قرآن کریم کی پیشگوئیوں کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منوّرہ میں ظہور
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے ستمبرواکتوبر2024ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2023 ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے خطاب میں فرمایا تھا کہ قرآن کریم کی پیشگوئیاں مسلسل پوری ہوتی چلی جا رہی ہیں۔
یہاں ان میں سے صرف چند ان پیشگوئیوں کا ذکر کرنا مطلوب ہے جن کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ظہور ہوا۔
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک حرمین ہائی سپیڈ ریلوے
فہرست مضامین
show
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’منجملہ ان دلائل کے جو میرے مسیح موعود ہونے پر دلالت کرتے ہیں خداتعالیٰ کے وہ دو نشان ہیں جو دنیا کو کبھی نہیں بھولیں گے یعنی ایک وہ نشان جو آسمان پر ظاہر ہوا اور دوسرا وہ نشان جو زمین نے ظاہر کیا ۔
زمین کا نشان وہ ہے جس کی طرف یہ آیت کریمہ قرآن شریف کی وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ اشارہ کرتی ہے جس کی تصدیق میں مسلم میں یہ حدیث موجود ہے :وَ یُتْرَکُ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا۔ خسوف و کسوف کا نشان تو کئی سال ہوئے جو دو مرتبہ ظہور میں آگیا اور اونٹوں کے چھوڑے جانے اور نئی سواری کا استعمال اگرچہ بلاد اسلامیہ میں قریباً سو برس سے عمل میں آرہا ہے لیکن یہ پیشگوئی اب خاص طور پر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی ریل طیار ہونے سے پوری ہو جائے گی ۔ …
تب وہ اونٹ جو تیرہ سو برس سے حاجیوں کو لے کر مکہ سے مدینہ کی طرف جاتے تھے یک دفعہ بےکار ہو جائیں گے۔ … اور حاجی لوگ بجائے بدوؤں کے پتھر کھانے کے طرح طرح کے میوے کھاتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچا کریں گے بلکہ غالباً معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تھوڑی ہی مدت میں اونٹ کی سواری تمام دنیا میں سے اٹھ جائے گی اور یہ پیشگوئی ایک چمکتی ہوئی بجلی کی طرح تمام دنیا کو اپنا نظارہ دکھائے گی اور تمام دنیا اس کو بچشم خود دیکھے گی اور سچ تو یہ ہے کہ مکہ اور مدینہ کی ریل کا طیار ہونا گویا تمام اسلامی دنیا میں ریل کا پھر جانا ہے کیونکہ اسلام کا مرکز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے ۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ تالیف 1900 ء مطبوعہ 1902 ء روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 194-195)
یہ منصوبہ حرمین ہائی سپیڈ ریلوے 450 کلو میٹر 2009ء – 2018ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچا اور 11؍اکتوبر 2018ء کو پبلک کے لیے کھولا گیا ۔ 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ریل گاڑی 3 گھنٹوں میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچتی ہے ۔ اس پر کُل لاگت 16.5 بلین ڈالر (62 بلین سعودی ریال) آئی ہے۔ اس ریلوے لائن پر پانچ ریلوے سٹیشن تعمیر کیے گئے ہیں:
1. Medina Station (King Abdul Aziz Street . East)
2. King Abdullah Economic City Station in Rabigh
3. King Abdul Aziz International Airport
4. Jeddah Station (Naseem)
5. Mecca Station (Rusaiyfah)
نہر زبیدہ (عین زبیدہ) اور نہر زرقاء ( عین زرقاء)
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:
’’ دیکھو نہر زبیدہ مکہ میں اور بنی زرقاء کی نہر مدینہ طیبہ میں برگزیدوں کے پینے کے واسطے موجود ہے۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 548)
سورۂ بنی اسرائیل میں لکھا ہے کہ کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مندرجہ ذیل معجزات طلب کیے:
’’اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ پھاڑ لائے یاتیرے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو پھر اس کے بیچوں بیچ خوب نہریں کھود ڈالےیا جیسا کہ تو گمان کرتا ہے ہم پر آسمان کو ٹکڑوں کی صورت گرا دے یا اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے یا تیرے لیے سونے کا کوئی گھر ہو یا تو آسمان میں چڑھ جائے ۔ مگر ہم تیرے چڑھنے پر بھی ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تُو ہم پر ایسی کتاب اتارے جسے ہم پڑھ سکیں۔ تُو کہہ دے کہ میرا رب ان باتوں سے پاک ہے اور مَیں تو ایک بشر رسول کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل آیات 91 تا 94)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’آیات مرقومہ بالا سے معلوم ہوتا ہے کفار مکہ نے ایسے چھ معجزہ طلب کیے جو اس وقت سرِ دست منکروں کو دکھائے نہیں گئے اور ان کا فوری ظہور نہ ہوا ۔
پہلا معجزہ جس کو کفارِ مکہ نے طلب کیا ہے کہ الارض یعنی خاص مکہ کی زمین میں چشمے چلیں اور دوسرا معجزہ جو انہوں نے مانگا ہے کہ تیرے کھجوروں اور انگوروں کے ایسے باغ ہوں جن میں نہریں چلتی ہوں۔ یہ دونوں معجزے اس واسطے طلب کیے گئے کہ کتبِ مقدسہ بضمن بشارات محمدیہ لکھا ہے:’’ہاں مَیں بیابان میں ایک راہ اور صحرا میں ندیاں بناؤں گا اور دشت کے بہائم گیدڑ اور شُتر مرغ تیری تعظیم کریں گے کہ میں بیابان میں پانی اور صحرا میں ندیاں موجود کروں گا کہ وہ میرے لوگوں کے میرے برگزیدوں کے پینے کے لیے ہوویں میں نے ان لوگوں کو اپنے لیے بنایا ۔ وہ میری ستائش کریں گے۔‘‘ (یسیعاہ 43 باب19-21 تک)
ان آیات سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ بیابان اور صحرا میں چشمے جاری ہوں گے، ندیاں چلیں گی مگر ان میں یہ لکھا ہے کہ برگزیدوں کے پینے کے لیے ہوویں گے۔ (دیکھو یسعیاہ 43/20)
بنی اسرائیل کے ایسے باغ عربوں کے ہاتھ ضرور آویں گے جن میں نہریں چلتی ہوں مگر بنی اسرائیل مکہ میں آباد نہیں ۔ وہ زمانہ ہجرت کے بعد کا ہے جس میں بشارت پوری ہوگئی ۔
کفار اہل کتاب کے بہکانے پر دھوکا دیتے ہیں مگر دیکھو نبوی معجزات اور محمدیہ کرامات کیسے زبردست ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے بر گزیدوں کے واسطے اس بیابان اور صحرا میں ندیاں چل گئیں، نہ کفار کے لیے !
دیکھو نہر زبیدہ مکہ میں اور بنی زرقاء کی نہر مدینہ طیبہ میں برگزیدوں کے پینے کے واسطے موجود ہیں۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 548,549)
نہرِ زرقاء
حضرت امیر معاویہ نے اپنے عہدِ حکومت (662 ء – 680 ء) میں مدینہ منورہ میں نہرِ زرقاء تعمیر کروائی تھی ۔ لکھا ہے :
There used to be a canal running through the Blessed City of Medina Munawarrah Sharif which was ordered to construct by Syedina Ameer ul Mominin Muawiyara.
مدینہ کے گورنر مروان کو یہ خدمت سونپی گئی۔ ماہرین کے مشورہ کر نے کے بعد قباء کے کنوؤں کو باہم ملا یا اور ان کے پانی کو ایک زیر زمین نہر کے ذریعہ جاری کیا جو قباء سے شروع ہو کر مدینہ منورہ سے گزرتی اور مختلف جگہ سے اس اندازے سے کھولا کہ لوگ اپنی ضرورت کا پانی لے سکیں اس پانی کو دس مقامات سے حاصل کیا جاسکتا تھا یہ نہر چودھویں صدی کے وسط تک اہل مدینہ کو سیراب کرتی رہی ۔
نہر زبیدہ
بنو عباس کی ملکہ زبیدہ نے حنین اور نعمان کے چشموں سے عرفات تک نہر بنوائی تھی جو انجینئرنگ کا شاہکار اور مسلم لینڈ مارک ہے ۔ نہر زبیدہ (عین زبیدہ) کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ نہر ملکہ زبیدہ بنت جعفر نے حاجیوں اور مکہ کے شہریوں کے لیے اوائل نویں صدی میں بنوائی تھی جو ایک ہزار سال سے زائد عرصہ تک جاری رہی اور پھر خشک ہو گئی۔ ملکہ زبیدہ عباسی خلیفہ ہارون رشید کی بیوی تھی لیکن یہ منصوبہ عباسی خلیفہ کی وفات کے بعد ملکہ نے اپنے خرچ پر خطیر رقم سے دس سال میں مکمل کروایا ۔ ایک بار مکہ معظمہ کا ذکر تھا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے فرمایا کہ
’’نہر زبیدہ خاتون فرات اور دجلہ سے نہیں لائی گئی بلکہ بہت سے چشموں کو جمع کر کے نکالی گئی ہے اور جب کہ حساب انجینئروں نے پیش کیا تو اس وقت وہ دجلہ کے محل پر بیٹھی ہوئی تھی اس وقت کئی کروڑ کی بر آورد بھی پیش کی گئی تو وہ کاغذات دریا میں پھینک کر کہا کہ جو کام خدا کے لیے ہو اس کا حساب کیا ۔‘‘ (ارشادات نور جلد دوم صفحہ494)