صوبہ سرحد میں احمدیت

صوبہ سرحد کے پہلے صوبائی امیر حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ نے اپنی کتاب میں حضرت مرزا محمد اسماعیل صاحب قندھاری کو اس علاقہ کا پہلا احمدی قرار دیا ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں پیر صاحب کوٹھہ شریف (حضرت سید امیرؒ) سے بہت پہلے سے سن رکھا تھا۔
حضرت مرزا محمد اسماعیل صاحب کی ولادت قریباً 1813ء میں ہوئی اور آپ بہ تلاش روزگار قندھار سے نکل کر براستہ چمن، کوئٹہ، شکارپور سندھ وغیرہ سفر کرتے ہوئے بمبئی کی تیسری رجمنٹ کے افسر کپتان راورٹی کے پشتو اور فارسی کے استاد اور منشی مقرر ہوئے۔ پھر کپتان کے ساتھ ہندوستان کے کئی مقامات کی سیر کرتے ہوئے لاہور سے ہوتے ہوئے پشاور پہنچے جہاں پادری ہیوز اور دوسرے پادریوںکی درخواست پر صحف انبیاء اور اناجیل اربعہ کا پشتو ترجمہ کیا۔ جب انگریزوں نے صوبہ سرحد میں مدارس کی بنیاد رکھی تو آپ کو ضلع ہزارہ اور پشاور میں مدارس قائم کرنے کے لئے چیف محرر مقرر کیا۔ اسی دوران آپ کے حضرت سید امیرؒ آف کوٹھہ تحصیل صوابی ضلع مردان سے دوستانہ تعلقات پیدا ہوگئے۔
آپ بیان کرتے تھے کہ حضرت سید امیرؒ ایک عالم اور خدارسیدہ شخص تھے۔ ایک دن بغرض نماز تجدید وضو فرما رہے تھے کہ اُن پر کشفی کیفیت طاری ہوئی اور افسوس سے کہا کہ ہمارا وقت گزر گیا ہے۔ کسی نے کہا کہ آپؒ کی عمر تو ابھی اس قدر نہیں اور آپؒ کے ساتھی عمدہ صحت رکھتے ہیں… تو آپؒ نے کہا کہ تم نے میرا مطلب نہیں سمجھا، جس شخص نے دنیا کی اصلاح کے واسطے پیدا ہونا تھا، وہ پیدا ہوگیا ہے یعنی امام مہدی آخرالزمان۔ اور اب ہمارا وقت ختم ہوچکا ہے۔ اُس شخص نے پوچھا کہ امام مہدی کہاں ہے؟۔ آپؒ نے فرمایا کہ مَیں اَور کچھ نہیں کہتا مگر صرف اس قدر کہ اس کی زبان پنجابی ہے اور میرے بعض لوگ اس کو آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ حضرت مرزا محمد اسماعیل صاحب قندھاری کی یہ شہادت حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں بھی درج فرمائی ہے۔
حضرت مرزا محمد اسماعیل صاحب بیان فرماتے تھے کہ ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کے بعد قریباً 1887ء میں مَیں تہجد پڑھ کر اپنے کمرہ میں مراقبہ میں بیٹھا تھا کہ مَیں نے دیکھا کہ کمرے کی چھت اوپر اٹھ گئی ہے اور تیز روشنی کمرہ میں داخل ہورہی ہے۔ جب روشنی قدرے مدھم ہوئی تو مَیں نے ایک بزرگ کو سروقد اپنے سامنے کھڑا دیکھا۔ مَیں نے اٹھ کر اس سے مصافحہ کیا اور باادب دوزانو ہوکر سامنے بیٹھا۔ پھر کشفی حالت بدل گئی۔ ایک عرصہ بعد جب مَیں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی تصویر دیکھی تو مَیں نے اُن کو شناخت کرلیا کہ یہ وہی بزرگ تھے۔ چنانچہ عرصہ دراز تک مَیں نے یہی سمجھا کہ میرا کشفی طور پر اُن سے مصافحہ کرنا ان سے بیعت کے مترادف ہے۔
حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم حضرت مرزا محمد اسماعیل صاحب سے ذکر کرتے کہ آپ بیعت کیوں نہیں کرتے تو آپ فرماتے کہ مَیں نے عالم کشف میں بیعت کی ہوئی ہے اور دستی بیعت تب کروں گا کہ مجھ میں شوق پیدا ہو اور خود قادیان جاسکوں۔ اتنے میں حضرت مسیح موعودؑ وفات پاگئے۔ پھر بھی آپ وہی بات کہتے رہے۔ 1911ء میں خاکسار نے عرض کیا کہ شریعت تو ظاہر کی پابند ہے۔ تب فرمایا کہ اچھا میری طرف سے بیعت کا خط لکھ دو۔ چنانچہ خاکسار نے حضرت خلیفۃالمسیح اوّلؓ کو آپ کی بیعتِ احمدیت کا خط لکھا اور آپ نے دستخط کردئے۔
سلسلہ احمدیہ کے تاریخی رجسٹر بیعت اولیٰ کی رو سے صوبہ سرحد کے اوّلین احمدی حضرت مولوی ابوالخیر عبداللہ صاحب ؓ تھے جنہیں 28؍مارچ 1889ء کو حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر شرف بیعت حاصل ہوا اور 29؍اپریل 1889ء کو حضورؑ نے اپنے قلم مبارک سے دوسروں کو بیعت لینے کا اجازت نامہ تحریر کرکے آپؓ کو عطا فرمایا۔ حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ کا بیان ہے کہ آپؓ تیس پینتیس سال کے خوشرو نوجوان تھے ، میانہ قد تھا، ذی علم اور متقی انسان تھے، ان کے چہرے سے رشد اور سعادت کے آثار نمایاں تھے۔
پشاور کے سب سے پہلے احمدی حضرت قاضی عبدالقادر خاں صاحبؓ، خاں بہادر تھے۔ آپؓ نے 24؍اگست 1889ء کو بیعت کی سعادت پائی۔
یہ تحقیق روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍جون 2000ء میں شائع ہونے والے مکرم محمود مجیب اصغر صاحب کے مضمون اور 26؍جون 2000ء میں شامل اشاعت محترم مولوی دوست محمد شاہد صاحب کے مضمون کا خلاصہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں