مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع 2006ء پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
کا مجلس انصاراللہ برطانیہ کے اجتماع منعقدہ 05؍نومبر 2006ء پر اختتامی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
فَلَمَّا اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ ۔ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُاللہِ ۔ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۔ وَاشْھَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْن۔ (سورۃ ال عمران :۵۳)
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُواعَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِ یْنَ فِیْھَا اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُالْعَظِیْمُ۔ (سورۃ التوبۃ:۱۰۰)
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا اَنْصَارَاللہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ۔ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہِ فَاٰمَنَتْ طَّائِفَۃٗ مِّنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَکَفَرَتْ طَّائِفَۃٗ۔ فَاَیَّْدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّھِمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاھِرِیْنَ۔ (سورۃ الصف:۱۵)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ انصار کو مخاطب کرتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی یا یہ وضاحت کی تھی کہ قرآنِ کریم میں انصار کا لفظ ماننے والوں کیلئے دو جگہ استعمال ہوا ہے۔ ایک دفعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق اور ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے متعلق یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ ایک بڑا اہم نقطہ ہے۔ اگر انصار اس پر غور کریں تو مجلس انصاراللہ جماعت کا ایک انتہائی فعال حصہ بن سکتی ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اگر جائزہ لیں کہ ہم کس حد تک اس پر عمل کر رہے ہیں تو آپ کو خود ہی احساس ہو گا کہ ابھی بہت بڑا وسیع میدان خالی پڑا ہے۔
قرآنِ کریم میں جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعلق میں انصار کا ذکر آتا ہے وہاں ایک جگہ تو خودحضرت عیسیٰ قوم کے آپ کی تعلیم پرانکار اور عبادتوں کی طرف توجہ پر انکار کا سن کر بڑے درد سے اعلان کرتے ہیں کہ اکژیت تو ان حکموں پر عمل کرنے اورمیری بات سننے سے انکاری ہے کیا تم میں سے کوئی خوش قسمت ہے جو اللہ کا پیغام پہنچانے اور اسکے حکموں پر عمل کرنے میں میرا معاون ومدد گار بن جائے۔اس پر حواریوں نے کہا کہ

نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ۔ِ

ہم اللہ کے دین کے مدد گار ہیں اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر مکمل ایمان لاتے ہوئے اطاعت اور فرما برداری میںصفِ اوّل میں شمار ہوتے ہیں۔ پھر دوسری جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مکمل ایمان لائے اور اس نبی ﷺ کے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔ پھر اس دعویٰ کی ایک صورت اس زمانے میں پیدا ہوئی جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس زمانہ کے امام کو مان کر ہم اس کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔ اس کی باتوں پر مکمل عمل کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ پھر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کی طرح اس طرف بلایا گیا کہ دین کی اشاعت اور اس کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کیلئے میرے مددگار بن جاؤ اور یہ کام تم اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک تمہارا ایمان مضبوط نہ ہو توصرف اتنا کہہ کر کہ ہم نے زمانہ کے امام کو مان لیا ہے یا آنحضرت ﷺ کے زمانہ کی اگر بات ہو رہی ہے تو آنحضرت ﷺ کے صحابہ نے صرف اتنا نہیں کہا تھا کہ ہم آپ پر ایمان لے آئے بلکہ قربانیوں کے اعلیٰ معیار بھی قائم کئے اور اس زمانہ میں بھی یہ نہیں ہو گا کہ صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ہم نے امام کو مان لیا ہے تو ایمان حاصل ہوگیا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مثال دے کر بتا دیا ہے کہ اعراب کہتے ہیں، دیہاتوں کے رہنے والے کہتے ہیں کہ آمَنَّا ہم ایمان لے آئے ۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ ان کو بتا دے کہ یہ ابھی تمہارا دعویٰ ہے کہ تم ایمان لے آئے، تم یہ توکہہ سکتے ہو کہ اَسْلَمْنَا کہ ہم نے فرمانبرداری قبول کر لی ہے۔ پس یہ اَسْلَمْنَا کی حالت آمَنَّا میں تب داخل ہوگی جب اپنا کچھ بھی نہیں ہو گا اور سب کچھ خداتعالیٰ کی خاطر ہوگا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:۔
“مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں ۔ جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کرلیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کیلئے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمالِ فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں۔”
(تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ 103، تفسیر مسیح موعود جلد چہارم صفحہ 226,225)
تو ایک ناصر جو چالیس سال کی عمر سے اوپرجا چکا ہے، جس کی سوچ میں گہرائی آ جانی چاہئے، جس کو اپنی عمر کے بڑھنے کے ساتھ اپنی زندگی کے کم ہونے کا احساس ہو جانا چاہئے ، جس کو اﷲ کا خوف پہلے کی نسبت زیادہ ہونا چاہئے ، جو آنحضرت ﷺ پر کامل ایمان لاتے ہوئے آپ کے مسیح اور مہدی علیہ السلام کی جماعت میں بھی شامل ہو چکا ہے، اس کے اﷲ کے مددگار بننے کے معیار بہت بڑھ جانے چاہئیں ۔ ہروقت یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ ہم نے خدا کی رضا حاصل کرنی ہے۔ تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنا ہے ،جہاں ہروقت یہ خیال رہے کہ اﷲ تعالیٰ کے حکموں سے رتی بھر بھی ادھر اُدھر نہیں ہونا۔ گو یہ بہت مشکل کام ہے لیکن ایک مومن کا یہی کام ہے کہ اس طرف توجہ رہے اور پھر ایسے شخص کوجس نے انصارﷲ ہونے کا عہد کیا ہے ، ایمان کا یہ اعلیٰ معیار اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب ﷲ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں پر حاوی ہو جائے ، نہ مال کی محبت ہو نہ اولاد کی محبت ہو، نہ کسی اور چیز کی محبت ہو ۔ یہ معیار ہے جو ایک خالص مومن کو حاصل کرنا چاہئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام فرماتے ہیں کہ:۔
“خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے۔”
( رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 309)
تو دیکھیں یہ ایمان کا معیارہے اورجیسا کہ میں نے کہا جب انسان اس عمر میں داخل ہوتا ہے جب آئندہ زندگی تھوڑی نظر آتی ہے یا آرہی ہوتی ہے تو کس قدر اس امر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارا

نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ

کا نعرہ خالصۃً اﷲ تعالیٰ کی خاطر اور اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے لگایا ہوا نعرہ ہو اور ہمارا ہر قدم جو اس راہ میں اٹھے وہ اللہ تعالیٰ کے قریب تر لے جانے والا قدم ہو، وہ صدق سے اٹھاہوا قدم ہو، سچائی اس میں سے پھوٹ رہی ہو۔ اﷲ کی عبادتوں کی طرف بھی ہماری نظر ہو اور اﷲ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کیلئے ہر قربانی دینے کیلئے تیار رہنے کی طرف بھی ہماری توجہ ہو اور اخلاق کے اعلیٰ معیاربھی ہم قائم کر رہے ہوں، حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہمارا مطمع نظر ہو اور اپنے اپنے دائرے میں اعلیٰ اخلاق کو پھیلانے اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف ہماری بھرپور کوشش ہو اور ان سب امور میں جن میں اﷲ تعالیٰ کے حقوق بھی شامل ہیں اور حقوق العباد بھی شامل ہیں ہمارے سے غفلت نہ ہو، کبھی ہم سستی دکھانے والے نہ ہوں۔ جب یہ خصوصیات ہم میں پیدا ہو جائیں گی تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے عہد کو نبھاتے ہوئے ان لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی ہے جو آنحضرت ﷺ کے صحابہ کہلاتے ہیں اور جنہوں نے اپنی روشن اور چمکدار مثالیں اس عہد کے نبھانے کیلئے قا ئم کی ہیں۔یہ دو طر ح کے لوگ تھے ایک گروہ مہا جر کہلایا اور ایک گروہ انصار کہلا تا ہے۔ جہا ں تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کی طرح انصار بننے کا سوال ہے، آ نحضر ت ﷺ کے صحابہ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ملا کہ

کُوْنُوْا اَنْصَارَاللہِ

کہ تم اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگار بن جاؤ، تو کیا مہاجرین اور کیا انصار سب ہی اس اعزاز کو پا نے کی دوڑ میں شامل ہوگئے اور وہ کارہائے نمایاں دکھائے، ایسے ایسے کام کئے کہ ان کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ جو ہم غیرمعمولی قربانیوں کے معیار اور اپنی حالتوں کو یکسر بدلنے کے نظارے صحابہ میں دیکھتے ہیں یہ اللہ اور اس کے رسول سے غیرمعمولی محبت کی وجہ سے تھا، جو محبت صحابہ کے ایمانوں کی تر قی نے پیدا کردی تھی۔ ان کی عبادتوں کے معیار بھی ایسے تھے کہ جس کا کوئی مقابلہ نہیں، ان کے دین کی خاطر جان مال ،وقت کی قربانی کے معیار بھی ایسے تھے کہ جن کا کوئی مقابلہ نہیں، ان کی آپس کی محبت اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیا ل رکھنے کے معیا ر بھی ایسے تھے کہ حیرت ہوتی ہے اور یہ لو گ ایسے تھے جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ:۔

وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَ وَّلُوْنَ مِنَ ا لْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْ ھُمْ بِاِحْسَانٍ رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُواعَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِ یْنَ فِیْھَا اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ (التوبہ:100)

اور مہاجر ین اور انصار میں سبقت لے جا نے والے اولین اور وہ لو گ جنہوں نے حسن عمل کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہو گیااور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کیلئے ایسی جنتیں تیا ر کیںہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں۔ یہ بہت عظیم کامیابی ہے۔
پس یہ لوگ ہیں جو ہمارے لئے مثال اور نمونہ کے طور پر پیش کئے گئے ہیں جنہوں نے اپنا ہر عہد نبھایااور اللہ تعالیٰ کے انعاموں اورجنتوں کے وارث ٹھہرے ۔ یہاں میں ان میں سے ایک گروہ جو انصارکہلاتے ہیں کا کچھ ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے جب تک آنحضر ت ﷺ ہجرت کر کے مدینہ نہیں آگئے تھے، آنحضر ت ﷺ کی صحبت سے اس طرح فیض نہیں پایا تھا جس طر ح مکہ کے ابتدائی مسلمانوں نے فیض پایا اورایمان میں ترقی کی۔ لیکن ہجرت کے وقت جب آنحضرت ﷺ نے مؤاخات کاسلسلہ شروع کیا ، ایک دوسرے کے بھائی بنائے تو انصار نے مہاجر بھائیوں کیلئے حقوق العباد کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتے ہوئے اپنی جائیدادوں میں سے نصف حصہ ان کو دے دیا، اپنی آمدنیوں میں سے نصف حصہ ان کو دے دیا، ہر چیز بانٹ کر کھانے لگ گئے اور پھر جب آنحضرت ﷺ کی صحبت کا اثر ہوا، قوتِ قدسیہ کا اثر ہوا تو اَسْلَمْنَا سے آمَنَّا کا ادراک پیدا ہوا ۔ جنگ بدر میں انصاری سردار نے کیا خوبصورت جواب دیا جب آنحضرت ﷺ ہر ایک سے مشورہ کر رہے تھے تو ہر دفعہ جب آنحضرت ﷺ پوچھتے تھے کہ کس طرح جنگ لڑی جائے تو مہاجرین ہمیشہ کھڑے ہو کر کہتے تھے کہ ہم حضور ﷺ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے لیکن آنحضرت ﷺ پھر یہی سوال دہراتے جاتے تھے کہ مشورہ دو ۔ اس پر ایک انصاری سردار نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ حضور کا ارشاد یا اشارہ شاید ہماری طرف ہے، آپ نے فرمایا ہاں ۔ تو انصاری سردار نے عرض کی کہ پھر ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ سے پہلا معاہدہ آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہوا تھا اور وہ آپ کی حفاظت اس صورت میں کرنے کا تھا کہ اگر مدینہ میں دشمن آپ پر حملہ کرے تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے اور مدینہ سے باہر نکل کر حفاظت کی ذمہ داری ہم نہیں لے سکتے ۔ لیکن اب آپ بدر کے میدان میں کھڑے ہیں، مدینہ سے باہر ہیں تو ہمارے سے ہماری رائے پوچھ رہے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اسی لئے میں پوچھ رہا ہوں ۔ تو انصارسردار نے عرض کیا کہ جب یہ پہلا معاہدہ ہوا تھا تواس وقت ہم آپ کے پیارے وجود اور پیاری تعلیم سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ اب حقیقت ہم پرمکمل طور پر کھل گئی ہے، ہر طرح سے روشن ہو گئی ہے ۔ اب اے اﷲ کے رسول ﷺ اس معاہدہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اب ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح یہ جواب نہیں دیں گے

فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ(سورۃ المائدہ:25)

کہ تو اور تیرا رب جاکر دشمن سے لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ۔ نہیں بلکہ ہمارا جواب بھی وہی ہے جو مہاجرین دے چکے ہیں کہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور ہماری لاشوں کو روندے بغیر دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا، اگر آپ کہیں تو ہم لوگ سمندر میں بھی گھوڑے دوڑا دیں۔ عرب چونکہ ریگستان میں رہنے والے تھے، سمندر کافی فاصلے پر تھا ، پانی سے وہ لوگ ڈرتے تھے اس کو جانتے نہیں تھے ، ایک خوف تھا۔ لیکن اس ایمان نے اتنی جرأت پیداکردی کہ آپ کہیں تو ہم سمندر میں بھی گھوڑے دوڑا دیں گے۔ تو یہ تھا فدائیت کا نمونہ جو وہ انصار نے آپ ﷺ کی قوت قدسی سے فیض پانے کے بعد دکھایا ۔
پھر جنگ اُحد میں انصار کا نمونہ بھی دیکھیں کہ ایک انصاری جو قریب المرگ تھے، زخموں سے چُور تھے، جب ان سے کسی نے پوچھا کہ تمہاری کوئی آخری خواہش رشتے داروں کو پہنچانے کیلئے ، تمہارا کوئی پیغام ہے؟ تو انہوں نے نہ اپنے بچوں کی فکر کا اظہار کیا، نہ اپنی بیوی کی فکر کا اظہار کیا، فکر تھی تو آنحضرت ﷺ کی اور کہا کہ میرے رشتے داروں کو یہ پیغام پہنچا دینا کہ وہ تمہیں سلام کہتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تو مر رہا ہوں لیکن اپنے پیچھے تمہارے سپرد خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت کر کے جا رہا ہوں ۔ میں جب تک زندہ رہا اس مقدس امانت کی حفاظت کرتا رہا اپنی جان کی بھی کچھ پرواہ نہیں کی، اب میں تم سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر تمہیں میرے آخری الفاظ کا پاس ہے تو اگر تمہیں اپنی جانوں کے نذرانے بھی دینے پڑے تو اس رسول ﷺ کی حفاظت کرنا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اور رشتہ داروں کوپیغام بھیجا کہ میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگوں میں آنحضرت ﷺ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور آپ لوگ کبھی بھی اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کریں گے۔ تو یہ تھے ان ایمان میں سبقت لے جانے والوں کے نمونے ۔ جب

نَحْنُ اَنْصَارُاللہِ

کا اعلان کیا تو اپنا سب کچھ اﷲ، رسول اور اس کے دین پر نچھاور کر دیا ۔ پس یہ نمونے ہیں جو آج آپ انصار اﷲ کہلانے والوں نے دکھانے ہیں ۔
پس جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ انصاراللہ کے الفاظ پر غور کریں، اس عہد پرغور کریں جوآپ اپنے اجلاسوں اور اجتماعوں میں پڑھتے ہیں۔ آج آپ سے تلوار چلانے کا مطالبہ نہیں کیا جارہا، جنگ میں اپنے آپ کو جھونکنے کا مطالبہ نہیں کیا جارہا، توپوں او ر گولوں کے سامنے کھڑے ہونے کا مطالبہ نہیں کیا جارہا۔ مطالبہ ہے تو یہ ہے کہ اللہ کے حقوق ادا کرو، اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرو۔ اپنی عبادتوں کے وہ نمونے قائم کرو جو خدام کیلئے بھی مثال بن جائیں اور اطفال کیلئے بھی مثال بن جائیں، وہ تمہاری بیویوں کیلئے بھی مثال بن جائیں اور تمہاری بچیوں کیلئے بھی مثال بن جائیں۔ تمہاری مالی قربانیاں بھی ایسی ہوں جن کے نمونے سے دوسرے بھی فائدہ اٹھائیں۔
پرسوں جمعہ کو جو میں نے یوکے کی بعض جماعتوں کاجائزہ پیش کیا تھا، اس جائزہ کو آپ لوگوں کو جھنجھوڑدینا چاہئیے۔ عموماً اچھی کمائی کا وقت اور بہتر آمد کا وقت 40سال سے 60سال تک کی عمر کا ہوتا ہے ۔اپنے وعدوں کو دیکھیں، اپنے عہدوں کو دیکھیں، اپنے اس عہد کو دیکھیں اور پھر اپنی قربانی کے معیار وں کو دیکھیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو تم اپنے پر خرچ کرلیتے ہو یا اللہ کی راہ میں جو تم نے خرچ کردیا وہی بچا ہے،جو تم بچا کر چلے گئے ہووہ تمہارے کسی کام کا نہیں، وہ تمہارا نہیں۔ لیکن اپنے پر خرچ کرنے کی بھی حدیں مقرر ہیں کہ اعتدال سے خرچ کرو،جائز خرچ کرو۔ جمعہ پر جو میں نے مالی جائزہ پیش کیا تھا اس میں پاکستانی احمدیوں کی قربانی سب سے زیادہ تھی ۔ گزشتہ سال سے کُل قربانی میں اضافہ بھی ان کا سب سے زیادہ تھا اور ان کے گزشتہ سال کی نسبت اضافہ بھی بہت زیادہ تھا۔ آپ لوگوں کی اکثریت جو اس وقت میرے سامنے بیٹھی ہے وہیں سے آئی ہوئی ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ جب آپ وہاں ہوتے ہیں تو باوجود خراب حالات ہونے کے قربانیاں کرتے ہیں،یہاں آتے ہیں تودوسری ضروریات کا خیال آجاتا ہے ؟پس اس طرف توجہ دیں۔ آج اس وقت اس دور میں آپ یہاں جو معیار قائم کریں گے وہی اس جماعت کی مثال بن جائے گی۔ جتنے بلند معیار وں تک آپ آئندہ نسلوں کو لے جانا چاہتے ہیں انہیں بلند میعاروں کو آپ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ٹارگٹ مقرر کرنے ہوں گے۔ پس آئندہ نسلوں کو ان قربانیوں کی طرف توجہ دلانے کیلئے بھی آپ کواپنی قربانیوں کے معیار بڑھانے ہوں گے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ تحریک جدید میں شمولیت میں بھی بہت گنجائش ہے اس طرف بھی بہت توجہ کی ضرورت ہے۔بعض جماعتوں میں نصف سے بھی زائد ایسے لوگ ہیں جو تحریک جدید میں شامل نہیں ہوئے۔ شایداسی طرح وقف جدید میں بھی ہو تو انصار یہ ذمہ داری اب لیں کہ تعداد کو بڑھانے میں آپ نے اپنا ایک کردار ادا کرنا ہے۔ پہلے انصاراللہ اپنا جائزہ لیں کہ وہ سو فیصدی تحریکات میں شامل ہیں۔ پھر اپنے بیوی بچوں کو شامل کرنے کی کوشش کریں۔
جب ان قربانیوں کی طرف توجہ ہوگی توپھر

نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ

کا نعرہ لگانے کے بعد آپ کا ایک بہت بڑا کام جیسا کہ آپ کے عہد میں بھی ہے ،خلافت کی حفاظت کرنا ہے۔ دعائیں کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے فرائض کی مکمل ادائیگی کرتے ہوئے اپنے اوراپنے بیوی بچوں میں خلافت کی مکمل اطاعت کی روح پیدا کریں۔ اس جذبے کو بڑھائیں، سطحی نظر سے نہ دیکھیں کہ مومنین کی جماعت سے انعام کاوعدہ ہے۔ان الفاظ پر غور کریں کہ کن سے خلافت کا وعدہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی اس انعام کے جاری رہنے کاوعدہ ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ جاری رہے گا اور ضرور جاری رہے گا لیکن جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ اپنے معیار ایسے بلند کریں جو ایک حقیقی مومن کے ہونے چاہییں تاکہ آپ بھی انہی لوگوں کی صف میں شامل رہیں جن سے اس انعام کا وعدہ ہے۔ اپنے بچوں کی صرف دنیاوی تعلیم پر ہی نظر نہ رکھیں بلکہ ان کو گھروں میں بھی دینی ماحول مہیا کریں۔ اپنے بچوں کو مسجدوں کے ساتھ، نماز سنٹروں کے ساتھ جوڑیں، انہیں دین کا علم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائیں۔انہیں قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دلائیں۔ ایک دفعہ تو مائیں کسی طرح بچوں کو قرآن کریم پڑھا دیتی ہیں یا کسی ذریعہ سے ،مددسے پڑھا دیتی ہیں اور بچے کی آمین بھی ہوجاتی ہے لیکن اس کے بعد پھر نگرانی نہیں ہوتی ، تو یہ باپوں کا کام ہے کہ ان بچوں کو توجہ دلاتے رہیں۔ پھر نوجوانی میں قدم رکھنے کے بعد بچے باہر وقت گزارتے ہیں، اس وقت وہ ماؤں کے ہاتھوں میں نہیں رہتے، تو ان سے بھی ایسے دوستانہ تعلقات رکھیں کہ جب وہ گھر میں آئیں تو باہر کی باتیں آپ سے ڈسکس کریں ۔ انہیں پھر اچھے برے کا فرق سمجھائیں۔ اچھا کیا ہے، برا کیا ہے۔ اسطرح کوشش کرکے جب آپ اپنی اگلی نسل کو سنبھالیں گے تو ان مومنین میں شمار ہوں گے جن کے ساتھ خلافت کا وعدہ ہے۔ پس عبادتوں میں بھی اپنے نیک نمونے قائم کریں کہ خلافت عبادت گزاروں کے ساتھ مشروط ہے ۔اپنی مالی قربانیوں کی طرف بھی توجہ دیں کہ خلافت سے اس کا بھی گہرا تعلق ہے اور اس زمانہ میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو نظام وصیّت کے ساتھ جوڑکر تعلق کو مزید واضح فرمادیا ہے۔ اور جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تحریک جدید کے بارہ میں شروع میں فرمایاتھا کہ یہ بھی نظام وصیّت کے ارہاص کے طور پر ہے ۔ اس لیے جو نظام وصیت میں شامل نہیں ہوسکتے انہیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، جوشامل ہیں ان کو ان قربانیوں میں حصہ لینے سے مزید قربانیوں کی طرف توجہ پیدا ہوگی تاکہ خلافت کی مضبوطی اور اشاعت اسلا م کیلئے چھوٹے سے لے کر بڑے تک سب،جماعت کا ہر ممبر اور ہر فرد شامل ہوسکے۔اس لئے بڑوں اور چھوٹوں میں مالی قربانیوں کی روح پیدا کریں۔ یہ بڑو ں کااو ر انصار اللہ کا کام ہے کہ روح پیدا کریں اور اطاعت رسول کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں اورپھر اطاعت خلافت اورنظام جماعت کی پابندی کے خود بھی اعلیٰ معیار قائم کریں اوراپنی اولادوں میں بھی اور اپنے بیوی بچوں میں بھی اس معیار کو قائم کرنے کی کوشش کریںکیونکہ اطاعت اس نظام کوجاری رکھنے کیلئے انتہائی اہم ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ اطاعت خالص اطاعت ہونی چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ اس روح اوراس جذبے کو سب کواپنے اندر جاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ غلبہ اسلام کے وعدے ہم اپنی زندگیوں میں پورے ہوتے دیکھیں۔ اب دعا کر لیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں