فونو گراف

ماہنامہ ’’خالد‘‘ربوہ اپریل2008ء میں مکرم محمد شفیق عادل صاحب کے قلم سے فونوگراف کی ایجاد اور تاریخ احمدیت میں اس کی اہمیت سے متعلق ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
1876ء میں تھامس آلوایڈیسن نے جرمنی میں سکونت اختیار کی۔ ایک روز کسی دوسرے تجربہ کے دوران اُسے احساس ہوا کہ اُس کی آواز کی طاقت سے سوئی میں حرکت ہوئی ہے۔ یہیں سے اُس کے ذہن میں ایسی مشین کی ایجاد کا خیال آیا جس میں سوئی کے ذریعے آواز کو محفوظ کیا جاسکتا ہو۔ ایڈیسن کا ہی قول ہے کہ دانشور 98 فیصد محنت سے اور صرف 2 صد تخلیقی تحریک سے وجود میں آتا ہے۔

ایڈیسن نے اپنے ذہنی خاکے کی بنیاد پر ایک ہی روز میں ایک مشین تیار کروائی۔ جب اُس نے اس مشین کا ہینڈل گھماکر اس میں بچوں کا گیت گایا۔ تو دوبارہ مشین چلانے پر اُسی گیت کی آواز مدھم سروں میں آنے لگی۔ ایڈیسن اس کامیابی پر حیرت زدہ رہ گیا۔ اُس نے اپنی ایجاد کا نام فونو گراف رکھا۔ لوگ اس کثرت سے اِسے دیکھنے آئے کہ سپیشل گاڑیاں چلائی گئیں۔ اور ایڈیسن کو واشنگٹن آکر مظاہرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔
کچھ عرصہ میں جب عوام کی دلچسپی فونوگراف میں ختم ہوگئی تو ایڈیسن کی توجہ بھی دوسرے امور کی طرف مبذول ہوگئی۔ لیکن دس سال بعد 1888ء میں اس نے پھر فونو گراف کی طرف توجہ کی اور صرف پانچ دن کی محنت سے اُس میں کئی تبدیلیاں کرکے اسے بہت معیاری بنادیا۔ فونوگراف کی یہ نئی شکل ہوٹلوں اور پارکوں میں بہت مقبول ہوئی اور ایڈیسن کو بے حد مالی فائدہ ہوا۔
حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ نے بھی فونوگراف خریدا اور حضرت مسیح موعودؑ کو اکتوبر 1901ء میں اس کی اطلاع دی۔ حضورؑ جو دنیا میں اپنی آواز پہنچانے کے لئے صبح و شام نئی نئی راہیں سوچتے تھے بہت خوش ہوئے اور اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ نصیبین جانے والے وفد کے ساتھ حضورؑ عربی زبان میں چار گھنٹے کی ایک تقریر بھی بھجوائیں گے جس میں دعاوی اور دلائل بیان کئے جائیں گے۔ نیز فرمایا کہ آج تک اس فونوگراف سے صرف کھیل کی طرح کام لیا گیا ہے مگر حقیقت میں خدا نے ہمارے لئے یہ ایجاد رکھی ہوئی تھی اور بہت بڑا کام اس سے نکلے گا۔
یہ بھی تجویز ہوئی کہ حضورؑ کے خطاب سے قبل حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی تقریر ریکارڈ کی جائے جس میں بتایا جائے کہ انیسویں صدی کے سب سے بڑے انسان کی تقریر آپ کو سنائی جاتی ہے جس نے خدا کی طرف سے مامور ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور جو مسیح موعود ؑ اور مہدی معہودؑ کے نام سے دنیا میں آیا ہے …سامعین خود اس کے منہ سے سن لیں کہ اس کا دعویٰ اور دلائل کیا ہیں؟
چنانچہ حضورؑ کے ارشاد پر حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ نومبر 1901ء میں فونوگراف لے کر قادیان آئے اور 15 نومبر کو نماز عصر کے بعد اس کے ریکارڈ سنائے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی دو سلنڈروں میں آواز ریکارڈ کی۔ قادیان میں فونوگراف کا چرچا ہوا تو دوسرے لوگوں نے بھی اس کے دیکھنے کی خواہش کی بلکہ آریہ سماجی لالہ شرمپت رائے نے تو براہ راست حضور ؑ کی خدمت میں بھی درخواست کردی۔ چنانچہ 20 نومبر 1901ء کو ایک خاص تقریب منعقد کی گئی جس کے لئے حضورؑ نے ایک لطیف تبلیغی نظم ’’آواز آرہی ہے یہ فونو گراف سے‘‘ کہی۔ حضرت اقدسؑ کی ہدایت پر حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ نے یہ نظم اور اس کے علاوہ ایک نظم ’’ عجب نوریست در جان محمدؐ‘‘ اور قرآن مجید کی چند آیات ریکارڈ کروائیں۔ نیز حضور کی ایک فارسی نظم کے چند اشعار منشی نواب خاں صاحب ثاقب آف مالیر کوٹلہ نے پڑھے جو فونو گراف میں محفوظ کرلئے گئے۔ پھر ساڑھے چار بجے کے قریب حضرت اقدسؑ کے بالا خانہ کے صحن میں فونو گراف رکھ دیا گیا۔ حضورؑ کی طرف سے تحریری اطلاع ملنے پر نہ صرف لالہ شرمپت رائے اور آریہ سماج کا سیکرٹری بلکہ دوسرے ہندو اور مسلمان کثیر تعداد میں پہنچ گئے۔ فونو گراف نے سب سے پہلے مالیر کوٹلہ کے لب و لہجہ میں اشعار سنائے پھر حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی سریلی آواز سے حضرت اقدسؑ کی تازہ اور قدیم نظم نشر ہوئی۔ تازہ نظم دوبارہ سنائی گئی اور دونوں مرتبہ جماعت کے بزرگوں کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے اور ان پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری رہی مگر لالہ شرمپت رائے اور دوسرے غیرمسلموں کا رنگ فق ہوجاتا تھا۔ بہرحال حضرت اقدس ؑ نے تبلیغ کاحق ادا کر دیا اور یہ تجربہ تبلیغ کے نکتۂ نگاہ سے نہایت درجہ کامیاب ثابت ہوا۔ آخر میں قرآن شریف مولانا عبد الکریم صاحب کی زبان سے سنایا گیا اور یہ جلسہ جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے دنیا میں پہلا جلسہ تھا برخواست ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں