صحابہؓ رسول کی مالی قربانیوں کے نمونے

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر1999ء میں شامل اشاعت مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے ایک تفصیلی مضمون میں صحابہ رسولؐ کے شاندار ایثار اور بے مثال مالی قربانیوں کا ذکر ہے۔
قرآن کریم نے انفاق مال کے ساتھ بہترین اور پسندیدہ مال کی شرط لگائی ہے۔ اسی طرح انفاق فی سبیل اللہ دو طرح سے ہے یعنی فرض اور نفل۔
فرض یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے صحابہؓ کا اسوہ یوں تھا کہ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب پھل پک جاتے اور زکوٰۃ کا وقت آتا تو صحابہؓ جوق در جوق اپنے اموال کی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے یہاں تک کہ ایک ڈھیر لگ جاتا۔
حضرت اُبی بن کعبؓ کو آنحضورﷺ نے زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا۔ ایک صحابی کے پاس جب آپؓ پہنچے تو انہوں نے اپنا سارا مال پیش کردیا۔ آپؓ نے کہا کہ تم پر صرف اونٹنی کا ایک بچہ فرض ہے۔ صحابیؓ نے عرض کیا کہ بچہ کس کام کا؟ نہ وہ سواری کے قابل ہے، نہ دودھ دیتا ہے، آپ یہ اونٹنی لے جائیں۔ آپؓ نے بتایا کہ آنحضورﷺ کی اجازت کے بغیر آپؓ اسے قبول نہیں کرسکتے تو وہ صحابیؓ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بات دہرائی۔ چنانچہ آنحضورﷺ نے اونٹنی قبول کرتے ہوئے فرمایا: فرض تو وہی ہے جو اُبی نے بیان کیا ہے لیکن اگر تم اس سے زیادہ دو تو وہ صدقہ ہوگا اور ہم اس کو قبول کرلیں گے۔
ایسے ہی کئی دیگر واقعات بھی تاریخ اسلام میں محفوظ ہیں۔ ایک صحابیؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ جب ہمیں زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجتے تو فرماتے کہ دودھ دینے والی اونٹنی وصول نہیںکرنی۔ ایک جگہ کسی نے ایک نہایت خوبصورت، جسیم اونٹنی پیش کی مگر مَیں نے قبول نہ کی۔ اُس نے اصرار کیا کہ اُسکے مال میں سے بہترین اونٹنی لے لوں۔ پھر میرے کہنے پر نسبتاً کم قیمت والی اونٹنی لے آیا تو مَیں نے اسے کہا کہ مَیں اسے قبول تو کر لیتا ہوں مگر اس بات سے ڈرتا ہوں کہ حضورؐ کہیں مجھ پر ناراض نہ ہوں۔
ایک صحابیہؓ اپنی لڑکی کے ساتھ آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ لڑکی کے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے۔ آپؐ نے پوچھا کیا اِن کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: کیا تمہیں یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ خدا قیامت کے دن تمہارے ہاتھ میں آگ کے کنگن پہنائے۔ انہوں نے یہ سنا تو فوراً کنگن آپؐ کے سامنے ڈال دیئے۔
جب معاملہ زکوٰۃ کی بجائے صدقات کا ہو تو صحابہؓ کی زندگیوں میں نہایت دلکش نظارے نظر آتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کئی بار اپنا سارا مال خدا اور اُس کے رسولؐ کی خاطر پیش کردیا۔ حتیٰ کہ ہجرت کے وقت اپنا سارا مال پانچ چھ ہزار درہم بھی اپنے ہمراہ لے لئے تاکہ راستہ میں راہِ خدا میں پیش کرسکیں۔ آپؓ کی روانگی کے بعد آپؓ کے والد ابوقحافہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ، آپؓ کے گھر آئے اور آپکی بیٹی حضرت اسمائؓ سے پوچھا کہ کیا تمہارا باپ کچھ گھر میں بھی چھوڑ گیا ہے یا مصیبت میں مبتلا کرگیا ہے۔ ابوقحافہ کی نظر کمزور تھی۔ حضرت اسمائؓ کی قوت ایمانی ملاحظہ کیجئے کہ انہوں نے کچھ پتھر ایک کپڑے کے نیچے رکھ دیئے اور اپنے دادا کا ہاتھ اُن پر رکھا کہ ابوبکرؓ ہمارے لئے خیر کثیر چھوڑ گئے ہیں۔ اس پر ابوقحافہ نے اطمینان کا اظہار کیا۔
حضرت عمرؓ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر اپنا نصف مال آنحضورﷺ کے قدموں میں رکھ کر سوچا کہ آج مَیں ابوبکرؓ سے سبقت لے جاؤں گا۔ لیکن جب حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے تو انہوں نے اپنا سارا مال راہِ خدا میں پیش کردیا اور حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا کہ مَیں ان پر کبھی کسی چیز میں سبقت نہیں لے جاسکتا۔
جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اپنے بہترین مال کو خدا کے حضور پیش کرو تو کئی صحابہؓ کرام (مثلاً حضرت طلحہؓ، حضرت ابو الدحداحؓ اور حضرت عبداللہ بن زیدؓ) نے اپنے باغ صدقہ کردیئے، بعض صحابہؓ (مثلاً حضرت عمرؓ) نے باغ کا پھل راہِ خدا میں پیش کیا، کئی صحابہؓ (مثلاً حضرت اسمائؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابن عمرؓ) نے اپنے کئی غلاموں کو آزاد کیا۔ بعض صحابہؓ (مثلاً حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت ابن عمرؓ) نے اپنے بہترین جانور پیش کردیئے۔
حضرت ابن عمرؓ کی عادت تھی کہ جب کوئی چیز انہیں اپنے مال میں زیادہ پسند آتی تو اُسے اللہ کی راہ میں دے کر قرب الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ کے غلاموں کو آپؓ کی اس عادت کا پتہ چل گیا۔ چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی غلام نماز کے لئے خوب تیار ہوکر مسجد میں جاکر بیٹھ جاتا۔ حضرت ابن عمرؓ اُس کو اس حالت میں دیکھتے تو خوش ہوکر اسے آزاد کردیتے۔ آپؓ کے ساتھی آپؓ سے کہتے کہ ان غلاموں میں عبادت کا شوق نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف آپؓ کو دھوکا دیتے ہیں۔ آپؓ فرماتے: ’’جو ہم کو اللہ کے معاملہ میں دھوکا دیگا، ہم ضرور اُس کے دھوکے میں آئیں گے‘‘۔
حضرت عثمانؓ کی مالی قربانیوں کا شمار ممکن نہیں۔ آنحضورﷺ نے ایک خطبہ میں جب جیش عسرہ کی ضرورتوں کی طرف توجہ دلائی تو آپؓ نے ایک سو اونٹ مع کجاوہ و پالان کے دینے کا وعدہ کیا۔ جب آنحضورﷺ نے دوبارہ ارشاد فرمایا تو آپؓ نے مزید ایک سو اونٹوں کا وعدہ کیا۔ پھر جب آنحضورؐ نے تیسری بار توجہ دلائی تو آپؓ نے بھی مزید ایک سو اونٹوں کا وعدہ کرلیا۔ تب آنحضورؐ نے آپؓ کیلئے یوں دعا کی: ’’اے میرے اللہ! عثمان کو بھول نہ جانا، عثمان پر کوئی مؤاخذہ نہیں اگر آج کے بعد وہ کوئی عمل نہ کرے‘‘۔
غزوہ تبوک میں حضرت عثمانؓ نے ایک ہزار سواریاں پیش کیں اور غزوہ کے کُل خرچ کا ایک تہائی پیش کردیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ایک مالدار تاجر تھے۔ آپؓ نے ایک دفعہ سات سو اونٹ مع سامان تجارت کے صدقہ کئے۔ ایک بار چار ہزار درہم، پھر چالیس ہزار درہم، پھر چالیس ہزار دینار، پھر پانچ سو اونٹ، پھر ڈیڑھ ہزار اونٹنیاں صدقہ کیں، کئی سو گھوڑے جہاد کے لئے پیش کئے۔
حضرت ابولبابہؓ اپنی ایک غلطی پر نادم ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی توبہ قبول فرمالی۔ پھر وہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مکان اور سارا مال صدقہ کردیا۔ آنحضورﷺ نے تہائی مال کا صدقہ قبول فرمالیا۔
اسی طرح حضرت کعبؓ بن مالک کی توبہ جب قبول ہوئی تو انہوں نے بھی اپنا سارا مال بطور شکرانہ کے صدقہ کرنے کے لئے آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آنحضورﷺ نے فرمایا کہ کچھ مال اپنے پاس رکھ لو۔
حضرت سلمانؓ فارسی مدائن کے گورنر تھے اور آپؓ کا وظیفہ پانچ ہزار دینار تھا۔ مگر سارا وظیفہ صدقہ کر دیتے اور خود چٹائیاں بُن کر گزارا کرتے۔ آپؓ کے بھانجے نعمان بن حمید کہتے ہیں کہ آپؓ فرماتے تھے: مَیں کھجور کے پتے ایک درہم میں خریدتا ہوں اور محنت کرکے انہیں تین درہم میں بیچتا ہوں۔ ایک درہم تو اسی کام کے لئے رکھ لیتا ہوں، دوسرا درہم اہل و عیال پر خرچ کرتا ہوں اور ایک درہم صدقہ کر دیتا ہوں۔ کوئی بھی مجھے اس کام سے روکے تو مَیں نہیں رکوں گا۔
آنحضورﷺ نے ایک خطبہ عید میں صدقہ و خیرات کی ترغیب دی تو صحابیاتؓ نے اپنے کانوں کی بالیاں، گلے کے ہار اور انگلیوں کے چھلے تک اتار کر حضرت بلالؓ کی چادر میں ڈال دیئے۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماء سے زیادہ کسی کو سخی نہیں دیکھا۔ ان دونوں کے طریقے مختلف تھے۔ حضرت عائشہؓ تھوڑا تھوڑا کرکے جمع کرتیں اور جب کچھ مال جمع ہوجاتا تو تقسیم کر دیتیں لیکن حضرت اسمائؓ تو کوئی چیز پاس رکھتی ہی نہیں تھیں۔
ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت عائشہؓ کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے جو آپؓ نے شام ہونے تک سارے کے سارے تقسیم کردیئے اور اُس روز آپؓ کے روزہ افطار کرنے کے لئے گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ اسی طرح ایک بار جب گھر میں صرف ایک چپاتی تھی تو کسی سائل کے سوال کرنے پر آپؓ نے اُسے وہی چپاتی دینے کا ارشاد فرمایا۔ خادمہ نے عرض بھی کیا کہ پھر آپؓ روزہ کس چیز سے افطار کریں گی۔ لیکن آپؓ نے فرمایا کہ روٹی ضرور سائل کو دیدی جائے۔
ایک بار ایک صحابیؓ انڈے کے برابر سونا لے کر آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے یہ سونا ایک کان سے ملا ہے، اسے بطور صدقہ قبول فرمائیے، اس کے علاوہ میرے پاس اَور کچھ نہیں ہے۔ اس پر آنحضورﷺ نے اعراض فرمایا تو اُس صحابیؓ نے دوبارہ عرض کیا اور پھر سہ بارہ عرض کیا۔ اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا: تم لوگ اپنا تمام سرمایہ صدقہ میں دے دیتے ہو اور پھر بھیک مانگنے لگتے ہو۔ بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد بھی انسان کے پاس کچھ مال رہ جائے۔
حضرت حکیم بن حزامؓ کے پاس دو اعرابی سائل آئے تو آپؓ انہیں بازار لے گئے۔ دو اونٹنیاں خرید کر اُن کا سامان خریدا اور اُن پر غلہ لاد کر اعرابیوں کے حوالہ کردیا۔
حضرت عمرؓ نے حضرت سعید بن عامرؓ کی مالی مشکلات کا سُن کر ایک ہزار درہم بھجوائے تو حضرت سعید بن عامرؓ نے اپنی بیوی سے کہا کہ کیوں نہ ہم یہ مال اُس کودیدیں جو ہمارے لئے تجارت کرے ۔ بیوی نے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ چنانچہ آپؓ نے وہ تمام مال صدقہ کردیا۔
کئی صحابہؓ نے سائل کی ضرورت پوری کرنے کے لئے قرض لیا۔ اور بے شمار صحابہؓ نے صدقہ و خیرات کرنے کے لئے مزدوری کی اور اپنی محنت کی کمائی پیش کردی۔ ام المومنین حضرت زینبؓ بن جحش چمڑہ رنگنے اور سینے کے فن سے آشنا تھیں اور اس طرح جو آمد ہوتی اللہ کی راہ میں خرچ کرتیں۔ حضرت زینبؓ سوت کات کر مجاہدین کی مدد کیا کرتی تھیں۔ حضرت سودہؓ کھالیں بناتیں اور اُن سے ہونے والی آمدنی صدقہ کرتیں۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں:- ’’کیا صحابہ کرام مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاصل ہوا۔ دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کیلئے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو پھر کہیں جاکر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہوتی، ملتا ہے۔ پھر خیال کرو کہ رضی اللہ عنہم کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولا کریم کی رضامندی کا نشان ہے، کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟ بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی رضامندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہوسکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں‘‘۔
(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 79)

اپنا تبصرہ بھیجیں