سیرۃالنبی ﷺ کا ایک پہلو۔ شکرگزاری

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 6 نومبر2020ء)

رسول اللہﷺ فرمایا کرتے تھے: جو شخص لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن جولائی اگست 2012ء کی زینت ایک مضمون میں محترم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے آنحضرت ﷺ کی شکرگزاری پر روشنی ڈالی ہے۔
شکرگزاری کا براہ راست تعلق حسن خلق کے ساتھ بھی ہے۔ حضرت جابر ؓکا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارا اور اس دن میری مجلس میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جو تم میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق کا مالک ہو گا۔
رسول اکرم ﷺ کے حسن خلق کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپؐ بہت قدردان تھے اور طبیعت میں بہت زیادہ شکر کا جذبہ تھا۔ خدا کے لئے بھی اور خدا کے بندوں کے لئے بھی۔ حضرت عائشہؓ نے رسول اکرمؐ سے عرض کیا کہ جب آپؐ کو قرب الٰہی حاصل ہے تو پھر آپؐ اس طرح عبادت کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا کہ کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
آنحضورﷺ چھوٹی چھوٹی بات کی بھی قدر کرتے تھے۔ ممنونیت محسوس کرتے تھے اور اس کا اظہار فرماتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ نے ایک دفعہ رسول اللہؐ کے لئے وضو کا پانی رکھا تو شکرگزاری کا اظہار اس دعا کے ساتھ کیا کہ اے خدا! اس کو دین کی سمجھ عطا کر اور اسے تفسیر قرآن کا علم بخش۔
ابو زید عمرو بن احطب ؓسے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہؐ نے پینے کو پانی مانگا۔ اس پر میں رسول اللہ ﷺ کے لئے ایک برتن میں پانی لایا۔ پیش کرنے لگا تو نظر پڑی کہ اس میں ایک بال ہے۔ میں نے جھٹ سے بال نکال دیا اور صاف پانی رسول اللہؐ کو پیش کیا۔ رسول اللہؐ نے (محبت سے) میری طرف دیکھا اور مجھے اس خدمت کا یہ صلہ دیا کہ میرے لئے دعا کی کہ اے اللہ اس کو خوبصورت بنا دے اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہؐ نے آپ کے چہرے پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور آپ ؓکو حسن و جمال کی دعا دی۔
اظہارممنونیت، قدردانی اور شکر گزاری میں غیروں اور اپنوں میں کوئی تمیز نہیں تھی۔ مطعم بن عدی وہ شخص تھا جس نے رسول اللہؐ کے طائف سے مکہ واپس آنے پر آپؐ کوپناہ دی تھی اور اپنی پناہ میں آپؐ کو مکہ میں واپس لایا تھا۔ رسول اللہؐ نے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارہ میں فرمایا: ’’اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے وہ ان گندے لوگوں کے بارہ میں سفارش کرتا تو میں اس کی خاطر سے ان کو چھوڑ دیتا۔‘‘
عمران بن حصین کہتے ہیں کہ ہم تبوک سے واپسی کے سفر میں رسول اکرمﷺ کے ساتھ تھے۔ آپؐ نے مجھے اس ٹولی میں شامل کیا تھا جو اصل قافلے سے آگے چل رہی تھی اور ہم سب ہی بہت زیادہ پیاسے تھے۔ ہمیں (اونٹ پر سوار) ایک عورت ملی جو پانی کے دو مشکیزوں پر پیر لٹکائے بیٹھی تھی۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے؟ کہنے لگی یہاں تو کہیں پانی نہیں ہے۔ ہم نے پوچھا کہ تمہارے ڈیرے سے پانی کتنے فاصلہ پر ہے؟ کہنے لگی اتنے فاصلہ پر پانی ہے کہ ایک پورا دن اور پوری رات چل کر وہاں تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اس پر ہم نے اس سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ رسول اللہؐ کے پاس چلو۔ اس نے جواب دیا کہ کیسا رسول، میں تو کسی رسول کو نہیں جانتی۔ وہ ہمارے ساتھ جانے کو تیار نہیں تھی لیکن ہم نے اس کو اپنی مرضی نہ کرنے دی۔ اس کو مجبور کرکے رسول اللہؐ کے پاس لے چلے۔ جب ہم اس کو لے کر نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے ماجرا دریافت کیا۔ اس پر اُس عورت نے ساری بات عرض کی اور رسول اللہؐ کو مزید بتایا کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے۔ رسول اللہؐ نے اس کی بات سننے کے بعد فرمایا کہ اس کے مشکیزے اتار کر لائو اور پھر رسول اللہؐ نے اس کے نچلے دھانوں پر اپنے ہاتھ سے مسح کیا۔ عمران کہتے ہیں اس کے بعد ہم چالیس پیاسے تھے جنہوں نے ان مشکیزوں سے پانی پیا اورخوب سیر ہو کر پیا۔ پھر ہم نے اونٹوں کو تو پانی نہیں پلایا البتہ قافلے میں جتنے مشکیزے اور برتن تھے وہ ہم نے اس عورت کے مشکیزوں سے پانی لے کر بھر لئے۔ جب آخری برتن بھرا گیا تو بھی عورت کے مشکیزوںکا یہ حال تھا کہ وہ لبالب بھرے ہوئے تھے۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو رسول اللہؐ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ کھانے کا جو سامان تمہارے پاس ہے لائو۔ پھر اس عورت کے لئے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں جمع کردی گئیں۔ وہ یہ سامان اور اپنا پانی لے کر واپس ہوئی۔ اپنے عزیزوں کے پاس پہنچی تو کہنے لگی کہ میں آج ایک ایسے انسان سے مل کر آئی ہوں جو یا تو بہت بڑا جادوگر ہے یا وہ جیسا کہ لوگ کہتے ہیں نبی ہے۔ اس عورت کے ذریعہ سے خدا نے اس کے قبیلے کو ہدایت دی وہ خود اور اس کا قبیلہ بھی مسلمان ہو گیا۔
کیا ہی عجیب انداز ہے شکرگزاری اور احسان مندی کا۔ اگرچہ اس عورت کا پانی تو جوں کا توں رہا تھا لیکن پھر بھی آپؐ اس کے ممنون تھے کہ وہ آپؐ کے کام آئی۔
ربیع بنت معوذ بن عفراء بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم ؐ کو تَریں بہت پسند تھیں۔ معوذ نے میرے ہاتھ رسول اکرمؐ کو ایک صاع تازہ کھجوروں کا اور ایک صاع چھوٹی تر کا بطور تحفہ بھیجا۔ نیچے کھجوروں والا برتن تھا اوپر تریں تھیں۔ ربیع کہتی ہیں کہ ان دنوں رسول اکرمؐ کے پاس بحرین سے زیورات آئے ہوئے تھے۔ میںنے جب یہ تحفہ پیش کیا تو رسول اکرم ؐ نے اپنی مٹھی ان زیورات سے بھری اور مجھے دے دیے۔ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اکرم ؐ نے مجھے اتنا زیور دیا جو میری مٹھی میں آ جاتا اور پھر فرمایا کہ اسے پہنو۔
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے آپؐ سے نیکی کی ہو اور آپؐ نے اس کا بدلہ نہ دیا ہو خواہ دعا ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو۔ عبداللہ بن ابی ربیعہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺنے مجھ سے چالیس ہزار (کی رقم) قرض لی۔ پھر جب رسول اللہؐ کے پاس مال آیا تو رسول اللہؐ نے میرا قرض واپس کر دیا اور ساتھ ہی مجھے دعا دی کہ خدا تیری اولاد اور تیرے مال میں برکت ڈالے اور فرمایا کہ قرض کا بدلہ تو یہی ہے کہ قرض دہندہ کا شکریہ ادا کیا جائے اور اس کے حق میں دعا کی جائے اور اس کا قرض واپس کیا جائے۔
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تحفہ قبول کیا کرتے تھے اور پھر اپنی طرف سے تحفہ دے کر اس تحفہ کو لَوٹاتے بھی تھے۔
صحابہؓ جس طرح آپؐ سے محبت کرتے اور اس محبت کا اظہار کرتے تھے آپؐ اس کی بہت قدردانی فرماتے تھے۔ ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رات آئی تو سب لوگ اپنے اپنے دھیان میں چلے جا رہے تھے لیکن مَیں نے اپنی اونٹنی رسول اکرمﷺ کی سواری کے ساتھ رکھی ہوئی تھی اور میری نگاہ آپؐ پر تھی۔ جب نصف رات گزر گئی تو آپؐ سواری پر سو گئے اور سوتے سوتے اپنی کاٹھی سے کھسک گئے۔ مَیں نے آگے بڑھ کر رسول اللہؐ کو سہارا دیااور بڑی احتیاط سے آپؐ کو کاٹھی پر سیدھا کر دیا تاکہ کہیں آپؐ کی آنکھ نہ کھلے۔ کچھ رات گزری تو پھر ایسا ہی ہوا اور میں نے پھر بغیر رسول اللہؐ کو جگائے آپؐ کو سہارا دے کر سیدھا کرکے بٹھا دیا۔ پھرصبح کے قریب رسول اللہؐ کو نیند میں زیادہ زور سے جھٹکا لگا اور آپؐ گرنے لگے تب میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر آپؐ کو سہارا دیا۔ اس دفعہ آپؐ کی آنکھ کھل گئی۔ ابھی اندھیرا تھا مجھے پہچانا نہیں۔ فرمایا کون ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ ابوقتادہ۔ فرمایا کہ کب سے اس طرح میرے ساتھ چل رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ سرِشام سے ہی جب سے سفر شروع کیا ہے رسول اللہؐ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس پر آپؐ نے مجھے دعا دی جس طرح تُو نے خدا کے نبی کی حفاظت کی اللہ تیری حفاظت کرے۔
جب دین کی کوئی خدمت کرتا تو اس پر اظہار محبت اور اظہار تشکر کا انداز اَور ہی ہوتا تھا۔ جنگ احزاب کے موقع پر حضرت حذیفہؓ کو دشمنوں کا حال معلوم کرنے کو بھیجا۔ سخت سردی تھی۔ کہتے ہیںجب میں واپس آیا تو مجھ پر شدید کپکپی طاری تھی جیسے میں ٹھنڈے حمام سے نکلا ہوں۔ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو آکر صورت حال بتائی۔ اس وقت آپؐ نے اپنی نماز کی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ آپؐ نے میری حالت دیکھی تو مجھے اپنے پاس لٹا کر میرے اوپر اپنی چادر کا ایک حصہ اوڑھا دیا۔میں وہیں آپؐ کے پاس چادر کی گرمی میں لیٹا لیٹا سو گیا۔صبح رسول اللہ ﷺ نے مجھے جگایا اور فرمایا کہ اب تو بہت سولیے صبح ہو گئی ہے اٹھو۔
حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ کو کسی کے لئے یہ کہتے نہیں سنا کہ میرے ماں باپ تیرے پر قربان ہوں سوائے سعد بن مالک کے۔ جنگ احد کا موقع تھا سعد مسلمانوں کی طرف سے تیر اندازی کر رہے تھے اور رسول اللہؐ ان کے پاس کھڑے کہتے جاتے تھے: سعد تیرے پر میرے ماں باپ قربان تُو اسی طرح تیر چلاتا جا۔ سعد تیرے پر میرے ماں باپ قربان تُو اسی طرح تیر چلاتا جا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں