محترمہ سیّدہ فریدہ انور صاحبہ
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ یکم فروری 2019ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍اکتوبر2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم شعیب احمد ہاشمی صاحب نے اپنی خالہ اور خوشدامن محترمہ سیّدہ فریدہ انور صاحبہ بنت حضرت سیّد سردار حسین شاہ صاحبؓ (سابق افسر تعمیرات ربوہ) کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترمہ سیّدہ فریدہ انور صاحبہ کے دادا مکرم سیّد عارف حسین شاہ صاحب دنیاوی لحاظ سے بڑے صاحب ثروت اور وسیع جائیداد کے مالک تھے۔ شہر ’’عارف والا‘‘ کا نام اُن کے نام پر رکھا گیا تھا۔ لیکن وہ احمدیت سے محروم رہے تاہم اُن کی اہلیہ محترمہ احمدی ہوگئی تھیں۔ اسی طرح آپ کے نانا حضرت سیّد محمد اشرف شاہ صاحبؓ اور اُن کے بھائی بھی اصحابِ احمد میں شامل تھے۔
مرحومہ کا نکاح 1959ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے مکرم مرزا رفیق احمد صاحب ابن حضرت مرزا قدرت اللہ صاحبؓ کے ساتھ پڑھایا تھا۔ آپ کے سسر پنجابی زبان کے مشہور شاعر حضرت میاں ہدایت اللہ صاحبؓ کے بیٹے تھے۔ حضرت میاں ہدایت اللہ صاحبؓ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قریبی تعلق حضورؑ کے دعویٰ سے بھی پہلے سے تھا اور اُن کے بارہ میں حضورؑ نے یہ ارشاد بھی فرمایا تھا کہ ان کی وصیت کی کیا ضرورت ہے، یہ تو مجسّم وصیت ہیں۔
محترمہ سیّدہ فریدہ انور صاحبہ نماز روزہ کی انتہائی پابند، قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والی اور ہر وقت قرآن و حدیث کی دعائیں پڑھنے والا وجودتھیں۔ چندہ جات شوق سے ادا کرتیں اور ذاتی پیسے جمع کرکے مختلف تحریکات میں قربانی پیش کرنے کے علاوہ غرباء کی مدد کیا کرتیں۔ مسجد بیت الفتوح کی تعمیر کے لئے تحریک ہوئی تو آپ کے پچاس ہزار روپے بینک میں جمع تھے، سب ساری رقم آپ نے پیش کردی۔ نیکی کا کام کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتیں۔ اگر کسی بچی پر کوئی ظلم ہوتا ہوا دیکھتیں تو اُس کی ہرممکن اور علی الاعلان مدد کرتیں اور اُسے اپنی بیٹی بنالیتیں۔ غرباء اور ضرورتمند آتے تو کئی بار اپنے گھر کا سامان بھی اُنہیں دے دیتیں۔ بارہا گھر کے برتن اور کوئی فرنیچر مختلف گھروں میں بھجوادیئے لیکن خدا کے فضل سے آپ کے گھر میں کبھی کوئی تنگی محسوس نہیں ہوئی۔ کئی لوگ قرضہ لیتے لیکن آپ کبھی واپسی کا تقاضا نہ کرتیں۔
ظہرو عصر کی نماز کے لئے مرکز آپ کا گھر تھا۔ گھر کے دو کمروں میں MTA کا انتظام کر رکھا تھا، ایک کمرہ مردوں کے لئے اور دوسرا عورتوں کے لئے مخصوص تھا۔ بعض لوگ جو چندہ نادہندگان تھے، اُن کو آپ کے سپرد کردیا جاتا اور آپ کا حسن سلوک اور خداداد رعب ایسا تھا کہ وہ لوگ بقایا بھی ادا کرنا شروع کردیتے۔ عورتوں کو صحت سے متعلق مشورے دیتیں، کئی ضرورتمند خواتین علاج کے لئے اور ٹیکے وغیرہ لگوانے کے لئے آپ کے ہاں آیا کرتیں۔ ہر شخص جو خواہ ضرورت کے تحت آپ کے گھر آتا یا جماعتی مہمان ہوتا، اُس کی تواضع ضرور ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹیوں سے نوازا۔ آپ خود بھی پردہ کی پابند تھیں اور اپنی بچیوں کی بھی بہت عمدہ تربیت کی۔