سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا عظیم مقام

رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری و فروری 2010ء میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے عظیم مقام اور اخلاق کے بارہ میں ایک مضمون (مرتّبہ مکرم نوید احمد صاحب) شامل اشاعت ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عیسیٰ ابن مریم جب تشریف لائیں گے تو شادی کریں گے اور اُن کو اولاد دی جائے گی۔ پس یقینا یہ ایک اہم واقعہ تھا جو دور ِ آخر میں وقوع پذیر ہونا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم کو ایک ایسا نیک بیٹا عطا کرے گا جو نیکی کے لحاظ سے اپنے باپ کے مشابہ ہو گا نہ کہ مخالف اور وہ اﷲ تعالیٰ کے معزز بندوں میں سے ہو گا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وہ غیرمعمولی بیٹا حضرت اقدسؑ کو عطا فرمایا جس کی عمر کے ہر دَور نے اُس کی عظمت پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں کہ اس عاجز نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت 1890ء کے اخیر میں کر لی تھی اور اس وقت سے ہمیشہ آمد و رفت کا سلسلہ متواتر جاری رہا۔ میں حضرت مرزا محمود احمد کو ان کے بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح ہمیشہ ان کی عادت حیا اور شرافت اور صداقت اور دین کی طرف متوجہ ہونے کی تھی۔ نمازوں میں اکثر حضرت اقدسؑ کے ساتھ جامع مسجد میں جاتے اور خطبہ سنتے ۔ ایک دفعہ جب آپ قریباً دس سال کے تھے تو آپ مسجداقصیٰ میں حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ نماز میں کھڑے تھے اور سجدہ میں بہت رو رہے تھے ۔
حضرت شیخ محمد اسماعیل سرساوی صاحبؓ کا بیان ہے کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے آپؓ کے بچپن کو دیکھا اور پھر اسی بچپن میں آپ کے ایثار اور آپ کی نیکی اور تقویٰ کو خوب دیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ آپ کے قلب میں دین کا ایک جوش موجز ن تھا او ر بچپن ہی سے آپ دعاؤں میں اس قدر محو اور غرق ہوتے تھے کہ ہم تعجب سے دیکھا کرتے تھے کہ یہ جوش ہم میں کیوں نہیں ؟ آپ بعض وقت دعا میں ایسے محو ہوتے تھے کہ ہم ہاتھ اٹھائے اٹھائے تھک جاتے تھے لیکن آپ کو اپنی محویت میں اس قدر بھی معلوم نہ رہتا کہ کس قدر وقت گزر گیاہے۔چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سورج گرہن کی نماز پڑھنے کے لئے ہم مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے۔ نماز مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے پڑھائی اور نما ز کے بعد مولوی صاحب نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے عرض کی کہ ’’میاں آپ دعا شروع کریں ‘‘۔ آپ نے دعا شروع کی مگر آپ اس دعا میں ایسے محو ہوئے کہ آپ کو یہ خبر ہی نہ رہی کہ میرے ساتھ اور لوگ بھی دعا میں شریک ہیں۔ دعا میں جس قدر لوگ شامل تھے ان کے ہاتھ اٹھے اٹھے اس قدر تھک گئے کہ وہ شل ہونے کے قریب ہوگئے اور کئی کمزور صحت کے لوگ تو پریشان ہوگئے ۔ تب مولوی محمد احسن صاحب نے جو خود بھی تھک چکے تھے دعا کے خاتمہ کے الفاظ بلند آواز میں کہنے شروع کئے جسے سن کر آپؓ نے دعا ختم کی ۔
حضرت شیخ محمد اسمٰعیل صاحبؓ مزید فرماتے ہیں کہ ہم نے بار ہا حضرت مسیح موعودؑ سے سنا ہے کہ وہ لڑکا جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے وہ میاںمحمود ہی ہیں اور ہم نے آپؑ سے یہ بھی سنا کہ ’’میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ میں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں ‘‘۔
حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں نے یہ ارادہ کیاکہ آج کی رات مسجد مبارک میں گزاروں گا اور تنہائی میں اپنے مولا سے جو چاہوں گا مانگوں گا۔ مگر جب مَیںمسجد میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدہ میں پڑا ہوا ہے اور الحاح سے دعا کر رہا ہے ۔ اس کے اس الحاح کی وجہ سے میں نماز بھی نہ پڑھ سکا اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ پر بھی طاری ہوگیا اور میں بھی اس دعا میں محو ہو گیا کہ یا الٰہی! یہ شخص تیرے حضور سے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے وہ اس کو دیدے۔ اور میں کھڑا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے۔ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے مگر جب آپ نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ہیں ۔ میں نے السلام علیکم کہاا ورمصافحہ کیا اور پوچھا میاں! آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ ’’ میں نے تو یہی مانگاہے کہ الٰہی مجھے میری آنکھوں کے سامنے اسلام کو زندہ کر کے دکھا‘‘۔
پندرہ برس کی عمر میں 1905ء میں حضرت مرزا محمود احمدؓ کو پہلا الہام ہواجو عربی میں تھا۔(ترجمہ) ’’وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائیں گے ان لوگوں پر جو تیرے مخالف ہوں گے قیامت تک غالب رہیں گے‘‘۔
بچپن میں حضورؓ کے استاد حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ نے ایک دفعہ آپؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کو بھی کوئی الہام ہوتاہے یا خوابیں آتی ہیں ؟ تو فرمایا: ’خوابیں تو بہت آتی ہیں اور مَیں ایک خواب تو قریباً روز ہی دیکھتا ہوں … کہ ایک فوج ہے جس کی میں کمان کر رہا ہوں اور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ سمندروں سے گزر کر آگے جاکر حریف کا مقابلہ کر رہا ہوں اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اگر میں نے پار گزرنے کے لئے اور کوئی چیز نہیں پائی تو سرکنڈے وغیرہ سے کشتی بنا کر اس کے ذریعہ پار ہو کر حملہ آور ہو گیا ہوں‘۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جن دنوں کلارک کا مقدمہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اوروں کو دعا کے لئے کہا تومجھے بھی کہا کہ دعا اور استخارہ کرو۔ مَیں نے اس وقت رؤیا میں دیکھاکہ ہمارے گھر کے ارد گرد پہرے لگے ہوئے ہیں۔ مَیں اندر گیا جہاں سیڑھیاں ہیں وہاں ایک تہہ خانہ ہوتا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ حضرت صاحبؑ کو وہاں کھڑا کر کے آگے اُپلے چن دیئے گئے ہیں اور ا ن پر مٹی کا تیل ڈال کر کوشش کی جا رہی ہے کہ آگ لگا دیں۔ مگر جب دیا سلائی سے آگ لگاتے ہیں تو آگ نہیں لگتی۔ وہ بار بار آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتے۔ میں اس سے بہت گھبرایا لیکن جب میں نے اس دروازہ کی چوکھٹ کی طرف دیکھا تو وہاں لکھا تھا کہ ’جو خدا کے بندے ہوتے ہیں ان کو کوئی آگ جلا نہیں سکتی‘۔
1907ء میں آپؓ کو ایک فرشتہ نے رؤیا میں سورۃ الفاتحہ کی تفسیر سکھائی۔ فرمایا: یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بیج کے طور پر میرے دل و دماغ میں قرآنی علوم کا خزانہ رکھ دیا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا: اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً (میں اپنی افواج کے ساتھ اچانک تیری مدد کے لئے آؤں گا)۔ اسی رات ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو آج یہ الہام ہوا ہے۔ جب صبح ہوئی تو مفتی محمد صادق صاحبؓ نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ پر جو تازہ الہامات ہوئے ہوں وہ اندر سے لکھوالاؤ تاکہ وہ اخبار میں شائع کر دیں۔ اُس روز حضرت مسیح موعودؑ نے جب الہامات لکھ کر دیئے تو جلدی میں آپ یہ الہام لکھنا بھول گئے اِنِّیْ مَعَ الۡاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً ۔ مَیں نے جب ان الہامات کو پڑھا تو شرم کی وجہ سے یہ جرأت بھی نہ کر سکتا تھا کہ آپؑ سے اس بارہ میں کچھ عرض کروں اور یہ بھی جی نہ مانتا تھا کہ جو مجھے بتایا گیا تھا اسے غلط سمجھ لوں ۔ اسی حالت میں کئی دفعہ میںآپ سے عرض کرنے کے لئے دروازہ کے پاس جاتا مگر پھر لَوٹ آتا۔ پھرجاتا اور پھر لوٹ آتا۔ آخر میں نے جرأت سے کام لے کر کہہ ہی دیا کہ رات مجھے ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو الہام ہؤاہے

اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔

مگر ان الہامات میں اس کا ذکر نہیں۔ آپؑ نے فرمایا یہ الہام ہؤ اتھا مگر لکھتے ہوئے میںبھول گیا ۔ چنانچہ کاپی کھولی تو اس میں وہ الہام بھی درج تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے پھر اس الہام کو بھی اخبار میں اشاعت کے لئے درج فرمایا۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام ایک دفعہ سالانہ جلسہ پر تقریر کرکے واپس گھر تشریف لائے تو میاں صاحب سے جن کی عمر 10،12 سا ل کی ہوگی پوچھا کہ میاں یاد بھی ہے کہ آج میں نے کیا تقریر کی تھی؟ میاں صاحب نے اس تقریر کو اپنی سمجھ اور حافظہ کے موافق دہرایا تو حضورؑ نے بہت خوش ہوکر فرمایا کہ : ’’ خوب یاد رکھا ہے‘‘۔
حضرت بھائی عبد الرحمن قادیانیؓ فرماتے ہیں کہ ’تشحیذ الاذہان‘ کا پہلا اورابتدائی نام ’انجمن ہمدردان اسلام‘ تھا جبکہ سیدنا محمود بمشکل آٹھ نو برس کے تھے۔ یہ آپؓ کے دینی شغف اور روحانی ارتقاکی پہلی سیڑھی تھی جو حقیقتاً آپ ہی کی تحریک ،خواہش اور آرزو پر قائم ہوئی تھی۔ کھیل کود اوربچپنے کے دوسرے اشغال میں انہماک کے باوجود آپ کے دل میں خدمت دین کا ایسا جوش اور جذبہ نظر آیا کرتا تھا جس کی نظیر بڑے بوڑھوں میں بھی شاذ ہی ہوتی ہے۔ اسی عمر میں آپؓ نے انجمن کے ایک اجلاس میں تقریر بھی کی جس کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے اس تقریر اور حضرت میاں صاحبؓ کے قوّت بیان کی بہت تعریف کی۔
جلسہ سالانہ 1906ء پر حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے 17 سال کی عمر میں پہلی پبلک تقریر فرمائی جو ردّ شرک میں تھی اور ’’چشمہ توحید‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئی۔ یہ حقائق قرآنی کا ایک خزانہ ہے۔ بعد میں حضورؓ نے خود فرمایا:’’اب میںخود اس تقریر کو پڑھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ وہ باتیں کس طرح میرے منہ سے نکلیں اور اگر اب بھی وہ باتیں بیان کروں تو یہی سمجھوں گا کہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے سمجھائی ہیں‘‘۔
حضور علیہ السلام کے ساتھ اپنی محبت کے حوالہ سے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ بیوقوفی کے واقعات میں مجھے بھی اپنا ایک واقعہ یاد ہے۔ کئی دفعہ اس واقعہ کو یاد کرکے میں ہنسا بھی ہوں اور بسا اوقات میری آنکھوں میں آنسو بھی آگئے ہیں۔ مگر میں اسے بڑی قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا کرتا ہوں اور مجھے اپنی زندگی کے جن واقعات پر ناز ہے ان میں وہ ایک حماقت کا واقعہ بھی ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک رات ہم سب صحن میں سو رہے تھے کہ آسمان پر بادل آیا اور زور سے گرجنے لگا۔ اسی دوران زوردار کڑک کے ساتھ کہیں بجلی گر گئی۔ اُس وقت مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اندر کی طرف جانے لگے تو مَیں نے اپنے دونوں ہاتھ آپؑ کے سر پر رکھ دیئے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے ان پر نہ گرے۔ بعد میں مجھے اس حرکت پر ہنسی آئی کہ ان کی وجہ سے تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا نہ کہ ہماری وجہ سے وہ بجلی سے محفوظ رہتے۔
مارچ 1906ء سے آپؓ کی ادارت میں رسالہ ’تشحیذ الاذہان‘ نکلنا شروع ہوا۔ اس نے اسلام کا درد رکھنے والے نوجوانوں میں خدمت اسلام اور اشاعت اسلام کی ایک نئی روح پھونک دی۔ پہلے شمارہ میں آپ نے چودہ صفحات کا ایک شاندار تعارف لکھا جسے پڑھ کر حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ نے بہت خوشی کا اظہار کیااور نیز خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمدعلی صاحب کو خصوصیت سے اس کے پڑھنے کی ہدایت کی۔ مولوی محمد علی صاحب نے ’ریویو آف ریلیجنز‘ اردو میں اس پر ریویو کیا اور مضمون کا آخری حصہ درج کر کے لکھا: اس وقت صاحبزادہ صاحب کی عمر اٹھارہ سال کی ہے اور تمام دنیا جانتی ہے کہ اس عمر میں بچوں کا شوق اور امنگیں کیا ہوتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اگر وہ کالجوں میں پڑھتے ہیں تو اعلیٰ تعلیم کا شوق اور آزادی خیال ان کے دلوں میں ہوگا۔ مگر دین کی یہ ہمدردی اور اسلام کی حمایت کا یہ جوش جو اوپر کے بے تکلف الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے ایک خارق عادت بات ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد پہلے جلسہ سالانہ پر حضورؓ کی تقریر سن کر حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے تحریر فرمایا: آپ کی آواز اور آپ کی ادا او ر آپ کا لہجہ اور طرز تقریر حضرت مسیح موعودؑ کی آواز اور طرز تقریرسے ایسے شدید طورپر مشابہ تھے کہ سننے والوں کے دل میں حضرت مسیح موعودؑ کی یاد تازہ ہوگئی… جب تقریر ختم ہوچکی تو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا کہ ’میاں نے بہت سی آیات کی ایسی تفسیر کی ہے جو میرے لئے بھی نئی تھی‘۔ یہ واقعہ آپ کے علم قرآن کے علاوہ آپ کی زبردست قوت بیانیہ اور فن تقریر میں درک پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔
خلافتِ اولیٰ میں حضورؓ نے قرآن کریم کا درس بھی دیا جس میں مکرم محمد ایوب صاحب کو بھی چند روز شامل ہونے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں: ’اس قلیل عرصہ میںمجھ پر حضور کے عشق و فہم قرآن کریم، طہارت و تقویٰ، تعلق باللہ ، اجابت دعااور مطہر زندگی کا گہرا اثر ہوا جو کہ باوجود مرور زمانہ کے دل سے ہر گز دور نہیں ہوا‘۔
1911ء کے اوائل میں آپؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی اجازت سے ایک رؤیا کی بِنا پر تبلیغ کے لئے انجمن انصار اللہ قائم فرمائی جس کے ممبران کا یہ فرض قرار دیا کہ وہ خدمت دین کے لئے اپنے وقت کا کچھ نہ کچھ حصہ لازماً دیں اور لوگوں کے لئے پاک نمونہ بنیں ۔ اس انجمن نے داعیان الی اللہ کی ایک جمعیت تیار کر دی جس نے آئندہ چل کر احمدیت کی ترقی اور اشاعت میں بھرپور حصہ لیا۔ چنانچہ 1913ء میںجب حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ کو لندن میں بطورمبلغ سلسلہ بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا تو رقم کی نایابی کی وجہ سے معاملہ ملتوی ہوتا نظر آیا تو اسی انجمن کا صدر محمودؓ آگے بڑھا اور رقم جمع کر کے حضرت خلیفۃالمسیح کی خدمت میں پیش کی۔
جنوری 1914ء میں آپؓ نے خلیفۂ وقت کی اجازت سے ہندوستان بھر میںتبلیغِ دین کے لئے ایک سکیم تیار کی جس کے بعض حصے یہ تھے: 1۔ ہندوستان کے تمام شہروں اور قصبوں میں خاص طور پر جلسے کئے جائیں۔ 2۔ مختلف مقامات میں واعظ مقرر کئے جائیں۔ 3۔ ہر زبان میں ٹریکٹ شائع ہوں۔ 4۔ مناسب مقامات پر سکول کھولے جائیں۔
آپؓ کو خدا تعالیٰ نے سلطان البیان اور سلطان القلم کا مثیل بنانا تھا۔ چنانچہ آپ کی پہلی تصنیف ’’صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے ‘‘ 1908ء میں شائع ہوئی جبکہ آپؓ کی عمر صرف انیس سال تھی اور اس میں آپ نے ان مخالفین سلسلہ کے اعتراضات کے مفصل اور مدلل جواب دیئے جو انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات سے متعلق کئے تھے۔ جون 1913ء میں آپ نے قادیان سے اخبار ’الفضل‘ جاری کیاجو سلسلہ کی ایک لمبی تاریخ کا رازدان ہے۔
1903ء میں آپ نے شعر و سخن کی دنیا میں قدم رکھا۔ ابتداء میں آ پ شادؔ تخلص فرماتے تھے ۔آپ کا عارفانہ کلام پہلی مرتبہ مئی 1913ء میں شائع ہوا۔ آپؓ فرماتے ہیں: ’میرے اشعار میں سے … ایک چوتھائی یا ایک ثلث حصہ ایسا نکلے گا جو درحقیقت قرآن شریف کی آیتوں کی تفسیر ہے یا حدیثوں کی تفسیر ہے۔ … اسی طرح کئی تصوف کی باتیں ہیں جن کو ایک چھوٹے سے نکتہ میں حل کیا گیا ہے‘۔
جنوری 1906ء میں جب نظام وصیت کا نظم و نسق چلانے کیلئے صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو حضرت مسیح موعود ؑ نے آپ کو بھی مجلس معتمدین کے ارکان میں بطور ممبر نامزد فرمایا۔ اس حیثیت سے ابتدائی دور میں آپ کا ایک تاریخ ساز کارنامہ مدرسہ احمدیہ کو محفوظ رکھنا ہے ۔ جب انجمن کے بعض سرکردہ ممبران (جو بعد میں لاہوری جماعت میں شامل ہوگئے) کی خوشنما تقریروں کے نتیجہ میں مدرسہ احمدیہ بند ہوتا نظر آرہا تھا۔ اس وقت حضورؓ کی ایک بے پناہ جذباتی مگر مدلل تقریر نے دل پھیر دیے اور یہی مدرسہ احمدیہ ہے جو جماعت کی علمی اور تربیتی درسگاہ ہے اور آج جامعہ احمدیہ کے نام سے مصروف عمل ہے۔
1910ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے مدرسہ احمدیہ کی نگرانی آپ کو سونپ دی اور آپؓ نے بڑی محنت اور دعاؤں سے اس کا معیار بہت بلند کیا۔
24؍جولائی 1910ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے اپنے سفر ملتان کے دوران حضرت میاں صاحب کوپہلی دفعہ امیر مقامی مقرر فرمایا۔ خلافتِ اولیٰ کے آخری ایام میں آپؓ نے نظام خلافت کے استحکام کے لئے زبردست جدو جہد فرمائی۔ حضورؓ کے ارشاد پر نمازوں کی امامت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ 13؍ مارچ 1914ء کو حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات ہوئی اور اگلے روز اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو پچیس سال کی عمر میں منصب خلافت پر فائز کر دیا۔ آپؓ کا دورِ خلافت شاندار ترقیات و فتوحات سے عبارت ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’میں علمی طور پر بتلاتا ہوں کہ میں نے حضرت صاحبؑ کو والد ہونے کی وجہ سے نہیںمانا تھابلکہ جب میں گیارہ سال کے قریب کاتھا تو میں نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں وہ نعوذ باللہ جھوٹے نکلے تو میں گھر سے نکل جاؤں گا۔ مگر میں نے ان کی صداقت کو سمجھا اورمیرا ایمان بڑھتا گیا حتّٰی کہ جب آپ فوت ہوئے تو میرا یقین اور بھی بڑھ گیا‘‘۔
مزید فرماتے ہیں: ’’جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے تو چونکہ آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی جب کہ ابھی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئی تھیں اور چونکہ میں نے عین آپؓ کی وفات کے وقت ایک دو آدمیوں کے منہ سے یہ فقرہ سناکہ اب کیا ہو گا۔ عبدالحکیم کی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے، محمدی بیگم والی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے۔ تو ان باتوں کو سنتے ہی پہلا کام جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ میں خاموشی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاش مبارک کے پاس گیااور سرہانے کی طرف کھڑے ہو کر میں نے خدا تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہا اے خدا! مَیں تیرے مسیح کے سرہانے کھڑے ہو کر تیرے حضور یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی پھر گئی تو میں اُس دین اور اس سلسلہ کی اشاعت کے لئے کھڑا رہوں گاجس کو تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم کیا ہے۔ میری عمر اس وقت انیس سال کی تھی اور انیس سال کی عمر میںبعض اور لوگوں نے بھی بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ مگر وہ جنہوں نے اس عمر میں شاندار کام کیے ہیں وہ نہایت ہی شاذ ہوئے ہیں۔ کروڑوں میں سے کوئی ایک ایسا ہوا ہے۔ جس نے اپنی اس عمر میں کوئی شاندار کام کیا ہو۔ بلکہ اربوں میں سے کوئی ایک ایسا ہوا ہے اور مجھے فخر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس موقع پر مجھے یہ فقرہ کہنے کا موقع دیا۔
سیدناحضرت مصلح موعودؓ اپنے بچپن سے ہی حضرت مسیح موعودؑ کی غیرمعمولی اطاعت کرتے تھے۔ بچپن میں ٹوپی پہنا کرتے تھے لیکن ایک دفعہ عید کے روز آپ نے ٹوپی پہن رکھی تھی کہ حضورؑ نے فرمایا: میاں! تم نے عید کے دن بھی ٹوپی پہنی ہے۔ آپؓ نے اسی وقت ٹوپی اتار دی اور پگڑی باندھ لی اور کچھ عرصہ بعدٹوپی کا استعمال ہمیشہ کے لئے ترک کر دیا۔
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ فرماتے ہیں: آپؓ کو بچپن میں حضرت مسیح موعودؑ نے یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی کھانے پینے کی چیز نہ لینا۔ ابتدا میں آپؓ میرے مکان پر پڑھنے کے لئے تشریف لاتے تھے اور وہ مکان حضرت مسیح موعودؑ کا ہی تھا۔ ہم غالباً تین سال اس میں رہے اور اس تمام عرصہ میں جب کبھی آپ کو پیاس لگتی تو آپ اٹھ کر اپنے گھر تشریف لے جاتے اور اپنے گھر سے پانی پی کر پھر واپس تشریف لاتے۔ خواہ کیسا ہی مصفا پانی کیسے ہی صاف اور ستھرے برتن میں آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا آپ اسے نہ پیتے، صرف اس لیے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے آپ کو ہدایت تھی کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی کھانے پینے کی چیز نہ لینا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی اطاعت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ خلافت اولیٰ کے زمانہ میں میں نے دیکھا کہ جو ادب اور احترام اور جو اطاعت اور فرمانبرداری آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی کرتے تھے اس کا نمونہ کسی اور شخص میں نہیں پایا جاتا تھا۔آپ کے ادب کا یہ حال تھا کہ جب آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خدمت میں جاتے تو آپ دوزانو ہو کر بیٹھ جاتے اور جتنا وقت آپ کی خدمت میں حاضر رہتے اسی طرح دوزانو ہی بیٹھے رہتے۔ میں نے یہ بات کسی اور صاحب میں نہیں دیکھی۔ اسی طرح آپ ہر امر میں حضورؓ کی پوری پوری فرمانبرداری کرتے۔
حضرت حکیم اللہ بخش صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ صاحب شکار کے لئے ہمارے علاقہ میں آئے تو لوگوں نے رات ٹھہرنے کی درخواست کی مگر آپ نے جواب دیا کہ میں حضرت خلیفۃ المسیح سے ایک ہی دن کی اجازت لے کر آیاہوں پھر کبھی آؤں گا تو رات ٹھہرنے کی اجازت لے کر آؤں گا۔ پھر اگلی بار اپنا وعدہ پورا کیا۔ لیکن آپؓ کی بات سے ہم نے اطاعتِ خلیفہ کا سبق سیکھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات سے چھ ماہ قبل حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے آج حضرت اقدس علیہ السلام کے اشتہارات پڑھ کر پتہ چل گیا کہ پسر موعود میاں صاحب ہی ہیں۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا: ’’ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کس خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں ‘‘۔ پیر صاحب موصوف نے یہی الفاظ لکھ کر تصدیق کے لئے پیش کئے تو حضورؓ نے ان پر تحریر فرمایا ’’یہ لفظ میں نے برادرم پیر منظور محمد سے کہے ہیں۔ نورالدین 10ستمبر 1913ئ‘‘ ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں : جب حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد مَیں نے ’’صادقوں کی روشنی کو کون دُور کر سکتا ہے ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تو حضرت خلیفہ اول نے مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ مولوی صاحب مسیح موعودؑ کی وفات پر مخالفین نے جو اعتراض کئے ہیں ان کے جواب میں تم نے بھی لکھا ہے اور میں نے بھی۔ مگر میاں ہم دونوں سے بڑھ گیا ہے۔ پھر یہ کتاب حضرت مولوی صاحبؓ نے بذریعہ رجسٹری مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھیجی۔ کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ مرزا صاحب کی اولاد اچھی نہیں ہے۔ اس لئے یہ کتاب بھیج کر حضرت مولوی صاحبؓ نے ان کو لکھوایا کہ حضرت مرزا صاحب کی اولاد میں سے ایک نے تو یہ کتاب لکھی ہے، تمہاری اولاد میں سے کسی نے کوئی کتاب لکھی ہوتو مجھے بھیج دو۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی محبت کے انداز ہی تھے کہ آپؓ نے اپنی وفات سے قبل اپنے فرزند میاں عبد الحئی کو بلایا اور جو باتیں کیں ان میں یہ بھی فرمایا: ’’حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور خدا کا برگزیدہ انسان سمجھتا ہوں۔ مجھے ان سے اتنی محبت تھی کہ جتنی میں نے ان کی اولاد سے کی، تم سے نہیں کی‘‘۔
محترم ملک غلام فرید صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے اپنے صاحبزادہ میاں عبد الحئی صاحب مرحوم کو فرمایا: ’’میاں تم سے ہمیں بہت محبت ہے ۔لیکن حضرت صاحب کی اولاد ہمیں تم سے بھی زیادہ پیاری ہے ‘‘۔
مکرم مولانا ظہور حسین صاحب کا بیان ہے کہ ایک دن حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے سادہ لفافہ میں ایک خط مجھے دے کر فرمایا کہ میاں محمود احمد صاحب کو دے آؤ۔ میں نے راستہ میں وہ خط پڑھا تو میری حیرانی کی حد نہ رہی کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے حضرت میاں صاحب کو اس طرح ادب اور محبت سے مخاطب کیا ہوا تھا جس طرح کسی بڑے بزرگ کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس خط میں جھگڑا کرنے والے بعض احمدیوں کی اصلاح کے لئے دعا کرنے کو کہا گیا تھا۔
جون 1912ء میںاحمدیہ بلڈنگ لاہور میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے فرمایاـ : ’’مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود ، بشیر ، شریف ، نواب ناصر، نواب محمد علی خان کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا۔ میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ ایک امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں ۔ ان کو خدا کی رضا کے لئے محبت ہے … میاں محمود بالغ ہے اس سے پوچھ لو کہ وہ سچا فرمانبردار ہے۔ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ سچا فرمانبردار نہیں۔ مگر نہیں۔ مَیں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرمانبردار ہے …اور ایسا فرمانبردار ہے کہ تم میں سے ایک بھی نہیں‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں