جماعت کی ترقی
حضور نے جلسہ سالانہ 1996ء پر فرمایا: ایک رات ساری رات مسلسل میرے منہ پر ڈاکار،ڈاکار کا لفظ جاری ہوا۔ یہ ایک حیرت انگیز بات تھی۔ صبح اُٹھ کر پتہ کروایا تو پتہ چلا کہ ڈاکار سینیگال کے دارالحکومت کا نام ہے۔ چنانچہ اس کی طرف توجہ دی گئی۔ اس وقت وہاں احمدیوں کی تعداد صرف 5ہزار دو صد تیس تھی اس کے بعد تین سالوں میں سینیگال میں تین لاکھ گیارہ ہزار احمدیوں کا اضافہ ہوا اس وقت اس جلسہ میں 5احمدی ارکان پارلیمنٹ بھی موجود ہیں جن میں ایک ڈپٹی سپیکر ہیں۔
حضور نے ڈپٹی اسپیکرصاحب کو بلایا جنہوں نے فرانسیسی زبان میں تقریر کی اور کہا کہ گذشتہ سال سینیگال میں صرف چار ممبران پارلیمنٹ احمدی تھے آج خدا کے فضل وکرم سے اٹھائیس ممبران پارلیمنٹ احمدی ہیں جن کے پاس اعلیٰ عہدے بھی ہیں، اسمبلی میں سیکرٹریز ہیں۔ آٹھ ممبرانِ پارلیمنٹ کے اسمبلی میں دفاتر ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر نے اظہار فرمایا ہماری خواہش ہے حضورؒ ہمارے پاس تشریف لاویں اور سینیگال احمدی ہوجائے گا۔
حضور نے فرمایا : خدا تعالیٰ جو خبریں عطا کر رہا ہے اُن کو پورا کرنے کے شواہد بھی خود مہیا فرمارہا ہے۔تین سال قبل فرانسیسی بولنے والے افریقی ممالک میں احمدیت پھیلنے کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے رؤیا کے ذریعہ خبردی تھی۔ اس رؤیا سے پہلے چار سالوں میں ان علاقوں میں صرف 53 ہزار476افراد احمدی ہوئے تھے۔ اس رؤیا کے اگلے سال (1994ء) میں یہ تعداد بڑھ کر ایک لاکھ 62 ہزار22 ہو گئی۔ اور پھر اس سے اگلے سال (1995ء) میں تعداد مزید بڑھ کر تین لاکھ 88ہزار 933 ہو گئی اور اب سال1996ء میںاس تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور اس سال فرانسیسی بولنے والے ممالک میں احمدی ہونے والوں کی تعداد سات لاکھ 35ہزار38 افراد ہے گویا اس رؤیا کے بعد اب تک 13 لاکھ چار ہزار 198 بیعتیں فرانسیسی زبان بولنے والے علاقوں (جن کو فرینکو فون کہا جاتا ہے) میں ہوچکی ہیں۔
(الفضل انٹرنیشنل 23؍اگست 1996،صفحہ 6)
1998ء کے جلسہ سالانہ پر حضور نے فرمایا پانچ سال قبل میں نے اپنی ایک رؤیا کا ذکر کیا تھا جس میں ذکر تھا کہ فرنچ بولنے والے علاقوں میں کثرت سے احمدیت پھیلے گی چنانچہ 1993ء کے بعد سے ان علاقوں میں70 لاکھ 50 ہزار511افراد احمدی ہو چکے ہیں۔
(الفضل ربوہ11؍اگست 1998ء)
عبادت کو قائم کرو
10 جون 1988ء کو حضور نے مباہلہ کا چیلنج دیا۔ اس سے اگلے خطبہ17جون 1988ء میں فرمایا:-
تمام جماعت احمدیہ کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کی طرف خدا تعالیٰ نے رؤیا میں مجھے توجہ دلائی ہے میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں نہایت پر شوکت انداز میں اور بڑی قوت کے ساتھ جماعت کو عبادات کے قائم کرنے ،عبادات کے معیار کو بلند کرنے، نمازوں میں آگے قدم بڑھانے اور خد اتعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی طرف توجہ دلا رہا ہوں ۔ رؤیا میں اس مضمون کو میں اس طرح بیان کر رہا ہوں کہ اگرتم یہ خیال کرتے ہو کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو ماننے کی وجہ سے تم آسمان پر نجات یافتہ لکھے جاؤ گے تو یہ خیال غلط ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب تک تم خدا کی عبادت کو قائم نہیں کروگے آسمان پر تم نجات یافتہ نہیں لکھے جاؤگے اس لئے زمین پر عبادتوں کو قائم کرو۔
(ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید جون 88ء ص 4)
کل عالم میں نغمات حمد
حضور نے خطبہ 20 دسمبر 85ء میں نماز سے متعلق اپنے خطبات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:-
جمعہ اور ہفتہ (13،14 دسمبر 85ء)کی درمیانی رات کو تہجد کی نماز میں میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو بعض پہلوؤں سے حیرت انگیز ہے۔ تہجد کی نمازشروع ہوتے ہی مجھے یوںمحسوس ہوا کہ (محسوس تونہیںکہنا چاہئے بلکہ) اچانک میں گویا ڈاکٹر حمید الرحمن بن گیا ہوں۔ ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب جن کا میں اس وقت ذکر کر رہاہوں وہ تو ایک Symbol (علامت) کے طور پر آئے تھے۔ مگر میں پہلے ان کا تعارف کروا دوں۔
ڈاکٹر حمیدالرحمن صاحب ہمارے نہایت ہی مخلص اور فدائی احمدی ہیں۔ خلیل الرحمن صاحب جو صوبہ سرحد سے تعلق رکھتے تھے ان کے صاحبزادے ہیں اور امریکہ میں ڈاکٹر ہیں اور ڈاکٹر پروفیسر عبد السلام صاحب کے داماد ہیں اور بہت نیک اور پاک طبیعت رکھتے ہیں۔سلسلہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور قربانیوں میں پیش پیش رہتے ہیںبڑے سادہ اورمنکسر المزاج ہیں جہاں تک انسانی نگاہ کا تعلق ہے ہے، تقویٰ شعار انسان ہیں۔ چنانچہ یہ واقعہ کچھ اس طرح رونما ہواکہ تہجد کی نماز شروع کرتے ہیں وہ نماز گویا میں نہیں پڑھ رہا تھا بلکہ میں اور ڈاکٹر حمیدالرحمن ایک وجود بن کر پڑھ رہے تھے اور ہمارے درمیان کوئی تفریق نہیں تھی۔ یہ واقعہ آناً فاناً نہیں ہواکہ آیا اور گزر گیا بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تہجد کے دوران جب میں سلام پھیرتا تھا تو یہ تصور غائب ہو جاتا تھااور جب نماز دوبارہ شروع کرتا تھاتو بغیر شعور کہ پتہ نہیں لگتا تھا کہ کس وقت یہ واقعہ شروع ہے اچانک میں اور ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب ایک وجود بن کر نماز پڑھ رہے ہوتے تھے ۔ اچانک میرا وجود جو خدا کو مخاطب کر رہا تھا وہ حمید الرحمن تھا اور جیسے روح حلول کر جاتی ہے۔ اسی طرح میرے اندر حمید الرحمن کی روح گویا حلول کر گئی اور مجھے اس پر تعجب نہیں ہوا ۔ یعنی نماز کے دوران بالکل احساس نہیں ہوا کہ کوئی عجیب واقعہ گزررہاہے بلکہ نارمل طریقے پر جس طرح ڈاکٹر حمیدالرحمن نماز کے وقت کھڑے ہوتے ہوں گے اور اپنے متعلق سوچتے ہوں گے کہ میں حمید الرحمن ہوں بالکل وہی کیفیت تھی میری لیکن ساتھ یہ بھی احساس تھا کہ میں بھی ہوں اور اس عجیب امتزاج پر کوئی تعجب نہیں تھااور جب نوافل کے درمیان وقفہ پڑتا تھا تو اس وقت اس طرف دماغ بھی نہیںجاتا تھا یعنی اس وقت بھی احساس نہیں ہوا کہ یہ کیا ہورہا ہے یہاں تک کہ قریباً ایک گھنٹے تک مسلسل یہی کیفیت رہی اور جب یہ کیفیت دُور ہو گئی تو پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ میرے ساتھ یہ واقعہ گزرا ہے۔
چنا نچہ اس واقعہ پر جب میں نے غور کیا تو مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ ایک تو جس وجود کو خداتعالیٰ نے اس خوشخبری کے لئے چنا ہے اس میں اس کے لئے بہر حال ایک بہت بڑی خو شخبری بھی ہے۔ دوسرے اس میں جماعت کے لئے ایک بہت عظیم الشان خو شخبری بھی ہے اور نجات کی راہ بھی دکھائی گئی ہے اور خلیفہ وقت کے وجود میں دراصل ساری جماعت دکھائی جاتی ہے اور خوشخبری یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو ششوں کو قبول فرمایا ہے جو میں نے نماز کی اہمیت کواحمدیوں کے ذہن نشین کروانے کے لئے باربار کی ہیں۔ چنانچہ خوشخبری یہ تھی کہ مبارک ہو جماعت کل عالم میں حمید الرحمن بن گئی ہے۔ وہ اپنے رحمن خداکی حمد کے گیت گا رہی ہے یہاں تک کہ گویا حمید الرحمن اور جماعت کا وجود ایک ہی ہو چکا ہے اور دوسری طرف اس میں ایک ترقی کی راہ دکھائی گئی ہے اور اس زمانے کی ساری مشکلات کا حل بتایا گیا ہے اور وہ یہ کہ اگر تم حمیدالرحمن بن جاؤ گے تو پھر تمہیں دنیا میں اور کسی چیز کی پرواہ نہیں رہے گی۔
(ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید جولائی86ء)
میرے والے مصطفیٰ
کلام طاہر کی نظر ثانی کے دوران حضورؒ نے امۃ الباری ناصر صاحبہ کے ایک مشورہ پر تحریر فرمایا:
آپ نے ’’میرے والے مصطفی ‘‘ میں لفظ ’’والے‘‘ کو سقم سمجھتے ہوئے ’’تُو ہی تو مصطفی ہے مرا‘‘ تجویز کیا ہے۔ یہ دو وجوہات سے مجھے قبول نہیں۔ ایک یہ کہ اس نظم کاشان نزول تو ایک رؤیا میں ہے جس میں ایک شخص کو دیکھا جو بڑی پُر درد آواز میں حضرت اقدس محمد مصطفی رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کا کوئی کلام پڑھ رہا ہے۔ ان شعروں کا عمومی مضمون تو مجھے یاد رہا مگر الفاظ یاد نہیں رہے۔ البتہ ایک مصرعہ جو غیر معمولی طور پر دل پر اثر کرنے والاتھا وہ ان الفاظ پر مشتمل تھا:

’’اے میرے والے مصطفی ‘‘

خواب میں اس کا جو مفہوم سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ لفظ ’والے‘ نے بجائے اس کے کہ سقم پیدا کیا ہو اس میں غیر معمولی اپنائیت بھردی اور قرآن کریم کی بعض آیات کی بھی تشریح کردی جن کی طرف پہلے میری توجہ نہیں تھی۔ عموماً یہ تاثر ہے کہ صرف رسول اللہﷺ ہی مصطفی ہیں حالانکہ قرآن کریم میں حضرت آدم ؑ ،حضرت نوح ؑ ،حضرت ابراہیم ؑ،اور آل ابراہیم (اسحق ؑ ، یعقوب ؑ، اسمٰعیل ؑ) حضرت موسیٰؑ اور حضرت مریم ؑحتیٰ کہ بنی آدم کے لئے بھی لفظ اصطفیٰ استعمال ہو اہے ۔تو مصطفی ایک نہیں، کئی ہیں ۔پس اگر یہ کہنا ہو کہ باقی بھی مصطفی ہوں گے مگر میرے والا مصطفی یہ ہے تو اس کا اظہار ان الفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ میں ممکن نہیں ۔یہ بات ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی بچہ ضد کرے کہ مجھے میرے والی چیز دو۔ میرے والی کہنے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ مجھے محض یہ چیز نہیں چاہئے بلکہ وہی چیز چاہئے جو میری تھی۔ اس طرز بیان میں اظہار عشق بھی محض’’میرے مصطفی‘‘ کہنے کے مقابل پر بہت زیادہ زور مارتا ہے۔ پس رؤیا میں ہی میں یہ نہیں سمجھ رہا کہ اس میں کوئی نقص ہے بلکہ اس ظاہری نقص میں مجھے فصاحت وبلاغت کی جولانی دکھائی دی اور مضمون میں مقابلۃً بہت زیادہ گہرائی نظر آنے لگی ۔
(الفضل 4 ستمبر 2003ء)
شعلہ اترتا دکھائی دیا
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایم ٹی اے کے ذریعے نشر ہونے والے Liveدرس القرآن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :-
درسوں کے آغاز پر میں بالکل خالی الذہن اور تہی دامن تھا۔ لیکن دعا کے نتیجہ میں جومیرا کل سرمایا تھی مطمئن اور بے خوف تھا۔ اور یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ہاتھ تھمائے ہوئے راستہ دکھائے گا اور ہرکٹھن مقام پر مشکل کشائی فرمائے گا ۔ پس ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے میرے فکرو نظر اور قلب کے اندھیرے گوشوں کو منور فرمادیا۔اور راہ چلتے چلتے دو چار ہاتھ آگے جہاں کچھ دکھائی نہ دیتاتھا اور تعجب تھا کہ وہاں پہنچتے پہنچتے بات جو چل نکلی ہے کیسے کوئی روشن نتیجہ ظاہر کرے گی کہ اچانک جیسے کسی طاقتور بجلی کے قمقمے سے وہ مقام دن کی طرح روشن ہو جائے میں نے اندھیروں کو روشنی میں بدلتے ہوئے دیکھا ۔
کئی دفعہ ایسا ہوا کہ خود ایک اشکال کی طرف سامعین کو توجہ دلائی اور اس سے حل کرنے کی بات شروع کر دی جبکہ اس کا کوئی حل میرے ذہن میں نہ تھا چند لفظوں کے فاصلے پرابہام کے سوا کچھ اور نظر نہ آتا اور تعجب تھا کہ اب میں کیا کہوں گا کہ اچانک ذہن اور قلب پر ایک شعلہ نور اترتا ہوا دکھائی دیا اور اٹھائے ہوئے سوال کا واضح اور روشن جواب دکھائی دینے لگا۔ اللہ تعالیٰ کی غیبی تائید کے ایسے نظارے دیکھے کہ سارا وجود سراپا حمد بن گیا۔
(روزنامہ الفضل سالانہ نمبر ۱۹۹۸ء)
عالمی بیعت کا نقشہ
حضور نے پہلی عالمی بیعت کے موقع پر عالمی بیعت کی تجویز کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا :
عالمی بیعت کی تجویز اس وقت میرے دل میں آئی جب ابھی اس سال کے آغاز میں کل دس ہزار افرادکی بیعتوں کی اطلاع ملی تھی اور (جلسہ سالانہ کی آمد تک ) سال کا بہت تھوڑا حصہ باقی رہ گیا تھا میں نے سوچا کہ میں نے کہا ہے کہ سال بھر میں ایک لاکھ بیعتیں ہونی چاہئیں تو اب بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے ۔ یہ ٹارگٹ کیسے پورا ہو گا۔تب میں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تجویز ڈالی اور پورا نقشہ سمجھادیا کہ عالمی بیعت اس طرح سے ہو ۔ اور جماعت کو عالمی بیعت میں شمولیت کے لئے تیار کیا جائے ۔ تمام جماعتوں کو ٹارگٹ دیئے گئے۔حضور نے فرمایا ٹارگٹ بہت بڑھا کر رکھنے پڑے۔ کئی جگہ پر یہ ٹارگٹ ظاہری لحاظ سے غیر حقیقی تھے ۔ بعض جگہ جہاں گزشتہ دس سال میں100بیعتیں بھی نہیں ہوئیں تھیں ۔ ان کو پانچ ہزار کا ٹارگٹ دیا گیا۔ اللہ نے ذہن میں یہ تجویز ڈالی تھی ۔ اسی بات نے دل کو تقویت دی اور سہارا دیا کہ گویا اللہ تعالیٰ اس تحریک کا ذمہ دار ہے۔
(الفضل 5؍اگست 1993ء)
السلام علیکم کا تحفہ
حضور کی مجلس عرفان میں سوال ہوا کہ ’’السلام علیکم کا جو کشف حضور نے دیکھا تھا، کیا اس میں حضور کو تمام مضرات سے محفوظ رکھنے کا وعدہ تھا؟‘‘۔ حضورؒ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ایسا واقعہ میرے ساتھ ایک مرتبہ منصب خلافت پر فائز ہونے سے قبل بھی پیش آیا تھا۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے جماعت کے خلاف مہم چلائی تھی۔ ایک موقعہ اس دوران ایسا بھی آیا کہ جب کہ نہ صرف بعض مشکلات درپیش آنے کا خطرہ تھا بلکہ جماعت کو نقصان کا بھی خطرہ تھا۔ میرے سمیت بعض کارکن سلسلہ کے خلاف مرکزی حکومت کوئی کارروائی کرنا چاہتی تھی ان دنوں ایک مرتبہ میں دعا کرتا ہوا لیٹ گیا اور لیٹے ہوئے بھی دعائیں کر رہا تھا کہ میری دائیں کان میں بڑی صاف آواز میں تین مرتبہ کسی نے السلام علیکم کہا یہ آواز اس قدر واقعی اور یقینی تھی کہ اس پیغام میںکسی شک اورشبہ کی گنجائش نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے صبح بڑی تسلی سے اپنے ساتھیوں کو بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے گا اور ہمیں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اس مرتبہ بھی جو السلام علیکم کا پیغام خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا وہ بھی ایسا یقینی اور واقعی تھاکہ اس سے جماعت کی حفاظت کے بارے میں پوری تسلی ہو گئی ۔
(ضمیمہ ماہنامہ خالد اگست 85ء ص 8)
حضور نے 24؍ مارچ 1989ء کو جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کے پہلے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’وہ خدا جس کے قبضہ قدرت میں میر ی جان ہے اس کو گواہ ٹھہرا کر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار اور محبت کے ساتھ واضح اور کھلی کھلی آواز میں اس صدی کا پہلا الہام مجھ پر یہ نازل کیا کہ السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ تا کہ میں اسے تمام دنیا کی جماعتوں کے سامنے پیش کر سکوں۔ دنیا چاہے ہزار لعنتیں آپ پر زبانی ڈالتی پھرے۔ کروڑ کوششیں کرے آپ کو مٹانے کی مگر اس صدی کے سر پر خدا کی طرف سے نازل ہو نے والا سلام ہمیشہ آپ کے سروں پر رحمت کے سائے کئے رکھے گا ۔ پس وہ مخلصین جو اس آواز کو سن رہے ہیں اور وہ سب احمدی جو اس آواز کو نہیں سن رہے سب کو ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ) پہنچے ۔ مجھے کامل یقین ہے کہ یہ سلام ان احمدیوں کو بھی پہنچے گا جو ابھی پیدا نہیں ہوئے، ان احمدیوں کو بھی پہنچے گا جو ابھی احمدی نہیں ہوئے ۔ان قوموں کو بھی پہنچے گا جن تک ابھی احمدیت کا پیغام نہیں پہنچا۔ آئندہ سوسال میں احمدیت نے جو ترقی کرنی ہے ہم ابھی اس کا تصور بھی نہیں باندھ سکتے۔ لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ دنیا میں جہاںبھی احمدیت پھیلے گی ان سب کو اس سلام کا تحفہ ہمیشہ ہمیش پہنچتا رہے گا مجھے کامل یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو خدا تعالیٰ تقویٰ کی نئی لہر اس صدی کے لئے بھی جاری کرے گا اور رحمتوں کے نئے پیغام آئندہ صدی کے لئے خود پیش فرمائے گا ۔‘‘
(روزنامہ الفضل4؍۱پریل1989ء)
نئی صدی کا نشان
حضور نے مئی1989ء میں جرمنی کے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے بتا یا کہ لاہور کی جماعت نے نئی صدی کی مبارکباد کے طور پر ایک پلیٹ بھجوائی ہے جس پر حضرت مسیح موعودؑ اور ان کے خلفاء کے دستخط اور منارۃ المسیح کی تصویر ہے اس کے بعد فرمایا :
آج رات اللہ تعالیٰ نے رؤ یا میں مجھے اس سے بھی زائد اچھوتا خیال دکھایا اور اس عجیب اور دلچسپ رؤیا کا جرمنی کی جماعت کے ساتھ تعلق ہے۔ خواب میں یہ تأثر شروع ہوا کہ جماعت جرمنی صد سالہ جشن تشکر کے طور پر نئے انداز میں خوبصورت سانشان یا مجسمہ بطور یا دگار بنانا چاہتی ہے۔ اس میں ایک سے زائد خیالات پیش نظر رکھے گئے ہیںجن کے پیش کرنے کا انداز خاص ہے، جیسے انہوں نے یہ منارہ بنایا ہے جو غالباً شریف خالد صاحب کی ڈیزائننگ یا برین ویو ( Brain Wave) تھی کہ جس جگہ سے میں خطاب کروں وہ منارۃ المسیح کی شبیہ کا ہو ۔ گویا حضرت مسیح موعودؑ کو جس کشفی رنگ میں منارہ دکھایا گیا اور معنوی طور پر جس مینار کی خوشخبری دی گئی تھی اس کو ظاہری نشان کے طور پر آج یہاں دکھایا گیا اور اس مینار سے میں آپ کو مخاطب کروں۔
لیکن رؤیا میں کچھ اور انداز اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس وقت خدا تعالیٰ مجھے ایک اور نظارہ دکھاتا ہے کہ یہ بھی اچھے اظہارہیں مگر میں جو اظہار چاہتا ہوں وہ اس طرح ہونا چاہئے اور اس میں ایک بلاک دکھایا گیا جس طرح پلاسٹک کا بلاک ہو تا ہے مگر اس میں خم اتنے خوبصورت ہیں کہ نظر پر جادو کرتے ہیں اور میں حیرت سے دیکھتا ہوں کہ اتنی خوبصورت چیز بھی کوئی دنیامیں ہو سکتی ہے۔ اس بلاک پر کچھ کنندہ نہیں ہے مجھے غالب کا مصرعہ

’’موج خرام ناز بھی کیا گل کتر گئی‘‘

یاد آگیا۔ ایک حیرت انگیز آرٹ کا مجسمہ تھا اور اس کے اوپر دنیا کا گلوب تھا۔ میرے دل میں یہ بات چھا گئی کہ یہ نشان ہے جو اگلی صدی کا نشان ہے، اس وقت میرے ذہن میں یہ تعبیر نہیں آئی مگر رؤیا ختم ہوتے ہی میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ اگلی صدی دوسری منزل ہے اور دوسری منزل میں تمام دنیا پر ہمارا غلبہ ہونا ہے۔
(روزنامہ الفضل 5 جون 89ء)

اَلَیْسَ اﷲُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

خطبہ جمعہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۹۷ء میں فرمایا:
گیمبیا میں جو شرارت چل رہی تھی اس کے متعلق میں نے پہلے بھی آپ کو بتایا تھا کہ خداتعا لیٰ نے مجھے

اَلَیْسَ اﷲ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

کے ذریعہ بار بار خوشخبری دی اور اس کے بعد میں نے فکر کرنا بند کر دیا۔
(الفضل انٹر نیشنل28نومبر1997ء)
نورالدین بنا دیا
حضور اپنے سفر ہجرت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب شروع میں انگلستان پہنچا ہوں تو لازم بات ہے کہ کئی قسم کی فکریں تھیں اور میں نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ جماعت سے کوئی گزارہ نہیں لینا ، جو بھی صورت ہو گی اﷲ تعالیٰ حفاظت فرمائے گا اور دعا کی کہ اﷲتعا لیٰ انتظام فرمائے۔ رات میں نے رؤیا میں دیکھا کہ خدا تعا لیٰ نے مجھے کہا کہ ’’ تم سے نور الدین کا سلوک کیا جائے گا‘‘۔
نور الدین حضر ت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ تھے اور آپ کے ساتھ خداتعا لیٰ کا خاص سلوک تھا کہ بغیر مانگے ، بغیر کسی طلب کے عین ضرورت کے وقت غیب سے ضروریات پوری ہوتی چلی جاتی تھیں۔ یہ رؤیا میں نے کسی کو نہیں بتائی لیکن دوسرے یا تیسرے دن بی بی نے خواب میں دیکھا اور مجھے بڑے مسکرا کر خواب سنائی کہ میں نے دیکھا کہ مسجد اقصیٰ میں مہر آپا (سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ) مٹھائی تقسیم کر رہی ہیں اور کوئی پوچھتا ہے کہ یہ مٹھائی کس بات کی تقسیم ہو رہی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ اس بات کی کہ خداتعالیٰ نے میرا ذکر کر کے ان کو الہام کیا ہے کہ میں تجھے نورالدین بنارہا ہوں۔ ایک خواب مجھے دکھائی گئی ہے، اس کی تائید میں اﷲ تعالیٰ نے بی بی کو رؤیا دکھا ئی اور اس کا پھر عملی ثبوت فوری طور پر ظاہر فرمایا کہ دوسرے دن جب مَیں دفتر گیا ہوں تو وہاں میز پر چالیس پائونڈ کا ایک بِل پڑا تھا جو میرے کسی داماد نے رکھا تھا کہ مجھ سے لے لے۔ مَیں نے اس سے کہا کہ شام کو ملاقات کے وقت آکے لے جانا، حالانکہ ایک پیسہ بھی میرے پاس نہیں تھا اور ملاقات کے وقت اور اس کے درمیان میں کسی پیسے کے بظاہر آنے کا کوئی سوال بھی نہیں تھا۔ لیکن ان کے جانے کے بعد بعینہٖ چالیس پاؤنڈ کا تحفہ کہیں سے آگیا۔ ایک لفافہ دیکھا تو اس میں چالیس پائونڈ کا تحفہ تھا اور جب وہ آئے تو میں نے ان کو پیش کر دیا۔
(الفضل انٹر نیشنل 4نومبر1994ء)
حضور نورالا مین
حضور نے 19؍اکتوبر 1983ء کو محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مربی سلسلہ کے نام تحریر فرمایا:-
آج صبح نماز کے بعدلیٹا تو دوبارہ آنکھ کھلنے کے بعد ایک دو منٹ بستر پر لیٹا رہا۔ اسی حالت میں میرے کندھے کے پاس سے عزیزم مبارک کھوکھر کی دو مرتبہ بالکل واضح آواز سنائی دی: ’’حضور نورالامین ، حضور نورالامین‘‘۔
جب یہ آواز بند ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ الہامی کیفیت تھی۔ لیکن اس کا مطلب نہیں سمجھ سکا کہ کیا پیغام ہے۔ ایک بات مگر قطعی ہے کہ یہ الہام بہت مبشر ہے کیونکہ مبارک کی آواز میں سنائی دیا نیز آواز میں بڑی محبت پائی جاتی تھی جس کی کیفیت بیان کرنی مشکل ہے۔ اس سفر میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعض خوشخبریاں عطا فرمائیں ۔
(کیفیات زندگی ص 645)
معصوموں کی رہائی
اسیران راہ مولیٰ ساہیوال رہائی پا کر 27 جو لائی 1994ء کو لندن پہنچے توحضورؒ نے ان کی اعزاز میں منعقد کی جانے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: دوسرا نشان ہمارے اسیران راہ مولیٰ کا موت کے چنگل سے نکل آنا ہے جس پر ضیاء کے قلم کی سیاہی گواہ تھی کہ ضرور یہ موت کے چنگل میں ڈالے جائیں گے لیکن خدا کی روشنائی میں کچھ اَور آسمان پر لکھ رکھا تھا اور یہ گواہی بھی خدا کے فضل سے بڑی شان کے ساتھ حیرت انگیز طریق پر پوری ہوئی اور آج ہمارے سامنے یہ زندہ سلامت موجود ہے۔
حضور نے فرمایا کہ جب مجھے یہ اطلاع ملی کہ ضیاء الحق نے موت کی سزا صرف ایک شخص کے لئے نہیں رہنے دی بلکہ زیادہ معصوموں پر اس سزا کو پھیلا دیا ہے تو انہی دنوں میں بہت بیقراری سے دعاؤں کا موقع ملا اور میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ الیاس منیر کھلی فضا میں ایک چارپائی پر میرے پاس بیٹھا ہوا ہے۔اسی وقت میں نے سب کو بتا دیا اور بارہا خطوں کے ذریعہ بھی تسلی دی کہ دنیا اِدھر سے اُدھر ہو سکتی ہے مگر الیاس منیر کی گردن میں پھانسی کا پھندا نہیں پڑے گا۔اور میں سمجھتا ہوں کہ اس ایک کے سایہ میں یہ سارے بھی اللہ کے فضل سے شامل تھے۔ وہ ان کا سردار تھا، وہ جماعت کا نمائندہ تھا اور خدا کے نزدیک اس کے وقف کی وجہ سے اس کا ایک مرتبہ تھا،اور ہے۔پس جو بات میں اس وقت نہیں سمجھ سکا تھا وہ بعد میں حالات نے روشن کی۔ وہ یہ تھی کہ محض ایک الیاس کی خوشخبری نہیں تھی بلکہ ان معصوموں کی رہائی کی خوشخبری اس ایک خوشخبری میں شامل تھی۔
(الفضل انٹر نیشنل 12؍اگست 1994ء)
مٹھائی کے ڈبے
3ستمبر 1988ء کو حضورؒ نے نیروبی (کینیا) سے یوگنڈا روانگی کے وقت ہوائی اڈہ پر فرمایا کہ مباہلہ کے بارہ میں رؤیا کے ذریعہ مزید کامیابیوں کی خوشخبری دی گئی ہے۔ اور خواب میں دیکھا ہے کہ مٹھائی کے چارڈبے ہیں جنہیں مَیں مولوی نورالحق صاحب کو تقسیم کرنے کے لئے دے رہا ہوں اور انہیں کہا ہے کہ مسجد کے چاروں دروازوں میں کھڑے ہو کر تقسیم کریں۔ ان میں سے تھوڑی تھوڑی مٹھائی تبرک کے طور پر میں خود بھی لیتا ہوں۔ حضور انور نے فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب مباہلہ کے نتیجہ میں مزید کامیابیوں کی خوشخبری ملنے والی ہے۔
(ضمیمہ ماہنامہ انصاراللہ ستمبر88ء ص 13)
آسمان کی سیر
3؍ فروری 2003ء کو حضور نے فرانسیسی مجلس سوال وجواب میں اپنی رؤیا بیان فرمائی کہ میں گھوڑے پر چڑھا ہوں اور آسمان کے دوتین چکر لگا کر واپس آیا ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں