محترمہ صاحبزادی امۃالرشید بیگم صاحبہ
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 23؍دسمبر2024ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍جنوری 2014ء میں مکرم محمود مجیب اصغرصاحب کے قلم سے محترمہ صاحبزادی امۃالرشید بیگم صاحبہ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 26؍نومبر 1950ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے مولد و مسکن بھیرہ کا دورہ فرمایا اور وہاں موجود احباب سے دو گھنٹے کے قریب ایک معرکہ آراء خطاب فرمایا آپ نے اس تاریخی خطاب میں یہ بھی فرمایا: ’’اس بستی سے مجھے روحانی اور جسمانی تعلق ہے اس بستی کے ایک معزز گھرانے کی لڑکی میری بیوی تھی اور اس بیوی سے میری اولاد بھی ہے…۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد 14)
بھیرہ کی بستی کے معزز گھرانے سے مراد حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ ہیں جن کی لڑکی حضرت سیدہ امۃالحئی بیگم صاحبہ سے 1914ء میں آپؓ نے شادی کی اور اولاد ہوئی۔ جو بالترتیب محترمہ صاحبزادی امۃ القیوم صاحبہ، محترمہ صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ اور محترم مرزا خلیل احمد صاحب پر مشتمل تھی۔ اس اولاد میں سے آخری نشانی محترمہ صاحبزادی امۃ الرشید بیگم صا حبہ اہلیہ محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب تھیں جو 20؍ستمبر 2013ء کو اللہ کو پیاری ہوگئیں۔
ہمارا تعلق بھی بھیرہ سے ہے۔ حضرت سیدہ اُمّ متین مریم صدیقہ صاحبہ نے بتایا کہ جب میری والدہ ملنے جاتیں تو صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ کہا کرتیں کہ میرے ’نانکے‘ آگئے ہیں۔ دراصل وہ بھیرہ کے تعلق کی وجہ سے ایسا کہا کرتی تھیں۔ میری اہلیہ کو بھی کہتی تھیں کہ تمہارے ساتھ میرا دوہرا رشتہ ہے۔ ایک تمہارے میاں کے خاندان کی طرف سے اور ایک تمہارے والدین کے خاندان کی طرف سے۔ دراصل میرے آباء و اجداد بھی حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ذریعے مامور زمانہ حضرت مسیح موعودؑ سے 1898ء میں وابستہ ہوئے تھے اور میری اہلیہ کے دادا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے پاس ہی پلے بڑھے تھے۔
آپ نے ایک یتیم بچی فرزانہ پالی ہوئی تھی۔ ایک بار جب امریکہ اپنے بچوں کے پاس جانے لگیں تو اس بچی کو ہمارے سپرد کر گئیں اور فرمایا کہ میرے زیر نظر کئی گھر تھے لیکن جو اعتماد مجھے آپ کے گھر پر ہے اس کی بنا پر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد اپنی کئی عزیز خواتین کو خاص طور پر اس بات کی ہدایت کرتی تھیں کہ ہمارے گھر ضرور جائیں اور فرزانہ کا حال احوال دریافت کریں۔
آپ نے اپنے ایک مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ کے معمورالاوقات ہونے کا یوں ذکر کیا ہے کہ آپ نے ابا حضور (حضرت مصلح موعودؓ) کو کبھی سوئے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس خواہش کے پیش نظر آپ نے رات گئے تک چائے اور قہوہ پی پی کر انتظار کیا کہ دیکھوں کہ ابا حضور کب سوتے ہیں؟ حتیٰ کہ کرسی پر ہی نیند آگئی اور جب گھبرا کر اُٹھیں تو حضرت مصلح موعودؓ تہجد ادا کر رہے تھے۔ آپ کہتی ہیں مجھے نہیں معلوم کہ حضورؓ کب سوئے اور کب اٹھ کر تہجد ادا کرنے لگے۔ ایسے عظیم الشان انسان کی تربیت کا آپ پر گہرا اثر تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی درج ذیل نظم کا ذکر کرتی تھیں جس کا پہلا شعر حضرت سیدہ امۃ الحئی بیگم صا حبہؓ کا ہے:
پوچھو جو اُن سے زلف کے دیوانے کیا ہوئے
فرماتے ہیں کہ میری بلا جانے کیا ہوئے
اے شمع رُو بتا تیرے پروانے کیا ہوئے
جل جل کے مر رہے تھے جو دیوانے کیا ہوئے
خم خانہ دیکھتے تھے جو آنکھوں میں یار کی
تھے بے پیئے کے مست جو مستانے کیا ہوئے
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں آپ نے بتایا کہ ایک بار کھانے کے وقت حضور میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے کھانے کے لیے کہا۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ میں آپ کی رکابی سے ہی کھاؤں گا۔ چنانچہ حضورانور نے اس طرح آپ سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔
بہت اچھی تحریر تھی اور اس کو پڑھنے کے بعد تاریخ احمدیت کے بارے میں کافی معلوم ہوتا ہے کیونکہ ویسے تو ہمیں اتنا معلوم نہیں ہوتا اللہ تعالی اپ کو اس کی جزا دے امین