صحابہ رسول ﷺ کا عشق الٰہی
(مطبوعہ انصارالدین یوکے ستمبر و اکتوبر 2021ء)
صحابہ کرام ؓ کا عشق الٰہی ایک ایسا وسیع اور بابرکت مضمون ہے جس پر کئی کتب لکھی جا سکتی ہیں۔آنحضرت ﷺ کی پیروی میں آپ کے صحابہ آپ کے رنگ میں ایسے رنگین ہوئے کہ آپ کی صفات کے اُس اعلیٰ درجہ کے نور سے صحابہ کرام کو بھی وافر حصہ ملا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:
اَصۡحَابِیۡ کَالنُّجُوۡمِ، بِاَیِّھِم اقۡتَدَیۡتُمۡ اِھۡتَدَیۡتُمۡ
ترجمہ: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔ تم ان میں سے جن کی بھی پیروی کروگے ہدایت پا جائوگے۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ:2/308)
صحابہ کرام ؓ آنحضرت ﷺ کی پیروی میں عشق الٰہی میں ایسے مخمور ہوئے کہ پھر انہیں کسی اور محبت کی رغبت ہی نہ رہی۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ: 166)
ترجمہ:ایمان والے سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔
آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اہل ِ ایمان سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں کہ خدا کی محبت پر ہر شے قربان کردیتے ہیں اور اِس محبت کو کسی شے پر قربان نہیں کرتے اور جہاں خدا کی اور غیر کی محبت کے تقاضوں کا مقابلہ ہو وہاں محبت ِ الٰہی کے تقاضے کو ترجیح دیتے ہیں۔بلا شبہ محبت ِ الٰہی عظیم سعادت اور اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔قرآن کریم کا بنظر ِ غائر مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام عبادات کی اصل محبت ِ الٰہی ہے، مثلاً نماز کے متعلق فرمایا:
وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ (طٰہٰ:15)
ترجمہ:اورمیری یاد کے لئے نماز قائم کر۔
یونہی زکوٰۃ و صدقات کا معاملہ ہے کہ مال کی محبت سے اوپر درجے کی محبت خدا کے ساتھ ہوتی ہے تو بندہ اپنا محبوب مال راہِ خدا میں خرچ کرتا ہے چنانچہ فرمایا:
وَیُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا۔ اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآئً وَّ لَا شُکُوۡرًا۔ (الدھر:9،8)
ترجمہ: اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں خاص اللہ کی رضا کے لئے کھانا دیتے ہیں، ہم تم سے کوئی بدلہ یا شکرگزاری نہیں مانگتے۔
روزے میں بھی محبت کی جلوہ گری ہے کہ بھوک پیاس برداشت کرنا تو بہت نمایاں علامت ِ محبت ہے کہ خدا کی خاطر حلال کھانا پینا اور جنسی خواہشات کو قربان کردیاجاتا ہے۔ اسی کی طرف حدیث قدسی میں یوں اشارہ فرمایا گیا:
الصوم لی وانا اجزی بہ ترجمہ: روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گایا میں خود ہی اس کی جزا ہوں۔ (مسلم، ص448، حدیث:2708)
یونہی حج تو پورے کا پورا سفرِ محبت ہے کہ ظاہری اعتبار سے بے سلے کپڑے پہننا، خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانا، منٰی و مزدلفہ و عرفات کے میدان میں جاکر کچھ دیر ٹھہرنا اور واپس چلے آنا ظاہری طور پر عقل میں نہیں آتا لیکن نظرِ محبت میں یہ سب محبوب کے حکم پر عقل قربان کرنے کی صورتیں ہیں اسی لئے حج کے حکم کی ابتدا ہی یوں ہے:
وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ (اٰلِ عمرٰن:98)
’’ترجمہ:اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔‘‘
قرآن مجید میں محبت ِ الٰہی کی علامات کو مختلف پیرائے میں بیان فرمایا ہے مثلاً محبت کی ایک نشانی یہ ہے کہ مُحِب اپنے محبوب کے لیے جان، مال، اولاد، گھر بار سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائے اس کی عملی مثال سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ میں بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جب آپؑ کو حکم دیا کہ (بڑھاپے میں عطا کئے جانے والے)اپنے بیٹے اسماعیل اور اپنی زوجہ حضرت ہاجرہؓ کو ایک بیابان (ویرانے)میں چھوڑ آؤ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام بلاتردد حکمِ الٰہی پر عمل کرتے ہوئے مکّے کے چٹیل میدان جہاں دور دور تک کوئی سایہ دار درخت اور پانی نہ تھا،اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑ آئے۔ قرآن مجید میں آپؑ کے الفاظ یوں مذکور ہیں: رَبَّنَا اِنِّیۡ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ (ابراھیم:38)۔ ترجمہ: اے میرے ربّ! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے عزت والے گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں ٹھہرایا ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی۔
بیابان میں تنہا چھوڑی جانے والی حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی خدا سے محبت اور حکم و قضا پر راضی رہنے کا جذبہ ملاحظہ فرمائیں کہ بخاری شریف میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیوی اور بیٹے کو تنہا چھوڑ کر چل دئیے تو حضرت ہاجرہ ؓ نے بار بار سوال کیا کہ ہمیں یہاں کہاں چھوڑ کر جارہے ہیں؟ کوئی جواب نہ ملنے پر آخر میں پوچھا کہ کیا یہی اللہ کا حکم ہے؟آپؑ نے کہا:ہاں! تب حضرت ہاجرہ ؓنے نہایت ایمان افروز جملہ کہا:ٹھیک ہے، تب تو اللہ ہم کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ (بخاری،ج 2،ص424، حدیث:3364)
پھر محبتِ الٰہی کے اُس لازوال، بے مثال واقعے پر نظر دوڑائیں کہ چشم فلک نے تسلیم و رضا اور محبتِ الٰہی کا ایسا شاہکار کبھی نہ دیکھا ہوگا کہ حکمِ ربانی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام عزیز و محبوب بیٹے اسماعیل علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور بیٹے سے فرمایا: ترجمہ: اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں۔اب تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو حکم دیاجارہا ہے۔ اِنۡ شَائَ اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘ (الصّٰٓفّٰت:103)
باپ اپنے بیٹے کو خدا کے حکم پر ذبح کرنے کو تیار ہے اور بیٹا گردن پر چھری چلوانے کے لیے راضی ہے۔ سبحان اللہ، اس سے بڑھ کر محبتِ الٰہی کے لیے بندہ کیا قربان کرسکتا ہے۔
محبتِ الٰہی کی ایک اور نشانی محبوب حقیقی کی عبادت سے محبت کرنا بھی ہے۔ قرآن مجید میں ان مقربین ِ بارگاہِ الٰہی کا راتوں کو جاگنا، بستروں سے جدا رہنا، نیند قربان کرنا اور راحت وآرام لُٹا دینا کئی آیات میں مذکور ہے۔ چنانچہ فرمایا: کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ۔وَ بِالۡاَسۡحَارِ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ۔ (الذّٰریٰت:17،18)
ترجمہ: وہ (تقویٰ و احسان والے) رات میں کم سویا کرتے تھے اور رات کے آخری پہروں میں بخشش مانگتے تھے۔
اور ایک جگہ فرمایا: تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّطَمَعًا۔ (السجدۃ: 16)
ترجمہ: ان (مومنین کاملین) کی کروٹیں ان کی خوابگاہوں سے جدا رہتی ہیں اور وہ ڈرتے ہوئے اور امید کرتے ہوئے اپنے رب کو پکارتے ہیں۔‘‘
راتوں کو جاگ کر محبوبِ حقیقی کی ملاقات و مناجات کے شوق میں سجدہ و قیام میں رات گزارنا محبت کے سچے اور غالب جذبے کے بغیر بہت مشکل ہے۔
’’عبادت سے محبت‘‘ میں تلاوت، ذکر، نماز سب اعمال کی محبت شامل ہے اور محبوب حقیقی کا پاک مبارک کلام قرآن کریم سن کر آنسو بہانا بھی اسی میں داخل ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ترجمہ: اور جب یہ سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف نازل کیا گیا تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے اُبل پڑتی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے۔ (المائدۃ:83)
ذکرِ الٰہی کی کثرت تو محبت کی اعلیٰ علامت ہے۔حدیث میں ہے: ترجمہ: یعنی جو جس سے محبت کرتا ہے وہ اسے بڑی کثرت سے یاد بھی کرتا ہے۔
اسی لئے قرآن مجید میں کثرت ِ ذکر کا بار بار تذکرہ ہے چنانچہ فرمایا: فَاذۡکُرُوۡنِیۡ اَذۡکُرۡکُمۡ (البقرۃ:152) ’’ توتم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔‘‘
سیّدُ المُحبین حضورپُرنور ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓکا عمل مبارک یہ تھا کہ وہ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے۔ محبوب سے ہم کلام ہونا اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا اہل ِ محبت کی معراج، آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کی راحت ہے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور فرمایا، نماز مومن کی معراج ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح،باب المساجد،ج2،ص452،تحت الحدیث:746)
اوپر بیان کردہ تمام علامات کی روشنی سے صحابہ کرامؓ کی زندگی ایسی منور تھی کہ آنحضرت ﷺ نے ان کو ان چمکتے ہوئے ستاروں سے تشبیہ دی کہ ان میں جن کی بھی پیروی کروگے تم ہدایت پا جائوگے۔اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کو اخلاق فاضلہ کی ایسی جِلا بخشی تھی کہ انہیں کفر، گناہ اور نافرمانی سے دُوری صرف از حکم شریعت نہیں ازراہ طبیعت بھی حاصل ہوچکی تھی۔ شریعت کے تقاضے ان کی طبیعت بن چکے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ایمان کو ان کے دلوں کی طلب اور زینت بنادیا تھا۔ اس عقیدہ پر قرآن کریم کی کھلی شہادت موجود ہے کہ
وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ کَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ۔ (سورۃ الحجرات:8)
’’ترجمہ: لیکن اللہ نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں سجا دیا ہے اور تمہارے لئے کفر اور بداعمالی اور نافرمانی سے سخت کراہت پیدا کردی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا جیساکہ صحابہ نے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے راہِ حق میں کیا۔ انھوں نے اس محبت کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کردیا جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اس راہ سے انہوں نے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی قربانیوں اور ان کے مقام و مرتبہ اور اللہ تعالیٰ کے ان پر انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سارا مال و متاع خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا اور آپ نے کمبل پہن لیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر انہیں کیا دیا۔ تمام عرب کا انہیں بادشاہ بنا دیا اور اسی کے ہاتھ سے اسلام کو نئے سرے سے زندہ کیا اور مرتد عرب کو پھر فتح کر کے دکھا دیا اور وہ کچھ دیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔‘‘
فرماتے ہیں: ’’غرض ان لوگوں کا صدق و وفا اور اخلاص و مروّت ہر مسلمان کے لئے قابل اُسوہ ہے۔ صحابہؓ کی زندگی ایک ایسی زندگی تھی کہ تمام نبیوں میں سے کسی نبی کی زندگی میں یہ مثال نہیں پائی جاتی…۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’اصل بات یہ ہے کہ جب تک انسان اپنی خواہشوں اور اغراض سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور نہیں آتا وہ کچھ حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنا نقصان کرتا ہے۔ لیکن جب وہ تمام نفسانی خواہشات اور اغراض سے الگ ہو جاوے اور خالی ہاتھ اور صافی قلب لے کر خداتعالیٰ کے حضور جاوے تو خدا اس کو دیتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کی دستگیری کرتا ہے۔ مگر شرط یہی ہے کہ انسان مرنے کو تیار ہو جاوے اور اس کی راہ میں ذلّت اور موت کو خیر باد کہنے والا بن جاوے‘‘۔ فرمایا ’’دیکھو دنیا ایک فانی چیز ہے۔ (کوئی اس میں مستقل نہیں رہتا) مگر اس کی لذت بھی اسی کو ملتی ہے جو اس کو خدا کے واسطے چھوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا مقرّب ہوتا ہے خدا تعالیٰ دنیا میں اس کے لئے قبولیت پھیلا دیتا ہے۔ یہ وہی قبولیت ہے جس کے لئے دنیا دار ہزاروں کوششیں کرتے ہیں کہ کسی طرح کوئی خطاب مل جاوے یا کسی عزت کی جگہ یا دربار میں کرسی ملے اور کرسی نشینوں میں نام لکھا جاوے۔ غرض تمام دنیوی عزتیں اسی کو دی جاتی ہیں اور ہر دل میں اسی کی عظمت اور قبولیت ڈال دی جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے سب کچھ چھوڑنے اور کھونے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف آمادہ بلکہ چھوڑ دیتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے واسطے کھونے والوں کو سب کچھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 398-399 مع حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یہ صدق و وفا اور اخلاص و مروّت دکھانے والوں کے نمونے ہمیں اس شان سے نظر آتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی قوتِ قدسی نے نہ صرف ان کی محبتوں کے رخ بدل دئیے۔ پہلے محبتوں کے رُخ کسی اَور طرف تھے پھر اَور طرف کر دئیے۔ دنیا سے خدا کی طرف کر دیے۔ بلکہ ان محبتوں کے پیمانوں کو وہ عروج عطا کر دیا، وہ بلندیاں دے دیں جس کی مثال دنیا میں پہلے نہیں ملتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس خوبصورتی سے اس عروج اور بلندی کی مثال دی ہے کہ فرمایا کہ ان کے اس معیار محبت اور قربانی کی سابقہ انبیاء کی زندگی میں بھی مثال نہیں پائی جاتی۔ اور جہاں تک نبیوں کے ماننے والوں کا سوال ہے تو ان کی شان کیا، ان کی حالت تو صحابہ کے مقابلہ میں بہت ہی گری ہوئی تھی۔ یہ صحابہ اپنی تمام نفسانی خواہشات سے پاک تھے۔ صاف دل ہو کر اور اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہو کر صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے اپنی زندگیاں گزارنے والے تھے اور جب یہ حالت ہو تو پھر خدا تعالیٰ بھی نوازتا ہے اور بے انتہا نوازتا ہے اور ہم صحابہ کی زندگی میں یہ باتیں دیکھتے ہیں۔ بعض صحابہ کے واقعات پیش کرتا ہوں کہ کس طرح انہوں نے اپنے نفسوں کو خدا تعالیٰ کے ماتحت کر لیا تھا۔ کیا نمونے انہوں نے دکھائے۔
حضرت عَبّاد بن بشرؓ ایک انصاری صحابی تھے۔ عین جوانی میں تقریباً پینتالیس سال کی عمر میں ان کو شہادت نصیب ہوئی تھی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 3 صفحہ 46 عباد بن بشرؓ دار الفکر بیروت 2003ء)، (الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد 3 صفحہ 496 عباد بن بشرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) ان کی عبادت اور عشق الٰہی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے وقت جاگے تو مسجد سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آ رہی تھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لئے بہت جلدی جاگا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ آواز عَباد کی ہے؟ حضرت عائشہ کہتی ہیں مَیں نے عرض کی کہ انہی کی آواز لگتی ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعا دی کہ اے اللہ! عَبّاد پر رحم کر۔ (صحیح البخاری کتاب الشہادات باب شہادۃ الاعمی … الخ حدیث 2655)
کتنے خوش نصیب تھے وہ لوگ جواپنی راتیں عبادت خدا وندی میں گزار کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کو براہ راست حاصل کرنے والے بنے۔ اور راتوں کو اٹھ کر وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اور اس کی رحمتوں کو حاصل کرنے کے لئے پکارتے تھے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عشق الٰہی اور دین کی خاطر عظیم الشان قربانی کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ:
’’محبت ایک ایسی شے ہے کہ وہ سب کچھ کرا دیتی ہے۔ ایک شخص کسی پر عاشق ہوتا ہے تو معشوق کے لئے کیا کچھ نہیں کر گزرتا۔‘‘ پھر دنیا والوں کی ایک مثال دی کہ ’’ایک عورت کسی پر عاشق تھی۔ اس کو کھینچ کھینچ کر لاتے تھے اور طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے۔ ماریں کھاتی تھی مگر وہ کہتی تھی کہ مجھے لذّت ملتی ہے۔ جبکہ جھوٹی محبتوں، فسق و فجور کے رنگ میں جلوہ گر ہونے والے عشق میں مصائب اور مشکلات کے برداشت کرنے میں ایک لذت ملتی ہے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں (دنیا داروں کا یہ حال ہے)’’تو خیال کرو کہ وہ جو خدا تعالیٰ کا عاشق زار ہو، اس کے آستانۂ اُلوہیت پر نثار ہونے کا خواہشمند ہو وہ مصائب اور مشکلات میں کس قدر لذت پا سکتا ہے۔‘‘
آپ فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حالت دیکھو۔ مکّہ میں ان کو کیا کیا تکلیفیں پہنچیں۔ بعض ان میں سے پکڑے گئے۔ قسم قسم کی تکلیفوں اور عقوبتوں میں گرفتار ہوئے۔ مرد تو مرد بعض مسلمان عورتوں پر اس قدر سختیاں کی گئیں کہ ان کے تصوّر سے بدن کانپ اٹھتا ہے۔ اگر وہ مکّہ والوں سے مل جاتے تو اس وقت بظاہر وہ ان کی بڑی عزت کرتے کیونکہ وہ ان کی برادری ہی تو تھے۔ مگر وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو مصائب اور مشکلات کے طوفان میں بھی حق پر قائم رکھا۔ وہ وہی لذت اور سرور کا چشمہ تھا جو حق کے پیار کی وجہ سے ان کے سینوں سے پھوٹ نکلتا تھا۔‘‘
پھر آپ اس واقعہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایک صحابی کی بابت لکھا ہے کہ جب ان کے ہاتھ کاٹے گئے تو انہوں نے کہا کہ میں وضو کرتا ہوں۔ اس وقت اس نے دعا کی کہ یا اللہ! آنحضرتﷺ کو خبر پہنچا دے۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت مدینہ(میں) تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے جا کر السلام علیکم کہا۔ آپ نے علیکم السلام کہا اور اس واقعہ پر اطلاع ملی۔ غرض اس لذت کے بعد جو خدا تعالیٰ میں ملتی ہے ایک کیڑے کی طرح کچل کر مر جانا منظور ہوتا ہے۔‘‘ (جس طرح ان صحابی نے کہا تھا میں نے ربِّ کعبہ کو پا لیا۔ جو انتہا تھی عشق کی وہاں میں پہنچ گیا۔) فرماتے ہیں کہ ’’اور مومن کو سخت سے سخت تکالیف بھی آسان ہی ہوتی ہیں۔ سچ پوچھو تو مومن کی نشانی ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ مقتول ہونے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو کہہ دیا جاوے کہ یا نصرانی ہو جا یا قتل کر دیا جائے گا۔ اس وقت دیکھنا چاہیے کہ اس کے نفس سے کیا آواز آتی ہے؟ آیا وہ مرنے کے لئے سر رکھ دیتا ہے یا نصرانی ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ اگر (وہ) مرنے کو ترجیح دیتا ہے تو وہ مومن حقیقی ہے ورنہ کافر ہے۔ غرض ان مصائب میں جو مومنوں پر آتے ہیں اندر ہی اندر ایک لذت ہوتی ہے۔ بھلا سوچو تو سہی کہ اگر یہ مصائب لذت نہ ہوتے تو انبیاء علیہم السلام ان مصائب کا ایک دراز سلسلہ کیونکر گزار تے۔‘‘
(ماخوذاز ملفوظات جلد 2 صفحہ 308-309۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
صحابہ کی ایسی مثالیں ہیں کہ ان میں آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی نے ایک ایسی روح پھونک دی تھی کہ جاتے ہوئے بھی یہ کہتے تھے، مرتے ہوئے یہ کہتے تھے جیسا کہ ہم نے سنا کہ کعبہ کے رب کی قسم ہم کامیاب ہو گئے۔ ہم نے خدا کو پا لیا۔ لیکن یہ وہ لوگ تھے جو نیکیاں کرنے والے تھے۔ جن پر جب ظلم کئے جاتے تھے تو اس ظلم کی خاطر قربانیاں دیتے تھے نہ کہ خود ظالم بن کر ظلم کرتے جس طرح کہ آج کل کے بعض گروہوں نے کام شروع کیا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم شہید ہو گئے یا شہید ہو جائیں گے تو جنت میں چلے جائیں گے۔ یہ وہ لوگ نہیں تھے۔ یہ لوگ ظلم کے خلاف جنگ کرنے والے تھے۔ ظلم پھیلانے والے نہیں تھے۔
حضرت عبداللہؓ بن عمرو ایک انصاری صحابی تھے جن کے بارے میں یوں بیان ہوا ہے کہ اُحد کی جنگ میں جاتے ہوئے انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ سب سے پہلے مجھے شہادت حاصل ہو گی۔ شاید انہوں نے خواب دیکھی تھی یا اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا۔ کہنے لگے کہ میری موت کے بعد تم اپنی بہنوں کا خیال رکھنا۔ ان کی بیٹیاں تھیں۔ اور ایک یہودی سے مَیں نے قرض لیا ہوا ہے۔ وہ قرض میرے کھجور کے باغات میں سے ادا کر دینا جب اس کی آمد آئے گی۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب ھل یخرج المیت من القبر واللحد لعلۃ حدیث 1351، کتاب المناقب باب علامات النبوۃ حدیث 3580)
یہ تھا اللہ تعالیٰ سے محبت اور تقویٰ، پاکیزگی اور حقوق کی ادائیگی کا معیار۔ جنگ میں جا رہے ہیں۔ جان کی کوئی پروا نہیں ہے۔ کوئی فکر نہیں۔ بلکہ اس بات کی خوشی ہے کہ میں شہید ہونے والوں میں سے پہلے شہادت کی سعادت پانے والا ہوں یا پاؤں گا۔ یہ خوف نہیں کہ میری جوان بیٹیاں ہیں ان کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں۔ ان حقوق کی ادائیگی کے لئے ایک تو توکّل علی اللہ ہے۔ اللہ پر توکل کیا۔ پھر بیٹے کو نصیحت کی کہ اب تم نے گھر کا بڑا بن کر ان فرائض کو پورا کرنا ہے اور بہنوں کا خیال رکھنا ہے۔ اور پھر قرض کی ادائیگی کی بھی فکر ہے کہ یہودی سے قرض لیا ہوا ہے اس کا سامان بھی مَیں تمہیں نہیں کہتا کہ تم اپنی ذات سے کروبلکہ ان شاء اللہ تعالیٰ باغات کی آمد سے ادا ہو جائے گا۔ تم پر بوجھ نہیں ڈال رہا۔ ہاں ایک فرض سے تمہیں آگاہ کر رہا ہوں۔ ایک اسلامی حکم سے تمہیں آگاہ کر رہا ہوں کہ قرض کی ادائیگی کرنی ضروری ہے اور قرض اتار کر پھر ہی تم میری جائیداد کے وارث بن سکتے ہو۔ پہلی بات اور پہلا حکم یہی ہے کہ قرض اتارو۔
حضرت عبداللہ کی شہادت اور قربانی کو بھی کس طرح اللہ تعالیٰ نے نوازا۔ اس کا ذکر یوں ملتا ہے کہ حضرت عبداللہ کے بیٹے کو افسردہ دیکھ کر آنحضرتﷺ نے تعزیت فرمانے کے بعد فرمایا کہ مَیں تمہیں ایک خوش کرنے والی بات بتاتا ہوں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کو شہادت کے بعد اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا کہ مجھ سے جو چاہو خواہش کرو مَیں تمہیں عطا کروں گا۔ حضرت عبداللہ نے اپنے ربّ سے عرض کیا کہ اے میرے خدا! میں نے حقِ بندگی تو ادا نہیں کیا۔ تیرے سامنے خواہش کس منہ سے کروں۔ حالانکہ آپ کے عبادتوں کے معیار تھے، قربانیوں کے معیار تھے۔ لیکن پھر بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مَیں نے تیرا حقِ بندگی تو ادا نہیں کیا۔ پھر کس منہ سے تیرے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کروں۔ تیرا رحم اور فضل ہے جو عطا کر دے۔ پھر عرض کیا کہ خواہش میری اگر پوچھتا ہے اے اللہ! تو یہی خواہش ہے کہ مجھے تُو پھر دنیا میں لوٹا دے تا کہ مَیں پھر تیرے نبی کے ساتھ ہو کر دشمن کا مقابلہ کروں اور پھر شہید ہو کر آؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں یہ فیصلہ کر چکا ہوں جس کو ایک دفعہ موت دے دوں وہ دوبارہ دنیا میں لوٹایا نہیں جاتا۔ (مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 389 حدیث 15756 کتاب المناقب باب فی عبداللہ بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
پس یہ لوگ ایمان میں بڑھے ہوئے تھے۔ یقین میں بڑھے ہوئے تھے۔ کسی بھی صحابی کے واقعہ کو لے لیں۔ وہ اخلاص اور وفا اور خدا تعالیٰ کی خاطر جان کے نذرانے پیش کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی کی وجہ سے صحابہ کا ایمان ہر وقت بڑھتا ہی جاتا تھا۔ ان صحابہ کے عام روز کے معاملات بھی عشق الٰہی اور عشق رسول کے عجیب نظارے دکھاتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح کوئی موقع ملے اور ہم اپنی محبت کا اظہار کریں۔ حضرت عبداللہ بن عَمرو کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ کس طرح عام حالات میں آنحضرتﷺ سے محبت و وفا کا اظہار کریں۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ اپنے بیٹے حضرت جابر کے ہاتھ گھر میں پکی ہوئی کوئی میٹھی چیز آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھجوائی۔ جب وہ واپس آئے توبیٹے سے پوچھا کہ آنحضرتﷺ نے کچھ ارشاد فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ جابر گوشت لائے ہو۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمرو نے کہا کہ میرے آقا کو گوشت کی خواہش ہے۔ اسی وقت گھر کی ایک بکری ذبح کی اور پھر گوشت بھون کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھجوایا۔ آنحضرتﷺ نے ان کے خاندان کو بھی دعا سے نوازا۔
(الجامع لشعب الایمان جلد 8 صفحہ 62-63 حدیث 5503 مطبوعہ مکتبۃ الرشدناشرون ریاض 2003ء)
تو یہ تھے وہ صحابہ جو ترقی کرتے کرتے اپنے انتہائی مقام کو پہنچے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’چونکہ ترقی تدریجاًہوتی ہے اس لئے صحابہ کی ترقیاں بھی تدریجی طور پر ہوئی تھیں۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’آپ صحابہ کو دیکھ کر(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو دیکھ کر) چاہتے تھے کہ پوری ترقیات پر پہنچیں۔ لیکن یہ عروج ایک وقت پر مقدر تھا۔‘‘ (یعنی تدریجی ہوتا ہے) ’’آخر صحابہ نے وہ پایا جو دنیا نے کبھی نہ پایا تھا اور وہ دیکھا جو کسی نے نہ دیکھا تھا۔‘‘
(ملفوظات جلد 2صفحہ 52۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک موقع پر صحابہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بڑے سیدھے سادے تھے جیسے کہ ایک برتن قلعی کروا کر صاف اور ستھرا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی ان لوگوں کے دل تھے جو کلام الٰہی کے انوار سے روشن اور کدورت نفسانی کے زنگ سے بالکل صاف تھے۔ گویا قَدۡاَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰھَا کے سچے مصداق تھے۔‘‘ (ملفوظات جلد 6صفحہ 15۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’صحابہ نے اس قدر صدق دکھایا اور انہوں نے نہ صرف بُت پرستی اور مخلوق پرستی سے ہی منہ موڑا‘‘ (نہ صرف بت پرستی سے اور مخلوق پرستی سے یعنی لوگوں کو پوجنے سے اور لوگوں کی خوش آمدیں کرنا یا ان کی منّتیں کرنا یہ بھی پوجنا ہی ہوتا ہے۔) ’’بلکہ در حقیقت ان کے اندر سے دنیا کی طلب ہی مسلوب ہو گئی اور وہ خدا کو دیکھنے لگ گئے۔ وہ نہایت سرگرمی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسے فدا تھے کہ گویا ہر ایک ان میں سے ابراہیم تھا۔‘‘ (ملفوظات جلد 6صفحہ 137۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَا تُلۡھِیۡھِمۡ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ (النور:38)۔ (قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنہیں نہ کوئی تجارت اور نہ کوئی خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل کرتی۔)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے صحابہ کی فضیلت بیان فرمائی۔ چنانچہ فرمایا: ’’یہ ایک ہی آیت صحابہ کے حق میں کافی ہے کہ انہوں نے بڑی بڑی تبدیلیاں کی تھیں اور انگریز بھی اس کے معترف ہیں کہ ان کی کہیں نظیر ملنا مشکل ہے۔ بادیہ نشین لوگ اور اتنی بہادری اور جرأت تعجب آتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد5صفحہ 304۔ ایڈیشن 1985ء)
فرماتے ہیں:’’وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یاد الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے اور نہ بَیع مانع ہوتی ہے یعنی محبت الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں ان کے حال میں خلل انداز نہیں ہوسکتیں۔‘‘ (براہین احمدیہ، جلد اوّل صفحہ 617 حاشیہ)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے لَاتُلۡھِیۡھِمۡ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ۔ جب دل خدا کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو، مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح جو لوگ خدا کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا کو فراموش نہیں کرتے۔‘‘ (ملفوظات جلد 7صفحہ 20-21۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے وہ سچا تعلق اور عشق خدا تعالیٰ سے پیدا کر لیا تھا کہ سوال ہی نہیں تھا کہ وہ کسی طرح بھی خدا تعالیٰ سے غافل ہوں یا کسی بھی قربانی سے وہ دریغ کرنے والے ہوں۔ صحابہ کی بہت سی مثالیں ہیں۔ حضرت خَبَاب کے بارے میں آتا ہے جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ کا اتنا خوف اور خشیت تھی کہ انہوں نے اپنا کفن دیکھنے کے لئے منگوایا اور دیکھا تو وہ ایک عمدہ کپڑے کا کفن تھا۔ اپنے عزیزوں سے کہا کہ اتنا عمدہ کفن مجھے دوگے؟ اور رو پڑے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ کو ایک چادر کفن کے لئے میسر ہوئی تھی اور وہ بھی اتنی چھوٹی کہ پاؤں ڈھانکتے تو سر ننگا ہو جاتا تھا۔ سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے تھے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر پاؤں کو گھاس سے ڈھانپ دیا گیا۔ پھر انتہائی خشیت سے کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک دینار یا درہم کا بھی میں مالک نہیں تھا اور آج رسول اللہ ﷺ کے فیض کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے انعامات کی وجہ سے، ان قربانیوں کو قبول کرنے کی وجہ سے مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنی دولت دی ہے کہ میرے گھر کے کونے میں جو صندوق پڑا ہے اس میں ہی چالیس ہزار درہم پڑے ہوئے ہیں۔ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنا دیا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے اعمال کی جزا اس دنیا میں ہی نہ دے دی ہو اور کہیں آخری زندگی میں جو اجر ہے، اخروی زندگی کے جو اجر ہیں ان سے میں کہیں محروم نہ کر دیا جاؤں۔
اللہ تعالیٰ کی خشیت اور تقویٰ کا یہ مقام تھا کہ اپنے آپ کو انتہائی کمزور سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف تھا، فکر تھی کہ مرنے کے بعد خدا تعالیٰ راضی بھی ہوتا ہے کہ نہیں اور یہی دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعدجلد3 صفحہ 88-89 خباب بن الارتؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
معاذ بن جبل ایک صحابی تھے ان کے بارے میں آتا ہے کہ تہجد ادا کرنے والے اور لمبی عبادت کرنے والے تھے۔ ان کی تہجد کی نماز کا ان کے قریبیوں نے یوں نقشہ کھینچا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے کہ اے میرے مولیٰ! اس وقت سب سوئے ہوئے ہیں۔ آنکھیں سوئی ہوئی ہیں۔ اے اللہ! تُو حیّ و قیّوم ہے میں تجھ سے جنت کا طلب گار ہوں مگر اس میں کچھ سُست رَو ہوں۔ یعنی عمل کرنے میں میں سست ہوں۔ اور آگ سے دور بھاگنے میں کمزور اور ناتواں ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ جہنم کی آگ بھی ہے اور اس کے لئے نیکیاں کرنی پڑتی ہیں لیکن اس سے بچنے کے لئے میں بہت کمزور ہوں۔ اے اللہ! تُو مجھے اپنے پاس سے ہدایت عطا کر دے اور وہ ہدایت دے جو مجھے قیامت کے دن بھی نصیب ہو جس دن تُو اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرے گا۔ (اسد الغابہ جلد4 صفحہ 402معاذ بن جبلؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)
حضرت کعب بن مالک کے بیٹے حضرت معاذؓ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حضرت معاذؓ کے ساتھ عجیب سلوک تھا۔ وہ نہایت حسین بھی تھے۔ بہت سخی بھی تھے۔ ان کی دعائیں بھی بہت قبول ہوتی تھیں۔ جو اللہ تعالیٰ سے مانگتے اللہ تعالیٰ انہیں عطا بھی کر دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ان سے خاص معاملہ تھا۔ اگر قرض چڑھتے بھی تھے تو اترنے کے سامان بھی اللہ تعالیٰ فرما دیتا تھا۔ ایک عجیب فہم و فراست اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کی ہوئی تھی۔
(المعجم الکبیر للطبرانی جلد 20 صفحہ 30 تا 32 حدیث 44 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2002ء)
اللہ تعالیٰ سے محبت کی وجہ سے ان صحابہ کی رسول اللہ ﷺ سے بھی محبت تھی۔ یا رسول اللہ ﷺ کی محبت کی وجہ سے ہی خدا تعالیٰ سے بھی محبت پیدا ہوئی تھی کیونکہ آپ کی قوت قدسی نے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کا اِدراک ان لوگوں میں پیدا کیا تھا۔ جیسا کہ ذکر ہوا آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی نے ان میں ایک انقلاب پیدا کیا تھا ورنہ یہ عشق و محبت کی داستانیں جو ہیں کبھی رقم نہ ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر آنحضرت ﷺ سے جو محبت تھی وہ بھی ایسی کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ذکر کیا ہے۔ چنانچہ حضرت شمّاس بن عثمان کے بارے میں تاریخ نے ایسا واقعہ محفوظ کیا ہے جو ان کی آنحضرت ﷺ سے محبت کی ایک مثال بن گیا اور اسلام کی خاطر قربانی کے اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے کی بھی مثال ہے۔
جنگ اُحد میں جہاں حضرت طلحہؓ کی عشق و محبت کی داستان کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنا ہاتھ آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک کے سامنے رکھا کہ کوئی تیر آپ کو نہ لگے وہاں حضرت شمّاس نے بھی بڑا عظیم کردار ادا کیا ہے۔ حضرت شمّاس آنحضرت ﷺ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ہر حملہ اپنے اوپر لیا۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت شماس کے بارے میں فرمایا کہ شماس کو اگر میں کسی چیز سے تشبیہ دوں تو ڈھال سے تشبیہ دوں گا کہ وہ اُحد کے میدان میں میرے لئے ایک ڈھال ہی تو بن گیا تھا۔ وہ میرے آگے پیچھے دائیں اور بائیں حفاظت کرتے ہوئے آخر دم تک لڑتا رہا۔ آنحضرت ﷺ جس طرف نظر ڈالتے آپؐ فرماتے ہیں شماس انتہائی بہادری سے وہاں مجھے لڑتے ہوئے نظر آتا۔ جب دشمن آنحضرت ﷺ پر حملے میں کامیاب ہو گیا اور آپ کو غشی کی کیفیت طاری ہوئی۔ آپ گرگئے۔ تب بھی شمّاس ہی ڈھال بن کر آگے کھڑے رہے یہاں تک کہ خود شدید زخمی ہو گئے۔ اسی حالت میں انہیں مدینہ لایا گیا۔ حضرت اُمِّ سلمہؓ نے کہا کہ یہ میرے چچا کے بیٹے ہیں مَیں ان کی قریبی ہوں، رشتہ دار ہوں اس لئے میرے گھر میں ان کی تیمار داری اور علاج وغیرہ ہونا چاہیے۔ لیکن زخموں کی شدت کی وجہ سے ڈیڑھ دو دن بعد ہی ان کی وفات ہو گئی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ شماس کو بھی اس کے کپڑوں میں ہی دفن کیا جائے جس طرح باقی شہداء کو کیا گیا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 131 شماس بن عثمانؓ، صفحہ 115 طلحہ بن عبیدؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رنگ میں صحابہ کے مقام کو بھی پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے پاک نمونوں پر چلتے ہوئے خدا تعالیٰ کا حقیقی عشق اپنے دلوں میں پیدا کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص و وفا کاتعلق بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔