عالمگیر جنگوں کی ہولناک تباہیاں

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا اتمام حجت کے لئے نبی کو لاتا ہے‘‘۔ چنانچہ 1905ء میں حضرت اقدسؑ کو وحی الٰہی کے ذریعہ جس ’’زلزلہ‘‘ کی خبر دی گئی وہ عین عالمی جنگ کا نقشہ ہی تو تھا۔ عالمگیر جنگوں اور اسلام کی فتح کے متعلق ایک تفصیلی مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ کے سالانہ نمبر 1998ء میں مکرم محمود احمد اشرف صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

پہلی جنگ عظیم 1914ء میں شروع ہوئی۔ اگرچہ اُس وقت یورپ میں سیاسی، علاقائی اور اقتصادی رقابتوں کی بنیاد پر دو محاذ تھے۔ یعنی جرمنی کے حلیف آسٹریا، ہنگری اوراٹلی تھے۔ جبکہ برطانیہ جرمنی کی ترقی اور بحری فوجی قوت سے خائف لیکن سیاسی کشمکش سے الگ تھلگ ملک تھا۔ اس جنگ کی فوری وجہ آسٹریا کے بادشاہ کا ایک سرب کے ہاتھوں قتل بن گئی۔ آسٹریا نے جب سربیا کو حملے کی دھمکی دی تو سربیا نے روس سے مدد مانگی اور جرمنی نے حملے کے خطرے کے پیش نظر روس اور فرانس کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ جرمنی کی فوجیں جب بیلجیم میں سے گزریں تو اگرچہ بیلجیم ایک غیرجانبدار ملک تھا اور فرانس اور برطانیہ نے اُسے آزادی کی ضمانت دی ہوئی تھی مگر اُس نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ پھر ترکی بھی جرمنی کا حلیف بن گیا۔یہ جنگ چار سال تک جاری رہی جس میں کم از کم دو کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔
دوسری عالمی جنگ ستمبر 1939ء سے ستمبر 1945ء تک دنیا کے تقریباً ہر براعظم اور ہر بڑے سمندر میں لڑی گئی اور اس میں قریباً پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ اس جنگ کا آغاز بھی یورپ سے ہوا اور جرمنی میں ہٹلر کی قیادت نے اُن نو آبادیوں کی واپسی کا مطالبہ کردیا جو جنگ عظیم اوّل میں جرمنی کے قبضہ سے نکل گئی تھیں۔ چنانچہ جرمنی نے یکم ستمبر 1939ء کو پولینڈ پر مشرقی طرف سے حملہ کیا۔ اس پر برطانیہ اور فرانس نے بھی جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردیا مگر یہ عملاً پولینڈ کی کوئی مدد نہ کرسکے۔ روس چونکہ جرمنی کی طاقت سے خائف تھا چنانچہ سٹالن نے جرمنی سے عدم جارحیت کا معاہدہ کرلیا اور چونکہ اسی معاہدے میں پولینڈ کی تقسیم کا خفیہ معاہدہ بھی شامل تھا اس لئے روس نے پولینڈ پر مغربی طرف سے حملہ کردیا۔ کچھ عرصہ بعد جرمنی نے ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، بیلجیم اور فرانس پر حملے کرکے کامیابی حاصل کی۔ فرانس نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ہٹلر کی فتوحات کو روکنے والی اُس کی پہلی شکست برطانیہ پر فضائی حملے میں ناکامی تھی۔ تاہم اٹلی نے بھی جرمنی کی فتوحات سے حوصلہ پاکر برطانیہ پر حملہ کردیا۔ لیکن اٹلی کی یونان اور شمالی افریقہ میں شکست کے باعث ہٹلر وہاں جرمن فوج بھیجنے پر مجبور ہوا اور وہاں بھی اُسے فتوحات حاصل ہوئیں۔ ان حالات میں جاپان نے بحرالکاہل میں امریکی بیڑے پر حملہ کردیا اور ہٹلر نے بھی امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ آخر کار امریکہ نے جاپان کی پیش قدمی روکنے کے لئے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا جس سے علی الترتیب 80 ہزار اور 35 ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی جاپان نے شکست قبول کرلی اور جنگ ختم ہوگئی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1967ء میں اپنے دورہ یورپ کے دوران لندن میں خطاب کرتے ہوئے دو عالمی جنگوں کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد فرمایا:-
’’حضرت مسیح موعودؑ نے ایک تیسری جنگ کی بھی خبر دی ہے جو پہلی دونوں جنگوں سے زیادہ تباہ کُن ہوگی۔ دونوں مخالف گروہ ایسے اچانک طور پر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے کہ ہر شخص دم بخود رہ جائے گا۔ آسمان سے موت اور تباہی کی بارش ہوگی اور خوفناک شعلے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ نئی تہذیب کا قصر عظیم زمین پر آ رہے گا۔ دونوں متحارب گروہ یعنی روس اور اس کے ساتھی اور امریکہ اور اُس کے دوست ہر دو تباہ ہو جائیں گے، اُن کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی، اُن کی تہذیب و ثقافت برباد، اُن کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ بچ جانے والے حیرت اور استعجاب سے دم بخود اور ششدر رہ جائیں گے۔ روس کے باشندے جلد اس تباہی سے نجات پائیں گے اور بڑی وضاحت سے پیشگوئی کی گئی ہے کہ اس ملک کی آبادی پھر جلدی بڑھ جائے گی اور وہ اپنے خالق کی طرف رجوع کریں گے اور اُن میں کثرت سے اسلام پھیلے گا اور وہ قوم جو زمین سے خدا کا نام اور آسمان سے اِس کا وجود مٹانے کی شیخیاں بگھار رہی ہے، وہی اپنی گمراہی جان لے گی اور حلقہ بگوشِ اسلام ہوکر اللہ کی توحید پر پختگی سے قائم ہو جائے گی‘‘۔ (امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ صفحہ10)
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے بارہا تیسری عالمی جنگ کے وقت کے قریب آنے کے بارے میں متنبہ فرمایا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایک خوشخبری بھی عطا فرمائی ہے۔ چنانچہ 6؍مارچ 1998ء کو فرانسیسی احباب کے ساتھ پروگرام ملاقات میں اس سوال کے جواب میں کہ تیسری جنگ عظیم کے دوران احمدیوں کا کیا بنے گا، حضور انور نے فرمایا کہ انشاء اللہ خدا تعالیٰ انہیں بچالے گا اور اُن کے ذریعے اسلام کا بول بالا ہوگا۔
حضرت مسیح موعودؑ اپنے منظوم کلام میں شدید تباہی و بربادی کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں

سخت ماتم کے وہ دن ہوں گے مصیبت کی گھڑی
لیک وہ دن ہوں گے نیکوں کیلئے شیریں ثمار
آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے
جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

اپنا تبصرہ بھیجیں