لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج مکرم شیخ بشیر احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍مئی 2002ء میں ممتاز قانون دان اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج مکرم شیخ بشیر احمد صاحب کا ذکر خیر اُن کی بیٹی مکرمہ نعیمہ جمیل صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم شیخ بشیر احمد صاحب کی پیدائش حضرت شیخ مشتاق حسین صاحبؓ کے ہاں 23؍اپریل 1902ء کو ہوئی۔اوائل عمر سے دینی و دنیاوی تعلیم کی طرف راغب تھے۔ دوران تعلیم احمدیہ ہوسٹل لاہور میں بھی مقیم رہے۔ B.A. آنرز کرنے کے بعد وکالت کا امتحان پاس کیا اور پریکٹس شروع کردی۔ دیوانی مقدمات میں آپ کا شمار چوٹی کے وکلاء میں ہوتا تھا۔ دورانِ وکالت چار سال تک ہائی کورٹ کے جج رہے۔ 1960ء میں سیرالیون میں ہونے والی ایک کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی اور واپسی پر حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔
آپ کے بارہ میں اُس وقت کے چیف جسٹس سردار محمد اقبال صاحب نے کہا کہ مرحوم کی قوت فیصلہ ، مشکلات اور مسائل کے سمجھنے کی زبردست اہلیت اور مکمل لگن کے ساتھ کام کرنے کے جذبہ نے انہیں اپنے ساتھیوں میں بے حد مقبول بنادیا تھا، وہ سب میں رہتے ہوئے بھی منفرد حیثیت کے حامل تھے۔ اُن کی عدالتی خدمات ہمارے لئے مثالی ورثہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔انہوں نے آئینی امور اور سول معاملات پر درخشاں روایات چھوڑی ہیں، ان کے فیصلے آنے والے وکلاء اور جج صاحبان کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گے… ملک ایک قانون دان اور سب سے بڑھ کر ایک خلیق، باوفا اور دردمند ہستی سے محروم ہوگیا ہے۔
آپ کی وفات پر اخبار ’’نوائے وقت‘‘ نے لکھا کہ اس سفید ریش نیک سیرت بلند کردار بزرگ سے ہمیں شرف نیاز حاصل تھا اور ہم اُنہیں ایک ایسے انسان کی حیثیت سے جانتے تھے جس کا ظاہر و باطن یکساں تھا۔ جس کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ جو دین سے حد درجہ لگاؤ رکھتا تھا۔ جو عشق رسولؐ کے جذبہ سے ہمیشہ سرشار رہا …۔
آپ سالہا سال صدرانجمن احمدیہ کے ممبر رہے، اٹھارہ برس تک لاہور کے امیر جماعت رہے، دارالقضاء بورڈ کے قاضی اور صدر بھی رہے۔ آپ کو آل انڈیا نیشنل لیگ کا پہلا صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ کشمیری مسلمانوں کے مقدمات کی مفت پیروی کرتے رہے۔ ملکانہ، شدھی اور کشمیر کی تحریکوں میں علمی خدمات سرانجام دیں۔ انگریزی اور اردو کے بہترین مقرر تھے۔ باؤنڈری کمیشن میں حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ کے معاون رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ جب حضرت سیدہ امّ طاہر صاحبہؓ کی علالت کے ایام میں لاہور میں محترم شیخ صاحب کے ہاں قیام فرما تھے تو حضورؓ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مصلح موعود ہونے کی خبر دی گئی۔
حضرت شیخ صاحب کو خدمت دین کا بہت شوق تھا۔ دین کو ہمیشہ دنیا پر مقدم رکھا۔ اپنی رخصت کے ایام قادیان میں اور بعد میں ربوہ میں گزارتے۔ نمازوں کو سنوار کر پڑھتے اور ہر کسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے۔ کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو یہ سوچنا کہ اُس کے پاس دینے کو کچھ اَور نہیں تھا۔ رشتہ داروں کے علاوہ ملازمین سے بھی بہت مشفقانہ تعلق رکھا۔
1953ء میں آپ کو اسیر راہ مولیٰ بننے کی سعادت بھی ملی۔ یکم اپریل 1973ء کو لاہور میں آپ کی وفات ہوئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں کئی ممتاز قانون دان حضرات، پنجاب اسمبلی کے سپیکر، ہائی کورٹ کے جج اور دیگر معززین شامل ہوئے۔ آپ موصی تھے۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں