فجی میں احمدیت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ سالانہ نمبر 2006ء میں مکرم نعیم احمد محمود چیمہ صاحب (امیر و مبلغ انچارج) کے قلم سے جماعت احمدیہ فجی کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
1879ء سے 1919ء تک جب 60 ہزار انڈین مزدور گنے کی فصل کاشت کرنے کے لئے فجی لائے گئے تو یہاں ہندو کلچر اور زبان نے بھی فرو غ پایا۔ پھر جب برصغیر پاک و ہند میں شدھی کی تحریک چلی تو اس کا اثر یہاں بھی پہنچا۔ اس تحریک کا مقابلہ کرنے کے لئے یہاں کے مسلمانوں کا رابطہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام سے ہوا تو انجمن کے ایک عالم مرزا مظفر بیگ صاحب یہاں تشریف لائے۔ اُنہی دنوں میں ایک احمدی تاجر مکرم چوہدری عبد الحکیم صاحب فجی کے شہر ناندی پہنچے اور یہاں کاروبار شروع کیا، آپ خلافت احمدیہ سے وابستہ تھے اور اپنے غیرمبائع احمدی دوستوں کو بھی لٹریچر دیا کرتے تھے۔ اُن کی تبلیغ سے کئی افراد نے حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کی سعادت پائی جن میں مکرم حاجی محمد رمضان خان صاحب بھی تھے جو کہ ایک تاجر اور زمیندار تھے۔ وہ 1959ء میں حج کرنے مکہ مکرمہ گئے تو واپسی پر لاہور، قادیان اور ربوہ بھی آئے اور 11؍اگست 1959ء کو حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر اپنی اہلیہ محترمہ اور پوتے کے ہمراہ بیعت کی توفیق پائی۔ آپ نے حضورؓ کی خدمت میں جزائر فجی کے لئے مبلغ بھجوانے کی بھی درخواست کی جسے حضورؓ نے منظور فرمایا اور 1960ء میں محترم مولانا عبدالواحد صاحب کو روانہ فرمادیا جو 11؍ اکتوبر کو فجی کے ساحل پر اترے۔
اس وقت فجی کے چار جزائر میں گیارہ جماعتیں قائم ہیں اور نو مساجد تعمیر ہوچکی ہیں۔ سب سے پہلی مسجد مبارک جزیرہ ونوالیوو کے مقام پر 1965ء میں تعمیر ہوئی جس کے لئے زمین مکرم حاجی رحیم بخش آف وولودا نے تحفۃً پیش کی۔ دوسری مسجد محمود کا سنگ بنیاد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحبؓ نے جزیرہ ویتی لیوو میں 1965ء میں رکھا۔ یہ مسجد 1971ء میں مکمل ہوئی۔ مسجد سے ملحقہ مشن ہائوس اور لائبریری بھی ہے اور حال ہی میں ایک لجنہ ہال بھی تعمیر کیا گیا جس کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ فجی کی تیسری مسجد اقصیٰ ناندی کے مقام پر 1972ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی دو منزلہ عمارت کا بالائی حصہ مسجد ہے جس کی تعمیر کا سارا خرچ مکرم حاجی محمد رمضان صاحب نے دیا ہے۔ نچلی منزل میں مشن ہائوس اور لائبریری ہے۔ ایک مسجد بلال 1978ء میں تعمیر ہوئی جس کے لئے زمین مکرم حامد حسین صاحب آف نصروانگا نے پیش کی۔ دارالحکومت صووا میں مسجد فضل عمر، مرکزی دفاتر، لائبریری، مشن ہاؤس کی تعمیر کے لئے 1974ء میں سنگ بنیاد رکھا گیا تھا اور آٹھ لاکھ فجین ڈالرز سے تعمیر ہونے والے اس منصوبہ کا افتتاح 18ستمبر 1983ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا تھا۔ اسی دورہ میں حضورؒ نے ایک مسجد رضوان کا سنگ بنیاد بھی رکھا جس کی تعمیر کا سارا خرچ دو بھائیوں حاجی محمد حنیف صاحب اور حاجی شاہ محمد صاحب اور ان کے خاندان نے دیا۔ مسجد کے احاطہ میں لائبریری اور مشن ہائوس بھی تعمیر کیا گیا۔ مسجد الجامع جزیرہ تاویئونی (جس میں ڈیٹ لا ئن گزرتی ہے) میں 2002ء میں تعمیر ہوئی۔ اور مسجد المہدی جزیرہ رامبی پر تعمیر ہوئی جہاں 1996ء میںپہلا پھل عطا ہوا تھا اور اب تک قریباً 45 ؍افراد احمدیت قبول کرچکے ہیں۔ اس جزیرہ کی ساری زمین کونسل کے ماتحت ہے اور 2000ء میں مسجد تعمیر کرنے کی غرض سے زمین کے لئے کونسل میںدرخواست دی گئی تو کونسل کی طرف سے ٹال مٹول ہوتا رہا۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا ہے ان کے پاس فی الحال کوئی مناسب جگہ نہیں ہے لیکن اگر کوئی اپنی زمین خود دیدے تو کونسل اس پر غور کرسکتی ہے۔ جب 2002ء میں ایک نو مبائع احمدی خاتون نے اپنا آبائی گھر بغرض تعمیر مسجد پیش کردیا تو بھی مختلف بہانوں سے ہماری درخواست تعطل کا شکار رہی اور آخر چار سال کی کوشش کے بعد مسجد بنانے کی اجازت دی گئی جو 2004ء میں تعمیر ہوئی۔
جزائر فجی میں جماعت احمدیہ کے تحت پانچ تعلیمی ادارے بھی قائم ہیں جن میں ایک کنڈرگارٹن، دو پرائمری سکول، ایک کالج اور ایک سیکنڈری سکول شامل ہیں۔
مکرم مولانا شیخ عبد الواحد صاحب نے ایک غیرمذہب Alipate Sikivou سے 1963ء میں فجیئن زبان میںقرآن کریم کا ترجمہ مکمل کروایا تھا لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اُس وقت تک ترجمہ کی اشاعت کی اجازت نہ دی جب تک کہ کوئی احمدی جو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ فجین زبان سے بھی پوری واقفیت نہ رکھتا ہو، اسے چیک نہ کرلے۔ 1978ء میں مکرم ماسٹر محمد حسین صاحب نے مرکز کی اجازت سے اس اہم کام کی ذمہ داری سنبھالی تو 1988ء میں ترجمہ شائع ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں