محترمہ رمضان بی بی صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18فروری 2011ء میں مکرمہ ن۔ نعیم صاحبہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنی نانی محترمہ رمضان بی بی صاحبہ کا ذکر خیر کیا ہے۔
محترمہ رمضان بی بی صاحبہ 1893ء میں گاؤں ہرسیاں میں پیدا ہوئیں۔ چھوٹی عمر میں حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت سے مشرّف ہوئیں لیکن بیعت نہ کی۔ بعد میں آپ کی والدہ اور بہن طاعون سے فوت ہوگئیں۔ آپ کو بھی طاعون کا پھوڑا نکلا لیکن اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرمائی۔ پھر آپ کی شادی ایک احمدی صدرالدین صاحب سے ہوگئی اور اس طرح خلافت ثانیہ کے آغاز میں آپ بھی بیعت کرکے احمدی ہوگئیں۔ 1938ء میں ہرسیاں پر حملہ کے دوران عورتوں نے آپ کی سرکردگی میں ہی اپنا دفاع کیا۔ اس کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ اور پھر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے بھی اپنے خطابات میں کیا۔
1947ء میں آپ نے اپنے چار بچوں کے ساتھ اس حالت میں ہجرت کی کہ چار ماہ کی ایک بیمار بیٹی کو سارا وقت گود میں اٹھاکر رکھا۔ پاکستان میں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک گاؤں میں سکونت اختیار کی۔ 1960ء کی دہائی میں وصیت کرنے کی توفیق پائی۔ آپ رعب داب والی خاتون تھی۔ 1974ء میں جب احمدیوں کا بائیکاٹ کیا گیا تو آپ بازار سے سوداسلف لاکر احمدیوں کے گھروں میں پہنچاتی رہیں۔ اور کنوئیں پر پہرہ ہونے کے باوجود خود جاکر پانی لاتیں اور احمدی گھروں میں دیتیں۔
1990ء میں آپ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے نصیر احمد صاحب (کارکن دارالضیافت) کے ہمراہ ربوہ منتقل ہوگئیں۔ 108 سال کی عمر میں بھی باقاعدگی سے نماز تہجد ادا کرتیں اور اس کے بعد فجر کی نماز تک تلاوت قرآن کرتیں۔ نماز جمعہ باقاعدہ ادا کرنے جاتیں۔ 109 سال کی عمر میں فالج کا حملہ ہوا تاہم ایک ماہ بعد صحتیاب ہوگئیں۔ 21؍جون 2003ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ اس سے چند روز قبل بتایا کہ میرا بھائی (جو اپنی جوانی میں دریا میں ڈوب کر فوت ہوگیا تھا) مجھے لینے تین بار آیا ہے لیکن مَیں اس کے ساتھ نہیں گئی، لیکن اب وہ آیا تو چلی جاؤں گی۔ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں پسماندگان میں چھوڑے۔ ایک بیٹے 39 سال کی عمر میں آپ کی زندگی میں ہی وفات پاچکے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں