محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 15؍جولائی 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں محترمہ امۃالکافی صاحبہ نے اپنی والدہ محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ اہلیہ مکرم میجر سعید احمد صاحب کی سیرت پر روشنی ڈالی ہے۔
امّی کی شادی 31؍دسمبر 1949ء کو ہوئی۔ 12؍دسمبر کو آپ کی والدہ حضرت سیدہ اُمِّ داؤد صاحبہ نے آپ کو ڈائری میں یہ لکھ کردیا: ’’پیاری بیٹی! تجھے اللہ کو سونپا۔ تم بھی اللہ کے آنچل کو مضبوطی سے پکڑلو۔‘‘ بس یہی کُل متاع اور جامع نصیحت تھی جس کا اثر ہمیشہ ہی نظر آیا۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہمیشہ زیر لب دعائیں پڑھتے ہی دیکھا۔ کوئی کام بھی خدائی ذکر اور اس کی رضا سے علیحدہ کرتے ہوئے نہ دیکھا۔ توبہ اور استغفار کثرت سے کرنے کی عادت تھی۔ اکثر مواقع پر یہ فقرہ سننے کو ملتا کہ یہ تو میں نے صرف خدا کی رضا کی خاطر کیا ہے۔
بالکل نوجوانی کی عمر میں اپنی والدہ سے سبقاًسبقاً احادیث پڑھی تھیں۔آپ کی متعدد ڈائریوں اور نوٹس میں احادیث اور رسول اللہ ﷺ کی دعائیں لکھی نظر آتیں۔
امی کو اللہ کے فضل سے حضرت اماں جانؓ کی خدمت کی بھی توفیق ملی جس کا بہت خوشی سے ذکر کرتیں کہ ہر ہفتہ باقاعدہ ان کے اسٹور میں سامان ٹھیک طرح رکھنا، پیسوں کاحساب کتاب اور بہت سے چھوٹے موٹے کام باقاعدگی سے حضرت اماں جانؓ کروایا کرتیں اور یہ سلسلہ تقریباً سات آٹھ سال، امی کی شادی تک جاری رہا۔
جب میں چار پانچ سال کی تھی تو روزانہ دوپہر کے کھانے کے بعد بچوں کو مکرم مولوی اسماعیل صاحب پانی پتی کی کتاب ’’ہمارا آقا‘‘ میں سے پڑھ کر سناتی جاتیں اور ساتھ ساتھ آنکھوں سے آنسو پو نچھتیں۔ کہانی سنا نے کو کہتے تو صرف انبیاء کے، حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفاء و صحابہؓ کے واقعات۔ ناممکن تھا کہ بچپن میں کوئی اَور کہانی بھی ہم نے امی سے سنی ہو۔ خلافت سے ہمیشہ غیرمعمولی تعلق رہا۔ بچپن میں خلیفۂ وقت کی محبت اور اطاعت سکھانے کا یہ گُر تھا کہ نماز کے لیے جب بھی کھڑے ہونا تو کہنا: پہلے حضور کی صحت و سلامتی کی دعا کروگے تو اللہ تمہاری مشکلات خود دُور فرمائے گا۔
جب اولاد سمجھ دار ہوئی تو نرمی کا بہتا ہوا دریا بن گئیں۔ کبھی کسی بڑے کی برائی یا برے رنگ میں ذکر نہ کیا۔ بچوں کے ہمیشہ سچ بولنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ جھوٹ بولنے کی سزا بڑی ہی شدید ہوا کرتی۔ جو بات امی نے ہمیں نہ بتانی ہو تی تو آرام سے کہہ دیتیں کہ یہ نہیں بتاؤں گی لیکن جھوٹ کبھی نہ بولتے سنا اور نہ ہی ہمیں ایسا کرتے ہوئے برداشت کیا۔
ہماری ایک اچھی بھلی کھاتے پیتے گھرانے کی ہمسائی تھیں ان کی بیٹی کی شادی اچانک طے ہوئی۔ اور چونکہ شادی کے روز ان کی بیٹی کو پٹاپٹی کا غرارہ بہت پسند تھا۔ تو وہ کپڑا امی کو دے گئیں کہ آپ چند روز کے اندر اندر تیار کرکے دے دیں۔ مجھے بچپن میں یاد ہے کہ رات گئے تک امی نے وہ غرارہ تیار کیا اس پر گوٹے کا کام بھی کر کے دیا اور مجھے امّی پربڑا ترس آتا کہ سارا دن گھر کے کام کرتی ہیں، ہم بچوں کو پڑھاتی ہیں اور پھر سلائی کے کام بھی کرتی ہیں لیکن امّی کے ماتھے پر بل تک نہ آیا۔ اسی طرح اَور بہت سے لوگوں کے سلائی وغیرہ اور ٹکائی کے کام امی اور باجی دونوں کے ہی کرنے یاد ہیں۔
ہم پانچوں بچوں کو ہر روزبعد نماز مغرب امی نے قرآن مجید لفظی ترجمے سے پڑھایا۔ شرط یہ تھی کہ ہر سپارے کے بعد test ہوا کرے گا اور اس میں الفاظ، معنی، بامحاورہ ترجمہ لکھنے ہوں گے۔ میں گیارہ سال کی تھی اور جب بارہ سال کی ہوئی تو قرآن مجید باترجمہ ختم کیا۔ سب سے چھوٹی عمر میں ختم کرنے اور اول آنے پر بھی مجھے ایک گھڑی انعام میں ملی۔
گھر میں اس قدر سلیقہ مندی کے مظاہرے ملتے کہ حیرت ہوتی۔ پرانے اور مستعمل ریشمی جوڑوں سے دلائیاں بنائی جاتیں۔ پرانے اچھے اور گرم کپڑوں سے اچھے اچھے کشن بنائے جاتے۔ اور ایک مرتبہ تو لمبےلمبےچنے ہوئے پرانے دوپٹوں کی گت بنا کر امی نے باجی سے ایک Rug بنوایا تھا۔ امّی یہ اظہار بھی کرتیں کہ اُن کی والدہ یعنی ہماری نانی جان کے گھر کا سلیقہ تو انتہائی درجے پر پہنچا ہوا تھا۔
امی کا عموماً دستور علی الصبح نماز اور تلاوت کے بعد یہی ہوتا کہ تھوڑی دیر سو جاتیں کیونکہ تہجد سے جاگ رہی ہوتی تھیں۔ پھر سات بجے ناشتہ تیار کرتیں۔ سب برتن اور کچن وغیرہ صاف کرنے کے بعد گھر کی صفائی کرکے نہا دھو کر کپڑے ضرور بدل لیتیں۔ جوڑے چاہے تھوڑے ہوں یا زیادہ امی نے گھر کے کام کاج کے لیے اور رات کو پہننے والے کپڑے علیحدہ ہی رکھے۔ گیارہ بجے نہادھو کر چائے ضرور پیتیں اورہمیں بھی اس کی عادت ڈال دی تھی۔ اس کے بعد نوافل ادا کرنے، لجنہ کے کام کرنے یا سلائی وغیرہ کے کام شروع ہوجاتے۔ ہمارے گھر عموماً ناشتے کے معاً بعد دوپہر کے کھانے کا فیصلہ ہو جاتا اور جو کچھ بھی پکانا ہو چولہے پر چڑھا دیا جاتا۔ اس طرح کرنے سے ذہنی فراغت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ سوائے اس کے کہ چاول پکانے ہوں تو وہ عین وقت پر فوراًہی پکا لیتیں اور اسی طرح روٹی بھی تازہ، گرم اورمناسب مقدار میں پکانے کی عادی تھیں۔ ایک خاص بات جو ہمارے گھر میں ہر معاملے میں دکھائی دیتی وہ وقت کے ضیاع کے بچاؤ کے ساتھ ساتھ اشیاء کو ضائع ہو نے سے بچانا بھی تھا۔ ہر وقت یہی آواز کانوں میں امی کی آتی، پانی نہ ضائع کرو، صابن پانی میں گھل رہا ہے۔ بلاوجہ چولہا جلتا نہ رہے۔ یعنی گھرمیں تو ہر وقت یہی سبق سیکھا اور اس کا سب سے اچھا اور عمدہ نتیجہ جماعتی کاموں کے دوران نظر آیا کہ لجنہ کے کاموں میں کاغذ اور قلم کا زیاں، جماعتی اشیاء کے ساتھ لاپروائی یا جماعتی چندوں میں بداحتیاطی، یہ سب باتیں ہمارے تصورات سے کوسوں دور ہیں۔
میری شادی کے تقریباً ڈیڑھ دو سال کے بعد کا لکھا ہواایک خط میرے پاس موجود ہے جس میں امی نے مجھے لکھا کہ ’’اگر تم نے کوئی نماز کبھی چھوڑی تو سمجھو کہ اس دن میرا ہارٹ فیل ہو جائے گا۔‘‘ امی کے اس فقرے کو پڑھ کر میں کانپ سی گئی تھی۔ کتنا بڑا خلا ہے جو امی کی جدائی نے ہمیں دیا ہے۔ اپنی ہر پریشانی، ہر فکر بآسانی امی کو بتا دیتے اور خود ایک طرف ہو کر بیٹھ رہتے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں