محترمہ صاحبزادی امۃالعزیز بیگم صاحبہ
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 30؍ستمبر2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں محترمہ صاحبزادی امۃالعزیز بیگم صاحبہ کا ذکرخیر اُن کی بیٹی صاحبزادی امۃالرقیب صاحبہ نے کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میر ی ا می حضرت اُمّ ناصر صاحبہؓ کے بطن سے نو مبر 1921ء کو قا د یا ن میں پیدا ہوئیں۔ آپ کی شادی صاحبزادہ مرزا حمیداحمد صاحب کے ساتھ 9؍نومبر 1941ء کو قادیان میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹیوں سے نوازا۔
آپ بہت نیک، پارسا اور دعاگو خاتون تھیں۔ جماعتی خدمات میں ہمیشہ آگے قدم بڑھاتی رہیں۔ 17؍ستمبر1967ء کو آپ صدر لجنہ اماءاللہ لاہور منتخب ہوئیں۔ 1974ء کے پُرآشوب دَور میں جو خاندان ربوہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ان کی امدا د کے لیے لجنہ اماءاللہ لاہور نے نہایت مستعدی سے نقد رقوم، لحاف، برتن، جوتے، تولیے، صابن،کپڑے اور ضروریا تِ زندگی کا دیگر سامان مرکز میں بھجوایا۔ اسیرانِ راہِ مولیٰ کے لیے کھانا اور بستر فراہم کیے۔ وہ دَور لجنہ اماءاللہ لاہور نے جس جذبۂ ایمانی سے سرشار ہو کر گزارا وہ سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ اسی طرح 1973ء کے سیلاب کے دوران بھی مسجد دارالذکر لاہور میں قائم امدادی کیمپ میں آٹا، چاول، چینی، بسکٹ، صابن، نمک،گُڑ، سوئی دھاگہ بٹن اور دواؤں کے ڈھیروں پیکٹ جمع کردیے گئے۔
آپ کے دورِ صدارت میں لجنہ اماءا للہ لاہور کے دفتر اور ہال کی تعمیر بھی ہوئی جس کا افتتاح 16؍ستمبر1982ء کو حضرت سیّدہ چھوٹی آپا صاحبہ صدر لجنہ مرکزیہ نے فرمایا۔
1982ء میںآپ مستقل رہا ئش کے لیے ربوہ آگئیں۔ حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات پر جو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اُس میں فرماتے ہیں: ’’بڑی صبر کرنے والی تھیں۔ توکّل کا اعلیٰ مقام تھا۔ نیک تھیں، ملنسار تھیں، بڑی دعاگو تھیں، نمازیں بڑے انہماک اور تو جہ سے ادا کرتیں۔ ان کی نما زیں بڑی لمبی ہوا کرتی تھیں۔ کئی کئی گھنٹے مغر ب کی نماز عشاء تک اور عشاء کی نماز آگے کئی گھنٹے تک تو مَیں نے ان کو پڑھتے د یکھا ہے اور یہ روزانہ کا معمو ل تھا۔ اللہ کے فضل سے بڑی دعاگو، غریب پرور خاتون تھیں۔ آپ کو خلافت سے بڑا تعلق تھا۔ مجھے بھی بڑی عقیدت سے خط لکھا کرتی تھیں۔ جماعتی طور پر پہلے سترہ سال لاہور کی نائب صدر رہیں۔ 1967ء سے 1983ء تک لاہو ر میں صدر لجنہ رہیں۔ اللہ کے فضل سے لاہور کی لجنہ کے لیے بڑا کام کیا۔‘‘
حضورانور نے مزید فرمایا : ’’عالمی بیعت کے دنوں میں ایک سبز کوٹ پہلے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ پہنا کرتے تھے اور اب مَیں پہنتا ہوں، یہ کوٹ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی طرف سے ان کے خا وند محترم صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب کے حصّہ میں آیا تھا۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے یہاں ہجرت کی تو یہ کوٹ انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو دیا کہ آپ جب تک وہا ںہیں اس کوٹ کوآپ جب بھی پہنیں میرے لیے بھی دعا کیا کریں۔ اس کے بعد مرزا حمیداحمدصاحب کی وفات ہوئی …پھرحضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی وفات کے بعد مَیں نے ان کو کہا کہ یہ کوٹ آپ لوگوںنے امانتاً دیا ہوا تھا تو انہوں نے مجھے اپنی بیٹیوں سے پوچھ کر لکھ دیا کہ یہ کوٹ اب عالمی بیعت کی ایک نشانی بن چکا ہے اس لیے ہم اس کو خلافت کو ہبہ کرتے ہیں۔ اور انہو ں نے یہ تبرک خلافت کے لیے دے دیا۔ ان کے لیے جما عت کو بھی دعا کرنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک تبرک، چھو ٹا سا کپڑا بھی کوئی نہیں دیتا، بڑی قربانی کرکے یہ کوٹ دیا ہوا ہے۔‘‘
ہما رے گھرانے کو ایک سعا دت یہ بھی نصیب ہوئی کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے جب ربوہ سے تاریخی ہجرت فرمائی تو حضورؒ کی روانگی حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ کی کوٹھی ’’البشریٰ ‘‘سے ہو ئی۔ 28؍اپریل کی را ت کومیرے ابّا کو جماعت کی طرف سے کہا گیا کہ ہمیں آپ کا گھر چاہیے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے۔ آپ نے کچھ نہیں پوچھا کہ کس لیے چاہیے۔ کوارٹر میں ایک غیرازجماعت فیملی رہتی تھی۔ امی جان نے ان سے کہا کہ وہ کوارٹر میں ہی رہیں اور جب تک کہا نہ جائے باہر نہ آئیں۔ مجھے ابّا گھر لے آئے کہ تم اپنی امی کے ساتھ کا م کرا ؤ۔ ہم نے جملہ انتظامات کیے۔ رات کو حضورؒ، بیگم صاحبہ دونوں بچیاں وغیرہ ساتھ تھے ہمارے ہاں آگئے اور فجر سے پہلے روانگی ہوئی۔
امّی طبعاً خا مو ش رہتی تھیں مگر مسکراہٹ ہمیشہ آپ کے چہرے پر رہتی تھی۔