سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اکتوبر 2002ء میں مکرم احمد طاہر مرزا صاحب نے بعض صحابہؓ کے بیان فرمودہ منتخب واقعات مرتب کئے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔
حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں حضرت اقدسؑ سے نیاز حاصل کرنے کے لئے لاہور سے دو دن کی رخصت لے کر آیا۔ رات بٹالہ پہنچا اور رات وہاں گزار کر صبح پیدل قادیان روانہ ہوگیا۔ ابھی سورج نکلا ہی تھا کہ قادیان پہنچ گیا۔ حضورؑ ایک جگہ راستہ میں مل گئے۔ سلام کے بعد دریافت کرنے پر بتایا کہ رات بٹالہ گزار کر وہاں سے پیدل ہی آرہا ہوں۔ حضورؑ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: تمہیں تو بڑی تکلیف ہوئی ہوگی۔ پھر پوچھا: چائے پیوگے یا لسی۔ مَیں نے کہا: حضور! کچھ نہیں۔ فرمایا: تکلّف کی ضرورت نہیں، ہمارے گھر گائے ہے جو تھوڑا سا دودھ دیتی ہے۔ گھر والے چونکہ دہلی گئے ہوئے ہیں اس لئے اس وقت لسی بھی موجود ہے اور چائے بھی۔ مَیں نے کہا: حضور! لسی پی لوں گا۔ حضورؑ نے مجھے مسجد مبارک میں بھیج دیا۔ تھوڑی دیر بعد حضورؑ خود ایک ہانڈی اورچینی اٹھائے ہوئے دروازہ سے نکلے۔ حضورؑ نے ہانڈی میرے سامنے رکھ دی اور اپنے دست مبارک سے گلاس میں لسی ڈالنے لگے۔ اس پر مَیں نے خود گلاس پکڑ لیا۔ پھر کچھ دوست اَور بھی آگئے اور ہم سب نے لسی پی اور حضورؑ خود ہی برتن اٹھاکر واپس تشریف لے گئے۔ حضورؑ کے اخلاق کریمانہ کی یہ ایک مثال ہے۔
حضرت نور احمد صاحب کابلیؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک سال بہت بارش ہونے پر ڈھاب کا پانی کناروں سے نکل آیا۔ میرا مکان ڈھاب کے کنارہ پر تھا اس لئے دیواروں تک پانی پہنچ گیا۔ قریب تھا کہ پانی مکان میں داخل ہوجاتا اور مکان گر جاتا کہ کسی نے حضور علیہ السلام سے میری پریشانی کا ذکر کردیا۔ صبح سیر کے وقت حضورؑ حضرت اماں جانؓ اور کچھ دیگر مستورات کے ساتھ میرے مکان میں تشریف لائے اور حالات دیکھ کر فرمایا: ’’اللہ اب رحم کرے گا، بارش بند ہونے پر دیواروں کے ساتھ مٹی ڈال لینا‘‘۔ حضورؑ نے جس دن یہ فرمایا اُس دن سے بارش ایک عرصہ تک بند رہی اور ہم نے مکان کے اردگرد مٹی ڈال لی۔ پھر بڑی بڑی بارشیں ہوئیں لیکن کبھی میرے مکان کو خطرہ محسوس نہیں ہوا۔
حضورؑ نے ایک بار حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ سے فرمایا کہ دعا دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک عام دعا ہے جو کہنے والوں کے لئے اور بوجہ ہمدردی سب کے لئے ہوتی ہے لیکن ایک خاص دعا ہے جو اُس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک کوئی شخص ہمارے دل میں اپنا درد نہ پیدا کردے۔ پس خاص دعا کرانے والے کو چاہئے کہ ہمارے سامنے رہ کر اور پاس آکر جس طرح اُس سے ہوسکے ہمارے دل میں درد پیدا کرے۔ مَیں جب کسی کے لئے خاص دعا کرتا ہوں تو پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کا جواب دیتا ہے مگر جب اپنی بیماری کے متعلق دعا کرتا ہوں تو اُس کا جواب نہیں ملتا جس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ مسیح دو زرد چادروں میں آئے گا اس لئے خدا تعالیٰ کو اپنے رسولﷺ کی زبان کا اس قدر پاس ہے کہ مَیں اپنی بیماری کے متعلق جو دعا کرتا ہوں تو اس کا جواب نہیں ملتا۔
حضرت سراج الدین صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ کا کاربنکل کا آپریشن ہوا اور اُن کی حالت نازک ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ مزید علاج بے سود ہے۔ حضورؑ کو اطلاع ہوئی تو آپؑ نے عام حکم دیدیا کہ سب دعائیں کریں اور خود بھی بیت الدعا میں دروازہ بند کرکے دعا میں مشغول ہوگئے۔ اُسی وقت مولوی صاحبؓ کی حالت سنبھلنے لگی اور وہ ہوش میں آگئے۔ اُسی شام ہم اُن سے ملنے گئے تو دیکھا کہ چند ہی گھنٹوں میں اُن کی حالت بدل چکی تھی۔ اگرچہ میرا اُن سے بہت تعارف نہ تھا لیکن انہوں نے نہ صرف پہچان لیا بلکہ کسی کے پوچھنے پر میرا نام اور گاؤں کا نام وغیرہ بھی بتادیا۔
حضرت مولوی محب الرحمن صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں اپنے والد حضرت منشی حاجی حبیب الرحمن صاحبؓ کے ہمراہ قادیان گیا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے ہمارے لئے چائے بھجوائی۔ والد صاحب جلدی جلدی چائے پی کر نیچے چلے گئے کیونکہ حضورؑ نے سیر پر جانا تھا اور انتظار فرما رہے تھے۔ کچھ دیر بعد والد صاحب بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور بتایا کہ حضورؑ میرا انتظار فرما رہے ہیں۔ مَیں نیچے پہنچا تو حضورؑ سیر کو چل پڑے۔ چونکہ مَیں کافی چھوٹا تھا اس لئے کچھ دُور جاکر مجھے واپس جانے کا حکم دیا تاکہ تھک نہ جاؤں۔
حضرت سید میر حامد شاہ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں نے قادیان سے رخصت ہونے کی اجازت حضور علیہ السلام سے ایک رقعہ گھر بھیج کر طلب فرمائی تو آپؑ نے فرمایا: ہم ابھی باہر آتے ہیں۔ حضورؑ کے دیدار کی خاطر وہاں اَور بھی کئی لوگ اکٹھے ہوگئے۔ کچھ دیر بعد حضورؑ دودھ کا بھرا ہوا ایک لوٹا ہاتھ میں پکڑے تشریف لائے۔ رومال میں کچھ مصری بھی تھی اور گلاس حضرت مرزا محمود احمد صاحبؓ کے ہاتھ میں تھا۔ پوچھا: شاہ صاحب کہاں ہیں۔ مَیں نے آگے بڑھ کر عرض کیا: حاضر ہوں۔ فرمایا: بیٹھ جاؤ۔ مَیں اُسی وقت زمین پر بیٹھ گیا۔ حضورؑ نے دودھ کا گلاس بھرا، مصری ملائی اور مجھے پلایا۔ پھر دوسرا گلاس عنایت فرمایا۔ پھر تیسرا گلاس بھرا تو مَیں نے عرض کی کہ حضور! اب تو پیٹ بھر گیا ہے۔ فرمایا: ایک اَور پی لو۔ مَیں نے وہ گلاس بھی پی لیا۔ پھر حضورؑ نے جیب سے چھوٹی چھوٹی بسکٹیں نکالیں اور فرمایا: یہ جیب میں ڈال لو، راستہ میں اگر بھوک لگی تو یہ کھانا۔ پھر فرمایا: چلو آپ کو چھوڑ آئیں۔ مَیں نے عرض کی کہ حضورؑ تکلیف نہ فرمائیں، مَیں سوار ہوجاتا ہوں۔ لیکن حضورؑ مجھے ساتھ لے کر روانہ ہوگئے۔ دوسرے لوگ بھی ہمراہ تھے۔ کافی دُور پہنچ گئے تو حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے میرے کان میں فرمایا کہ آگے ہوکر رخصت لو، جب تک تم اجازت نہ مانگو گے، حضورؑ بڑھتے چلے جائیں گے۔ اس پر مَیں نے آگے بڑھ کر اجازت مانگی تو حضورؑ اپنے سامنے سوار کرکے پھر واپس تشریف لے گئے۔