قبولیت دعا کا اعجاز
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍مئی 1998ء میں مکرم لیفٹیننٹ کرنل بشارت احمد صاحب اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ وہ 1971ء کی جنگ ہندو وپاک کے دوران چھمب جوڑیاں کے محاذ پر زخمی حالت میں قیدی بنالئے گئے اور دو ماہ دہلی کے ملٹری ہسپتال میں ایک بنگالی ہندو ڈاکٹر میجر اے گپتا کے زیر علاج تھے جو کلکتہ کے نواحی گاؤں اِنڈا کا رہنے والا تھا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک صبح ڈاکٹر گپتا پریشانی اور تھکاوٹ کے عالم میں آیا اور میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ اُس کی بیٹی کو ایک لمبے عرصہ سے کالی کھانسی کی تکلیف ہے اوراگرچہ وہ خود بھی چائلڈ سپیشلسٹ ہے لیکن کسی قسم کا علاج کارگر نہیں ہوسکا۔ سارا دن زخمیوں کا علاج کرنے کے بعد جب رات کو وہ گھر جاتا ہے تو ساری رات بچی کو سنبھالنا پڑتا ہے۔ اس پر میں نے اُسے فلسفہ دعا کے بارے میں بتایا، حضرت مسیح موعودؑ کا تعارف کروایا اور پوچھا کہ اگر وہ خواہش کرے تو میں اس کی بیمار بچی کے لئے ہاتھ اٹھاکر دعا کروں؟۔ اس نے اثبات میں جواب دیا تو میں نے دعا شروع کردی۔ پہلے اونچی آواز میں سورہ فاتحہ اور درودشریف پڑھ کر بارگاہ ایزدی میں عرض کیا کہ اس مشرک کو مَیں دین کی دہلیز تک تو لے آیا ہوں، آگے تیری مرضی ہے کہ اس کو اس طرف آنے کی توفیق عطا فرمادے … دعا کے دوران مجھ پر رقّت طاری ہوگئی۔ ڈاکٹر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بڑے احترام اور غور سے مجھے دیکھتا رہا۔ میں نے آمین کہا تو پوچھنے لگا کہ کیا اب بچی ٹھیک ہو جائے گی؟۔ میں نے کہا دعا کرنا ہمارا کام ہے اور قبول کرنا اس ذات باری کا۔
اگلے روز صبح سویرے دھڑام سے میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر نے بڑے جذباتی انداز میں بتایا کہ کرنل تمہاری دعا منظور ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ گزشتہ روز اُس کے گھر جانے پر اُس کی بیوی نے بتایا کہ صبح دس بجے سے بچی کو اچانک آرام آگیا تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر نے اُسے بھی دعا کی کہانی سنائی۔ … اورچند روز بعد ایک دوپہر ڈاکٹر گپتا میرے پاس آکر کہنے لگا ’’میں رخصت پر جا رہا ہوں، ڈیوٹی پر موجود افراد کے علاوہ کوئی وارڈ میں آ نہیں سکتا۔ میری بیوی اور بچی باہر کھڑی ہیں۔ میں آپ کی وھیل چیئر کو گھما پھرا کر ایسی پوزیشن میں لانا چاہتا ہوں کہ وہ آپ کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔