محترمہ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل، 10؍مارچ 2025ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ نصیرہ خانم صاحبہ نے ایک مضمون میں اپنے مشاہدات کے حوالے سے محترمہ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ کی سیرت اختصار سے رقم کی ہے۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ بچپن میں امی کے ساتھ آپ کے گھر ملنے جایا کرتی تھی لیکن آپ سے باقاعدہ تعارف ایک پروگرام کے دوران ہوا۔ مَیں نے آگے بڑھ کر آپ سے پیار لیا ،آپ کے پوچھنے پر اپنا تعارف کروایا۔ پھر بہت خوشی سے ملتیں۔ لجنہ اماءاللہ کے دفترمیں میٹنگ یا کوئی پروگرام ہوتا اور اس میں شامل ہوتی تھیں تو سب کی خیریت ضرور دریافت کرتیں۔ کئی بار ایسا ہوا جب آپ آتیں تو مَیں آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو کمرے تک لے کر آتی تو آپ خوشی سے فرماتیں کہ یہ بچی میری بہت خدمت کرتی ہے۔
آپ مہمان نواز ایسی تھیں کہ بار بار آپ سے ملنے کو دل کرتا تھا۔ جب ہم گھرپر صبح کے وقت ملاقات کرنے جاتے تواس وقت نوافل ادا کررہی ہوتی تھیں۔ اس کے بعد جب ہمارے پاس تشریف لاتیں تو خادمہ سے پوچھتیں کہ بچیوں کو کچھ کھلایا پلایا ہے کہ نہیں۔ میں کئی بار آپ کو بتائے بغیر ہی ملنے چلی جاتی تھی، کبھی بھی اُکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔ مل کر بہت خوش ہوتیں اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازتیں۔ اگر مَیں بےوقت اور بغیر اطلاع کے آنے پر معذرت کرتی تو فرمایا کرتی تھیں کہ جب تمہارا جی چاہے آجایا کرو۔
میری بہن نے جب انٹرمیڈیٹ پاس کیا تو آپ سے ملنے گئی اور آپ کو بتایا کہ وہ عائشہ دینیات میں پڑھنا چاہتی ہے۔ آپ بہت خوش ہوئیں اور فرمایا کہ بہت اچھی بات ہے۔ لڑکیوں کے لیے دین سیکھنا بہت ضروری ہے۔ ہم بہنوں کو تواباجان (حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ ) نے فرمایا تھا کہ پہلے عائشہ دینیات میں داخلہ لینا پھر کالج میں داخلہ لینا۔
ایک بار میرے پوچھنے پر اپنے بچپن کا یہ دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ مَیں اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ چھوٹے تھے، ہمارے گھر ایک خالہ آیا کرتی تھیں وہ چائے میں چینی بہت پیتی تھیں۔ ایک دن ہم دونوں کو شرارت سوجھی تو ہم نے ان کی چائے میں چھ سات چمچ چینی کے ڈال دیے اور خود آرام سے بیٹھ کر دیکھنے لگے۔ وہ چائے پی رہی تھیں اور ہم غور سے ان کو دیکھ رہے تھے۔ جب انہوں نے کوئی بات نہ کی تو مَیں نے پوچھا کہ خالہ چائے میں چینی کم تو نہیں؟ کہنے لگیں: نہیں مَیں چینی کم ہی پیتی ہوں۔ یہ واقعہ سن کر ہم بہت ہنسے۔
میرے چہرے پہ دانے بہت نکلتے تھے۔ آپ نے ایک دن فرمایا کہ تمہاری ابھی شادی ہونی ہے اپنا خیال رکھنا چاہیے۔ پھر مجھے ایک نسخہ اپنی ڈائری سے ایک کاغذ پہ لکھ کر دیا اور فرمایا کہ اس کا لیپ بنا کر چہرے پر لگایا کرو ساتھ سادہ برف بھی چہرے پر لگایا کرو۔ بعد میں سَتو اورشکربھجوائی اور ساتھ کہلوا بھیجا کہ یہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ کئی بار آپ ہمیں موسمی پھل اورگھر کی بنی سکوائش بھجوایا کرتی تھیں۔
ایک بار آپ نے اپنی دو خادماؤں کے بارہ میں فرمایا کہ ان دونوں کی شادی ہونے والی ہے ان کے لیے چیزیں تیار کررہی ہوں۔ دونوں بچیوں کے نام پر میں نے پانچ پانچ ہزار کے پرائز بانڈز لیے تھے، دونوں کے تقریباً 75 ہزار ہو گئے ہیں، کچھ اَور پیسے ڈال کر سامان لے لوں گی۔ پھر انہی بچیوں کی شادی سے کچھ عرصہ پہلے مجھے فون کیا اور کہا کہ ان دونوں بچیوں کے جہیز کی چیزیں تم نے مجھے خرید کر دینی ہیں۔ جیسے تم لوگوں نے دفتر میں ایک لِسٹ بنائی ہوئی ہے اسی طرح مجھے بھی لے کر بھجوا دومیں رقم بھجوا رہی ہوںاورکیونکہ یہ میرا ذاتی کام ہے، اس لیے حساب میں کمی بیشی کی صورت میں مجھ سے رابطہ رکھنا۔ ہم نے تمام جہیز کی چیزیں بھجوائیں توآپ بہت خوش ہوئیں اور بار بار شکریہ ادا کرتی رہیں۔
جب آپ کے داماد مرزا غلام قادر صاحب کی شہادت ہوئی ہم آپ کے گھر اظہا رتعزیت کے لیے گئے توآپ سب سے ملیں۔ غم سے نڈھال تھیں لیکن انتہائی صبر و استقامت کا مظاہرہ فرمایا۔ بس یہی فرماتی رہیں کہ اللہ نچھو کو صبر دے۔ جماعت کی فکر کررہی تھیں اور بار بار یہی فر ماتی رہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کی ہمیشہ حفاظت فرمائے ورنہ د شمنوں کے ارادے تو بہت خطرناک تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے جماعت کو محفوظ رکھا۔
ایک مرتبہ آپ بیمارہوکر ہسپتال میں زیرعلاج تھیں۔ مَیں دفتر سے ہی آپ کی خیریت پوچھنے گئی۔ آپ کی صاحبزادی نصرت صاحبہ تشریف رکھتی تھیں جو مجھے نہیں پہچانتی تھیں۔ مَیں نے دروازے میں ابھی اتنا ہی پوچھا کہ آپا باچھی سے مل سکتی ہوں؟ تو آپ نے کمرے کے اندر سے آواز پہچان کر فوراً فرمایا کہ اندر آجاؤ۔ اور اپنی بیٹی سے فرمایا کہ ’’یہ نصیرہ ہے، دفتر مقامی میں کام کرتی ہے۔‘‘ پس آپ سے جڑی یادیں تو بہت ساری ہیں۔ بقول عبید اللہ علیم ؎

لکھو تمام عمر مگر پھر بھی تم علیمؔ
اس کو دِکھا نہ پاؤ گے ، ایسا حبیب تھا

اپنا تبصرہ بھیجیں