محترمہ صاحبزادی امۃالعزیز بیگم صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 30؍ستمبر2024ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃالقیوم ناصرہ صاحبہ کے قلم سے حضرت مصلح موعودؓ کی صاحبزادی محترمہ امۃالعزیز بیگم صاحبہ کی سیرت پر مضمون شامل اشاعت ہے۔
آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کی ایک بڑی بہن فوت ہوگئیں جن کا نام امۃالعزیز تھا۔ پھر آپ کا نام بھی امۃالعزیز رکھا گیا۔ آپ کے بچپن کے حوالے سے حضرت چھوٹی آپا سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ صاحبزادی امۃالعزیز کو جب پہلی بار حضرت مصلح موعودؓ کی جلسہ سالانہ کی تقریراچھی طرح سمجھ آ ئی ا ورلطف آیا تو گھر آکر کہنے لگی کہ ابا جان کو بھی تقریر کرنی آگئی ہے۔ حضورؓ نےیہ لطیفہ سنا تو بہت ہنسے، فرمایا: معلوم ہوتا ہے آج اسے پہلی بارمیری تقریر سمجھ آئی ہے اس کے نزدیک تو آج ہی مجھے تقریر کرنی آئی ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے شدھی کی تحریک کے تدارک کے لیے جب جماعت کو تبلیغ کے سلسلے میں ہندوستان کے دیہات اور شہروں میں جانے کی تحریک کی تو احباب جماعت نے والہانہ لبیک کہا۔ ایک تقریر میں حضورؓ نے فرمایا کہ بچوں میں بھی نہایت مسرت انگیز مثالیں موجود ہیں۔ میرے گھر میں ہر وقت یہی با تیں ہو تی ہیں۔ میرے چھوٹے بیٹے منور احمد (عمر پانچ سال) نے اپنی اڑھائی سالہ چھوٹی بہن (امۃالعزیز) سے کہا: بی بی! مَیں تو ہندوؤں کو مسلمان بنانے کے لیے جانے والا ہوں تم بھی چلوگی؟ اس نے کہا بھا ئی! مجھے بھی ساتھ لے چلو۔
صاحبزادی امۃالعزیز صاحبہ انتہائی سادہ مزاج، نیک، خاکسار اور دھیمے مزاج کی خاتون تھیں۔ آپ رحم دل ،خوفِ خدا رکھنے والی تھیں۔ کسی کو دکھ نہیں دیتی تھیں۔ صبروتحمل، حلیم فطرت،کم سخن اورنرم طبیعت آپ کے اوصاف حمیدہ کے وہ نمایاں پہلو ہیں جو دلوں کو موہ لیتے تھے۔ حضرت اُمّ ناصرؓ کو صاحبزادی صاحبہ سے بہت محبت تھی اوران کی سادگی اور عاجزی کی وجہ سے ان کی بہت فکر رہتی تھی کہ کوئی ان کو تکلیف نہ پہنچا دے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جب اپنے بچوں کی آمین کے موقع پر نظم تحریر فرمائی تو اس میں صاحبزادی امۃالعزیز صاحبہ کے بارہ میں فرمایا:

عزیزہ سب سے چھوٹی نیک فطرت
بہت خاموش پائی ہے طبیعت

آپ محترم صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی اہلیہ تھیں۔ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے اور بہت خیال رکھتے تھے۔ آپ خادمہ کی موجودگی کے باوجود اپنے میاں کی پسند کا کھانا خود تیار کرتی تھیں۔ آپ کو بہت محبت اور پیارکرنے والا سسرال ملا۔ ایک دن مَیں گئی تو دیکھا کہ آپ سٹور میں بڑی پیٹی کھول کر کچھ تلاش کررہی تھیں اور آپ کے سسر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ پیٹی کا ڈھکن پکڑکر کھڑے تھے۔
آپ اپنے گھر کو بہت سجا کر رکھتی تھیں۔ ایک لمبا عرصہ آپ لاہور کی صدر لجنہ اماءاللہ رہیں اور اپنے کام کو بہت اچھے طریقے سے نبھا یا لیکن اپنے گھر کی ذمہ داریوں کا بھی خوب حق ادا کیا۔ آپ نے اپنے گھر سے ملحقہ ایک کوارٹر میں دو غریب خاندان رکھے ہوئے تھے۔ ان کے اخراجات اٹھاتیں اور ہر قسم کا خیال رکھتی تھیں۔
آپ نے مجھے کئی تحائف دیے۔ آپ کی وفات سے پہلے مَیں جب بھی آپ کو فون کرتی تو آپ بہت محبت اور درد سے فرماتیں کہ ایک بار ضرور مجھے آکے مل لو۔ 2005ء میں جب مَیں پاکستان گئی تو آپ کو ملنے گئی۔ آپ اتنی محبت کرنے وا لی خاتون تھیںکہ آپ مجھے مل کر بہت رو ئیں۔ آپ نے اپنے دو خواب مجھے سنائے۔ ایک یوں تھا کہ اُمی جان (حضرت اُمّ ناصرؓ) آئی ہیں اور انہوں نے آپ سے حال پوچھا ہے (باقی خواب مجھے بھول گیا ہے۔) دوسرے خواب میں آپ نے دیکھا کہ آپ کے (وفات یافتہ) میاں تشریف لا ئے ہیں اور انہوں نے فرمایا کہ اگر کوئی تمہیں تنگ کرے تو مجھے بتا نا میں اس کو ٹھیک کردوں گا۔ آپ نے کہا مجھے تو کوئی تنگ نہیں کرتا۔
آپ 7؍اگست2007ء کو ربوہ میں بعمر 86سال انتقال فرماکر بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں دفن ہوئیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں