قبول احمدیت کی ایک ایمان افروز داستان
(مطبوعہ رسالہ ‘‘انصارالدین’’ جنوری فروری اور مئی و جون 2014ء)
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ مجھ پر ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ خدا پر یقین ختم ہوگیا تھا۔ والدین نے اس معاملے کو کافی سنجیدگی سے لیا اور مختلف علماء کے پاس لے گئے۔ نتیجہ مزید منفی برآمد ہوا۔ شادی ہوگئی تھی۔ بچے ہوگئے۔ زندگی گزر رہی تھی۔ پھر اچانک ایک تبدیلی آنے لگی۔ عمر تیس کے قریب تھی کہ ایک رات خدا کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وہ اس طرح کہ وہ شب برات تھی اور مولوی حضرات خوب شور مچا رہے تھے۔ تبھی خیال آیا تھا کہ مولوی حضرات لوگوں کو جھوٹ موٹ کا خدا بنا کر پیش کررہے ہیں۔ پھر مجھے اپنی نوجوانی کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ خاکسار کے قصبہ فاروق آباد (ضلع شیخوپورہ) کے نزدیک بڑی بڑی نہریں ہیں۔ گرمیوں کی ایک دوپہر مَیں وہاں سے گزر رہا تھا کہ نہر میں ڈوبتے ہوئے ایک نوجوان کی آواز سنی۔ وہ مدد کے لیے پکار رہا تھا۔ غالباً نہا رہا تھا اور تھک کر سخت بے بس ہورہا تھا۔ مَیں نے زور سے چلّا کرکہا: تھوڑی دیر ٹھہرو مَیں آرہا ہوں۔ اُس نے جب آواز سنی اور مجھے کپڑے اتارتے دیکھاتو تسلی پکڑی۔ پیشتر اس کے کہ مَیں اس کے پاس جاتا وہ خود ہی تیز تیز ہاتھ مارتا ہوا کنارے پر مخالف سمت پہنچ گیا۔ اُس کو صرف ایک سہارا نظر آگیا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ سہارا اگر جھوٹا بھی ہو تو کام آہی جاتا ہے۔ خدا کا سہارا ہو تو اچھا ہے مگر میرے پاس نہیں ہے۔ اُس رات مجھے بار خدا یاد آیا اور دعا کی کہ اے اللہ! مجھے بھی اپنے وجود کی سمجھ دے دے۔ اسی رات ایک بہت پُرلطف خواب دیکھا جس نے مجھے خداتعالیٰ پر ایمان بخش دیا۔
اب مَیں مسلمانوں کی طرح زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ مگر مسئلہ یہ درپیش تھا کہ کس فرقے میں شامل ہوا جائے کیونکہ ہر فرقہ دوسرے فرقے کو کافر کہتا تھا اور حدیث کے مطابق کسی کلمہ گو کو کافر کہنے والا خود کافر ہے۔لہٰذا یہ فیصلہ کرلیا کہ کسی فرقے میں شامل نہیں ہونا ۔کسی بھی مسجد میں کسی بھی فرقے کے امام کے پیچھے نماز اور قرآن پڑھ لیتا۔
اس دوران کچھ خواب دیکھے کہ گویا موت بہت قریب ہے۔ چنانچہ جلد سے جلد نفس مطمئنہ حاصل کرنے کی خواہش میں مَیں رمضان میں اعتکاف بھی بیٹھا۔ مولانا مودودی کی ‘تفہیم القرآن’ پڑھا کرتا۔
میرے ایک دوست کا دعویٰ تھا کہ اُن کا خدا سے تعلق ہے اور خدا اُن کو علم بھی سکھاتا ہے۔ اپنے خواب بھی سناتے۔ جب بھی ملتے تو اولیاء اللہ کے تذکرے کرتے۔ نعت بڑی اچھی پڑھتے تھے۔ اکثر ان کی موجودگی میں مجھے ایک مخصوص خوشبو آتی تھی اور بعد میں ایسا بھی ہوا کہ اکیلے میں بھی آنے لگی خصوصاً جب مَیں خدا تعالیٰ یا نبی پاک ﷺ کی طرف گہری توجہ کرتا تھا یا تلاوت قرآن پاک کرتا تھا۔ ویسے وہ ایک سچے اور سادہ انسان تھے۔ ایک دن مجھ سے میرا فرقہ پوچھا۔ مَیں نے کسی فرقے میں شامل نہ ہونے کی مذکورہ بالا وجہ بتائی تو انہوں نے مثالیں دے کر مجھے قائل کرلیا اور مَیں اُن کے پیر صاحب سے ملنے چلاگیا۔ پیر صاحب کو میری باتوں سے گستاخی محسوس ہوئی تو مجھے اپنا ارادتمند بنانے سے انکار کردیا بلکہ یہ بھی کہا کہ تم اپنے اس دوست کو ہی پیر بنالو جو تمہیں یہاں لایا ہے۔ اور بڑے جلال میں یہ بھی فرمایا کہ مَیں اسے اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔چنانچہ مَیں اپنے دوست کا مرید بن کر وہاں سے واپس ہوا۔ چند روز گزرے تو میرے پیر دوست مجھے کہنے لگے کہ آپ مجھ سے خلوص میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ لہٰذا مَیں آپ کو اپنا خلیفہ مقررکرتا ہوں۔ آپ اب سلسلہ نقشبندیہ کے باقاعدہ پیر ہیں جن کا سلسلہ حضرت ابوبکرصدیقؓ سے جاملتا ہے۔
چند ہی دن گزرے تھے کہ ایک دوست کہنے لگے کہ جاوید صاحب اگر آپ پیر ہوتے تو مَیں ضرور آپ کا مرید ہوتا۔ مَیں نے اس کو سارا معاملہ بتایا تو وہ باقاعدہ بیعت ہوکر میرا پہلا اور آخری مرید بن گیا۔ بیعت ہونے کے بعد اس نے کہا کہ اب میرا کچھ کریں۔ مَیں نے باہر جانے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس کا خدا جانے کیا مطلب تھا مگر مجھے ایسا لگا کہ وہ چاہتا تھا کہ مَیں کوئی کرامت کروں اور وہ بیرون ملک چلا جائے۔ اس کا تو کیا بندوبست کرتا۔ میرے اندر ایک انقلاب آگیا۔ مَیں نے بہت تجزیہ کیا مگر اپنے اندر کوئی غیرمعمولی چیز نہ پاسکا۔ دراصل میں کسی کے بھروسے کو پامال نہیں کرسکتا تھا۔لہٰذا پہلی فرصت میں ہی سکھ چین صاحب کے پاس گیا اور تمام ماجرا بیان کیا۔ وہ فوراً میری بات سمجھ گئے اور خود ہی وضاحت کی کہ جاوید صاحب یہ تو وہی معاملہ ہوا کہ ہم ایم بی بی ایس کا بورڈ لگا کر بیٹھ جائیں اور مریض آئیں تو نبض بھی نہ دیکھ سکیں۔ یہ تو کھلا کھلا فراڈ ہے۔ اسی وقت بڑے بابا جی کے پاس پہنچ گئے۔
حسب معمول محفل جمی ہوئی تھی اور معرفت کی گفتگو چل رہی تھی۔ باباجی نے فوراً ہی گفتگو روک دی اور ہمارے آنے کا سبب پوچھا۔ خاکسار ہی یوں گویا ہوا کہ باباجی میرا ایک مرید بن گیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ مَیں دعا کے ذریعے اس کی مدد کروں اور وہ بیرون ملک چلا جائے۔ مگر مَیں اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتا ہوں اور نہ ہی اسے محروم رکھنا چاہتا ہوں۔ اگر میری دعا میں اتنی تاثیر نہیں ہے تو کیوں نہ اسے کسی ایسے شخص کے پاس بھیجوں جس کی دعا میں تاثیر ہو۔ آپ کو اگر اعتماد ہے تو بتادیں مَیں اسے آپ کے پاس لے آؤں یا اگر آپ کے پاس کوئی ایسی طاقت ہے جو ہم میں نہیں تو عنایت فرما دیں۔ تاکہ ہم کسی کے اعتماد کو مجروح نہ کرنے والے ہوں۔ باباجی نے کافی ٹالنے کی کوشش کی مگر ہم دونوں ہی بضد تھے کہ وہ طاقت جو آپ میں ہے اور ہم محروم ہیں وہ ہمیں بھی عنایت کریں۔ کیونکہ ہم باوجود سلسلہ نقشبندیہ کے خلفاء مجاز ہونے کے عام انسانوں کی طرح ہی ہیں۔ کافی بحث تمحیص کے بعد باباجی نے آخر اقرار کرہی لیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی ایسی غیرمعمولی طاقت نہیں ہے۔ مَیں نے سکھ چین صاحب کا ہاتھ پکڑا اور محفل سے نکل جانا چاہا۔ مگر باباجی کے ہتھے چڑھ گیا اور انہوں نے مجھ سے بغلگیر ہوتے ہوئے مجھے سختی سے بھینچ لیا اور لگے میری پشت پر ہاتھ مارنے جسے ہمارے یہاں پنجابی میں تھاپڑے کہتے ہیں۔ کہنے لگے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، ہمارا سلسلہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تک پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے پاس سائل ہی ایسے بھیجے گا جن کے کام ہوجایا کریں گے۔
جونہی ان کی گرفت ذرا ڈھیلی ہوئی مَیں نے جان چھڑا کر نکلنے میں ہی عافیت جانی اور ان کی محفل سے باہر آگیا۔ میرے پیچھے پیچھے کچھ اَور لوگ بھی باہر آگئے اور مجھے بڑے رشک سے ملنے لگے کہ آپ نے تو بڑا میدان مار لیا ہے۔ ہم توعرصے سے در پہ پڑے ہوئے ہیں۔ ایک صاحب نے تو کسی شعر کا یہ مصرعہ بھی پڑھ دیا ؎
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
مَیں نے ان سب کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ مَیں تو اپنا پہلا ایمان بھی کمزور کرکے جارہا ہوں۔ اور یہی حقیقت تھی۔ مَیں گھر پہنچا تو سخت دلبرداشتہ تھا کہ ایسے لوگ بھی دھوکا دہی میں مصروف ہیں تو مَیں کہاں چلا جاؤں؟ توبہ کی کہ اے اللہ! اب کسی کے جال میں نہیں پھنسوں گا۔صرف تجھ ہی سے رستہ مانگوں گا۔اب مَیں قرآن کو توجہ سے پڑھتا اور نماز میں راہنمائی مانگا کرتا۔ اور صبر و شکر کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے لگا۔ مجھے احساس ہوا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ بھی میری راہنمائی کرنے لگ گیا تھا۔ مجھے جب قرآن کی کسی آیت کی سمجھ نہ آتی تو میں کسی سے پوچھ تو سکتا نہیں تھالہٰذا اس معاملے کو خدا پر چھوڑ دیتا۔ پھر یا تو اس کی سمجھ مجھے قرآن سے ہی آجاتی یا ایسا بھی ہوجاتا کہ مَیں کسی سے گفتگو کررہا ہوتا اور مخاطب کوئی اپنی بات کرتا اور مجھے اپنے معاملے کی سمجھ آجاتی یا کوئی اخبار ،رسالہ یا کتاب پڑھتے ہوئے کوئی گتھی سلجھ جاتی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ خدا تعالیٰ ہی میری راہنمائی کررہا تھا۔ مثلاً مَیں احمدی نہیں تھا مگر وفات مسیح کا قائل ہوگیا تھا۔ مختصراً یہ کہ جو مَیں نے قرآن پڑھا وہ جماعت احمدیہ کے مؤقف کے مطابق ہی پڑھا:
وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّیْ مِن لَّدُنکَ سُلْطَاناً نَّصِیْراً۔ (سورۃ بنی اسرائیل:81)
جب مَیں اس آیت پر پہنچا تو اس آیت کی تکرار سی شروع ہوگئی۔ قرآن کھولتا تو یہیں سے کھلتا۔ کوئی کتاب کھولتا تو اس میں کہیں نظر آجاتی۔ مسجد میں امام صاحب بھی یہی تلاوت کررہے ہوتے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ اس آیت مبارکہ کے ذریعے کوئی پیغام دے رہا ہے۔ ترجمہ پر غور کیا: ’اورکہہ دے کہ اے میرے رب میرا داخل ہونا نیکی پر مبنی ہو پھر خارج ہونا بھی صدق پر مبنی ہو۔ میرا سلطان نصیر بن جا‘۔ مَیں نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ یہ تھا کہ مجھے سفر کرنا ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ حقیقی مسلمانوں سے تعلق قائم کرے گا۔ مگر یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ سفر کہاں کا ہے؟
ایک رات مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ تعالیٰ تو نے جتنی سمجھ مجھے عطا کی ہے تُو جانتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کونسا سفر ہے؟ مَیں چاہتا ہوں کہ مجھے پتہ چل جائے کہ مسلمان کہاں ہیں تو مَیں وہاں کا سفر کرنے کو تیار ہوں۔ اسی رات مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک شخص مجھے افریقہ کا نقشہ سمجھا رہا ہے کہ اس ملک میں اتنے مسلمان ہوگئے ہیں اور اس ملک میں اتنے مسلمان ہوگئے ہیں۔ جب وہ شخص نقشہ سمجھا چکا تو میں نے جواب دیا کہ ماشاء اللہ یہ تو اتنی تعداد میں ہوگئے ہیں کہ باقی افراد کو خود ہی مسلمان کرلیں گے۔ آنکھ کھلی تو ذہن تھوڑا سا پریشان ہوگیا کہ پشاور کراچی تک کی بات تو درست تھی اب افریقہ کون جائے؟ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا لہٰذا اپنے ارادے کو پختہ کیا۔ بیگم سے مشورہ کیا تو وہ حیران و پریشان ہوگئی کہ ہم کس کے آسرے پر رہیں گے؟ میں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کے سہارے۔ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال پیش کی کہ وہ تو اپنے اقرباء کو جنگل میں چھوڑ گئے تھے۔ آپ لوگ تو پھر شہر میں ہیں۔ بیگم کو جب یقین ہوگیا کہ میں نے افریقہ جانا ہی جانا ہے تو اس نے کل جمع پونجی میرے حوالے کردی اور کہا کہ آپ تو سفر میں ہوں گے ہماری خیر ہے۔
آغاز سفر
نائیجیرین ایمبیسی نے تین ماہ کا ویزا دیدیا مگر زاد راہ اتنا کافی نہیں تھا کہ بذریعہ ہوائی جہاز نائیجیریا جاسکتا۔ لہٰذا کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ خشکی کے راستے جانے کی کوشش کروں گا۔ اپریل 1984ء میں لاہور سے کوئٹہ ، کوئٹہ سے تفتان بارڈر اور آخر (ایران کے دارالحکومت) تہران میں جاقیام کیا۔ کرنسی تبدیل کی تو پتہ چلا کہ ایرانی کرنسی کافی سستی ہوچکی تھی اور میرے پاس رقم چار گنا ہوگئی۔ اگر بنک سے تبدیل کرواتا تو ایسا نہ ہوپاتا۔ مَیں نے اس لیے عام مارکیٹ سے تبدیل کروائی۔ اب یہ رقم اتنی ہوگئی تھی کہ مَیں نائیجیریا کی واپسی کی بھی ٹکٹ بنوا سکتا تھا۔ مگر چونکہ واپسی کا کوئی علم نہ تھا لہٰذا یکطرفہ ٹکٹ بنوائی۔ دوست مشورہ دے رہے تھے کہ ہمیشہ واپسی کی ٹکٹ بنوانی چاہئے آگے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مگر مَیں کچھ سمجھ نہ پارہاتھا۔ آخرکار قرعہ ڈالا ایک پرچی پر یکطرفہ لکھا اور دوسری پر دوطرفہ۔ پرچی اٹھائی تو یکطرفہ والی تھی۔ لہٰذا پختہ ارادہ کرلیا کہ یکطرفہ ہی بنوانی ہے۔ یوں یکطرفہ ٹکٹ پر براستہ روم(اٹلی) لیگوس پہنچ گیا۔ لیگوس نائیجیریا کا دارالحکومت ہے۔
نائیجیرین امیگریشن والے چاہتے تھے کہ مَیں ان کی تسلّی کراؤں کہ کس مقصد کے لیے نائیجیریا آیا ہوں۔ مگر مَیں ان کو کیا بتاتا کہ کیا کرنے آیا ہوں۔ پھریکطرفہ ٹکٹ پر کافی بحث کے بعد انہوں نے 50 ڈالر رشوت مانگی۔ مَیں نے انکار کردیا جس پر انہوں نے مجھے کافی پریشان کیا۔ دھمکی دی کہ ہم واپس بھجوا رہے ہیں۔ مَیں نے اطمینان سے واپسی کا ارادہ کرلیا۔ مَیں کونسا ذاتی خواہش پر گیا تھا۔ اگر اللہ کو منظور نہیں تو نہ سہی۔ تمام لوگ چلے گئے مَیں آخری مسافر باقی تھا۔ کافی دیر کے بعد انہوں نے اخراج کی مہر لگا دی۔ باہر آیا تو کافی رات ہوچکی تھی۔ زندگی کا پہلا غیر ملکی سفر تھا۔ محتاط بھی کافی تھا۔ ائیرپورٹ پر رات بسر کی اور دن چڑھے ائیرپورٹ کی حدود سے باہر آگیا۔ لیگوس سے کوئی بیس پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک تاریخی قصبہ ہے بداگری۔ وہاں ایک دوست رہتے تھے ان کے پاس چلاگیا۔ جو جو تعلقات والے تھے تمام جگہوں پر جاتا رہا کہ کوئی کام مل جائے تو سلسلہ آگے چلایا جائے۔ مگروہاں کے قوانین ایسے تھے کہ غیر ملکی کو ورک پرمٹ (Work Permit) کے بغیر کام نہیں دیا جاتا تھا۔ اور یہ اجازت نامہ صرف اس کو مل سکتا تھا جو کسی کام میں سپیشلسٹ ہو اور اس کی صلاحیت کا کوئی نائیجیرین حامل نہ ہو۔مگر مَیں تو صرف B.A. ہی کرسکا تھا۔ جب مَیں پاکستان سے چلا تھا تو ایک تجارتی حوالہ بھی ساتھ لے کر آیا تھا۔ اپنے بداگری کے میزبان بخاری صاحب سے ذکر کیا تووہ فوراً وہاں جانے پر تیار ہوگئے۔ اب مَیں اندازہ نہیں کرسکتا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟
بینڈل اسٹیٹ میں پہنچے تو متعلقہ آدمی جو نائیجیرین باشندہ تھا، بجائے دفترکے گھر لے گیا۔ اور اپنے کاروبار کی لمبی چوڑی تفصیل بیان کی اور بڑھا چڑھا کر بتایا۔ غالباً اس کا خیال تھا کہ مَیں ایک سرمایہ دار آدمی ہوں۔
بخاری صاحب بھی اس کی باتوں میں آگئے اور میرا پاسپورٹ اور کچھ رقم اس کے حوالے کردی کہ ورک پرمٹ کا بندوبست کردے۔ پندرہ دن بعد دوبارہ بینڈل اسٹیٹ گئے تو پتہ چلا کوئی کام نہیں ہوسکا تھا۔ اگلے دن پھر بداگری چلے آئے۔ غالباً بخاری صاحب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ نائیجیرین صرف زبانی جمع خرچ پر چل رہا ہے۔ اس کا کاروبار صرف کاغذی سطح پر ہی ہے۔ دفتر کا وجود ہی نہیں ہے۔ کیونکہ تیسری بار جب میں بینڈل اسٹیٹ گیا تو بخاری صاحب ساتھ جانے کو تیار نہ تھے۔ مَیں اکیلا ہی گیا۔ اور اس وقت تک وہ نائیجیرین بھی بخوبی طور پر میری کیفیت سے آگاہ ہوچکا تھا۔ اس کو وہ مہمان نوازی بھی تکلیف دے رہی تھی جو وہ اب تک کرچکا تھا۔ مَیں نے اپنے 50 ڈالر واپس مانگے جو اس کو دے چکا تھا تو اس نے رقم دینے سے صاف انکار کردیا۔ وجہ پوچھی تواس نے کھانے پینے کے اخراجات گِنوادیے۔ لہٰذا یہ 50 ڈالر چلے ہی گئے۔ واپس آکر بخاری صاحب کو تمام حالات سے آگاہ کیا۔ بخاری صاحب بھی نظریں چرانے لگے۔ وہ اب مجھے بوجھ خیال کررہے تھے۔ مَیں نے یہ صورتحال محسوس کی تو اپنا سامان اٹھایا اور ان کو خیرباد کہہ دیا اور پھر آنے کا کہہ کر چلاگیا۔
میرے پاس ایک اور تعلق کانو اسٹیٹ میں تھا۔ یاد رہے کہ نائیجیریا مختلف اسٹیٹس پر مشتمل ہے۔ یہاں میرے ایک دُور کے رشتہ دار مقیم تھے۔ ان کے پاس آگیا۔ رفیع احمد ان کا نام تھا اور احمدی مسلک سے ان کا تعلق تھا۔ انہوں نے نہایت اچھے انداز میں مہمان نوازی کی۔ گھر کا ہی ایک فرد بنا دیا تھا۔ دوران قیام باربار مالی امداد کی پیشکش کرتے تھے۔ شاید اس خیال سے کہ میں یہ نہ سوچوں کہ میں مجبور ہوں اور یہ دعوت الی اللہ کرنے لگ گئے ہیں۔ انہوں نے مذہبی گفتگو کم ہی کی۔ مجھے کام دلوانے میں بھی مدد کرتے رہے۔ مگر حالات ایسے تھے کہ کوئی ملازمت نہ مل سکتی تھی۔ پھر وہ وقت بھی آگیا جب ویزہ ختم ہونے لگا۔ لہٰذا مجھے واپس لیگوس آنا پڑا تاکہ ویزا میں توسیع کرواسکوں۔ مگر میں امیگریشن والوں کو مطمئن نہ کرسکا۔ ان کا بنیادی سوال تھاکہ میں نائیجیریا میں کیا کررہا ہوں اور مزید کیا کرنا چاہتا ہوں؟اس سوال کا جواب خود میرے پاس نہیں تھا میں ان کو کیا مطمئن کرتا۔ لہٰذا امیگریشن والوں نے ویزے کی معیاد بڑھانے سے صاف انکار کردیا۔
اکرم ذکی سے ملاقات
اس زمانے میں اکرم ذکی صاحب وہاں پاکستان کے سفیر تھے۔ ان سے ملاقات کی اور تمام حالات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ پتہ چلا کہ وہ اس معاملے میں کافی معلومات رکھتے ہیں۔انہوں نے آخر کار ایک ایسا حل پیش کیا جو مجھے ہر گز قبول نہ تھا۔ حل یہ تھا کہ میں ان کے یعنی پاکستانی سفارت خانے کے سامنے اپنے آپ کو سرنڈر کردوں یعنی اپنے آپ کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑدوں اور وہ مجھے پاکستان بھجوادیں گے۔ میرا پاسپورٹ ہمیشہ کے لیے منسوخ ہوجائے گا۔ اور میں پاکستان جانے میں اٹھنے والے تمام اخراجات ادا کرکے گھر جاسکوں گا وگرنہ جیل میں ہی رہنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں کرتا تو ویزے کے مدت ختم ہوجائے گی۔جس پر نائیجیریا کی جیل، جس کا نقشہ کھینچنا بھی ضروری ہے، بھی ہوسکتی ہے۔
جب میں ویزا کی معیاد بڑھانے کے لیے گیا تھا تودفتر کے راستے میں ہی ان کی حوالات تھی یا جیل، حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا۔ ہر کمرے میں تقریباً پچاس قیدی رکھے جاتے تھے۔ اور کمرے کی پیمائش 20×20 سے زیادہ نہ تھی۔ تمام قیدی صرف ایک ایک نیکر میں ملبوس تھے۔ فرش پر اخبارات کا بستر تھا۔ تمام افراد کو خارش ہوچکی تھی۔مسلسل کھڑے رہنے کی وجہ سے سب کے پاؤں متورم تھے۔ جو طاقتور تھے وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتے تھے۔ اور جو نسبتاًکمزور تھے وہ کمرے کے باقی حصے میں کھڑے تھے۔ خدا جانے وہ رات کو سوتے کیسے تھے۔میں جب بھی ان کی بیرکس کے سامنے سے گزرتا تو وہ اندرا گاندھی زندہ باد کے نعرے لگانے لگتے۔ ان کا خیال تھا کہ میں ہندوستانی ہوں۔ میں بھی کچھ خوراک ساتھ لے جایا کرتا تھا کہ اللہ اس جگہ سے محفوظ رکھے۔ مگر یہ خوراک دیواروں کے ساتھ لگے طاقتور لوگ ہی لے لیا کرتے تھے۔ جو ان کی طاقت میں مزید اضافے کا باعث بنتی تھی۔ دونوں جیلوں کا موازنہ کیا تو کسی بھی صورت کو پسند نہ کرسکا۔ جب بیچ کا راستہ تلاش کرنا چاہا تو ذکی صاحب نے کہا کہ آپ روزانہ ایمبیسی آجایا کریں تاکہ یہ آپ کو گرفتار نہ کرلیں۔ اور مسلسل رابطے میں رہیں۔ اگر کوئی بحری جہاز(Ship) پاکستان سے آیا اور اس کا کپتان مان گیا تو اس کے ہمراہ پاکستان چلے جائیں وگرنہ اللہ اللہ کریں۔ میں نے اکرم ذکی صاحب کو بتایاکہ یہاں کوئی چیک نہیں کرتا لاقانونیت بہت زیادہ ہے۔ میں ان کے پاس سے اٹھ کر آنے لگا تو بولے کہ آپ اس معاملے میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ ایک اَور بھی ہے جو آپ ہی کی طرح مسائل کا شکار ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ کہاں ہے؟ پتہ چلا عمارت کے عقبی جانب بیٹھا ہے اور بقول ان کے رو رہا ہے۔ میں عمارت کے پچھلی طرف گیا تو اپنے ہی ایک دوست رفاقت نامی سے ملاقات ہوگئی۔ پرانی دوستی تھی۔ وہ مجھ سے پہلے کا پاکستان سے نکلا ہوا تھا۔
اس کو تسلی دینا چاہی تو اس نے الٹا مجھے پریشان کردیااور بتایا کہ ہم ایسے حالات کا شکار ہیں کہ اب لاشیں ہی واپس جائیں گی ہم نہیں۔ میں نے نہ جانے کیوں اس سے وعدہ کرلیا کہ فکر نہ کرو پہلے تم پاکستان جاؤ گے اور میں بعد میں جاؤں گا۔ اس لیے فکر نہ کرو اور میرے ساتھ آجاؤ۔
کہاں؟ اس کے اس سوال نے مجھے پریشان کردیا۔مگر تسلی دی کہ کسی سستی سی جگہ مکان لے لیتے ہیں۔ فی الحال بخاری کے پاس ہی چلتے ہیں۔ جو ہمارا مشترکہ واقف کار تھا۔ لہٰذا ہم بداگر ی آگئے۔ بخاری ہم دونوں کو اکٹھا دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ یک نہ شد دو شد۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ ہمیں ایک منٹ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اور ہماری صورتحال تھی بھی ایسی ہی۔ مگر جب تک ہماری رہائش کا بندوبست نہ ہوتا ہم وہاں رہنے پر مجبور تھے۔ گوکہ حالات سازگار نہ تھے۔ مجھے ایک پرانا معاملہ یاد آگیا۔ میں نے کسی آدمی سے کوئی رقم لینی تھی۔ تو بخاری نے اپنی ضمانت دی تھی کہ اگر یہ شخص رقم نہ دے گا تو وہ ضامن ہوگا۔ مگر بعد میں وہ شخص اور بخاری دونوں ہی ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ میں نے رفاقت کو یہ بات بتائی تو وہ بھی خوش ہوگیا۔ اور جھٹ سے رقم کا مطالبہ میری طرف سے کردیا۔ خود ہی میری طرف سے دھمکی بھی دے دی کہ اگر تم نے رقم کا بندوبست نہ کیا تو میں یعنی جاوید تمہاری شکایت حکومت کو لگا دے گاکہ تم دونوں میاں بیوی کی اسناد جعلی ہیں۔ یہ ہوا میں چلایا ہوا تیر سیدھا ہدف پر لگا اور بخاری صاحب اگلے ہی لمحے نہایت مہربان انسان بن چکے تھے اور ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار تھے۔ کچھ رقم کا بندوبست بھی کردیا اور ہم وہاں سے رخصت ہوگئے۔رفاقت کے بھی تعلقات بن چکے تھے۔ ایک ہندو کے پاس جا ٹھہرے۔ اور پھروہاں سے ایک اور ہندو کے پاس اوگیلی چلے گئے۔ وہاں ایک اور احمدی سے ملاقات ہوگئی۔ اس طرح آگے سے آگے تعلقات بنتے جاتے اور ہم تعاون لیتے رہے۔آخر کار کل رقم ختم ہوگئی۔ میں نے کہا کہ دوست اب جیب خالی ہورہی ہے اس لیے کچھ کرنا پڑے گا۔ میں نے بتایا کہ میرے ایک عزیز کانو میں رہتے تھے اور مجھے اکثر رقم کی پیشکش کرتے رہتے تھے لہٰذا اب کریں گے تو میں لے لوں گا۔ میرا دوست ایک ہندو واقف کار کے ساتھ قیام پذیر ہوگیا اور میں کانو چلا گیا۔ وہاں جاکر مکرم رفیع صاحب کے پاس رہنے لگا مگر پیسے مانگنے کا حوصلہ نہیں پڑرہا تھا۔ غالباً وہ بھی پوچھ پوچھ کر خیال کربیٹھے تھے کہ شاید مجھے ضرورت ہی نہیں ہے۔ اسی طرح پندرہ بیس روز گزر گئے اور پریشانی میں اضافہ ہورہا تھا۔ دوست کا خیال بھی آتا تھا کہ نہ جانے کس حال میں ہوگا؟ اور کہاں ہوگا؟کیونکہ بیرون ملک کسی بھی شخص پاس طویل قیام بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایک دن رفیع صاحب نے ایک خطیر رقم جوکہ پاکستان تک کا خرچہ تھا،مجھے دی کہ اسے رکھ لیں۔اور کہا کہ مجھے علم نہیں ہے کہ آپ (یعنی خاکسار) کس مصیبت میں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ مگر میں اپنے ضمیر سے مجبور ہوں۔ جب آپ کے پاس واپسی کی توفیق ہو اور یہ رقم بالکل معمولی لگنے لگے تو واپس کردینا۔
میں نے بتایا کہ میں تو پیسے لینے ہی آیاتھا۔ لہٰذا اب واپس جاتا ہوں۔ واپس اس ہندو کے پاس آیا جس کے پاس اپنے دوست کو چھوڑ کرگیا تھا۔ مگر دوست کو وہاں نہ پایا۔ اس ہندو سے پوچھا تو اس نے معذوری ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے کہ میرا دوست کہاں گیا تھا۔ پھر اچانک جیسے اسے کچھ یاد آیا اور نوکر سے کہا کہ وہ خط ان کو دکھاؤ شاید انہیں پتہ چل جائے۔ پھر مجھے بتایا کہ وہ اردو رسم الخط نہیں پڑھ سکتا اور وہ خط اردو میں تھا۔ خط میرے ہی نام تھا اور لکھا تھا کہ وہ احمدیہ ہسپتال اوجو کورو میں مقیم ہے۔ جب یہ بات اس ہندو کو بتائی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس ہسپتال کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ڈاکٹر منور صاحب وہاں کے انچارج ہیں اور بڑے اچھے انسان ہیں۔ پھر ڈرائیور سے کہا کہ جاوید صاحب کو ڈاکٹر منور صاحب کے ہسپتال چھوڑ آؤ۔ یہ جگہ لیگوس سے تقریباً 20کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
ہسپتال میں داخل ہوتے ہی پہلی ملاقات اپنے دوست سے ہوگئی۔ پھر ڈاکٹر منور صاحب سے ملے اور شکریہ ادا کیا۔ میرے دوست نے بتایا کہ وہ ہسپتال میں ہی مقیم ہے اور ڈاکٹر صاحب نے باقاعدگی سے کھانے کا بندوبست بھی کیا ہواتھا۔ تھوڑی سی گفتگو کے بعد طے پایا کہ ہم وہاں رہائش رکھنے پر مجبور تھے۔ مگر کھانا اپنا کھائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک شرط پیش کی کہ آپ برتن چولہا اور سلنڈر وغیرہ نہیں خریدیں گے۔ اور وہ یہ چیزیں ہمیں عاریتاً دیدیں گے۔کیونکہ اگر ہم یہ چیزیں خریدیں گے تو محض پیسے کا ضیاع کریں گے۔ اور جاتے وقت یہ چیزیں آپ کے کام نہ آئیں گی۔ ڈاکٹر صاحب کا مزید شکریہ ادا کیا اور تبدیلی حالات تک وہاں قیام کا ارادہ کرلیا۔ سارا دن فارغ ہوا کرتے تھے۔ بس نمازوں کی ہی ایک واحد مصروفیت تھی۔ ایک دن میں کمرے میں داخل ہوا جوکہ ہسپتال کا ہی ایک کمرہ تھا تو میرا دوست ایک کتاب پڑھ رہاتھا۔ جس کا عنوان ’’حقیقۃ الوحی ‘‘ تھا۔ مجھے اچھا نہ لگا اور میں نے اس کے ہاتھ سے لے کر کہا کہ ایسی کتابیں دماغ خراب کردیتی ہیں۔ ان سے بچو! ساتھی نے عذر پیش کیا کہ فارغ ہوتا ہوں میں نے وقت کاٹنے کے لیے یہ کتاب لی تھی کہ چلو کچھ مصروفیت ہی سہی۔
کچھ دیر بعد میں نے بھی بے خیالی میں کتاب اٹھا لی اور ورق گردانی شروع کردی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے مطالعہ شروع کردیا۔ دل کو اس طرح سے تسلی دی کہ جنرل نالج کے طور پر پڑھ لیتا ہوں باقی رہا مرزا صاحب کے دعاوی کا معاملہ تو مجھے اس سے کوئی غرض نہ تھی۔ کتاب پڑھتا رہا اور مرزا صاحب کے علم و معرفت کی داد دیتا رہا۔ اور افسوس کرتا رہا کہ کاش مرزا صاحب دعویٰ نہ کرتے تو مسلمان کس قدر مستفیض ہوتے۔ کتاب ختم ہوگئی۔ دل چاہا ایک اور پڑھی جائے۔ لہٰذا اس کے بعد ’انجام آتھم‘ ، پھر ’ ازالہ اوہام‘۔ غرض ایسا چسکا پڑا کہ میرا معمول بن گیاکہ عشاء کے بعد مطالعہ کرنے کو بیٹھ جاتا اور فجر پڑھ کرسوجاتا اور ظہر پر جاگ جاتا۔اس دوران اکثر ایمبیسی کا چکر بھی لگا لیا کرتے تھے۔ ایمبیسی کے اکثر ملازم ہم سے بےتکلف ہوگئے تھے۔ ایک صاحب جنکا نام تو یاد نہیں رہا البتہ چوہدری صاحب ہی یاد رہ گیا کیونکہ تمام لوگ انہیں اسی نام سے پکارا کرتے تھے۔
ایک روز اپنے دوست سے مشورہ کیا کہ کیوں نہ عمرے کا ویزہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ خدا جب بھی واپسی کی توفیق دے گاتو عمرہ ہی کرتے جائیں گے۔ چنانچہ چوہدری صاحب سے عرض کی کہ ہم عمرہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دو فارم دیئے اور کہا کہ ان کو پر کرکے انہیں دے دیں۔ وہ فارم یہی ڈیکلیریشن فارم تھے کہ میں اس عقیدے پر ایمان رکھتا ہوں کہ محمدؐ آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی یا مصلح نہیں آسکتا۔ میں نے مکمل عبارت پڑھی تو میرے عقیدے کے مطابق تو امام مہدی علیہ السلام نے امت کی اصلاح کرنی ہے۔ لہٰذا میں اس فارم پر کیسے دستخط کرتا؟اس طرح تو میں امام مہدی کے آنے سے قبل ہی ان کا انکار کرکے کفر میں داخل ہوجاؤں گا۔ یہ سوچ کر میں نے انکار کردیا کہ چوہدری صاحب میں اس وجہ سے مجبور ہوں لہٰذا آپ اس کے بغیرہی ویزہ لگوا دیں۔ چوہدری صاحب نے میری رائے سنی اور فارم غور سے پڑھ کر پریشان ہوگئے۔ اٹھ کر دوسرے کمرے میں کسی سے مشورہ کرنے چلے گئے۔ چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔واپس آئے اور کہا کہ یار ایسے ہی سارے لوگ دستخط کررہے ہیں تم بھی کردو۔ میں نے ایک بار پھر معذوری پیش کی کہ میرے بس میں نہیں ہے۔ چوہدری صاحب نے اپنی دانست میں ایک معقول مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ میں اس فارم کو کسی دوسرے سے پر کروا کر اسی سے دستخط کروا دوں ویزہ لگنے کے بعد یہ کاغذات وہ ضائع کردیں گے۔ وقتی طور پر تو مجھے یہ مشورہ بھلا لگا اور میں نے اپنے ساتھی کو جو یہ ساری باتیں سن چکا تھا فارم تھما دیا اور کہا کہ پُر کرکے چوہدری صاحب کو دیدے۔ میرے دوست کو خدا ہی جانے کیا سوجھی کہ اس نے ڈیکلیریشن فارم کے الفاظ بلند آواز سے پڑھنے شروع کردیے۔ جب یہ عبارت ختم ہوئی تو میں نے اس کے نیچے اپنا نام لکھا جانا پسند نہ کیا۔ اور فارم پکڑ کر چوہدری صاحب کو واپس کردیا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا تم اگر کچھ کرسکتے ہو تو ٹھیک ہے۔ چوہدری صاحب نے مجھ سے پاسپورٹ پکڑا اور بڑبڑاتے ہوئے اس پر کچھ لکھتا رہا: ’تم کافر ہوکر غلط کام نہیں کرتے اور ہم مسلمانوں کو غلط کام پر مجبور کررہے ہو‘۔ پھر مہر لگانے کے بعد پاسپورٹ میرے حوالے کردیا۔ جس پر وہ احمدی لکھ کر سفارت خانے کی مہر لگا چکا تھا۔
’اتنے احمدی تو مرزا صاحب نہیں کرتے جتنے آپ کردیں گے۔‘ مَیں نے سخت احتجاج کیا۔ ’تو کیا آپ احمدی نہیں؟‘ چوہدری صاحب نے ایک بار پھر پریشان ہوکر پوچھا۔ ’ہرگز نہیں‘ مَیں نے صریحاً اعلان کیا۔ اس پر چوہدری صاحب نے فوراً میرے ہاتھ سے پاسپورٹ واپس لے لیا اور احمدی کا لفظ کاٹ دیا۔ اور مہر کو بھی کاٹنے کی کوشش کی۔ پاسپورٹ دیکھ کر ہلکا سادکھ ہوا کہ احمدی لکھ کر کاٹاہوا تھا۔ خدا نے بعد ازاں جب مجھے احمدیت میں داخل فرمایا تو سب سے پہلا کام میں نے یہ کیا کہ اپنے پاسپورٹ پر اپنے ہاتھ سے احمدی لکھا۔
چوہدری صاحب کے ذکر سے قبل بات مطالعہ کی ہورہی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ مشن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جتنی بھی کتب تھیں میں ان سب کا مطالعہ کرچکا تھا۔ مزید مطالعہ کا شوق ڈاکٹر صاحب سے باربار مطالبہ کرنے پر مجبور کرتا رہا کہ مجھے کوئی اور کتاب دیں۔ ڈاکٹر منور احمد صاحب نے مجھے ایک کتاب ’’حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا دورۂ مغرب‘‘ دے دی کہ جب تک کوئی کتاب نہیں ملتی آپ یہ کتاب پڑھیں۔مجھے چونکہ ایک نشہ سا ہوچکا تھا اس لیے کتاب لی اور کمرے میں آگیا۔ دوران مطالعہ جب اس کتاب میں افریقہ کا ذکر آیا کہ فلاں ملک میں اتنے احمدی ہیں فلاں ملک میں اتنے احمدی ہیں۔ میں نے جب یہ عبارت پڑھی تو بے اختیار دل سے نکل گیا کہ کفر تو بہت پھیل گیا۔ ذہن نے پھر دل کو جھنجھوڑا کہ جن کو تم کافر کہہ رہے ہو وہ تم جیسے مسلمانوں سے تو بہت بہتر ہیں۔ مزید غور کیا تو اندر سے آواز آئی کہ تم کیسے مسلمان ہو؟ درود شریف کی افیون کھاتے ہو مگر کسی کا کیا بھلا کرتے ہو؟ ان کافروں کو دیکھو کہاں کہاں ہسپتال کھولے ہوئے ہیں۔ کہاں کہاں سکول بنا رکھے ہیں۔اور تو اور تم جیسے پاگلوں کو بھی سنبھال رہے ہیں۔ اگر ایسا کفر ساری دنیا میں پھیل جائے تو انسانیت کی قسمت سنور جائے۔ اپنے آپ سے ہی کہا کہ بہتر ہے کہ تم بھی انکے ساتھ شریک ہوجاؤ اور ایسا خوبصورت کفر پھیلاؤ۔ دل جب قائل ہوگیا تو ہمداردانہ نظر سے غور کیا کہ کتنے احمدی ہوگئے تھے۔ ہر ملک کی آبادی کے تناسب سے احمدیت کا جائزہ لیا تو یہ اندازہ ہوگیا کہ یہ تعداد باقی افراد کو بھی خود ہی احمدی کرلے گی۔ ماشاء اللہ۔
اس خیال کا دل میں آنا ہی تھا کہ مجھے اپنی وہ پاکستان کی خواب یاد آگئی جس کی وجہ سے میں نے افریقہ کاسفر کیا تھا۔ تیسری دفعہ اس پیرا گراف کو پڑھا اور جو تعداد میں نے خواب میں دیکھی تھی ایسے لگا کہ بعینہٖ وہی اعداد وشمار تھے جو یہاں کتاب میں درج تھے۔ اس پر دل نے کہا کہ جن کو تم اب تک کافر کہہ رہے ہو وہ تو خدا کی نظر میں مسلمان ہیں۔ عجیب سی کیفیت ہوگئی۔ سب سے پہلا خیال جو دل میں گزرا وہ یہ تھا کہ احمدی حضرات غیر احمدیوں کو کافر خیال کرتے ہیں؟ پہلی فرصت میں ڈاکٹر منور صاحب سے یہی پوچھا کہ آپ احمدی حضرات کا عام مسلمانوں کے بارے میں کیا نظریہ ہے کہ آیا وہ کافر ہیں یا مسلمان؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہم کلمہ پڑھنے والوں کو کیسے کافر کہہ سکتے ہیں؟
دل کو یقین سا ہوگیا تھا کہ یہی لوگ مسلمان ہیں۔آپ سوچیں گے کہ مَیں نے فوراً بیعت کرلی ہوگی۔ مگر نہیں۔ میرا تعلق پٹھان فیملی سے ہے۔ اور پٹھان مشکل سے ہی احمدی ہوتا ہے۔
الغرض احمدیت کی سچائی کے متعلق نشانات دیکھنے کے بعد میں پھر خدا کی طرف متوجہ ہوا اوررات بھر بہت توجہ سے دعائیں کیں۔اوراگلے دن ڈاکٹر منور صاحب کے اشارہ پر بیعت کے لیے تیار ہوگیا۔ تب مکرم محمد انور قریشی صاحب (حال نائب ناظر بیت المال آمد صدرانجمن احمدیہ ربوہ) وہاں مربی سلسلہ تعینات تھے۔ ان کو بھی بلا بھیجا۔ وہ تشریف لائے تو اپنی طرف سے مخلصانہ مشورہ دینا چاہا کہ چند دن مزید غور کرلیں۔ میں نے بظاہر مشورہ مان لیا اور کہا کہ اگر ان دنوں میں میری موت ہوگئی تو آپ ہی ذمہ دار ہوں گے۔ مجھے خوب علم تھا کہ یہ ذمہ داری کوئی بھی نہیں اٹھا سکتا اور ایسا ہی ہوا۔ وہ کہنے لگے: ’’ نہیں نہیں!میں یہ ذمہ داری نہیں لے سکتا۔‘‘ پھر بتایا کہ انہیں میری اس قدر سنجیدگی کا علم نہیں تھا۔
خاکسار نے اسی وقت بیعت فارم پُر کیا اور دستخط کردیے توحالت ہی بدل گئی، میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا کہ کوئی فرد سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں احمدی ہوسکتا ہوں۔اس نعمت کے ملنے پر مجھے پاکستان واپسی کابھی اطمینان ہوگیا کہ جس مقصد کے لیے خدا نے روکا ہوا تھا وہ مل گیا ہے۔
قصہ مختصر اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر واپسی کا بندوبست کر دیا تھا ۔
عمرے میں ناکامی مگر!!!!
پاکستان واپسی کے لیے مکرم انور قریشی صاحب ہمیں ائیرپورٹ پر چھوڑنے آئے ۔آخری لمحات تک پریشانی برقرار رہی۔ آخر کار جہاز افریقہ سے جدہ ائیرپورٹ پہنچا وہاں میراد وست ائیرپورٹ سے باہر نکل گیا اور مجھے باوجود تمام دعاؤں اور کوششوں کے عمرہ کی اجازت نہ مل سکی۔ غالباً 5گھنٹے ائیرپورٹ پر قیام کے بعد پاکستان کی فلائٹ میں بیٹھ گیا مگر دل بہت پریشان اور بے چین تھا۔ دل ہی دل میں خدا تعالیٰ سے بحث شروع کردی۔ جس کا لبّ لباب یہ تھا کہ مَیں تو مجبور تھا ڈیکلیریشن فارم پر دستخط نہیں کرسکتا تھا مگر یا اللہ! تُو تو مختار ہے، تجھے کیا مجبوری تھی؟ کیا احمدیت کا پہلا انعام یہ مل رہا ہے کہ میں دربار رسول ﷺ سے مایوس جارہا ہوں؟سخت بے چینی کے ماحول میں میری آنکھ لگ گئی۔ اللہ تعالیٰ خواب میں تشریف لے آیا۔ میرے شانے پر ہاتھ رکھا اور تسلی دی کہ تم نے صرف تین دن اس کیفیت میں رہنا تھا ہم تمہیں تمام عمر اس کیفیت میں رکھیں گے۔
احمدیت کا دراصل یہ پہلاانعام تھا جس سے مَیں نے پریشانی کو خوشی میں بدلتے دیکھا۔ گویا زندگی میں پہلی دفعہ خوف کو امن میں بدلتے دیکھا۔ اس سرمایہ حیات رؤیا کو دیکھتے ہی پاکستان آگیا اور بجائے اپنے اہل و عیال کے پاس جانے کے سیدھا سُکھ چین کے پاس جا قیام کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرے جانے کے بعد میری اہلیہ بچوں کو لے کرلاہور سے اپنے میکے جڑانوالہ چلی گئی تھی۔ لاہور میں مکان پہلے ہی کرایے کا تھا۔ میرے چلے جانے اور واپسی کا کوئی پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے اہلیہ نے مناسب جانا تھا کہ گھر خالی کرکے سامان وغیرہ بھی ساتھ لے جائے۔ اس لیے میرے پاس لاہور میں اترنے کے بعد کوئی اَور ٹھکانہ نہ تھا۔ دوسرا سکھ چین سے جو تعلق تھا اس کا تقاضہ بھی تھا کہ اسے اس دولت کا پتہ دیا جائے جو مَیں نے پالی تھی۔
سکھ چین کا اقرار اور انکار
سکھ چین کو تمام حالات و واقعات سے آگاہ کیا اور احمدیت کی سچائی بیان کردی۔ یہ سچائی واضح کرنے میں مجھے تین دن لگ گئے۔ اس کے پاس سے رخصت ہوتے ہوئے مَیں نے خدا کا شکر بھی ادا کیا کہ مَیں ان کو احمدیت سمجھانے میں کامیاب ہوگیا۔ مگر یہ خوشی زیادہ عرصہ برقرار نہ رہی اور اگلی ہی ملاقات میں ختم ہوگئی۔ سُکھ چین نے عذر پیش کیا کہ آپ نے تین دن مسلسل مجھے تبلیغ کی ہے۔ مَیں تو تین گھنٹے کی فلم دیکھ لوں تو اس کا اثر ذہن پر ہوجاتا ہے۔ اس پر مجھے سمجھ آئی کہ مَیں کہاں سر کھپاتا رہا ہوں۔ ایک اور طویل ملاقات کے بعد مَیں نے مشورہ دیا کہ آپ ایسا کریں کہ خدا تعالیٰ سے راہنمائی لے لیں۔طے پاگیا کہ چالیس دن تک روزانہ نفل پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے پوچھا جائے۔ دعا پرابھی پندرہ بیس دن ہی گزرے تھے کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک ایرانی النسل بزرگ ہاتھ میں تسبیح پکڑے مجھے کہہ رہے ہیں کہ ’مرزا سچا ہے‘۔ مَیں نے ایسے الفاظ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شایان شان خیال نہ کیا اور اللہ سے مزیددعا کی کہ ایسے الفاظ تو ہوں جو میں سکھ چین کو فخر سے بتاسکوں۔ اگلے روز ہی یہ خواب آگئی کہ میں اپنی والدہ کو بتا رہا ہوں کہ مجھے رسول پاک ﷺ نے بتایا ہے کہ ’مرزا سچا ہے‘۔ یہ صورتحال مجھے بہت پسند آئی اور میں نے خدا کا شکر اداکیا۔
سسرال اور بیوی کا ردّعمل
اب سسرال والوں کی سنئے۔ جب مَیں بیوی بچوں کے پاس جڑانوالہ اچانک پہنچا تو رات ہوچکی تھی۔سب کے لیے یہ اچانک آمد ایک خوشگوار حیرت کا باعث تھی۔ سب خوش تھے مگر اچانک تھوڑی دیر بعد ہی میری اہلیہ نے زاروقطار رونا شروع کردیا۔ سب پوچھتے رہے کیا ہوا ہے مگر وہ خاموش تھی اور ٹالتی رہی۔ میرا ماتھا ٹھنکا دراصل میرے نائیجیریا قیام کے دوران ڈاک وغیرہ احمدیہ ہسپتال کے ذریعے آتی جاتی تھی اورمیرے سسرال والوں کو خوف تھا کہ میں احمدی نہ ہوجاؤں۔ اور میری سابقہ دینی حالت سے بھی وہ ہمیشہ ہی غیرمطمئن رہے تھے۔ لہٰذا میرے آنے سے قبل کئی بار اس موضوع پر میری اہلیہ سے بات کرکے میرے مرتد ہوجانے کے خدشات کا اظہار کرچکے تھے۔ لہٰذا میرے گھر آتے ہی میری اہلیہ نے سب سے چھپ کر میرے سفری بیگ کی تلاشی لے لی اور اس میں وفات مسیح اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کی کتابوں کے حوالے میری ڈائری میں دیکھ لیے جس سے اُسے شک ہوگیا کہ مَیں شاید احمدی ہوگیا ہوں۔ اسی لیے اس کی ایسی حالت ہوگئی تھی۔ مَیں نے اکیلے میں کسی نہ کسی طرح اس کو تسلی دلادی کہ مَیں مسلمان ہی ہوں۔
ایک روز مَیں نماز سے فارغ ہوا توجوپہلا سوال مجھ پر داغا گیا وہ یہ تھا کہ میں نے نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کیوں نہیں مانگی؟ میں نے کہا اس لیے کہ رسول پاک ﷺ بھی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں مانگا کرتے تھے۔ان کے شکوک کو مزید تقویت ملی۔ تمام سسرال والے، جن میں میرے سسر، ساس ، نسبتی بھائی اور ہمشیرہ شامل تھی مع میری اہلیہ کے میرے پاس آئے اور مجھ پر سوالات کی صورت میں جرح شروع کردی۔ مجھے صحن میں بیٹھنے کا حکم مل گیا۔ اب ایک عجیب تکلیف دہ منظر تھا۔ تمام لوگ میرے بارے میں گفتگو کررہے تھے اور بار بار میری طرف متنفّر نظروں سے دیکھتے تھے اور کسی ایسے فیصلے پر جلد پہنچنے کی کوشش کررہے تھے جو یقیناً میرے لیے صدمے کا باعث بننے والا تھا۔ صحیح معنوں میں خدا خدا کرکے فیصلہ سنائے جانے کی گھڑی آئی جو کچھ اس طرح سے تھا کہ احمدیت چھوڑ دو اور مسلمان ہوجاؤ یا پھر دوسرا راستہ کھلاہے اور ساتھ ہی بیرونی کھلے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ مَیں نے کہا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں۔ کہا گیا کلمہ پڑھو۔ مَیں نے لاالہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ پڑھا۔ پھر میرے سسر نے کہا کہ مرزے کو گالی دو (نعوذباللہ)۔ مَیں نے جواب دیا کہ یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ مَیں تو احمدی نہ بھی ہوا ہوتا تو ایسی قبیح حرکت نہ کرپاتا اور نہ ہی مَیں اسے کلمے کا حصہ سمجھتا ہوں۔ اب یا د نہیں کہ میرے سسر یا برادر نسبتی نے پوچھا کہ ہمیں کیسے یقین ہو کہ تم مسلمان ہوگئے ہو؟۔ مَیں نے ان کو سمجھایا کہ ہر کام کا ایک طریق ہوا کرتاہے۔ مجھ سے پہلے یہ پوچھیں کہ مَیں احمدی کیوں ہوا ؟ پھر اس کے مطابق علاج کریں۔ مَیں نے اگر احمدیت قبول کی ہے تو صرف اور صرف اللہ کے خوف سے اور اس کے رسول پاک ﷺ کی حکم عدولی کے خوف سے۔کیونکہ میں نے بھی پڑھ رکھا تھا کہ حدیث میں حکم ہے کہ جب تم حضرت مسیح موعودؑ کا زمانہ پاؤ تو اسے میرا سلام کہو اور اس کی بیعت کرو۔ اب آپ لوگوں کے خیال میں مَیں نے کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہے کہ ایک جھوٹے نبی کو مان لیا ہے۔ سب نے بیک آواز کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ اس پر مَیں نے کہا کہ تو پھر ٹھیک ہے آپ مجھے مزید ڈرا دیں میں ڈر جاؤں گا تو چھوڑ دوں گا۔ ڈرانا صرف اتنا ہی ہے کہ مجھے وہ سزا بتادینی ہے جو اس عظیم گناہ کے لیے مقرر ہے۔ قرآن کریم ایک مکمل کتاب ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے کہ میں اپنے اونٹ کی گمشدہ رسی بھی قرآن سے تلاش کرلیتا ہوں۔ آپ مجھے قرآن سے وہ آیت دکھادیں جس میں جھوٹے نبی کو ماننے کی سزا درج ہے، مَیں فوراً ہی چھوڑ دوں گا۔ بے شک سزا اتنی ہی ہو کہ قیامت کے روز اللہ پاک ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے لیے بھی مجھ سے منہ پھیر لے گا، مَیں تو یہ بھی برداشت نہیں کرسکتا۔
میری اس معقول بات پر تمام لوگ متفق ہوگئے۔ مَیں نے بظاہر مزید آسانی پیدا کرنے کے لیے کہا کہ اگر قرآن مجید سے کوئی ایسی آیت نہ ملے تو حدیث ہی دکھادیں کہ نبی پاک ﷺ نے یہ سزا بتائی ہے۔ مَیں نے نہ راوی کا پوچھنا ہے کہ کون ہے؟ نہ حدیث کی سند مانگنی ہے کہ ضعیف ہے کہ مستند۔ بے شک وضعی قسم کی ہی کیوں نہ ہو۔ میں نے مان لینی ہے۔ اس پر ماحول مزید بہتر ہوگیا۔
تیسری بات مَیں نے ایک اور یہ کی کہ اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کم از کم کوئی ایسی بات بتا دیں جو پہلے کافروں نے کبھی نہ کی ہو۔ نئی بات کریں جو دل پر اثر کرنے کے قابل ہو۔ تحقیق کے لیے تین یوم کا وقت مقرر ہوگیا۔
اس پر گھر کا ماحول میرے سسر نے بدل دیا اور اعلان کیا کہ کچھ نہیں ہوا۔ مجھے بھی وقت میسر آگیاجسے مَیں نے تحفہ خداوندی خیال کیا اور ساری رات اپنی اہلیہ کو احمدیت سمجھانے میں لگا دی۔ اپنے خیال میں جب سب سمجھاچکا تو سوال کیا کہ اب بتاؤ کہ مَیں نے کتنا بڑا گناہ کرلیاہے؟ مگر اہلیہ کا جواب سن کر میں حیران ہوگیا۔ کہنے لگی مجھے پہلے ہی علم تھا کہ آپ خلوص میں ٹھوکر کھا گئے ہیں۔ کوئی بات نہیں ابا جان آپ کو سمجھائیں گے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ مجھے وہ شخص یاد آگیا جس نے تمام رات ہیر رانجھا کی داستان سنی اور صبح سوال کردیا کہ کیا ہیر رانجھا بہن بھائی تھے؟
اگلے روزخلاف معمول میرے سسر صاحب گھر آگئے۔ وگرنہ ظہر کی نماز کے بعد دکان سے آیا کرتے تھے۔ آتے ہی میری طرف چھڑی سے اشارہ کیا۔ پھر اُسی چھڑی سے اشارہ دروازے کی طرف کیا اور ہلکے سے ’چلے جاؤ‘ بھی کہا۔ جو ہونا تھا اُس کا مجھے اندازہ تھا۔ مگر اس قدر جلد ہوگا،یہ اندازہ نہ تھا۔یہ بعد میں معلوم ہوا تھا کہ انہوں نے اسی دن اپنے شہر کی جماعت اسلامی کے ممبران اکٹھے کر کے معاملہ پیش کردیا تھا کہ میرا داماد احمدی ہوگیا ہے اور یہ تین باتیں کی ہیں کہ :
1۔جھوٹے نبی کو ماننے کی سزا قرآن سے بتائیں یا
2۔حدیث مبارکہ سے بتائیں یا
3۔کوئی ایسی دلیل دیں جو کبھی کفار نے نہ دی ہو۔
اس اجلاس میں یہ طے پاگیا کہ قاری صاحب (میرے سسر) فوراً گھر چلے جائیں اور گھر بچائیں کیونکہ گھر میں نقب لگ چکی ہے۔ یوں قاری صاحب گھر آئے اور اب مجھے گھر سے باہر نکل جانے کو کہہ رہے تھے۔ میں صورت حال کو فوری بھانپ گیا اور سادگی اور معصومیت کی اداکاری شروع کردی کہ مجھے سمجھایا جائے، مَیں تو ایک عام آدمی ہوں جبکہ آپ عالم فاضل ہیں۔ مگر وہ اس جھانسے میں آنے والے نہ تھے۔ اس بات کا علم تو مجھے تھا مگر مَیں یہ سب اپنی اہلیہ کے لیے کرر ہا تھا۔ جس میں کامیاب ہوگیا۔ لہٰذا اُس نے مداخلت کی اور اپنے ابا کو مخاطب ہوکر کہا: ’’اباجان! مَیں اس شخص کو جانتی ہوں۔ یہ نہ تو ڈرپوک ہے اور نہ ہی لالچی۔ اگر خلوص سے ٹھوکر کھاگیا ہے تو آپ کا کام سمجھانا ہے‘‘۔ سسر صاحب تو گویا قسم کھا کر آئے تھے کہ بات تک نہیں سننی۔ فوراًبولے:’’ تم نہیں جانتی اس نے جو باتیں کی ہیں وہ واپسی والی نہیں ہیں۔ ان شرائط میں بہت بڑی چال چلی ہے‘‘۔
مگر اب کی بار اہلیہ بات ماننے کو تیار نہ تھی۔ مُصر تھی کہ وہ مجھے سمجھائیں۔ میرے سسر نے جب یہ حالات دیکھے تو ایک جذباتی تقریر کرڈالی۔ وہ باقاعدہ خطیب تھے اور بہت اچھے مقرر تھے۔ لفظوں کا برمحل استعمال کرنا جانتے تھے اور جماعت اسلامی کی ذہنیت کے عین مطابق ایسی ڈنڈی مارتے تھے کہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ جماعت اسلامی کارنگ مکمل نہیں تو کافی حد تک چڑھا ہوا تھا۔ تقریر کچھ یوں تھی: ’’بیٹی آج تم پر بہت بڑی آزمائش آن پڑی ہے۔ ہم نے تمہاری تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب تک یہ یہ … کتب پڑھائی ہیں( کافی کتب کے نام لے دیے جن میں مودودی صاحب کی ’تفہیم القرآن‘ مجھے یادرہی)۔ آج اگر تم نے اپنے خدا کے حضور ثابت قدمی نہ دکھائی تو ہماری طرف سے چھٹی ہوگی۔ مگر یاد رکھنا کہ جاوید پر عذاب آنا ہی آنا ہے۔ یہ اپاہج ہوجائے گا۔ پاگل ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے مربھی جائے۔ پھر تم نے واپس آکر ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا تو یاد رکھنا دروازہ کھولنا ہماری غیرت ایمانی کے خلاف ہوگا۔ لہٰذا یہ نہیں کھلے گا۔ ہاں اگر آج تم ثابت قدمی دکھاؤ اور سچے خدا اور سچے رسول کا ساتھ نہ چھوڑو اور جھوٹے نبی اور جھوٹے خدا (میری طرف اشارہ کرکے کہا) کا ساتھ چھوڑ دو تو یہ اڑھائی لاکھ روپیہ تمہارے بنک اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتے ہیں جس کا منافع اس کی دو تنخواہوں سے بھی زیادہ ملے گا (یاد رہے کہ 1984ء میں روپے کی قدر اس سے بہت بہتر تھی جو آج یعنی 2014ء میں ہے)۔ لہٰذا آرام سے بچے پالو اور پیروں کی سی زندگی گزارو‘‘۔
یہ تقریر سن کر مجھے ایسا لگا کہ اب کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اہلیہ اور بچوں پر جب نظر ڈالی تو مجھے امید کی ایک کرن نظر آئی۔ وہ مجھے تقریر سے متأثر نظر نہ آئی۔ مَیں نے غور سے دیکھا تو اسے مزید حوصلہ ہوگیا اور اس نے اپنے والد صاحب سے دوٹوک بات کرتے ہوئے کہا ’’ اباجان ! جاوید آپ سے سمجھنا چاہتے ہیں اور آپ سمجھا نہیں پارہے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں کوئی بھی عالم نہیں سمجھا سکتا۔ مَیں ان کو کسی اور عالم کے پاس لے جاؤں گی اور وہ انہیں سمجھا دے گا۔ اگر یہ نہ سمجھے تو مَیں واپس آجاؤں گی۔ آپ کی مرضی ہوگی دروازہ کھولیں یا بند رکھیں۔ میرا خدا مالک ہے۔ مگر یہ بے اصولی میں نہیں کرسکتی کہ ایسے وقت میں جب یہ ٹھوکر کھا گئے ہیں ان کو ایسے ہی چھوڑ دوں (یعنی بِنا اتمام حجّت کے)‘‘۔
یہ سن کر میرے سسر نے بڑے متکبرانہ انداز میں کہا ’’ اور کون عالم ہے جس کے پاس لے جانا چاہتی ہو؟‘‘ (یعنی ان کے علاوہ)۔ ’’مَیں ان کو طاہرالقادری کے پاس لے کر جاؤں گی اور اگر وہ بھی انہیں نہ سمجھا سکے تو واپس آجاؤں گی۔‘‘
اس پر ماحول بڑا عجیب سا ہوگیا۔ میرے سسرال والوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ وہ ذہنی طور پر تو متفق نہ ہوئے تھے مگر ان حالات میں سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اگلے روز خدا کے فضل سے مَیں اپنی اہلیہ اور دو بیٹوں کے ہمراہ جڑانوالہ سے رخصت ہوگیا۔ تاہم منجھلے بیٹے کو سسرال کے اصرار پران کے پاس ہی چھوڑ آیا۔ کیونکہ ایک تو سسرال والے منجھلے بیٹے کے ساتھ نسبتاً زیادہ لگاؤ رکھتے تھے اور شاید وہ اہلیہ کی واپسی کو ضمانت کے طور پر بھی اقدام کرنا چاہتے تھے۔ خیر میں نے اسی کو غنیمت جانا۔
اب اپنا گھر تو تھا نہیں۔ لہٰذا مختلف عزیز و اقارب کے گھر ٹھہرنے کا اتفاق ہوا۔ تقریباً سب اقرباء میں ہی یہ خبر پہنچ چکی تھی۔ اکثر نے میزبانی سے انکار کردیا اور مختلف وجوہات بتائیں۔ کسی نے کہا کہ کافر ہوگئے ہو۔کسی نے کہا کہ ہم تمہارے والد کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے وغیرہ وغیرہ۔میری اکلوتی ہمشیرہ فرحت خانم مرحومہ نے گھر میں داخلے کی اجازت دے دی ۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ بحث
میری اہلیہ نے بتایاکہ فلاں تاریخ کو ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے ملاقات کا وقت دیا ہے۔ ابھی اس وقت میں ایک ہفتہ باقی تھا۔مقررہ تاریخ پر لاہور پہنچ گئے۔ یہ 1985ء کا آغاز تھا اور اس زمانے میں طاہر القادری صاحب سمن آباد لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ بہرحال ملاقات ہوئی تو پہلا سوال تھا کہ’’ آپ احمدی کیسے ہوگئے؟‘‘ میں نے ان کو کہا کہ قرآن پڑھا اور احمدی ہوگیا۔ قادری صاحب فوراً بولے ’’ وہ کونسا قرآن آپ نے پڑھا ہے جو مَیں نے نہیں پڑھا؟‘‘ مَیں نے تھوڑی سی وضاحت کردی کہ عوام الناس ملاؤں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ مَیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ آپ بتائیں کہ آپ نے کونسے قرآن میں کیا پڑھاہے؟ مَیں نے اسی طنزیہ انداز میں کہا ’’قرآن تو ایک ہی ہے مگر آپ اسے ڈرا ڈرا کر پڑھاتے ہیں اور ہم گناہگار ڈر ڈر کر پڑھتے ہیں۔‘‘ میری بات پر قادری صاحب بہت ہنسے اور تردید نہ کی۔ پھر سوال کیا کہ بتائیں تو سہی قرآن میں کیا پڑھ لیا ہے؟ اس پر میں نے سورہ مومن میں درج حضرت موسیٰؑ کا واقعہ بیان کیا کہ جب آپؑ فرعون کے سامنے گئے تو دعوت حق دی اور اپنے نبی اللہ ہونے کے نشانات پیش کئے۔ فرعون کے دربار میں ایک شخص ایسا بھی موجود تھا جس نے فرعون کی بہت بہتر راہنمائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اور اگر یہ سچا ہے تو اس کی کہی باتیں تمہارے متعلق پوری ہوجائیں گی۔ خدا تعالیٰ نے اس مومن شخص کو قیامت تک کے لیے عمدہ مثال بنا دیا۔ اس کی کہی ہوئی بات کو قرآن کا حصہ بنا کر اسے قیامت تک کے لیے قول زرّیں اور ایک دلیل بنا دیا۔
میں نے قادری صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ بات جو اس مومن نے کہی وہ اچھی تھی؟ قادری صاحب نے کہا اچھی ہے۔ میں نے کہا کہ اگر اچھی ہے تو مجھے بھی پسند ہے اور میں نے اس پر عمل کرلیا ہے۔ اگر مرزا صاحب جھوٹے ہیں تو اس جھوٹ کا وبال ان پر پڑجاتا ہے۔ اگر ان کی کہی ہوئی باتیں بقول میرے سچی ہیں تو وہ بھی سچے ہیں۔ قادری صاحب نے پوچھا کچھ اَور بھی پڑھا ہے؟ مجھے ایک حدیث مبارکہ بھی یاد آگئی جس میں کہا گیا ہے کہ جھوٹے آدمی کا علم زیادہ نہیں ہوتا۔ اور آپ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ مرزا صاحب کا علم بہت زیادہ تھا۔ لہٰذا وہ جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ قادری صاحب نے چائے وغیرہ پلائی او ر ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگے۔ ایک کتاب پڑھنے کے لیے دی ’’شرعی کورٹ کا عدالتی فیصلہ‘‘۔ کسی بشیر احمد صاحب کی مرتب کردہ تھی۔
قادری صاحب نے مزید بتایا کہ اس فیصلے میں وہ بھی شامل تھے۔ مجھے اس معاملے کی کچھ سن گن تھی۔ میں نے کہا کہ ضیاء الحق نے جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلہ جسٹس فخر عالم سے لکھوایا تھا حالانکہ مقدمہ جسٹس آفتاب احمد نے سنا تھا۔ قادری صاحب نے میری اس بات کو جماعتی مؤقف جانا اور فوراً مجھ سے پوچھا کہ کیا جماعت احمدیہ اب یہ بات کررہی ہے(زور ’یہ‘ پر تھا)۔ مَیں نے بتایا کہ یہ تو میری ذاتی معلومات تھیں۔ اس پر قادری صاحب نے کہا کہ جسٹس آفتاب نے مقدمہ سنا تو فیصلہ لکھا کہ احمدی کافر ہیں اور شیعہ بھی کافر ہیں۔ ضیاء الحق یہ نہیں چاہتاتھا کہ شیعہ حضرات کو بھی کافر قرار دیا جائے۔ جسٹس آفتاب راضی نہیں ہورہاتھا۔ لہٰذا اسے تبدیل کرکے جسٹس فخر عالم سے فیصلہ لکھوا لیا۔
بہرحال ایک بار تاکید کی کہ کتاب کو غور سے پڑھ کر دوبارہ آجائیں۔ تقریباً ڈیڑھ صد صفحات پر مشتمل کتاب تھی ۔اہلیہ نے اٹھتے ہوئے کہا کہ مَیں اپنے والدین سے وعدہ کرکے آئی تھی کہ اگر قادری صاحب نے بھی یہ کہا کہ جاوید کافر ہوگئے ہیں تو میں واپس آجاؤں گی۔ اس پر قادری صاحب نے کہاکہ آپ جہاں ہیں وہیں رہیں اور واپس نہ جائیں۔ یہ مَیں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جاوید صاحب ہدایت کے لیے مخلص ہیں اور چونکہ یہ احمدیوں میں رہے ہیں اور اِن کا اپنا دینی علم کم تھا اس لیے اِن پر اُن کا اثر ہوگیا ہے۔ جماعت اسلامی والے بہت سخت مزاج ہوتے ہیں اس لیے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا آپ واپس نہ جائیں۔ اور ابھی آپ کو کئی بار یہاں آنا پڑے گا۔ اور اس طرح ایک اچھی ملاقات کے بعد ہم واپس ہوئے۔ اہلیہ کو ایک بار پھر اپنی ہمشیرہ کے یہاں چھوڑا اور خود شیخوپورہ چلا آیا۔ میں اپنے آبائی گھر فاروق آباد بھی آتا جاتا تھا کیونکہ والد صاحب سے بھی تبادلۂ خیال کا سلسلہ جاری تھا۔
طاہرالقادری صاحب کی دی ہوئی کتاب مَیں نے تین دن میں ہی تین سے زائد بار پڑھ لی۔ اس کتاب میں بھی وہی روایتی قسم کے الزامات کی بھرمار تھی۔مَیں ابھی نیا نیا احمدی تھا۔ 1985ء کا زمانہ جن لوگوں کو یاد ہو وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ کس قدر سختی تھی اور نئے احمدی کو کوئی کتاب دینے کو تیار نہ ہوا کرتا تھا۔ بہرحال جس قدر حوالہ جات کے لیے کتب میسر آسکیں مَیں نے اُن میں کاغذ کی چٹیں رکھیں اور ایک بستہ سا باندھ کر اگلے ہفتے بیگم کے ہمراہ ان کے پاس چلا گیا۔
’کتاب پڑھی؟‘ قادری صاحب نے پہلا سوال یہی کیا۔
’نہ صرف پڑھی بلکہ سمجھی بھی ہے؟‘ مَیں نے جواب دیا۔
کیا سمجھا ہے؟۔ ’یہی کہ جھوٹے جھوٹے ہوتے ہیں اور سچے سچے۔‘مَیں نے جواب دیا۔’کیا مطلب؟‘۔ مَیں نے کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ کھولی اور ساتھ ہی وہ کتاب جو دی گئی تھی رکھی اور قادری صاحب کو پڑھنے کی دعوت دی۔ اُن کی کتاب میں لکھا تھا کہ مرزا صاحب کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر کوئی مسلمان غلطی سے کسی کافر کو مومن کہہ دے تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔ اس عقیدے کو تضحیک کے رنگ میں پیش کیا گیا تھا۔ جب اصل حوالہ حضورعلیہ السلام کی کتاب سے دکھایا تو وہاں لکھا تھا کہ دو سو سے زائد مولویوں نے فتویٰ دیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان غلطی سے کسی کافر کو مومن کہہ دے تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔
مَیں نے قادری صاحب سے کہا کہ یہ حوالہ میں نے اس لیے سب سے پہلے پیش کیا ہے کہ یہاں ایک ہی سطر میں بات واضح ہوجاتی ہے۔ باقی بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے ماسوائے کہ کہیں مجھے گزشتہ پیرا پڑھنا پڑے گا اور کہیں کوئی صفحہ آگے پیچھے سے دیکھنا ہوگا۔
مجھے یقین ہے قادری صاحب سارا معاملہ سمجھ گئے تھے بس یہی کہا کہ میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں۔
اس کے بعد قادری صاحب کے ساتھ بہت تفصیلی ملاقات ہوئی اور قرآن اور احادیث کے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی مگر کسی بھی صورت ہماری تشفی نہیں ہورہی تھی اور نہ وہ ہمیں کسی طریق پر قائل کر سکے۔اس گفتگو کے دوران استخارہ کا بھی ذکر آگیا کہ کیوں نہ استخارہ کیا جائے۔ ہم نے استخارہ کے بارہ میں سنا ہوا ہے اور خدا بھی کہتا ہے کہ تم مجھے پکارو میں جواب دوں گا۔ اور جو میری طرف چل کے آئے گا میں اس کی طرف دوڑ کے جاتا ہوں۔ اب یہ اتنا سنگین مسئلہ ہے تو کیوں نہ آیت الکرسی ، چاروں قل اور دعائے استخارہ کرکے دو نفل پڑھ کرخدا سے دعا مانگوں کہ میری راہنمائی کرے؟ اس پر قادری صاحب نے بات پوری بھی نہیں کرنے دی اور فوراً بولے کہ نہیں نہیں اس طرح تو شیطان آجائے گا اور آپ کو گمراہ کرے گا۔ یہ بات سن کر اہلیہ بھنّا کر بولی کہ قادری صاحب یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ بندہ اللہ کو پکارے گا تو شیطان آجائے گا؟ اس طرح تو شیطان اللہ سے زیادہ طاقتور ہوا۔ قادری صاحب نے ہاں تو نہیں کہا مگر جو جواب دیا وہ کچھ ہاں کے مترادف ہی تھا۔ نیز بتایا کہ جب سورۃ نجم کی ایک آیت نازل ہوئی تو شیطان بھی ساتھ ہی آگیا اور نبی پاک کے منہ میں داخل ہوگیا (نعوذباللہ) اور اس آیت کو تبدیل کردیا۔ قادری صاحب نے وہ آیات بھی پڑھ کر سنائیں۔ اہلیہ نے جب یہ سنا کہ طاہرالقادری صاحب شیطان کو نبی پاک ﷺ کے منہ میں داخل کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو اس قدر دُکھ میں مبتلا ہوئی کہ جب قادری صاحب اندر کتابیں واپس رکھنے گئے تو مجھے فوراً اٹھنے کا کہا۔ مجبوراً ہمیں اجازت لینی پڑی۔ اس وقت مجھے اس قدر دکھ نہ ہوا تھا جتنا اہلیہ کو ہوا تھا۔میری اہلیہ جو ابھی احمدی نہیں تھی اس کے لیے آنحضور ﷺ کی شان میں ایسی گستاخی حیران کُن تھی اور وہ بھی قادری صاحب کے منہ سے جن کو وہ ایک عالم و فاضل اور بزرگ انسان خیال کرتی تھی۔
باہر نکل کرمیری اہلیہ کی تلخی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ خود کلامی کرنے لگی ’’ میں کس مقصد کے لیے آئی تھی اور یہاں میرا اپنا ایمان ہی کمزور ہونے لگا ہے۔ میرا تو خدا سے ایمان اٹھنے لگا ہے‘‘۔
میں نے سمجھایا یہی امام مہدی علیہ السلام کی نشانی بھی ہے کہ اس زمانے کے علماء کے پاس جب لوگ ایمان لینے جائیں گے توپہلا ایمان بھی کھو دیں گے۔
ایک روز میں نے اہلیہ کو ربوہ آنے کی دعوت دی۔ اسے سن کر اہلیہ کچھ گومگو کا شکار ہوگئی۔ اس نے صاف انکار تو نہیں کیا تاہم ایک روز کی مہلت مانگ لی۔ بقول اہلیہ ’’مَیں سخت پریشان ہوگئی تھی کہ جاوید تو کافر ہوچکے ہیں اور واپسی ممکن نظر نہیں آتی لہٰذا اب مجھے واپس اپنے والدین کے پاس چلے جانا چاہئے۔ مگر دل اس فیصلے پر تسلی نہ پکڑتا تھا۔ حالات سمجھ سے باہر ہورہے تھے۔ اسی کشمکش میں قرآن مجید سے فال نکالنے کا فیصلہ کیا کہ جو بھی اللہ تعالیٰ راہنمائی فرمائے گا میں اسی پر عمل کروں گی۔ لہٰذا بسم اللہ پڑھ کر قرآن مجید کھولا۔ اس کے چھ صفحے پلٹے اور ساتویں صفحے کی پہلی چھ سطریں چھوڑ کر ساتویں سطر پڑھی۔ یہ میرا احمدیت سے پہلے اہم معاملات میں خدا سے راہنمائی لینے کا ایک طریق تھا۔ جسے احمدیت قبول کرنے کے بعد استخارہ سے بدل دیا‘‘۔
مَیں نے یہی سوچ کر فال نکالی تھی کہ والدین کے پاس جاؤں یا نہ جاؤں۔ ساتویں سطر پڑھی تو وہ سورۃ کہف کا وہ حصہ تھا جب اصحاب کہف ایک شخص کو شہر حالات کی خبر لانے کو بھیجتے ہیں اور ساتھ ہی نصیحت بھی کرتے ہیں کہ ’اگر انہوں نے تمہیں پکڑ لیا تو تمہیں واپس نہیں آنے دیں گے۔ تمہار ایمان خراب کردیں گے اور سنگسار کریں گے‘۔ فال دیکھ کر فیصلہ کرلیا کہ والدین کے پاس نہیں جاؤں گی۔
اہلیہ کی بیعت
اگلے روز خاکسار اپنی اہلیہ اور بڑے بیٹے کے ہمراہ ربوہ کے لیے عازم سفر تھا۔ خیال تھا کہ دارالضیافت میں جگہ مل جائے گی۔ ربوہ پہنچ کر ہم پہلے تو سیدھے مکرم یٰسین ربانی صاحب مربی ضلع شیخوپورہ کے گھر واقع دارالرحمت غربی پہنچے۔ انہوں نے پسند کیا کہ ہم اُنہی کے گھر قیام کریں۔ بہت قربانی اور محنت اُن کو کرنی پڑی تھی۔ فجزاء ھم اللّٰہ واحسن الجزاء۔ وہ ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے خطبات کی کیسٹس سناتے۔ غیر احمدی مولویوں کی کیسٹس بھی سناتے۔
اہلیہ نے جب مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ ادا کی تو بہت متأثر ہوئی۔ وہ زمانہ بھی ایسا تھا۔ حضورؒ کی لندن ہجرت کو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا۔جدائی کے زخم ابھی ہرے تھے۔ دوران نماز سجدوں میں کافی گریہ و زاری ہوا کرتی تھی۔ جو کہ اہلیہ کو قرون اولیٰ کی یاد دلاگئی۔
اہلیہ سے بحث و مباحثہ بھی رہتا تھا۔ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی پڑھاتے تھے۔ تنقیدی لٹریچر بھی پڑھایا۔ ان تمام کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک روز اہلیہ نے کسی احمدی عالم سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس پر محترم مولانا مبشر احمد صاحب کاہلوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اہلیہ نے بتایا کہ مَیں قاری عبداللطیف خان کی بیٹی ہوں اور مذہبی ماحول میں پلی بڑھی ہوں۔ گریجوایٹ ہوں اور یہ یہ کتب میں نے پڑھ رکھی ہیں۔ لہٰذا میرا کافر ہوجانا بہت مشکل ہے۔ اس پر کاہلوں صاحب نے جواب دیا کہ اچھی بات ہے، کافر ہونا ہی نہیں چاہئے۔کاہلوں صاحب نے سوال کیا کہ کیا آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کوئی کتب بھی پڑھی ہیں؟ اہلیہ نے جواباً کہا کہ جی ہاں ’کشتی نوح‘ پڑھی ہے۔ ’انفاخ قدسیہ‘ بھی پڑھی ہے۔ ان کے علاوہ ’دعوت الامیر‘ (یہ کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ہے) بھی پڑھی ہے۔
اس پر کاہلوں صاحب نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ بس کام مکمل ! آپ اپنے دل میں یہ فیصلہ کریں کہ جب آپ مرزا صاحب کی کوئی کتاب پڑھتی ہیں تو دل کو خدا سے ملتا ہوا محسوس کرتی ہیں؟ کاہلوں صاحب نے جواب کا انتظار کئے بغیرہی اپنی بات کو ختم کردیا۔
اس کے بعد اہلیہ نے اچانک بیعت فارم کا مطالبہ کردیا۔ یہ 8اپریل 1985ء کا دن تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ ہماری شادی کی تاریخ بھی 8اپریل 1977ء تھی۔ اس طرح ہم ایک بار پھر بندھن میں بندھ گئے۔