محترمہ صاحبزادی امۃالقیوم صاحبہ
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 20؍جنوری2025ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں محترمہ صاحبزادی امۃالقیوم صاحبہ کا ذکرخیر مکرم مرزا ظاہر مصطفیٰ احمد صاحب کے قلم سے شامل ہے۔ اس مضمون کا ترجمہ مکرمہ شگفتہ احمد صاحبہ نے پیش کیا ہے۔
حضرت صاحبزادی امۃالقیوم صاحبہؒ اہلیہ محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (المعروف ایم ایم احمد) کی وفات 92 سال کی عمر میں ہوئی۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی نواسی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی بیٹی تھیں۔ والدہ محترمہ سیدہ امۃالحی بیگم صاحبہؓ تھیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی احمدی خاتون نے رؤیا میں آواز سنی کہ بی بی امۃالقیوم ولی اللہ ہیں۔ حضورایدہ اللہ نے فرمایا کہ یہ حقیقت ہے۔
بی بی امۃالقیوم کی زندگی کی سب سے اہم بات آپ کی اللہ تعالیٰ سے محبت تھی۔ ہر وقت خداتعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی کوشش میں لگی رہتیں۔ قرآن مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی تلقین کرتی رہتی تھیں اور کہتی تھیں کہ ایسے پڑھو جیسے انسان کسی محبوب ہستی کا خط پڑھتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو جو قرآن مجید کا نسخہ دیا اس کے پہلے صفحہ پر حضورؓ نے تحریر فرمایا: ’’میری پیاری امۃالقیوم! یہ خدا کا کلام ہے اس کے سوا میں کیا کہوںجو کچھ بھی مجھے ملا، مجھے قرآن پاک سے ملا ہے۔‘‘ اس نصیحت پر آپ نے تمام عمر عمل کیا اور قرآن پاک سیکھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کی۔ ہمارے گھر میں جتنے بھی قرآن پاک کے نسخے تھے ان میں ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نوٹس موجود ہیں۔
اپنی تلاوت قرآن، احادیث اور حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے واقعات سنا کر انہوں نے میرے اور میرے بچوں کی روحوں اور دلوں میں بھی اللہ سے محبت کا جذبہ پیدا کیا۔ ایک ماں کی حیثیت سے آپ جانتی تھیں کہ بچوں کے دلوں میں دین کی محبت کیسے ڈالنی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پانچ یا چھ سال کا تھا تو میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں بہت سوال کرتا تھا۔ آپ مجھے کہتیں کہ اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ بات میری سمجھ میں نہ آتی۔ ایک دن جب مَیں سو کر اٹھا تو آپ نے مجھے بتایا کہ جب میں سونے کے لیے چلا گیا تو آپ نے دائرہ کی شکل میں ریل گاڑی کے ٹریک دیکھے جن پر ایک ریل گاڑی تھی۔ آپ نے گاڑی کو ٹریک پر آگے چلایا اور چلاتی گئیں اور کہا کہ اس ٹریک کا نہ کوئی آغازہے اور نہ کوئی انتہا ہے اسی طرح خدا کی ہستی ہے۔
خدا کے ساتھ آپ کا خاص تعلق تھا اور یہی وجہ تھی کہ آپ کسی سے بھی اپنی کسی خواہش کا اظہار نہ کرتیں۔ خدا سے مانگتی تھیں اور جو ملتا اس پرشکر کرتیں۔ قناعت کا نمونہ تھیں۔
ایک بار آپ نے مجھے بتایا کہ جب آپ چھوٹی سی تھیں تو آپ نے کسی رشتہ دار سے کوئی کپڑا ادھار لیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جب آپ کو وہ کپڑا پہنے ہوئے دیکھا تو اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ جب یہ معلوم ہوا کہ کپڑا آپ کا نہیں ہے تو حضورؓ نے آپ کو کپڑے بدلنے کے لیے کہا اور فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جو دیا ہے اس پر قناعت کریں اور دوسروں سے چیزیں مانگ کر نہ پہنیں‘‘۔ مزید یہ فرمایا کہ’’جس چیز کی بھی ضرورت ہو خدا سے مانگنی چاہیے اور لوگوں سے نہیں۔‘‘ اس دن کے بعد آپ نے کبھی کسی سے کوئی چیز نہیں مانگی۔
آپ کی یہی خاص خوبی تھی یعنی اللہ تعالیٰ سے محبت۔ کیونکہ ہر اچھائی اس سے شروع ہوتی ہے۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ احمدی خواتین کے بارے میں ایسے مضامین شائع کرتے ہیں جن سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ جزاکم اللہ خیراً