مادام تساؤ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جنوری 2000ء میں لندن میں مشہور عالم مومی مجسموں کے عجائب گھر کے بارہ میں ایک مضمون مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ اس عجائب گھر میں برطانیہ کے شاہی خاندان کے علاوہ مختلف ممالک کے سابق و موجودہ سربراہان اور کئی مشہور عالم شخصیات کے بہت سے مجسمے رکھے گئے ہیں۔
اس عجائب گھر کے اجراء کا سہرا مادام تساؤ کے سر ہے جو 1761ء میں Strasbourg کی ایک غریب بیوہ کے گھر پیدا ہوئیں۔ ان کا نام میری گراسہالٹز (Marie Grashaltz) رکھا گیا۔ ان کے سپاہی والد، ان کی پیدائش سے پہلے وفات پاچکے تھے۔
میری کی والدہ نے برن میں ڈاکٹر کریٹنس کے ہاں ملازمت اختیار کرلی جو ایک مشہور فنکار تھے اور مومی مجسمے تیار کرتے تھے۔ میری کی عمر چھ سال تھی تو یہ اپنی والدہ کے ہمراہ ڈاکٹر کریٹنس کے ساتھ پیرس گئی جہاں 1770ء میں ڈاکٹر کے مجسموں کی نمائش ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر نے میری کو مجسمے بنانے کی تربیت دینی شروع کردی اور تیرہ سال کی عمر میں میری نے اپنا پہلا مجسمہ تیار کیا۔ جب اس کا شہرہ لوئیس شانزدہم کی ہمشیرہ الزبتھ تک پہنچا تو میری کو Versailter میں آرٹ ٹیوٹر مقرر کردیا گیا اور اس طرح وہ اگلے نو سال تک فرانس کے شاہی خاندان میں رہی۔ جب 1789ء میں فرانس میں انقلاب برپا ہوگیا تو میری کو ڈاکٹر کریٹنس اپنے گھر واپس لے گیا جہاں آئندہ پانچ برس تک میری کو موت کا نشانہ بننے والی مشہور شخصیات کیلئے نقاب سینے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ ان شخصیات میں لوئیس شانزدہم اور میری انٹونی سمیت کئی انقلابی لوگ شامل تھے جن کو میری خود بھی جانتی تھی۔ جس سال دہشت کا ماحول ختم ہوا، اُسی سال ڈاکٹر کریٹنس کا انتقال ہوگیا اور اُس کی نمائش گاہ کا انتظام میری نے سنبھال لیا۔ ایک سال بعد میری نے فرانکوئس تساؤ سے شادی کرلی اور اس طرح وہ مادام تساؤ کہلانے لگی۔ 1810ء میں اُس کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جو جلد ہی فوت ہوگئی۔ پھر دو بیٹے پیدا ہوئے۔
ابھی فرانس میں ایسی مشکلات تھیں کہ میری کو اپنی نمائش کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے ایک تاریخی فیصلہ کرنا پڑا۔ اُس نے اپنے چھوٹے بیٹے اور شوہر کو فرانس میں چھوڑا، بڑے بیٹے کو ساتھ لیا اور اپنی نمائش کو انگلستان منتقل کردیا۔ اس کے بعد اُس نے فرانس اور فرانس میں موجود اپنے خاندان کو دوبارہ مُڑ کر نہ دیکھا اور اگلے تیس سال میں انگلستان کے مشہور شہروں میں اپنی نمائش کا اہتمام کیا۔ جب وہ 74 سال کی ہوگئیں تو انہوں نے لندن میں بیکر سٹریٹ پر اپنی مستقل رہائش گاہ کو نمائش گاہ میں تبدیل کردیا۔ اُن کا آخری شاہکار خود اُن کا مجسمہ ہے جو انہوں نے اپنی وفات سے آٹھ سال قبل تیار کیا۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے اور پھر اُن کے پوتوں نے نمائش کو سنبھالا۔ 1884ء میں یہ نمائش اس عمارت میں کھولی گئی جہاں یہ آج بھی قائم ہے۔ 1935ء میں اس نمائش گاہ کو ایک بڑی آتش گیری کا سامنا کرنا پڑا جس سے بہت نقصان ہوا۔ پھر جنگ عظیم دوم میں جرمن فضائی حملوں سے بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ نمائش روز بروز ترقی کرتی رہی اور آج لندن میں سیاحوں کی توجہ کا سب سے مقبول اور دلکش مرکز ہے۔