’’عشق الٰہی وسے منہ پرولیاں ایہہ نشانی ‘‘ (تذکرہ صفحہ390)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرے پر تقدّس اور انوار آسمانی کے نشانات نمایاں تھے۔ چنانچہ ’’تذکرہ‘‘ میں مذکور ایک پنجابی الہام’’عشق الٰہی وسے منہ پرولیاں ایہہ نشانی ‘‘ کے زیرعنوان ایک تفصیلی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍اکتوبر 2012ء میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرۂ مبارک کی زیارت کرنے والا بے اختیار پکار اٹھتا تھا کہ یہ شکل کسی جھوٹے کی نہیں۔ آپ کے مقدس چہرہ پر انوارِ روحانی کی بارش کا وہ سماں تھا کہ ہر دیکھنے والا اس کے سحر میں گم ہو جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دُور و نزدیک سے اور دیاروامصار سے پروانے اس شمع پر فدا ہونے کے لئے بے اختیار لپکے پڑتے تھے اور غیر کوشش کرتے تھے کہ کوئی شخص قادیان پہنچ کر اس مبارک چہرہ کو دیکھ نہ پائے۔
=… حضرت شکر الٰہی صاحب احمدیؓ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار ابھی بارہ تیرہ سال کا بچہ تھا تو گورداسپور میں پرائمری میں پڑھتا تھا۔ دین سے بالکل بے بہرہ تھا۔ اس وقت ایک مقدمہ کے لئے حضرت مسیح موعودؑ اپنے صحابہ کے ساتھ وہاں رونق افروز ہوا کرتے تھے تو خاکسار مدرسہ چھوڑ کر آپؑ کی رہائشگاہ کے پاس کھڑا رہتا اور آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھتا رہتا تھا۔ اس بات پہ مجھے حیرت تھی کہ ایسے ایک عاشق صادق تھے کہ ان کے دائیں ہاتھ میں بڑا پنکھا پکڑا ہوا ہوتا تھا اور بڑے زور سے ہلاتے رہتے تھے (دیر تک کھڑا اُن کو دیکھتا رہتا اور حیران ہوتا کہ ہاتھ تھکتے نہیں ہیں) ۔ سارا دن یہی سلسلہ جاری رہتا۔
=… حضرت مدد خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں ابھی نیا نیا ہی فوج میں جمعدار بھرتی ہوا تھا تو میری اس وقت یہی خواہش تھی کہ اپنی ملازمت پر جانے سے پہلے مَیں قادیان جاؤں تا حضورؑ کے چہرہ مبارک کا دیدا رحاصل کرسکوں اور آپؑ کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کروں کیونکہ میری بیعت 1895ء یا 1896ء کی بذریعہ ڈاک ہوئی تھی اور میرا قادیان میں آنے کا یہ پہلا موقعہ تھا۔ مجھے خیال آیا کہ ملازمت پر چلا گیا تو پھر خدا جانے حضورؑ کو دیکھنے کا شاید موقعہ ملے یا نہ ملے۔ لیکن جونہی یہاں آکر مَیں نے حضورؑ کے چہرہؑ مبارک کا دیدارکیا تو میرے دل میں یکلخت یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر مجھ کو ساری ریاست کشمیر بھی مل جائے تو بھی مَیں آپ کو چھوڑ کر قادیان سے باہر ہر گز نہ جاؤں۔ میرے لئے آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر قادیان سے باہر جانا بہت دشوار ہوگیا یہاں تک کہ مجھے آپ کو دیکھتے ہی سب کچھ بھول گیا میرے دل میں بس یہی ایک خیا ل پیدا ہوگیا کہ اگر باہر کہیں تیری تنخواہ ہزار روپیہ بھی ہوگئی تو کیا ہوگا لیکن تجھ کو یہ نورانی اور مبارک چہرہ ہرگز نظر نہ آئے گا ۔ میں نے اس خیال پر قادیان میں ہی رہنے کا ارادہ کرلیا۔
=… حضرت میاں وزیر محمد خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں قادیان آیا تو بیمار تھا۔ یہاں آکر تندرست ہوگیا۔ پہلے میری یہ حالت تھی کہ چند لقمے کھاتا تھا اور وہ بھی ہضم نہ ہوتے تھے مگر یہاں آکر دو روٹی ایک رات میں کھالیتا تھا۔ پھر واپس امرتسر گیا تو وہی حالت ہوگئی۔
پہلی دفعہ جو حضرت صاحب کی زیارت ہوئی تو مسجد مبارک کے ساتھ کے چھوٹے کمرہ میں وضو کر رہا تھا کہ حضرت اقدسؑ اندر سے تشریف لائے جونہی حضورؑ کا چہرہ دیکھا تو عقل حیران ہوگئی اور بے خود ہوگیا۔ جمعہ کے دن مَیں کچھ ایسی حالت میں تھا کہ حضرت صاحب کے نزدیک کھڑے ہو کر مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی۔ اس وقت حضرت صاحب کی ایک توجہ ہوئی اس کے بعد میں سخت رویا۔ کہتے ہیں کہ صوفیاء کے مذہب میں یہ غسل کہلاتا ہے۔
=… حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ ولد شیخ مسیتا صاحب فرماتے ہیں حضرت مسیح موعودؑ جب مسجد مبارک میں نماز سے فارغ ہو کر تشریف رکھتے تو ہماری خوشی کی انتہاء نہ رہتی کیونکہ ہم یہ جانتے تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کی معرفت کے نکات بیان فرما کر محبت الٰہی کے جام ہم پئیں گے اور ہمارے دلوں کے زنگ دور ہوں گے۔ سب چھوٹے بڑے ہمہ تن گوش ہوکر اپنے محبوب کے پیارے اور پاک منہ کی طرف شوق بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے کہ آپ اپنے رُخ مبارک سے جو بیان فرمائیں گے اسے اچھی طرح سن لیں ۔
=… حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ مزید فرماتے ہیں کہ مَیں جب مسجدمبارک میں جاکر نماز ادا کرتا ہوں تو نماز میں وہ حلاوت اور خشیت اللہ دل میں پیدا ہوتی ہے کہ دل محبت الٰہی سے سرشار ہوجاتا ہے۔ حضرت اقدس کے پاک اور منور چہرہ کو دیکھ کر نہ کوئی غم ہی رہتا ہے اور نہ کسی کا گلہ شکوہ ہی رہتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب ہم جنت میں ہیں اور آپ کو دیکھ کر ہماری آنکھیں اُکتاتی نہ تھیں ایسا پاک اور منور رُخ مبارک تھا کہ ہم نوجوان پانچوں نمازیں ایسے شوق سے پڑھتے تھے کہ ایک نماز کو پڑھ کر دوسری نماز کی تیاری میں لگ جاتے تھے یہی کشمکش رہتی تھی کہ حضرت اقد س کے پاس ہی جگہ نصیب ہو۔ اللہ اللہ ! وہ کیسا مبارک اور پاک وجود تھا جس کی صحبت نے ہمیں مخلوق سے مستغنی کردیا اور ایسا صبر دے دیا کہ غیروں کی محبت سے ہمیں نجات دلادی اور ہمیں مولیٰ ہی کا آستانہ دکھادیا ۔
=… حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حکیم احمد دین صاحبؓ جب حضورؑ کی ملاقات کے لئے لا ہور جانے لگے تو اُن کے کہنے پر مَیں بھی حضور کو دیکھنے کے لئے ساتھ چل پڑا مگر بیعت کا ہر گز کوئی ارادہ نہیں تھا۔ جب خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کی طبیعت علیل ہے۔ مخلوق بے شمار تھی۔ حضور کی خدمت میں کسی نے عرض کیا کہ ہجوم بہت زیادہ ہے حضور کی زیارت کرنا چاہتا ہے۔ حضورؑ نے کھڑکی سے سر نکالاتو مَیں نے اندازہ لگایا کہ یہ چہرہ ہر گز جھوٹوں کا نہیں ہوسکتا، چنانچہ میں نے بیعت کرلی۔
=… حضرت شیخ رحمت اللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں پھیری کر کے بزّازی کا کاروبار کرتا تھا۔ ایک دن محمد چراغ صاحب مصنف ’’سیفِ حق‘‘ اور امام الدین صاحب ہمارے گاؤں میں آئے۔ یہ موسم گرما تھا۔ مَیں نماز تہجد کے لئے اُٹھا تو اُن کو اپنے گھر کی چھت پر نماز میں مصروف دیکھا۔ جب مَیں نے نماز تہجد ختم کرلی تو پھر بھی ان دونوں کو مصرو ف عبادت پایا تو خیال آیا کہ ان فرشتہ سیرت لوگوں سے ملاقات کرنی چاہئے۔ چنانچہ اُن سے ملاقات کی تو ان کی پاکیزہ دلی اُن کے چہرہ سے ہی نظر آتی تھی اور دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ہم احمدی ہیں۔ نیز انہوں نے احمدیت اور حضورؑ کے دعویٰ کے بارہ میں بتایا۔ حضورؑ کا دعویٰ میرے لئے باعث تعجب تھا کیونکہ مَیں حیاتِ مسیح کا قائل تھا۔ میں نے کچھ آیات پیش کیں جو انہوں نے فورا ً حل کردیں اور میں اُسی وقت وفات مسیح کا قائل ہوگیا۔ ان کا انداز گفتگو اس قدر حلیمانہ اور پُرخلوص تھا کہ ایک ایک بات میرے دل میں اترتی چلی گئی۔ میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ کل جمعہ قادیان میں پڑھیں گے۔ مَیں نے کہا کہ مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔ چنانچہ ہم تینوں قادیان پہنچے اور مسجد مبارک میں گئے۔ مؤذن نے اس قدر خوش الحانی سے اذان دی کہ گویا ایک وجد کا عالم طاری ہوگیا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے پُرسوز خطبہ دیا جس کا اثر نماز میں بھی قائم رہا۔ حضورؑ مسجد میں تشریف لائے تو حضورؑ کا انوار سے منور چہرہ دیکھ کر حضورؑ کی محبت میرے دل میں گھر کر گئی۔ چنانچہ عصر کے بعد مَیں نے بیعت کی۔
=… حضرت اقدسؑ کی نوجوانی کے زمانہ کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ ڈلہوزی جاتے ہوئے رستہ میں بارش آگئی۔ آپؑ یکّہ پر سوار تھے۔ ایک پہاڑئیے کا مکان سامنے نظر آیا۔ آپ نے اپنے ساتھی کو بھیجا تاکہ اُس کی اجازت سے تھوڑی دیر اُس کے مکان میں بارش سے پناہ لی جاسکے۔ لیکن دیکھا کہ پہاڑئیے اور آپ کے ساتھی کے درمیان کچھ تکرار ہو رہی ہے۔ اس پر آپ خود تشریف لے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ پہاڑ یا مکان کے اندر آنے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن جیسے ہی آپؑ اس کے سامنے آئے تواُس نے ایک نظر ڈالتے ہی کہہ دیا کہ آپ اندر آجائیں۔ پھر کہنے لگا کہ میری ایک جوان لڑکی ہے اُس کی وجہ سے مَیں کسی شخص کو اپنے گھر کے اندر آنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن آپؑ کو دیکھ کر میری تسلّی ہو گئی۔ اس سے قبل اُس نے حضرت اقدسؑ کو کبھی دیکھا بھی نہ تھا اور اُس زمانہ میں آپ جوان عمر تھے لیکن چہرہ پر ایسے تقدّس اور طہارت کے نشان نمایاں تھے کہ ایک جاہل پہاڑئیے کی آنکھوں سے بھی پوشیدہ نہ رہ سکے۔
=… ایک دفعہ مردان کا کوئی آدمی میاں محمد یوسف صاحب کے ساتھ حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ سے علاج کرانے قادیان آیا۔ چونکہ یہ شخص حضرت اقدس کا سخت دشمن تھا اور محض علاج کی خاطر مجبوراً قادیان آیا تھا اس لئے اُس نے یہ شرط کرلی تھی کہ قادیان میں مجھے احمدیوں کے محلہ کے باہر کوئی مکان لے دینا۔ خیر وہ آیا اور احمدی محلہ سے باہر ٹھہرا۔ علاج ہوتا رہا۔ کچھ دنوں کے بعد اُسے افاقہ ہوا تو وہ واپس جانے لگا تو محمد یوسف صاحب نے کہا کہ تم قادیان آئے اور اب جاتے ہو تو ہماری مسجد تو دیکھتے جاؤ۔ اُس نے انکار کیا۔ میاں صاحب نے اصرار کیا۔ اُس نے اس شرط پر مانا کہ ایسے وقت میں مجھے وہاں لے چلو کہ وہاں نہ مرزا صاحب ہوں اور نہ کوئی اور احمدی موجود ہو۔ میاں صاحب نے مان لیا اور ایسا ہی وقت دیکھ کر اُسے مسجد مبارک میں لائے۔ مگر خدا کی قدرت کہ اِدھر اُس نے مسجد میں قدم رکھااور اُدھر حضرت اقدسؑ کے مکان کی کھڑکی کھلی اور آپ کسی کام کے لئے مسجد میں تشریف لائے۔ اس شخص کی نظر آپؑ کی طرف اٹھ گئی اور اُس نے بیتاب ہو کر اُسی وقت بیعت کرلی۔
=… حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ نے پہلی بار 1905ء میں قادیان آکر بیعت کی۔ آپؑ بیان کرتے ہیں کہ نارِ عشق کا شعلہ پھر بھڑکا جس نے دو سال بعد 1907ء میں بر موقعہ جلسہ سالانہ مجھے اپنے محبوب کے پاس پہنچادیا جہاں میرے جیسے سینکڑوں دیوانے موجود تھے۔ ایک سے ایک بڑھ کر اس نور کے پتلے پر فدا نظر آتا تھا ۔ جہاں مجھے اپنی بے مائیگی صاف صا ف نظر آنے لگی اور اپنا عشق ہیچ معلوم ہونے لگا مگر وہ دادار جس کی نظر دلوں پر ہے ہر دل کی کیفیت کو خوب جانتا ہے۔ میرے دل نے خواہش کی کہ سیدنا مسیح پاکؑ کو دُور سے تو دیکھ لیا ہے مگر نزدیک بیٹھ کر دیکھنے کا موقعہ مل جائے تو کیا خوش قسمتی ہے۔ ابھی اس خیال ہی میں مسجد اقصیٰ کے آخری حصہ میں نماز جمعہ کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ وہ چاند سے مکھڑے والا خوشبو سے معطر دلبر آتا ہے اور عین … سامنے بیٹھ جاتا ہے اور میں شکر مولیٰ میں لگ جاتا اور حیرت میں پڑ جاتا ہوں ۔
=… حضرت حاجی غلام احمد صاحبؓ سکنہ کریام پور کو احمدیت کا تعارف حضرت مسیح موعود کی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ سے ہوا جو اُن کا ایک کاشتکار لے کر آیا تھا ۔ بعدازاں دو دیگر کتب نے راہ کی تمام روکیں دُور کردیں اور استخارہ کرنے کے بعد 1903ء میں قادیان آئے تو مسجد اقصیٰ میں عصر کی نماز کے بعد حضرت خلیفہ اوّلؓ کو درس قرآن دیتے ہوئے سنا۔ معارف قرآنی اور تفسیر نے آپ پر خاص اثر کیا تو آپ نے ایک شخص سے پوچھا یہی مسیح موعود ہیں ؟ اُس نے کہا یہ تو مولوی نور الدین صاحبؓ ہیں۔ اس پر آپ بہت خوش ہوئے کہ جس دربار کے مولوی ایسے باکمال ہیں وہ خود کیسے ہوں گے ۔ انہوں نے دریافت کیا مسیح موعود کہاں ملیں گے؟ انہوں نے کہا حضور نماز مغرب کے لئے مسجد مبارک میں تشریف لائیں گے۔ نماز مغرب مسجد مبارک میں مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہوکر حضرت صاحب بیٹھ گئے تو مَیں نے حضورؑ سے مصافحہ کیا۔ حضورؑ کی شکل متبرک تھی۔
=… حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے۔ آپؓ کو 1905ء میں دستی بیعت کی سعادت ملی۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت مسیح موعودؑ کے عم زاد مرزا کمال الدین کے مرید تھے۔ لیکن ایک روز انہوں نے میری موجودگی میں میری والدہ سے کہا کہ لوگ قادیان والے مرزا صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود) کو بُرا بھلا کہتے ہیں، مَیں تو دیکھ کر آیا ہوں، بڑا نورانی چہرہ ہے مَیں تو ان کی اقتدا میں جمعہ پڑھ آیا ہوں۔
=… مسٹر والٹر آنجہانی جو آل انڈیا وائی، ایم، سی اے کے سیکرٹری تھے۔1916ء میں سلسلہ احمدیہ کے متعلق تحقیق کے لئے قادیان آئے اور انہوں نے یہ خواہش کی کہ مجھے بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی پرانے صحابی سے ملایا جائے۔ اُس وقت منشی اروڑے خاں صاحبؓ قادیان میں تھے ۔ مسٹر والٹر کو اُن کے ساتھ مسجد مبارک میں ملایا گیا۔ مسٹر والٹر نے منشی صاحب سے رسمی گفتگو کے بعد یہ دریافت کیا کہ آپ پر مرزاصاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا؟ منشی صاحب نے جواب دیا کہ مَیں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں اور علمی دلیلیں نہیں جانتا مگر مجھ پر جس بات نے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی جس سے زیادہ سچا اور زیادہ دیانتدار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا۔ اُنہیں دیکھ کر کوئی شخص نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے ۔ باقی مَیں تو ان کے منہ کا بھوکا ہوں۔ یہ کہہ کر منشی صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی یاد میں اس قدر بے چین ہوگئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور روتے روتے اُن کی ہچکی بندھ گئی۔ اس وقت مسٹروالٹر کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں اور چہرہ کا رنگ سفید پڑ گیا۔ بعد میں انہوں نے اپنی کتاب ’’احمدیہ موومنٹ ‘‘ میں اس واقعہ کا خاص طور پر ذکر کیا اور لکھا کہ جس شخص نے اپنی محبت میں اس قسم کے لوگ پیدا کئے ہیں اُسے ہم کم ازکم دھوکہ باز نہیں کہہ سکتے۔
=… حضرت منشی اروڑے خاں صاحبؓ سے ایک دفعہ بعض غیر از جماعت دوستوں نے کہا تم ہمیشہ ہمیں تبلیغ کرتے رہتے ہو، فلاں جگہ مولوی ثناء اللہ صاحب آئے ہوئے ہیں تم بھی چلو اور ان کی باتوں کا جواب دو۔ منشی صاحب مرحوم زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ جب دوستوں نے زیادہ اصرار کیا تو آپؓ چلے گئے۔ جلسہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے احمدیت کے خلاف تقریر کی اور اپنی طرف سے خوب دلائل دئیے۔ تب منشی صاحب سے ان کے دوست کہنے لگے بتائیں ان دلائل کا کیا جواب ہے؟ منشی صاحبؓ نے فرمایا :یہ مولوی ہیں اور میں اَن پڑھ آدمی ہوں، ان کی دلیلوں کا جواب تو کو ئی مولوی ہی دے گا۔ مَیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مَیں نے حضرت صاحب کی شکل دیکھی ہوئی ہے وہ جھوٹے نہیں ہوسکتے۔
=… حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ کے پاس جب حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے دعویٰ مسیحیت کا اشتہار پہنچا تو آپ بہت ہی خوش ہوئے۔ لوگوں نے اتنی خوشی کی وجہ پوچھی تو آپ نے وہ اشتہار اُن کو پڑھ کر سنایا۔ لوگوں نے کہا کہ کئی مہینے سے تو آپ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت مسیح آسمان پر زندہ ہیں اور پھر آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے اور امام مہدی پہلے موجود ہوں گے۔ آپؓ نے کہا وہ پہلا بیان غلط تھا اور یہ صحیح ہے جو اس اشتہار میں ہے۔ پہلے بے تحقیقی محض کہانی کے طور پر محض سنا سنایا جاتا تھا اور یہ حق ہے۔ میرے پاس اس وقت اور کوئی دلیل نہیں صرف یہی دلیل کافی ہے کہ ایک مدّت سے میں آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔ یہ منہ ہی جھوٹوں کا نہیں ہے۔ جس کی صداقت کے نشان کئی سال سے دیکھے گئے، اس کا خلافِ واقعہ کوئی بیان نہیں سنا تو اب کیسے یکایک اس کا بیان کذب پر محتمل ہوسکے۔
=… مولوی بشارت احمد صاحب سابق امیر حیدرآباد کو جب احمدیت سے متعلق علم ہوا تو تحقیق کے دوران انہیں علم ہوا کہ مولوی میر مردان علی صاحب صدر محاسب بھی احمدی ہیں۔ آپ اُن کے پاس گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی لاجواب تصنیف ’’نورالدین‘‘ مطالعہ کے لئے طلب کی۔ وہ آپ کو ایک کمرہ میں لے گئے اور دکھایا کہ مکان بدلنے کی وجہ سے ابھی سامان بندھا ہوا ہے۔ اسی کمرہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر لٹکی ہوئی تھی۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ وہ سادہ تصویر تھی۔ ایک لکڑی کی معمولی کرسی پر ہاتھ رکھے ہوئے بحالت استغناء کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ تصویر دیکھتے ہی میرے قلب پر ایک خاص اثر ہوا کہ یہ شخص بناوٹی نہیں ہے۔ اور خاص کر چہرے اور آپ کی آسودگی کی کیفیت اور آنکھوں کے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک استغراق اور محویت کے عالم میں کھڑے ہیں۔
=… حضرت بھائی شیخ عبدالرحیم صاحب شرماؓ پہلے ہندو تھے پھر آپ کی اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی طرف رہنمائی فرمائی۔ حضرت منشی عبدالوہاب صاحبؓ کی تحریک پر آپ چند دن کی چھٹی لے کر قادیان آئے۔ ان دنوں دو جگہ جمعہ ہوتا تھا مسجد مبارک میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جمعہ پڑھاتے تھے اور مسجد اقصیٰ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب۔ فرماتے ہیں ہم نے جمعہ مسجد مبارک میں پڑھا میں کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا کہ یہاں سے حضرت اقدس تشریف لائیں گے۔ مسجد چھوٹی سی تھی۔ ایک صف میں بمشکل چھ یا سات آدمی سماسکتے تھے۔جب کھڑکی کے راستہ سے حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لائے تو میں نے مصافحہ کیا اور کپڑوں کو چھوا تو مجھے خوشبو آئی غالبا ً حضور نے عطر لگایا ہوا تھا۔ حضورؑ کی زیارت سے میرے قلب پر خاص اثر پڑا۔ آپ کو دیکھ کر میں بے تاب ہوگیا۔ جب گھر سے چلا تھا تو میری نیت بیعت کرنے کی نہ تھی صرف حضور کی زیارت مقصود تھی۔ قادیان میں آکر منشی صاحب کا مشورہ یہی تھا کہ میں ابھی بیعت نہ کروں۔ لیکن حضورؑ کو دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور مغرب کی نماز کے بعد جب بیعت ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو توفیق دیدی۔
=… حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے 13سال کی عمر میں پہلی دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کا نام تب سنا جب ایک شخص نے اثنائے گفتگو میں کہا کہ قادیان میں ایک مرزا صاحب ہیں جنہیں الہام ہوتے ہیں۔ بعدازاں حضرت مولانا نورالدین صاحب کا شاگرد ہونے کی وجہ سے آپ کے دل میں حضرت اقدس سے متعلق حسن ظن پیدا ہوگیا۔ 1890ء میں آپ نے حضورؑ کی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ پڑھی تو آپ قادیان تشریف لائے۔ مسجد مبارک میں آپ کی حضورؑ سے ملاقات ہوئی۔ آپ فرماتے ہیں: ’’میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے حضرت صاحب کی صداقت قبول کر لینے اور آپ کی بیعت کر لینے کی طرف کشش کی سوائے اس کے کہ آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھا جس پر یہ گمان نہ ہوسکتا تھا کہ وہ جھوٹا ہو‘‘۔
=… حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں حضرت مسیح موعودؑ ہمہ شفقت اور کامل کرم فرما تھے لیکن آپ کا چہرہ مبارک ایسا پُر رعب اور پُرشوکت تھا، تجلیات الٰہیہ کی ایک شان اس سے ہویدا تھی کہ کوئی شخص ٹکٹکی لگا کر آپ کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا، دلبری اور رعنائی کے وہ لوازم جو ایک خوبصورت اور وجیہ چہرہ پر نمایاں ہونے چاہئیں وہ کامل صفائی کے ساتھ درخشاں تھے۔
=… حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں آپ کے تمام حلیہ کا خلاصہ ایک فقرہ میں یہ ہوسکتا ہے کہ آپ مردانہ حسن کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ مگر یہ فقرہ بالکل نامکمل رہے گا اگر اس کے ساتھ دوسرا یہ نہ ہو کہ یہ حسنِ انسانی ایک روحانی چمک دمک اور انوار اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا۔ آپؑ کا جمال خدا کی قدرت کا نمونہ تھا جو دیکھنے والے کے دل کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ آپؑ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا۔ یعنی اس میں ایک نورانیت اور سرخی جھلک مارتی تھی اور یہ چمک جو آپ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی عارضی نہ تھی بلکہ دائمی۔ کبھی کسی صدمہ، رنج، ابتلا، مقدمات اور مصائب کے وقت آپ کا رنگ زرد ہوتے نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دمکتا رہتا تھا۔علاوہ اس چمک اور نور کے آپ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور تبسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر یہ شخص مفتری ہے اور دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اس کے چہرہ پر یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمانیتِ قلب کے آثار کیونکر ہوسکتے ہیں۔
=… حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلویؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں 1891ء میں موضع سیکھواں نزد قادیان میں بطور پٹواری تبدیل ہوکر آگیا۔ اس وقت میں احمدی نہیں تھا لیکن حضرت صاحب کا ذکر سنا ہوا تھا۔ مخالفت تو نہیں تھی لیکن زیادہ تر یہ خیال روک ہوتا تھا کہ علماء سب آپؑ کے مخالف ہیں۔ سیکھواں جاکر میری واقفیت میاں جمال الدین اور اُن کے بھائیوں سے ہوئی جنہوں نے مجھے حضرت صاحب کی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ دی۔ میں نے دعا کرنے کے بعد کتاب پڑھنی شروع کی تو میرے دل میں حضرت صاحب کی صداقت میخ کی طرح گڑ گئی اور سب شکوک رفع ہوگئے۔ چند روز بعد میں میاں خیرالدین کے ساتھ قادیان گیا تو پہلی دفعہ حضرت صاحب کی زیارت کی اور مَیں نے میاں خیر دین صاحب کو کہا کہ یہ شکل جھوٹوں والی نہیں ہے ۔ چنانچہ میں نے بیعت کرلی۔
=… محترم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب اپنی کتاب ’’مجدّد اعظم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے شمائل کو قلم سے بیان کرنا تو ممکن ہے ، فوٹو بھی موجود ہے لیکن وہ آثار تقدّس اور انوار آسمانی جو آپ کے چہرے پر ہر وقت نظر آتے تھے ان کو نہ قلم بیان کر سکتی ہے ، نہ فوٹو دکھا سکتا ہے۔ جس وقت آپ ایک چھوٹے سے دروازہ کے ذریعہ گھر میں سے نکل کر مسجد میں تشریف لاتے تو یہ معلوم ہوتا کہ ایک نور کا جمگھٹا سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ سب سے پہلے خاکسار نے حضرت اقدسؑ کو سیالکوٹ میں 1891ء میں دیکھا تھا۔ آپ حکیم حسام الدین مرحوم کے مکان سے نکلے ، گلی میں سے گزر کر سامنے کے مکان میں چلے گئے لیکن مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک نور کا پُتلاآنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔ جو مقدّس سے مقدّس شکل میرا ذہن تجویز کر سکتا تھا، وہ ا س سے بھی بڑھ کر تھا۔ بے اختیار میرے دل نے کہا کہ یہ شکل جھوٹے کی نہیں بلکہ کسی بڑے مقدّس انسان کی ہے۔ ایک دفعہ سردیوں کے موسم میں بارش ہو رہی تھی۔ مسجد مبارک میں نماز مغرب کے وقت اندھیرا سا تھا۔ حضرت اقدسؑ اندر سے تشریف لائے تو روشن کی ہوئی موم بتی آپؑ کے ہاتھ میں تھی جس کا عکس آپ کے چہرۂ مبارک پر پڑ رہا تھا۔ اللہ اللہ! جو نور اس وقت آپ کے چہرے پر مجھے نظر آیا وہ نظارہ آج تک نہیں بھولتا۔ چہرہ آفتاب کی طرح چمک رہا تھا جس کے سامنے وہ شمع بے نور نظر آتی تھی۔ اس کے کئی سال بعد 1906ء میں ایک روز حضرت اقدسؑ کی طبیعت ناساز تھی، سر میں سخت درد تھا مگر اسی تکلیف میں آپ ظہر کی نماز کے لئے مسجد میں تشریف لائے۔ گو سر درد کی وجہ سے چہر ہ پر تکلیف کے آثار تھے لیکن پیشانی پر ایک نور کا شعلہ چمکتا نظر آتا تھا جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتیں اور دل کو سرور آتا تھا۔ آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ غیرمعمولی چمک کس چیز کی تھی۔ یہ تو خاص اوقات کا ذکر میں نے کیا جن کا اثر غیر معمولی طور پر دل پر رہ گیا ورنہ آپ کے چہرہ پر تقدّس کے آثار ایسے نمایاں تھے اور انوار روحانی کی بارش کا وہ سماں نظر آتا تھا کہ ناممکن تھا کہ کوئی شخص اسے دیکھے اور متأثر نہ ہو۔ اُس زمانہ میں ہم لوگ فقط وفات مسیحؑ منوانے کی کوشش کرتے تھے۔ جہاں کسی نے وفات مسیحؑ کو مان لیا پھر نزول مسیحؑ پر بحث کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ ایک دفعہ حضرت اقدسؑ کو دیکھ لے۔ لوگ کہتے تھے کہ مرزا کے پاس نہ جاؤ وہ لوگوں پر جادو کر دیتا ہے۔ انہیں مسمرائز کردیتا ہے۔ حالانکہ یہ غلط تھا۔ مسمرائز تو آنکھوں سے اثر ڈالتا ہے اور آپؑ کی آنکھیں ہمیشہ نیچی رہا کرتی تھیں۔ آنکھیں اٹھا کر دیکھنے کی آپؑ کو عادت ہی نہ تھی۔ بات یہ ہے کہ چہرے پر تقدّس اور انوار آسمانی کے نشانات ایسے نمایاں تھے کہ ناممکن تھا کہ لوگ دیکھیں اور متأثر نہ ہوں۔
وہ اک حسین تھا اس عہد کے حسینوں میں
اُسے کسی نے تو کافر قرار دینا تھا