سیرۃ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 31مئی 2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم انوراحمد خان صاحب لکھتے ہیں کہ خاکسار جلسہ سالانہ یُوکے پر ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے پوچھا کہ آپ ہر سال ایک ہی بیٹی کو لے کر آ جاتے ہیں، کیا بات ہے؟ عرض کی کہ حضور کی دعا کی ضرورت ہے۔ فرمایا: اچھا یہ بات ہے۔ پھر اُسی وقت حضورؒ نے عینک لگائی اور کافی دیر تک ایک کتاب دیکھتے رہے اور پھر ایک دوائی لکھ کر دی اور فرمایا کہ مَیں دعا بھی کروں گا۔ انشاء اللہ ، اللہ فضل فرمائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے ایک سال بعد مجھے ایک بیٹی سے نوازا جس کا بڑی بہن سے دس سال کا فرق ہے۔ اب میری تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔
٭ کبڈی کے معروف کھلاڑی مکرم محمد افضل گل صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے جب بیعت کی تو اس کے بعد اطفال کی ٹیم کے ساتھ کبڈی کھیلا اور مجھے حضورؒ سے انعام بھی ملا۔ جرمنی میں میری حضورؒ سے پہلی ملاقات 1993ء میں ہوئی۔ حضور ؒ کھیل کے معاملات میں ہماری تربیت بھی فرماتے۔ ایک بار انتظامیہ کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے مجھے غصّہ آگیا اور ہم نے اگلا میچ نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ اس پر حضورؒ نے مجھے پیغام بھیجا کہ میچ کھیلو۔ پھر مَیں نے اپنے ساتھیوں کو بھی سمجھایا کہ جن کے لئے ہم کھیل رہے ہیں اگر وہی ناراض ہوگئے تو پھر کیا فائدہ۔
1995ء میں ملاقات کے دوران حضورؒ نے مجھ سے پوچھا کہ شادی نہیں کرنی؟ عرض کیا کہ کچھ رکاوٹیں ہیں۔ فرمایا: لکھ کر مجھے دو۔ چنانچہ ساری تفصیل لکھ کر دے دی۔ اُسی سال انگلینڈ گیا تو میچ کے لئے مصافحہ کے دوران حضورؒ نے پوچھا کہ کام ہوا یا نہیں؟ عرض کیا کہ ابھی تک تو نہیں ہوا۔ تب حضورؒ نے مجھے دفتر میں آنے کا ارشاد فرمایا۔ جب مَیں دفتر میں حاضر ہوا تو حضورؒ نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو بلاکر خصوصی ارشاد فرمایا اور اس طرح صرف تین دن میں حضورؒ کی خاص توجہ سے میرا رشتہ ہوگیا جو بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔
حضورؒ کو کبڈی کا بہت شوق تھا۔ بعض دفعہ اسی وجہ سے میچ دیر تک جاری رہتا۔ جب آپؒ کی نظر اسکوربورڈ پر پڑتی تو فرماتے کہ پوائنٹ چینج نہیں ہورہے۔ تب عرض کیا جاتا کہ میچ تو ختم ہوگیا لیکن حضورؒ کی وجہ سے کبڈی ابھی تک چل رہی ہے۔
٭ مکرم میاں محمد محمود صاحب (سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی) بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ اجتماع کے موقع پر اس قدر شدید بارش ہوئی کہ واقعتاً مارکی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے نیچے سے بھی پانی گزر گیا۔ اس وقت طلباء کے ساتھ حضورؒ کی مجلس سوال و جواب جاری تھی۔ ورزشی فائنل مقابلے ابھی ہونا تھے لیکن بارش جاری تھی اور پانی اس قدر تھا کہ حضور کی گاڑی کے ٹائر بھی ڈوب گئے تھے۔ گراؤنڈ میں تالاب بنا ہوا تھا۔ حضورؒ بار بار پوچھتے کہ کیا پروگرام ہے؟ ہم جواب دیتے کہ میچز کا ہونا مشکل ہے۔ فرمایا: فٹ بال کا فیصلہ کس طرح کریں گے؟ عرض کیا کہ جرمن قانون کے مطابق میچ اُس وقت تک کھیلا جاسکتا ہے جب تک فٹبال پانی پر تیرنا شروع نہ کردے۔ اس پر حضورؒ نے دعا شروع کردی۔ ایک خاص نُور آپؒ کے چہرہ سے ٹپک رہا تھا۔ کچھ دیر بعد بارش تھم گئی اور حضورؒ فٹبال کا میچ دیکھنے کے لئے گراؤنڈ میں تشریف لے گئے۔ جب حضورؒ وہاں تشریف لائے تو گراؤنڈ میں پانی کا نام و نشان نہیں تھا۔ حضورؒ کی خدمت میں کرسی پیش کی گئی لیکن آپؒ نے کھڑا ہونا پسند فرمایا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارے مقابلے اپنے وقت پر ہوئے۔
اسی طرح 1998ء کے اجتماع سے قبل اس قدر گہرے بادل چھاگئے کہ شدید بارش کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ حضورؒ کی خدمت میں دعا کے لئے تحریر کیا گیا تو قبولیتِ دعا کا یہ نشان دیکھا کہ اجتماع کے تینوں دن بارش نہیں ہوئی۔ مگر آخری دعا کے ختم ہوتے ہی ایسی شدید بارش ہوئی کہ جل تھل ہوگیا۔

سیرۃ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ” ایک تبصرہ

  1. ماشا اللہ بہت اچھا کام شروع کیا ہے اللہ تعالٰی آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔اور عوام الناس کے لئے نفع مند وجود بنائے اور دینی ودنیاوی ترقیات سے نوازے۔اور دینائے احمدیت کے لئے روشن ستار ہ بنائے ۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں