لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے نیشنل سالانہ اجتماع 2008ء کے موقع پرسیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب

بچیوں کو بچپن سے احساس دلاؤ کہ تم احمدی بچی ہو، تمہارا دنیا دار بچیو ں سے ایک فرق ہونا چاہئے۔
ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ جوعمل آپ نے کرنا ہے اس کو یہ سوچ کر کریں کہ خدا دیکھ رہاہے جو زندہ خداہے،جس کی ہر وقت ہم پر نظر ہے،جو ہمارے دلوں کی پاتال تک کو جانتا ہے۔ یہ سوچ اگر ہر ایک میں پیدا ہو جائے گی تو نیکیاں کرنے کی توفیق بڑھتی چلی جائے گی۔
آپ بہترین اُمّت ہیں اور آپ نے ہی اس زمانے میں دنیا کی تربیت کرنی ہے اور دنیا کی صحیح رہنمائی کرنی ہے۔ پس ہم جو خیرِ اُمّت ہیں ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے آپ کو بھی محفوظ کریں اور اپنے معاشرے کو بھی محفوظ کریں۔ لوگوں کو بھی نیکیوں کی تلقین کریں اور برائیوں سے روکیں۔
ہم جب نئی صدی میں خلافت کے ساتھ عہد کے ساتھ داخل ہوئے ہیں تو پھر نئے عہد کو نبھانے کے لئے ایک نئے عزم کی بھی ضرورت ہے۔ جس کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔
جب تک خلافت کی اکائی کے ساتھ آپ جڑی رہیں گی دنیا کی کوئی مصیبت اور آفت آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ انشاء ﷲ تعالیٰ۔
2؍نومبر 2008ء کو لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر طاہر ہال بیت الفتوح لندن میں
حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب

فہرست مضامین show

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمدﷲ! اس وقت آپ کا یہ اجتماع اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ جیسا کہ ابھی رپورٹ میں انہوں نے بتایا، اس دفعہ ﷲ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال کی نسبت تقریباً ساٹھ ستّر فی صد حاضری زیادہ ہے۔ اس چیز سے پتہ لگتا ہے کہ لجنہ یو کے میں ایک بیداری پیدا ہورہی ہے لیکن ابھی بھی بعض کمزور طبیعتوں کو تھوڑا سا جھنجھوڑنے کی اور ہلانے کی ضرورت ہے۔
بعض دفعہ بڑی ناصرات بھی اور لجنہ بھی اجتماعات میں تو آجاتی ہیں ، کلاسوں میں بھی آجاتی ہیں لیکن اس کی روح نہیں سمجھنے والی ہوتیں کہ آنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس لئے جمع ہو جاتے ہیں کہ صدر لجنہ نے کہہ دیا اور لجنہ کی جو انتظامیہ ہے وہ پیچھے پڑ گئی اور گھیر گھار کر، جمع کر کے لے آئی تاکہ اظہار ہوجائے کہ ہماری لجنہ کی، ہماری مجلس کی اتنی نمائندگی ہوئی ہے۔ تو یہ مقصد نہیں ہے۔ کیا اس لئے بعض یہاں پہ جمع ہوتے ہیں کہ دنیاوی ترقی کی باتیں کریں تویہ بھی ہمارا مقصد نہیں ہے۔ یایہ کوئی ایسی سوشل gathering ہے جہاں مختلف topics پر باتیں ہوتی رہیں اور ایک get together ہو جائے، یہ بھی مقصد نہیں ہے۔
اس مقصد کو سمجھنے کے لئے لجنہ کولجنہ اماء ﷲ کا مطلب پتہ ہونا چاہئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ﷲ تعالیٰ کی بندیوں کی یا باندیوں کی جماعت۔ اور آپ جب عہد کرتی ہیں تو اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے آپ کو عہد کرنا چاہئے کہ ہم ﷲ تعالیٰ کی خاطر جمع ہونے والی عورتوں کی جماعت ہیں۔ ہم ﷲ تعالیٰ کی خاطر جمع ہونے والی، ﷲ تعالیٰ کی مدد گار بننے والوں کی بچیاں ہیں اور مددگار بننے والی بچیاں ہیں۔ پس یہ روح ہر ایک کو سمجھنی چاہئے۔ اگر اس روح کو سمجھ جائیں گی تو یہاں آنے کے مقصد کو، اجتماع میں شامل ہونے کے مقصد کو، جلسوں میں شامل ہونے کے مقصد کوآپ صحیح طور پر ادا کرنے والی ہوں گی، پورا کرنے والی ہوں گی۔
باندی جسے لونڈی کہا جاتا ہے کیا ہوتی ہے۔ مرد کو غلام کہتے ہیں۔ عورت کو باندی یا لونڈی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اپنے مالک کے ساتھ ایک Bond ہے۔ جو اس کو کہا جائے گا، اس نے اس کو پورا کرنا ہے۔ ﷲ تعالیٰ کے جو واضح احکامات ہیں اُن سے کوئی عذر نہیں ہونا چاہئے۔ تبھی آپ صحیح لجنہ اماء ﷲ کہلائیں گی۔ ایک تو ہر مومن کے لئے قرآنِ کریم میں احکامات ہیں جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پانچ سو کی تعداد بھی لکھی ہے، مختلف حوالوں سے چھ سو بھی، سات سو بھی لکھا ہے۔ اور فرمایا کہ میری جماعت وہ ہے جن کو ان تمام حکموں پر عمل کرنا چاہئے۔ تبھی میری جماعت کہلانے کے حق دار کہلاؤ گے اور پھر یہ کہ جو لجنہ ہے، جو یہ عہد کرتی ہے جس سے یہ امید کی جاتی ہے اور پھر ناصرات جو ہیں ، ہوش والی ناصرات، ان سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ ان حکموں پر چلنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی۔ تبھی وہ حقیقی لجنہ کہلانے کی مستحق ہوں گی، تبھی وہ حقیقی ناصرات کہلانے کی مستحق ہوں گی۔ اس لئے جو لجنہ اماء ﷲ کی ہر ممبر ہے اور جو ناصرات الا حمدیہ کی ہر ممبر ہے، جن کو ہوش کی عمر آچکی ہے، بارہ تیرہ سال سے اوپر کی، اُن کو ہمیشہ ان احکامات کو تلاش کر کے ان پر غور کرنے کی اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی طرف توجّہ دینی چاہئے۔
ایک احمدی جب اپنے عہد کی تجدید کرتا ہے، عہد دہراتا ہے۔ اس میں آپ کا بھی عہد ہے کہ میں ان احکامات پر عمل کروں گا یا لجنہ دہراتی ہے کہ میں ان احکامات پر عمل کروں گی۔ تو غور کیا کریں کہ ان احکامات پر عمل کرنے کی حقیقی کوشش بھی ہو رہی ہے یا نہیں۔ جب عمل ہو گا تبھی وہ معیار بھی حاصل ہوں گے جس کے بارہ میں ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب حقیقی مومن بن جاؤ گے، عمل کرنے والے بن جاؤ گے تو فرماتا ہے کہ تم ایسی اُمّت میں شامل ہو جاؤ گے جو خیرِ امّت ہو گی۔ فرمایا: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران:111) کہ تم وہ اُمّت بن جاؤ گی جو سب سے بہترین اُمّت ہے جو لوگوں کے لئے نکالی گئی ہے یعنی لوگوں کے فائدے کے لئے نکالی گئی ہے۔ تمہیں لوگوں کے فائدے کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ جو مرد ہیں ، مسلمان مرد لوگوں کے فائدے کے لئے بنائے گئے ہیں بلکہ مومن کا استعمال جب کیا ہے تو اس میں مرد بھی شامل ہیں ، عورتیں بھی شامل ہیں ، نوجوان لڑکیاں بھی شامل ہیں ، نوجوان لڑکے بھی شامل ہیں اور وہ بچیاں بھی شامل ہیں جو آئندہ جوانی میں قدم رکھنے والی ہیں اور پھر آگے بڑھ کر لجنات میں شامل ہونے والی ہیں۔تو اپنے آپ کو خیرِ اُمّت بنانے کی کوشش کریں۔ اُس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کریں جو آپ نے کیا ہے اور ﷲ تعالیٰ نے فرمایاکہ تم خیرِ اُمّت ہو۔ تمہارے خیرِ اُمّت ہونے کی دلیل کیا ہے؟ فرمایا کہ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْف (آل عمران:111) کہ معروف کا حکم دیتے ہو۔ ایسی نیکیاں جن کو خدا نے کرنے کا حکم دیا ہے، جن کو ﷲ تعالیٰ نے نیکی کہا ہے ان کو بجا لانے کی کوشش کرتے ہو۔ خدا نے کیا نیکیاں بتائی ہیں۔ قرآنِ کریم میں بے شمار نیکیاں ﷲ تعالیٰ نے بیان فر مائی ہیں۔ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیونکہ اگر ان نیکیوں پر عمل نہ ہؤا جن کا ﷲ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جنہیں معروف کہا ہے تو پھرآپ خیرِ اُمّت کہلانے کے بھی حق دار نہیں۔ ان لوگوں میں شامل نہیں ہو سکتے جو اُمّت کا بہترین حصہ ہیں۔ بہت سے مسلمان فرقے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہیں مانا۔ گو وہ اُمّت کا حصہ ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو پیشگوئی تھی، جو حکم تھا اس کا انکار کر کے، زمانے کے امام کو نہ مان کر، اپنے آپ کواس خیر سے محروم کر لیا جو مسیح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستہ تھی اور جب اس خیر سے محروم کر لیا تو خیر اور نیکی کا حکم بھی نہیں دے سکتے۔
پس آپ جنہوں نے یہ عہد کیا، مسیح محمدی ؐکے ساتھ یہ عہد باندھا، اپنے آپ کو لجنہ اما ء ﷲ کہلوایا، ناصرات الاحمد یہ کہلوایا، آپ پر یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس عہد کو، اس وعدہ کوآپ پورا کریں۔ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان لینے سے خیرِ اُمّت میں شامل نہیں ہو جائیں گی۔ صرف مان لینے سے اور عمل نہ کرنے سے لوگوں کی بھلائیاں آپ سے منسوب نہیں ہو جائیں گی۔ بھلائی کے لئے اپنے آپ کو بھی اُن اعلیٰ اخلاق کے مطابق ڈھالنا ہو گا جن کا ﷲ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
خدا تعالیٰ نے کیا کیا نیکیاں بتائی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:پہلی بات کہ انسان کو ﷲ تعالیٰ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی پیدائش کا مقصد ہی ﷲ کی عبادت ہے۔ اس لئے اپنی نمازوں کی حفاظت کرو۔ اپنی عباد توں کی حفاظت کرو کیونکہ اس کے بغیر تمہاری زندگیاں بے فائدہ ہیں۔
پھر فرمایا اُس کی راہ میں خرچ کرو۔ جن پر زکوٰۃ واجب ہے وہ زکوٰ ۃ دیں۔ زیور رکھنے والی جو خواتین ہیں ، لجنہ کی ممبرات ہیں اُن پہ زکوٰ ۃ واجب ہے تو ان کو باقاعدہ زکوٰۃ دینی چاہئے۔ ﷲ تعالیٰ کایہ بڑا فضل اور احسان ہے کہ مالی قربانی کی رُوح کو جماعت نے خوب سمجھا ہے اور اس میں ہماری بچیاں بھی اور عورتیں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی ہیں۔ لیکن زکوٰ ۃ کی طرف میرے خیال میں توجّہ نہیں ہوتی۔ اِس طرف توجّہ دینی چاہئے۔ جہاں تک دوسری مدّات میں مالی قربانی کا تعلق ہے، انہوں نے بتایا کہ مالی قربانی پچھلے سال سے بڑھ کر ہوئی ہے۔ پھر برلن مسجد کا میں نے گزشتہ دنوں افتتاح کیا۔ وہاں بھی میں نے بتایا تھا کہ جرمنی کی لجنہ کے بعد یوکے کی لجنہ نے سب سے زیادہ برلن مسجد کے لئے مالی قربانی دی ہے اور ﷲ تعالیٰ کے فضل سے وہاں ایک بڑی خوبصورت مسجد بن گئی ہے اور اس کا پھل بھی اس طرح مل رہا ہے کہ بے تحاشا وہی لوگ جو مخالفین تھے، اس شہر کے ہی نہیں بلکہ دوسرے شہروں کے بھی آج کل کثرت سے آکر مسجد دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ بعض کا خیال تھا کہ مَیں وہاں موجود ہوں تو انہوں نے مجھے ملنے کے لئے بھی آنے کی خواہش کی۔ بہر حال جب پتہ لگا کہ مَیں واپس جا چکاہوں توانہیں بڑی مایوسی ہوئی۔
پھر ﷲ تعالیٰ کسی قربانی کو ضائع نہیں کرتا۔ جرمنی کی جو مسجد لجنہ کی قربانی سے بنی اس میں میرے ہوتے ہوئے ﷲ تعالیٰ نے جو پہلا پھل عطا فرمایا وہ بھی ایک جرمن عورت کی بیعت کی صورت میں عطا فرمایا۔ تو یہ ﷲ تعالیٰ کا اظہار تھا کہ تمہاری جو قربانی ہے اس کا پہلا قطرہ مَیں نے ایک بیعت کی صورت میں تمہیں عطا کر دیا ہے اور اب انشاء ﷲ تعالیٰ ان قطروں کی بارش ہوتی چلی جائے گی۔ پس آپ جو بھی قربانی کرتی ہیں ، ﷲ تعالیٰ اُسے ضائع نہیں کرتا۔ جب ﷲ تعالیٰ اتنا پیار کا سلوک کرنے والا ہے۔ جب ﷲ تعالیٰ ہماری ہلکی سی کوشش کو اس طرح بھر کے لوٹاتا ہے تو ہمیں کس قدراس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، اس کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر ﷲ تعالیٰ نے عبادتوں کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ اپنی زینتوں کو چھپاؤ۔ اپنے سروں اور چہروں کوڈھانکو۔ اپنے تقدّس کو قائم رکھو۔ ہر عورت کا ایک تقدّس ہے اور احمدی عورت کا تقدّس تو بہت زیادہ ہے۔ اپنے عہدوں کو پورا کرو۔ جو وعدے کئے ہیں ، جو عہد کئے ہیں ان کو نبھاؤ۔ تبلیغ کا میدان ہے، اس میں آگے بڑھ چڑھ کر حصہ لو۔ ﷲ تعالیٰ کے فضل سے دعوت ِالی ﷲ اور تبلیغ میں اچھی خوشکن رپورٹس ہیں۔ لیکن ابھی بھی بعض جگہوں پر بہت زیادہ میدان خالی ہے۔ اس طرف پوری کوشش ہونے کی ضرورت ہے۔
ابھی آپ نے ایک عہد دہرایا کہ مذہب اور قوم کی خاطر میں جان، مال، وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لئے تیار رہوں گی۔ مذہب کیا ہے؟احمدیت کی خاطر، حقیقی اسلام کی خاطر آپ نے ہر قربانی دینے کے لئے تیار رہنا ہے۔ اسی طرح ملک ہے۔ ملک سے وفا کا تعلق رکھنا ہے۔ مسلمانوں پربہت اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو جس ملک میں آتے ہیں جذب نہیں کرتے۔ حالانکہ اسلام کا تو بنیادی حکم ہی یہ ہے کہ ہر ملک کا رہنے والا اس یقین پر قائم ہونا چاہئے اور اس کا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اس نے وطن سے محبت کرنی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وطن سے محبت تمہارے ایمان کا حصہ ہے۔ پس یہ مسلمانوں پر بڑا غلط الزام ہے۔ حالانکہ سب سے زیادہ اگر کسی کو حکم دیا اور احسن رنگ میں اس وطن کی محبت کا حکم دیا گیا تو مسلمانوں کو دیا گیا ہے۔ بہر حال اس کے لئے آپ نے عہد کیا کہ میں جان اورمال اور اولاد کو قربان کر دوں گی لیکن اپنے مذہب پہ آنچ نہیں آنے دوں گی، اپنے ملک پہ آنچ نہیں آنے دوں گی، تو اس عہد پر آپ نے قائم رہنا ہے۔ اپنے جائزے لینے ہیں کہ کیا یہ صرف منہ کا نعرہ ہے یا حقیقی طور پر ہم اس عہد کو پورا کرنے والیاں ہیں۔
جہاں مذہب کے لئے قربانی کا سوال آتا ہے، مال کی قربانی کا تو میں نے کہا ﷲ کے فضل سے خواتین بھی بڑی قربانیاں دیتی ہیں۔ تو کیا جان پیش کر سکتی ہیں ؟کیا اولاد کی قربانی دے سکتی ہیں ؟یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ مذہب کے بہت سارے احکامات ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دیئے ہیں ، اگر اُن پر عمل کرنے کی کوشش نہیں تو پھر یہ جو دعویٰ ہے کہ جان، مال اور اولاد کو قربان کر دیں گے یہ صرف دعویٰ ہو گا، صرف ایک نعرہ ہو گا۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پس ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ خود اپنے اندر جو نیکی کی فطرت ہے، اس کو ابھاریں اور باہر نکالیں۔ اپنے دل کی جو نیکی کی رگ ہے اس کو ابھاریں تاکہ آپ نیکیوں پر قائم ہوتی چلی جائیں۔ مائیں ہیں وہ چھوٹی بچیوں کو سمجھائیں۔ ان کے لباس کا خیال رکھیں۔ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ لباس کوئی بھی ہو چاہے آپ نے جینز پہنی ہے یا شلوار پہنی ہے یا کوئی اور لباس پہنا ہے، کوئی بھی لباس ہو لیکن لباس بچیوں کا بھی، عورتوں کا بھی، لڑکیوں کا بھی ایسا ہونا چاہئے جو اُن کی زینت کو چھپاتا ہو۔ ﷲ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے۔ ان کے ننگ ظاہر نہ ہوتے ہوں۔ اگر جینز پہن کے اس کے ساتھ چھوٹی سی قمیص پہن لی تو یہ اُس احساس کو ختم کر دے گی کہ ہماری کوئی عزّت ہے، ہمارا کوئی تقدّس ہے۔ پس اپنے احساس کو ابھاریں۔ ہر بچی میں ، ہر لڑکی میں ، ہر عورت میں یہ احساس ہر وقت اجاگر رہنا چاہئے کہ ہم احمدی بچیاں ہیں ، ہم احمدی لڑکیاں ہیں ، ہم احمدی عورتیں ہیں۔ ہمارے مقاصد بہت اعلیٰ ہیں ، دنیا کے پیچھے چل کے، دنیا کی نقل کر کے ہم نے اپنی دنیا و عاقبت خراب نہیں کرنی۔ ہم نے خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول نہیں لینی۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کون دیکھ رہا ہے، کون عہدیدار دیکھ رہی ہے یا کون ہمیں کوئی دوسرا احمدی دیکھ رہا ہے جو ہماری شکایت ہونے کا امکان ہو۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو عمل آپ نے کرنا ہے اس کو یہ سوچ کر کریں کہ خدا دیکھ رہا ہے جو زندہ خدا ہے۔ جس کی ہر وقت ہم پر نظر ہے۔ جو ہمارے دلوں کی پاتال تک کو جانتا ہے۔ یہ سوچ اگر ہر ایک میں پیدا ہو جائے گی تو نیکیاں کرنے کی توفیق بڑھتی چلی جائے گی۔
بعض شکایتیں ایسی بھی بعضوں کی مل جاتی ہیں کہ مسجد میں آتی ہیں تو لباس صحیح نہیں ہوتے۔ جینز پہنی ہوئی اور قمیص چھوٹی ہوتی ہے۔ جینز پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔مَیں نے اجازت دی تھی لیکن اس کے ساتھ لمبی قمیص ہونی چاہئے۔ اُن کو روکا گیا تو ماؤں نے عہدیداروں سے لڑنا شروع کر دیا کہ تم ہماری بچیوں کو روکنے ٹوکنے والی کون ہوتی ہو۔ ایک تو آپ مسجد کے تقدّس کو خراب کر رہی ہیں کہ وہاں وہ لباس پہن کر نہیں آرہیں جو اُن کے لئے موزو ں لباس ہے۔ دوسرے ایک نظام کی لڑی میں پِروئے ہونے کے باوجود اُس نظام کو توڑ رہی ہیں اور عہدیداروں سے لڑ رہی ہیں۔ تو ان حرکتوں سے باز آنے کی ضرورت ہے۔
مجھے پتہ لگا کہ واقفاتِ نو بچیاں ہیں جن کے بعض دفعہ اس قسم کے لباس ہوتے ہیں۔ اُن کو جب سمجھایا گیا تو ان کی ماؤں نے عہدیداروں سے لڑائی شروع کر دی۔ تو مَیں بچیوں سے بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ واقفاتِ نو ہیں اور یہ ارادہ ہے کہ اپنے اس وقف کو قائم رکھنا ہے تو آپ کو دوسروں سے مختلف ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ کے معیار دوسروں سے اونچے ہونے چاہئیں۔ آپ میں اور دوسری بچیوں میں ، وقفِ نو بچی میں اور دوسری احمدی بچی میں بھی ایک فرق ہونا چاہئے، کچھ امتیاز ہونا چاہئے۔ پس اگر یہ نہیں رکھیں گی تو پھر جو جماعتی انتظامی ایکشن ہے وہ لیا جائے گا۔ پھر سوچا جائے گا کہ ایسی بچیوں کو وقفِ نو میں رکھنا بھی ہے کہ نہیں۔ پس یہ سوچ کہ ہم خیرِ اُمّت ہیں ، لوگوں کی بھلائی کے لئے ہمیں بنایا گیا ہے اور واقفاتِ نو کو تو خاص طور پر یہ سوچنا چاہئے کہ وہ خیرِ اُمّت کے بھی اس گروہ میں سے ہیں جس کو ﷲ تعالیٰ نے کُل انسانیت میں کریم (Cream)بنا کر نکالا ہے اور جو ان سب سے بڑھ کر نیکیوں میں مزید آگے بڑھنے والا ہے اور نیکیوں کی طرف بلانے والا ہے۔ پس اس مقصد کو سمجھنے کی ہر واقفِ نو بچی کو کوشش کرنی چاہئے۔ ﷲ کے فضل سے اب واقفاتِ نو بچیاں جوانی کی عمر کو پہنچ رہی ہیں۔ بعضوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ بعضوں کے بچے بھی ہوچکے ہیں۔ اگر خود کو نہیں سنبھالیں گی تو آئندہ نسلوں کی تربیت کیا کریں گی۔ اپنے عہد کو کس طرح نبھائیں گی۔ پس اس طرف بہت توجّہ دینے کی ضرورت ہے اور مائیں بھی جو سمجھتی ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی حمایت کر کے ان کی ہمدردی کر رہی ہیں یا ان کے وقار کو بچانے کی کوشش کررہی ہیں وہ بڑی غلط سوچ رکھنے والی ہیں۔ یہ ہمدردی نہیں ہے۔یہ ان بچوں سے دشمنی ہے۔ پس اپنی بھی اور اپنے بچوں کی بھی اصلاح کی کوشش کریں۔
ہر عقلمند انسان جو ہے وہ یہ احساس رکھتا ہے کہ اس معاشرے میں برائیاں پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔ اب یہ سوال نہیں رہا کہ مغرب کی برائیاں ہیں یا مشرق کی برائیاں ہیں۔ دنیا نے میڈیا کے ذریعہ سے ساری دنیا کو ایک کر دیا ہے۔ مغرب کی برائیاں مشرق میں جا چکی ہیں۔ مشرق کی برائیاں مغرب میں آچکی ہیں۔ اور جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ اس کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ برائیوں میں ظاہری چمک زیادہ ہوتی ہے۔ نیکیوں میں بعض دفعہ تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ تو یہ جو دنیا کا ماحول آج کل بن چکا ہے، ہر عقلمند انسان اس سے فکر مند ہے۔
مَیں فرانس میں گیا۔ مجھے وہاں ایک نومبائع احمدی نے یہ سوال کیا کہ ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں ماحول ایسا ہے، بچیاں ہماری جوان ہو رہی ہیں تو ہم کیا کریں۔ اس کو مَیں نے یہی جواب دیا تھا کہ بچیوں کو بچپن سے اس بات کا احساس دلاؤ کہ تم احمدی بچی ہو، تمہارا دنیادار بچیوں سے ایک فرق ہونا چاہئے۔ اور جب فرق ہو گا، یہ احساس ان میں پیدا ہو جائے گا تو بجائے اس کے کہ ان پر سختی کی جائے، ان پر زبر دستی کی جائے خود بخود اُن کے اندر کی فطرت جو ہے وہ انہیں بتائے گی کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ اس فطرت کو ابھارنے کی ضرورت ہے اور وہ ماں باپ کا کام ہے۔ اور بچیوں کے لئے خاص طور پر ماؤں کا کام ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر انسان جو ہے، ہر بچہ جو ہے وہ نیک فطرت لے کے پیدا ہوتا ہے، مسلمان ہوتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ فرمانبرداری اس کے اندر ہے۔ اطاعت کا مادہ اس کے اندر ہے، نیکی اس کے اندر ہے۔ ماں باپ ہیں جو اس کو پھر عیسائی بناتے ہیں ، یہودی بناتے ہیں یا مجوسی بناتے ہیں۔ یا بدیوں کی طرف لے جاتے ہیں یا نیکیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ پس آپ لوگوں نے اپنی بچیوں کی اس نیک فطرت کو ابھارنا ہے جو ان کے اندر دبی ہوئی ہے کہ تمہارے اندر جو نیکی ہے اس کو باہر نکالو اور اس پر عمل کرو اور اس کا اثر ماحول پر بھی ڈالو، بجائے اس کے کہ ماحول سے متاثر ہو جاؤ۔
خلافت جوبلی کے حوالے سے اس سال میں جو فنکشن ہو رہے ہیں۔ بڑے اچھے ہو رہے ہیں۔ بہت اچھے اچھے مضامین بھی لکھے۔ بچیوں نے بھی لکھے۔ مجھے بھی بھیجے۔ بعض تو بڑے اچھے کتابی شکل کے مضمون ہیں۔ مضمون کیا ایک کتاب بن چکی ہے اور ان کی ریسرچ بڑی اچھی ہے۔ خلافت کے موضوع پر بڑی تفصیل سے ہر ایک نے روشنی ڈالی ہے۔ لیکن اگر عمل نہیں ہے تو ان مضمونوں کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مضمون تو بہت سارے دوسرے لوگ بھی لکھ لیتے ہیں۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ دنیا میں ہیں جو ﷲ تعالیٰ پر بھی یقین نہیں رکھتے اور بڑے اچھے مضمون لکھ لیتے ہیں۔ اگر صرف مضمون لکھنا کام ہے اور عمل نہیں کرنا تو اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
خلافت کے وعدہ کی جو آیت ہے جسے آیتِ استخلاف کہتے ہیں ، اس سے پہلے قرآنِ کریم میں ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم یہ قسمیں نہ کھاؤ کہ ہم گھروں سے باہر نکل آئیں گے۔ ہم دین کی خاطر یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے سے جو چاہئے وہ یہ ہے کہ اطاعت ہو، اطاعت در معروف ہو۔ ایسی اطاعت ہو جو معروف اطاعت ہے۔ گھروں سے نکلنا تو دُور کی بات ہے۔ جان مال اور اولاد کی قر بانی دینا تو دُور کی بات ہے۔ پہلے بنیادی احکامات پر تو عمل کرو۔ وہ اطاعت تو کرو جس کے لئے تمہیں کہا جا رہا ہے۔ اپنی عبادتوں کے معیار تو بڑھاؤ۔ اپنے اخلاق تو اچھے کرو۔ اپنے اوپر دینی احکامات تو لاگو کرو۔ جو لجنہ کہلانے والی ہے وہ حقیقی طور پر لجنہ بن کر دکھائے۔ جوناصرات کہلانے والی ہیں وہ حقیقی طور پر ناصرات بن کر دکھائیں۔ ورنہ یہ کہنا کہ ہم ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں ، ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے یہ اس طرح نہیں ہے۔ اطاعت کرو۔ ﷲ اور رسول کی اطاعت کرو۔ معروف اطاعت کرو۔ پھر خلافت کے وعدے سے بھی حصہ لیتی چلی جاؤ گی۔ پھر ان دعاؤں سے بھی فیض پاتی چلی جاؤ گی جو خلافت تمہارے لئے کر رہی ہے اور جماعت کے لئے کر رہی ہے۔ پس اس چیز پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر خلیفۂ وقت سے تمہارا تعلق بھی قائم ہو گا اور بڑھے گا۔ پھر ﷲ اور رسول سے بھی تعلق قائم ہو گا اور بڑھے گا۔
پس یہ وہ بنیادی چیز ہے جو ہر ایک کو اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی خیرِ اُمّت بن جاؤ گی۔ تبھی عمل کرنے والی کہلاؤگی۔ تبھی حقیقی احمدی کہلاؤ گی۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر عمل نہیں تو پھر کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ پھر دوسروں کو تم نے کیا بتانا ہے۔ دوسروں کے لئے کیا نصیحت کرنی ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے آخر میں فرمایا کہ ﷲ تعالیٰ تمہارے دلوں کے حال جانتا ہے۔ اس لئے یہ خیال کرنا کہ ہم ظاہراً کہہ دیں گے اور دھوکہ دے دیں گے۔ ﷲ تعالیٰ کو تو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ ﷲ تعالیٰ ہر ایک کے دل کا حال جانتا ہے۔ اُس کو پتا ہے کہ تمہارے دل میں کیا ہے۔ پس اس رُوح کے ساتھ اپنے آپ کو، اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
پھر حقوق العباد ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ہیں۔ اس میں ایثار ہے، قربانی ہے۔ ایک دوسرے کی خاطر قربانی ہے۔ قربانیاں وہ تھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ نے دیں کہ اپنی جائیدادیں تک دینے کو تیار ہو گئے تھے۔ ایک دوسرے کے لئے خدمت کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ ایک دوسرے کی خاطر قربانی کا جذبہ آپ میں پیدا ہوگا تبھی جماعت ایک جماعت بن کے رہ سکتی ہے۔
پھر عاجزی ہے، انکساری ہے۔ ہر ایک آدمی کو، ہر احمدی کو اپنے اندر عاجزی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا تھا کہ ’’ تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں ‘‘۔
(تذکرہ صفحہ595 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ پاکستان)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باوجود اس کے کہ دشمن کے ہنسی ٹھٹھا کرنے کا امکان تھا لیکن ﷲ تعالیٰ کی خاطر ایک کام نہیں کیا تو ﷲ تعالیٰ اس سے اتنا خوش ہوا کہ الہام ہوا کہ تمہارا یہ فعل ﷲ تعالیٰ کو پسند آیا اور تمہاری یہ جو عاجزانہ راہ ہے ﷲ تعالیٰ کو پسند آئی۔ پس ﷲ تعالیٰ کی رضا اور اس کا پیارحاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے اندر قربانی کا مادہ پیدا کریں۔ اپنے اندر عاجزی کا مادہ پیدا کریں۔ قربانی صرف دین کی خاطر قربانی نہیں آپس میں ایک دوسرے کی خاطر قربانی ہے۔ تبھی پیار اور محبت کی فضا قائم ہو گی۔ تبھی ایک جماعت بن کر آپ رہ سکتی ہیں۔
پھر شکر کی عادت ہے۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے شکر کی عادت ڈالو اور ایک دوسرے سے جب کوئی فائدہ پہنچے تب بھی اُس کا شکریہ ادا کرو۔ اگر عہدیدار یا کوئی بھی شخص تمہیں کوئی نیکی کی بات بتا دیتا ہے تو اس کا شکریہ ادا کرو کہ ہمیں اس نے نیکیوں کی طرف توجّہ دلائی، بجائے اس کے کہ اس سے لڑنا شروع کر دیا جائے۔ اگر کوئی توجہ دلاتا ہے کہ اپنی بچی کے لباس کو ٹھیک کرو۔ گو عہدیداروں کو بھی ہر ایک کو علیحدگی میں جاکر سمجھانا چاہئے۔ ہر ایک کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور نرم الفاظ میں سمجھانا چاہئے لیکن جس کو سمجھایا جائے اس کو بجائے لڑنے کے شکرگزار ہونا چاہئے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ حدیث ہے کہ اگر بندوں کا شکر ادا نہیں کرتے تو ﷲ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرو گے (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی شکر المعروف حدیث 4811مکتبۃ المعارف ریاض ، طبع اول)۔ اس طرح پھر انسان آہستہ آہستہ اتنا دُور نکل جاتا ہے کہ پھرشکر گزاری کی عادت ختم ہو جاتی ہے۔
پھر عفو ہے۔ ایک دوسرے کو معاف کرنا ہے۔ اس کے لئے اگر اپنے اندر برداشت ہوگی تو معاف کیا جائے گا۔ آدمی اسی صورت میں کسی کو معاف کرتا ہے جب کسی کا کوئی قصور ہو۔ یہاں صرف یہی نہیں کہ تمہیں کوئی سمجھائے تو تم لڑپڑو، یہ تو بہت غلط اور بیہودہ بات ہے بلکہ اگر تمہارے سے کوئی زیادتی بھی کردے تو تم اس کو معاف کردواور اگر سمجھتے ہو کہ بار بار کی زیادتی ہورہی ہے۔ معاف کرنے سے اس کو مزید چھٹی مل رہی ہے۔ مجھے نقصان پہنچاتا چلا جائے گا۔ ایسا اگر کسی احمدی کے ساتھ ہو رہا ہے تو نظام جماعت کو بتاؤ اور اگر کسی دوسرے کے ساتھ ہے تو قانون کو بتاؤ۔ ہر شخص کا، ہر احمدی کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ہم نے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے۔ اور اگر برداشت سے اصلاح ہو سکتی ہے تو معاف کر کے اصلاح کر دو۔ اگر سزا سے اصلاح ہو سکتی ہے تو نظامِ جماعت کو یا قانون کو بتا کے اصلاح کرواؤ تاکہ اصلاح ہو جائے۔ پس یہی چیز ہے جو آپس کے تعاون کو ترقی دے گی۔ یہی چیز ہے جو جماعت کو ترقی دے گی۔ اور جب آپس کا تعاون اور جماعت کی ترقی ہوگی۔ آپس میں پیار اور بھائی چارہ پیدا ہو گا تو پھر آپ ﷲ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آگ سے بچنے والے ہوں گے۔ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم لوگ تو آگ کے کنارے پر کھڑے تھے اور جہنم کی آگ میں گرنے والے تھے۔ ﷲ تعالیٰ نے تمہارے اندر الفت اور محبت پیدا کر کے، ایک جماعت بنا کے تمہیں آگ میں گرنے سے بچا لیا۔ اب جبکہ آپ آگ میں گرنے سے بچ گئی ہیں تو اس محبت اور پیار کو مزید بڑھائیں۔ آپس کے تعلقات کو مزید بڑھائیں۔ جماعت میں ایک یگانگت اور یکجہتی پیدا کرنے کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں اور اس سال میں جب خلافت کے سو سال پورے ہونے پر آپ لوگوں نے عہد کیا ہے کہ ہم اسلام کے پیغام کو بھی پہنچائیں گے، خلافت کی حفاظت بھی کریں گے تو پہلے سے بڑھ کر یہ عہد نبھانے کی کوشش کریں۔
پھر صلہ رحمی ہے۔ آپس میں جو رشتہ دار ہیں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک اور تعلق بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ترقی کریں۔ صلہ رحمی کیا ہے؟عورتیں اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ اپنے خاوندوں کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ ساسیں جو ہیں وہ اپنی بہوؤں کا خیال رکھیں۔ اپنی بہوؤں کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ ایک پیار اور محبت کی فضا پیدا کریں تا کہ جماعت کی جو ترقی کی رفتار ہے وہ پہلے سے تیز ہو۔ جو اکائی میں ، جو ایک ہونے میں ، جو محبت میں ﷲ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں وہ پھُوٹ میں اور لڑائیوں میں نہیں ہوتے۔ تو ﷲ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
پھر ﷲ تعالیٰ نے فرمایا دوسری بات کہ جو خیرِ اُمّت ہو، جو لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہوں ، وہ لوگ جو ہیں وہ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(آل عمران :111) وہ دوسروں کو برائیوں سے بھی روکتے ہیں۔ اگر خود ہی برائیوں میں مبتلا ہیں ، خود ہی لڑائیوں میں اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مبتلا ہیں۔ ایک دوسرے کی شکایتیں کرنے میں مبتلا ہیں تو دوسروں کو کس طرح برائیوں سے روکیں گے۔ قرآنِ کریم میں ﷲ تعالیٰ نے بے شمار برائیاں گنوائی ہیں۔ مثلاً ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ بد ظنی نہ کرو۔ بد گمانی نہ کرو۔ یہ بد ظنیاں اور بدگمانیاں جو ہیں بہت سارے رشتوں کو توڑتی ہیں۔ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس سے بچو۔ پھر عیب نہ لگاؤ۔ ایک دوسرے پر الزام نہ لگاؤ۔ یہ جو الزام لگانا ہے یہ بھی رشتوں میں دراڑیں ڈالتا ہے۔ دُوری پیدا کر دیتا ہے۔ پھر فرمایا دوسروں کو استہزاء سے اور برے ناموں سے نہ پکارو۔ دوسروں کو نہ چھیڑو۔دوسرے کے لئے ایسے الفاظ استعمال نہ کرو جس سے اس کو چڑ آتی ہو۔ ان چیزوں سے تعلقات جوہیں وہ پھر مزید خراب ہوتے ہیں۔
پھر فرمایا۔ دوسرے کو حقیر نہ سمجھو، کم نہ سمجھو۔ ہر انسان کی عزت ہے اور ہر شخص کا فرض ہے کہ دوسرے کی عزت کرے۔جب ایک دوسرے کے لئے یہ عزتیں قائم ہوں گی، دلوں میں جب ایک دوسرے کے لئے احترام پیدا ہو گا تو محبت پیدا ہو گی اور جب محبت پیدا ہو گی تو معاشرے میں امن اور پیار کی فضا پیدا ہو گی۔ پس یہ کام ہیں جو لجنہ نے کرنے ہیں۔
پھر فرمایا حسد نہ کرو۔ حسد بھی ایک بہت بڑی برائی ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے حسد سے بچنے کے لئے دعا سکھائی ہے۔ بعض دفعہ آپس میں حسد ہوجاتا ہے کہ فلاں عہدیدار بن گئی ہے، مَیں عہدیدار بننے کی زیادہ حقدار تھی۔ فلاں کے حالات بہتر ہو گئے، اس سے حسد شروع ہوگیا۔ اگر ﷲ تعالیٰ نے کسی پہ فضل کیا ہے تو یہ ﷲ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اگر مانگنا ہے تو آپ اس سے مانگو کہ ﷲ تعالیٰ مجھ پہ بھی فضل نازل فرمائے۔جماعت میں عُہدوں کی تو خواہش ویسے ہی نہیں ہونی چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا کہ جو عُہدہ کی خواہش کرتا ہے اس کو آئندہ کبھی عہدہ ہی نہ دو۔ پس اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر فضول خرچی ہے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج کل یہ جو اتنا Economic Crisis آیا ہؤا ہے اس کی ایک وجہ فضول خرچی بھی ہے۔ کریڈٹ کارڈ جو اِن ملکوں میں مل جاتے ہیں اس کی وجہ سے اس حد تک فضول خرچی کرتے چلے جاتے ہیں کہ پتا ہی نہیں لگتا۔ اپنے کریڈٹ کارڈ کی Limits سے بھی آگے چلے جاتے ہیں۔ پھر اس کی Paymentنہیں ہوتی۔ پھر اس کے اوپر Interest بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ وہی خرچ جو سو پونڈ کا ہے وہ بعض دفعہ دو سو پونڈ پہ پہنچ جاتا ہے۔ تو یہ جو آسان پیسا ملنا ہے اس کی وجہ سے یہ فضول خرچی کی عادت پڑ جاتی ہے۔ اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر لغو باتیں ہیں۔ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن َ(المومنون:4) کہ لغو باتیں کہیں سے سنو تو پہلو بچا کے وہاں سے گزر جاؤ۔ بجائے اس کے کہ وہاں بیٹھ کے دلچسپی لو اور باتوں کے چسکے لو کیونکہ اس سے پھر تمہیں بھی مزید باتیں کرنے کی عادت پڑ جائے گی۔ پھر جن کے متعلق باتیں ہو رہی ہوں گی ان تک جب خبر پہنچے گی کہ فلاں مجلس میں فلاں فلاں باتیں تمہارے خلاف ہو رہی تھیں اور اس میں یہ یہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے تو اس کے دل میں چاہے تم اس گفتگو میں حصہ لو یا نہ لو لیکن وہاں بیٹھنے کی وجہ سے، بہر حال دوسرے کے دل میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ یہ بھی میرے خلاف بات کررہا تھا۔ وہی دوست جو ہے وہ دشمن ہو جاتا ہے۔ دوستیاں دشمنی میں بدل جاتی ہیں۔ پس ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لغویات ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرو۔
پھر یہ کہ بغیر علم کے کسی بات کو نہ کرو۔ جس بات کا علم نہیں ہے، جب تک پوری تسلی نہ ہو، افواہیں نہیں پھیلانی چاہئیں۔ بلا وجہ کی آپس میں افواہیں پھیلا دی جاتی ہیں کہ فلاں نے یہ کہا اور آخر میں جب بات پہنچتی ہے تو پتا لگتاہے کہ حقیقت میں کچھ تھا ہی نہیں۔
پھر غیبت ہے، پیچھے برائیاں کرنے کی عادت ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے تو اس کو مردہ بھائی کاگوشت کھانے کے برابر قرار دیا ہے۔
پھر جھوٹ ہے۔ ابھی لجنہ نے عہد کیا، ناصرات نے عہد کیا، ان دونوں عہدوں میں ایک چیز تو بہر حال مشترک ہے کہ مَیں ہمیشہ سچائی پر قائم رہوں گی، سچائی سے کبھی پرے نہیں ہٹوں گی۔ تو اس کو اختیار کرنے کا جو عہد کیا ہے اس کو نبھانا بڑا ضروری ہے۔ ﷲ تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر آپ نے یہ عہد کیا ہے کہ ہمیشہ سچ بولوں گی۔ اس کے لئے پھر جائزے لینے ہوں گے کہ کوئی ایسی بات نہیں کرنی جو سچائی سے پرے ہو۔ قولِ سدید ہے۔ یعنی ایسی بات نہ ہو جس سے ہلکا سا بھی شبہ اور شک پڑتا ہو کہ اس میں جھوٹ کی ملونی ہے۔ یا کوئی ایسی بات ہو جس کے دو مطلب نکلتے ہوں۔ ہمیشہ ایسی سچی بات ایک احمدی کو کہنی چاہئے جس میں ذرا سی بھی کسی قسم کے ابہام کی اور جھوٹ کی ملونی نہ ہو۔
پھر خیانت ہے۔ یہ ایک بہت بڑی برائی ہے۔ جو عُہدیدار ہیں ان کا اپنے عہدوں کا صحیح استعمال نہ کرنا، یہ خیانت ہے۔ راز کو راز نہ رکھنا، یہ خیانت ہے۔ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں وہاں کسی کے متعلق بات سن کے اس کو آگے پھیلا دینا، یہ خیانت ہے۔ باریکی میں جا کر اگر اپنے جائزے لیں تو تمام برائیوں سے پاک ہونے کی جب ہم کوشش کریں گے تو ایک ایسا حسین معاشرہ ابھر کر سامنے آئے گا جس میں ہر طرف پیار اور محبت بکھری ہو گی۔ تمام لڑائیاں اور رنجشیں ختم ہو چکی ہوں گی۔ پس یہ خوبیاں ہیں جو ہم نے اپنے اندر پیدا کرنی ہیں۔ جب اس طرح ہم کریں گے تبھی ہم امانت کا صحیح حق ادا کرنے والے ہوں گے، جو ہمارے سپرد کی گئی ہیں۔ اور پھر یہی باتیں جو ہیں وہ ایمان میں بھی کامل کرتی ہیں۔ اور ایمان کامل ہو گا تو تبھی آپ حقیقی باندیاں اور لونڈیاں کہلائیں گی، تبھی اللہ تعالیٰ کی حقیقی لجنہ کہلائیں گی۔
اب ہر ایک اپنے جائزے لیں کہ کیا ﷲ تعالیٰ کی باندیاں بننا چاہتی ہیں یا دنیا کی باندیاں بننا چاہتی ہیں۔ فلاح اُنہی کو ملنے والی ہے جو ﷲ تعالیٰ کی باندیاں بنیں گی۔ کامیاب وہی ہونے والیاں ہیں جو ﷲ تعالیٰ کی باندیاں بنیں گی۔ پس اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ اِس کو اپنائیں اور معاشرے کے رعب سے بچیں۔ معاشرے کے ہر عیب سے بچیں۔ اپنے لباسوں کا بھی خیال رکھیں۔ اپنے تقدّس کا بھی خیال رکھیں۔ اپنے اخلاق کا بھی خیال رکھیں۔ اپنی عبادتوں کا بھی خیال رکھیں۔ تبھی آپ حقیقی باندیاں بننے والی ہوں گی تبھی آپ حقیقی لجنہ کہلانے والی ہوں گی اور کبھی بھی اس معاشرے کے رُعب میں نہ آئیں۔ کسی بھی قسم کا Complexکسی میں نہیں ہونا چاہئے کہ یہ لوگ پڑھے لکھے ہیں تو پتا نہیں شاید صحیح بات کر رہے ہوں۔ یہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ یہ جاہل لوگ ہیں۔ ایک طرف ان کی ایک آنکھ تو دنیا کی ترقی کی طرف جا رہی ہے۔ لیکن دوسری آنکھ اندھی ہے جو خدا سے دُور کر رہی ہے۔ چاہے وہ دنیادار ایشیا میں رہنے والا ہو یا یورپ میں رہنے والا ہو یا افریقہ میں رہنے والا ہو یا امریکہ میں رہنے والا۔ ہر دنیادار جو ہے اس کی ایک آنکھ اندھی ہے اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی لئے آئے تھے کہ آپ نے ایشیا کے لوگوں کو بھی صحیح راستے پہ چلانا تھا۔ یورپ کے لوگوں کو بھی صحیح راستے پہ چلانا تھا۔ افریقہ کے لوگوں کو بھی صحیح رستے پہ چلانا تھا، جزائر کے لوگوں کو بھی صحیح رستے پہ چلانا تھا اور آپ نے جو تنبیہ کی ہے وہ یہی کی ہے کہ اگر تم لوگ صحیح رستے پہ نہیں آئے تو نہ ایشیا محفوظ رہے گا، نہ یورپ محفوظ رہے گا، نہ جزائر کے رہنے والے محفوظ رہیں گے۔
پس ہم جو خیرِ اُمّت ہیں ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے آپ کو بھی محفوظ کریں اور اپنے معاشرے کو بھی محفوظ کریں۔ لوگوں کو بھی نیکیوں کی تلقین کریں اور برائیوں سے روکیں۔ تبھی ہم حقیقی لجنہ کہلانے والی بن سکیں گی۔ کسی رعب میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی الہام فرمایا ہے: نُصِرْتَ بِالرُّعب کہ تمہاری رعب سے مدد کی گئی ہے۔ آپ کہیں چلے جائیں ہر جگہ ایک احمدی کا رعب ہے۔ بڑے بڑے لوگ مجھے خط لکھتے ہیں۔ واقعات سناتے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ کے فضل سے جن میں نیکیاں ہیں وہ کبھی دنیا داروں سے نہیں ڈرے اور باوجود دنیاوی لحاظ سے کم حیثیت ہونے کے دنیا دار اُن کے آگے جھکے۔ اس لئے کہ ﷲ تعالیٰ نے حقیقی احمدی بننے کی وجہ سے ان کو ایک رعب عطا کیا ہوا ہے۔
پس کسی بھی قسم کے احساسِ کمتری یا Complex کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ بہترین اُمّت ہیں اور آپ نے ہی اس زمانے میں دنیا کی تربیت کرنی ہے اور دنیا کی صحیح رہنمائی کرنی ہے۔ جو تعلیم قرآن کریم میں ہمیں دی گئی ہے وہ دنیا کی بہترین تعلیم ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ نعمت مَیں نے تم پہ تمام کر دی ہے۔ یہ ایسا دین ہے جس میں ہر قسم کے احکامات آچکے ہیں اور کامل ہو چکا ہے۔ جب کامل دین کی آپ علمبردار ہیں یا کم از کم دعویٰ کرنے والی ہیں تو پھر کسی قسم کے احساسِ کمتری کی کیا ضرورت ہے؟ پس اپنے جائزے لیں اور خالص ہو کر دین کے لئے اپنے ایمان کو مضبوط کرتی چلی جائیں اور ﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی بنیں۔ اپنے اعمال کی حفاظت کرنے والی بنیں۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے والی بنیں اور خلافت سے سچا اور حقیقی تعلق جوڑنے والی بنیں۔ کیونکہ جب تک خلافت کی اِکائی کے ساتھ آپ جڑی رہیں گی دنیا کی کوئی مصیبت اور آفت آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ انشاء ﷲ تعالیٰ۔ یہ ﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔
پس اپنے جائزے لیتے ہوئے اپنے ایمانوں میں پختگی اختیارکرتی چلی جائیں۔ اس سال میں اپنے نئے ٹارگٹ قائم کریں یا ٹارگٹ بنائیں جو عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں۔ تبلیغ کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں۔ علم میں بڑھنے کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں۔ اپنی اصلاح کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں اور قرآنِ کریم کے احکامات پر عمل کرنے کی بھی حتی المقدور کوشش کرنے والی ہوں اور خلافت سے وفا کے تعلق میں بھی بڑھتی چلی جانے والی ہوں۔ یہی باتیں اپنی نسلوں میں بھی قائم کریں۔ یہ تو حقیقی بات ہے، لکھی ہوئی بات ہے۔ ﷲ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ وعدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت نے غالب آنا ہے۔ اگر ان باتوں سے حصہ لینا ہے، ان چیزوں سے فیض پانا ہے، اُن وعدوں کو اپنی زندگیوں میں پورے ہوتے دیکھنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ مقدر ہیں تو اپنی حالتوں کے جائزے لیتے ہوئے ان تمام نیکیوں کو اختیار کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
ترقی تو انشاء ﷲ تعالیٰ جماعت کی نہیں رکنی جیسا کہ میں نے کہا ﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ لیکن بعض لوگوں کی کمزوریاں بدقسمتی سے انہیں ان ترقیات کا حصہ بننے سے نہ روک دیں۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ اپنے جائزے لینے کا مقام ہے۔ ہم جب نئی صدی میں خلافت کے ساتھ عہد کے ساتھ داخل ہوئے ہیں تو پھر نئے عہد کو نبھانے کے لئے ایک نئے عزم کی بھی ضرورت ہے جس کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور احمدی عورت کو دوسروں سے بڑھ کر اس میں کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فر ماتے ہیں کہ:
’’ میری تمام جماعت جو اِس جگہ حاضر ہے یا اپنے مقامات میں بودوباش رکھتے ہیں ‘‘۔ یا کہیں اور بھی رہنے والے جو بھی ہیں۔ ’’اس وصیّت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں ،‘‘ یعنی جس کا میرے ساتھ بیعت کا تعلق ہے اور اس نے مجھے مانا ہے،’’ اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی‘‘ یعنی اس کے چال چلن بھی اچھے ہوں۔ اس کے عمل اچھے ہوں اور اس کی حرکات بھی اچھی ہوں اور نیک ہوں ، اور نیک سوچنے والی ہو اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں۔ فرمایا کہ’’ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں۔ اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی ان کے نزدیک نہ آسکے۔ وہ پنج وقت نمازجماعت کے پابند ہوں۔ وہ جھوٹ نہ بولیں۔ وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں ‘‘۔ دُکھ نہ دیں۔’’ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ غرض ہر ایک قسم کے معاصی‘‘ یعنی گناہ ’’اور جرائم اور نا کردنی اور نا گفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں ‘‘۔ یعنی ہر قسم کے جرم اور جو نہ کرنے والی باتیں ہیں اور نہ کہنے والی باتیں ہیں ان سے بچیں ، اور اپنے نفس کے جوجذبات ہیں ان کو کنٹرول میں رکھیں۔ ’’اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہوجائیں ‘‘۔ ﷲ تعالیٰ کے وہ بندے ہو جائیں جن کے دل پاک ہوتے ہیں ، جن کے دلوں میں کوئی شر نہیں ہوتا۔ کسی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔ اور ایسے ہوں عاجزی اور انکساری ہو، دوسروں کی خدمت کرنے والے ہوں ، ’’اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے‘‘ (اشتہار مورخہ 29مئی 1898ء مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ46۔47ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ اور ایسے ہو جائیں کہ سوال ہی پیدا نہ ہو کہ کوئی ایسی بات کبھی اس کے دل میں پیدا ہو جو دوسرے کو نقصان پہنچانے والی ہو۔
ﷲ کرے کہ آپ میں سے ہر ایک ان نصائح پر عمل کرنے والا ہو۔ ﷲ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو معیار ہمارے لئے قائم فرمائے ہیں ، ان پر چلنے والا ہوں اور ﷲ تعالیٰ آپ کو بھی توفیق دے کہ ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اب دعا کر لیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں