محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 15؍جولائی 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ نصرت اسلام صاحبہ اپنے مضمون میں محترمہ سیّدہ بشریٰ بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ آپ سے میری پہلی ملاقات گرمیوں کی چھٹیوں میں مسجد دارالذکر لاہور میں ہوئی۔ اس وقت میں ایف اے کی طالبہ تھی اور سیالکوٹ میں پڑھتی تھی۔ میری امی جان لاہور کے ایک حلقے کی صدر لجنہ تھیں۔ وہ اپنی ماہانہ میٹنگ پر مجھے بھی ساتھ لے کر گئیں تو ملاقات ہوگئی۔ آپا جان سیّدہ بشریٰ بیگم صاحبہ اس وقت جنرل سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہی تھیں جبکہ مکرمہ بی بی امۃالعزیزصاحبہ لاہور کی صدر تھیں۔
مجھے آپا جان بشریٰ کی شخصیت بہت پُرکشش لگی، بہت سادہ اور میٹھے لہجے میں بات کرتی تھیں۔ آپ کی رہائش ہمارے گھر سے قریب ہی کیویلری گراؤنڈ لاہور چھاؤنی میں تھی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر جب میں لاہور اپنی امی جان کے پاس آگئی تو مجھے سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ کے فرائض سونپے گئے۔ اس وقت آپ لاہور کی صدر تھیں۔ پھر توآپ سے ہر ماہ میٹنگ میں ضرورملاقات ہوتی اور کئی دفعہ جماعتی امور کے سلسلے میں آپ کے گھر بھی جانے کا موقع ملتا۔ آپ سردی کے موسم میں اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر لاتیں اور گرمیوں میں مشروب پلاتیں۔ اگر میں کہتی آپا جان میں کام کرلیتی ہوں تو مسکرا کے کہتیں: آرام سے بیٹھو آپ مہمان آئی ہو۔ پھراکثر لان میں بیٹھ کر گھنٹوں جماعتی امور پر باتیں ہوتیں۔ آپ ہر وقت سلسلے کی خدمت کے لیے تیار رہتی تھیں، بہت سادہ طبیعت تھیں، اپنے آپ کو کبھی بڑا نہیں سمجھتی تھیں۔ کئی دفعہ جماعتی کاموں کے سلسلے میں ہمارے گھر بھی تشریف لائیں۔
دینی کاموں کے سلسلہ میں کبھی دوسری عورتو ں پر انحصارنہیں کرتی تھیں حالانکہ لاہور کی لجنہ اماءاللہ، خاص طور پر عہدیداران آپ سے بہت عقیدت رکھتی تھیں اور آپ کا ہر حکم ماننے کے لیے تیار رہتیں پھر بھی آپ خود کام کرنے کی کوشش کرتیں۔ آپ بہت دانش مند تھیں۔ اتنے بڑے شہر میں کئی مسائل پیش آجاتے تھے، آپ بڑے پیار اور خوش اسلوبی سے ان کو حل کر لیتیں اور اس سلسلہ میں اپنی عاملہ سے بھی مشورہ کرلیتیں۔
ایک دفعہ نمازوں کے جمع کرنے کا ذکر ہوا توآپ فرمانے لگیں کہ اگر دوسری نماز میں آدھے گھنٹے کا فرق ہو تو نماز ادا کر لینی چاہیے۔ کوشش کیا کرو کہ نماز کو وقت پر ادا کرلو۔ بغیر کسی مجبوری کے نماز جمع نہ کیا کرو۔
آپ نماز ہمیشہ وقت پر ادا کرتیں اور ہر مصروفیت کو چھوڑ دیتیں۔ آپ کی اس خوبی کا ذکر تو ایک دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے بھی کیا تھا کہ خاندان میں کوئی شادی کی تقریب تھی سب عورتیں بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ میں نے دیکھا کہ آپا بشریٰ نظر نہیں آرہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد آپا خاموشی سے آکر عورتوں میں بیٹھ گئیں۔ میں نے پوچھا: آپا جان آپ کہاں گئی تھیں؟ تو کہنے لگیں کہ نماز پڑھنے گئی تھی۔ حضورؒ نے فرمایا کہ آپا جان کی بہت بڑی خوبی تھی کہ نماز کے وقت وہ کسی مجبوری کو آڑے نہیں آنے دیتی تھیں۔
آپ بہت دعا گو، عبادت گزار اور کثرت سے نوافل پڑھنے کی عادی تھیں۔دوسروں کو بھی دعا کے لیے کہتیں۔ اپنی چھوٹی بیٹی بی بی ماریہ صاحبہ کے لیے میری امی جان سے کہا کہ دعا کرو بچی کا رشتہ ہو جائے۔ اُسی دن سے امی جان نے دو نفل پڑھنے شروع کر دیے کہ آپا جان کی خواہش کے مطابق رشتہ ہوجائے۔ ایک مہینہ کے بعد آپا جان لڈو لے کر ہمارے گھر آئیں کہ بی بی کا رشتہ طے پا گیا ہے۔
آپ دوسروں کی عزت نفس کا خیال کرنے والی، تعلقات بنانے والی، احمدیت کی سچی فدائی، خلیفۂ وقت کی ہر آواز پر لبیک کہنے والی تھیں۔ نہایت حلیم الطبع تھیں کسی کی تکلیف سن کر بےچینی سے آبدیدہ ہو جایا کرتی تھیں۔ خصوصاً کسی بچی کے گھریلو حالات خراب ہوتے تو پوری کوشش کرتیں کہ کسی طرح حالات ٹھیک ہو جائیں۔
میں شادی کے 2سال بعد جرمنی آگئی۔ ایک بار جب ہم نے گھر شفٹ کیا تو اپنی امّی کو فون نہ کرسکی۔ خط لکھا جو اُن کو نہ ملا۔ قریباً ایک ماہ امی سے میرا رابطہ نہ ہو سکا اور وہ بہت پریشان ہوئیں۔ آپا جان کے گھر گئیں اور روتے ہوئے بتایا کہ ایک ماہ سے میری بیٹی کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ نہ فون، نہ خط۔ مجھے لگتا ہے میری بیٹی اس دنیا میں نہیں ہے۔ وہ بہت ا حساس کرنے والی ہے، مجھے دوسرے تیسرے دن ضرور فون کرتی تھی، لاپروا نہیں تھی مجھے اس کی طبیعت کا پتا ہے۔ آپا جان نے امی کو گلے لگایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ تیرے غم کو خوشی میں بدل دے۔ میں دعا کروں گی فکر نہ کرو۔ پھر بہت تسلی دے کر بھیجا۔ امی جان کو گھر آئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ اسی دن میرے گھر میں فون لگا اور میں نے سب سے پہلے امّی کو فون کیا۔ وہ میری آواز سن کر رونے لگیں اور بتایا کہ ابھی آپاجان کو دعا کا کہہ کر آئی ہوں اور آکر برقعہ اتارا ہی ہے کہ تمہارا فون آگیا۔ خدا حافظ اب میں آپا جان کو بتاؤں۔
آپا جان بہت قناعت پسند تھیں۔ آپ کسی بھی چیز کا ضیاع پسند نہیں کرتی تھیں چاہے کھانے کا ہو، روپے پیسے کا یا وقت کا۔ بہت اصول پرست تھیں۔ اپنے کا م اپنے ہاتھوں سے کرنے کی عادی تھیں۔ 22؍ مارچ 1997ء کو دعوت الی اللہ کے سلسلے میں کسی دُور دیہات میں جانے کے لیے تیار ہوئیں۔ لیکن روانہ ہونے سے پہلے ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ جنازے میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔