محترمہ صاحبزادی امۃالنصیر بیگم صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ‘‘خدیجہ’’برائے 2013ء نمبر1 میں مکرمہ رضیہ ناصر صاحبہ نے ایک مضمون میں اپنے مشاہدات کے حوالے سے محترمہ صاحبزادی امۃالنصیر بیگم صاحبہ کی سیرت تحریر کی ہے۔
محترمہ صاحبزادی امۃالنصیر بیگم صاحبہ (بی بی چھیرو) ہمارے محلّے کی ایک شفیق صدر لجنہ اماءاللہ تھیں۔ آپ کی زیرِ صدارت ہمارا محلّہ ربوہ میں بارہا اوّل آتا رہا۔ آپ کا اجلاس منعقد کروانے کا انداز اتنا دلچسپ ہوتا تھا کہ وقت گزرنے کا پتہ بھی نہ چلتا۔ تلاوت اور حدیث کا ترجمہ باری باری کئی ممبرات سے سنتیں تاکہ ممبرات غور سے سنیں اور جن کو سمجھ نہیں آئی ان کو بھی سمجھ آجائے۔ پھر جو ممبرات تعلیم یافتہ نہ ہوتیں ان سے کہتیں کہ چاہے وہ پنجابی میں ہی مفہوم بتائیں لیکن بتائیں ضرور تاکہ ایک تو ان کو بات بیان کرنی آجائے اوردوسرے ان میں خوداعتمادی پیدا ہو۔ جو مضامین پڑھے جاتے وہ بھی باری باری پوچھتیں اور ساتھ ساتھ خود بھی وضاحت کرتی جاتیں۔ اس طرح اجلاس کے دوران ہی سب چیزیں خاص طور پر احادیث زبانی یاد ہو جاتیں۔
ہمارے حلقے میں آدھی تعداد خاندانِ مسیح موعودؑ کی خواتین کی اور آدھی دوسری خواتین کی ہے لیکن اجلاس کے دوران وہ اپنے خاندان کی بجائے دوسری ممبرات سے زیادہ توجہ اور پیار کا سلوک فرماتیں۔ عاملہ میں بھی خاندان کی خواتین کی بجائے زیادہ تعداد دوسری خواتین کی تھی۔ آپ جہاں ضرورت محسوس کرتیں عملی طور پر بھی بات کو سمجھادیتیں مثلاً پردہ کرنے کی طرف توجہ دلاتے وقت باقاعدہ پردہ کرکے دکھاتیں۔ آپ دوہر ے نقاب والی ابری استعمال کرتی تھیں۔ ایک نقاب سے چہرہ ڈ ھانپ کر دوسرا نقاب چہرے پر گرالیتیں۔ یہ پردہ آپ کی آخری عمر تک قائم رہا۔ باریک اور چھوٹی آستین والے لباس کو ناپسند فرماتیں۔ اس حوالے سے اپنے ابّا یعنی حضرت مصلح موعودؓ کے کئی واقعات سنایا کرتیں مثلاً آپ نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضورؓ کی کسی بچی نے با ریک کپڑے کی قمیص سی کر پہنی تو حضورؓ نے وہ قمیص لے کر اسے قینچی سے کاٹ کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔
ایک دفعہ مَیں آپ کے ہاں گئی تو اُن دنوں مَیں نے نیا نیا کوٹ پہننا شروع کیا تھا جو کہ بمشکل گھٹنوں تک آتا تھا۔ آپ نے پوچھا کہ تم نے اتنا چھوٹا کوٹ کیوں پہنا ہوا ہے؟ میں نے اپنی کم عقلی کی وجہ سے خاندان کی کسی لڑکی کا نام لے دیا کہ وہ بھی تو اتنا چھوٹا کوٹ پہنتی ہے۔ میری بات سن کر ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگئیں، پھر بڑے دُکھی انداز میں کہنے لگیں کہ اگر خاندان کے لوگ کوئی غلط کام کریں گے تو عام لوگوں کی نسبت وہ گناہ کے زیادہ مرتکب ہوں گے کیونکہ وہ ایک نبی کے خاندان سے ہیں۔ پھر کہنے لگیں کہ بٹیا! آپ نے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے، نہ کہ اُن کے خاندان کی۔ انہوں نے اتنے پیار اور دلیل سے مجھے سمجھایا کہ دوبارہ اس طرح کی بات میرے دماغ میں نہیں آئی۔
جب کبھی ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوتا تو بہت پیار سے ملتیں، خیریت دریافت کرتیں اور موسم کے مطابق شربت وغیرہ پلواتیں۔ یہ کبھی نہ سوچتیں کہ یہ تو اپنے کسی کام کے لیے آئی ہے۔ خدا نے جتنا خوبصورت چہرہ دیا تھا اس سے کہیں زیادہ خوبصورت سیرت کی مالک تھیں۔ اتنی عاجزی اور انکساری تھی کہ حیرانی ہوتی تھی۔ اکثر اپنے لیے عاجزہ کا لفظ استعمال کرتیں۔ اپنے گھر کی خادم بچیوں کی تعلیم کا بہت خیال رکھتیں۔ ان کو اچھا کھلاتیں پلاتیں۔ کئی بچیوں کے لیے جہیز تیار کروایا اور پھر اچھے رشتے تلاش کرکے ان کو رخصت کیا۔
میری بڑی بہن جب لجنہ میں آئیں تو آپ نے امی سے کہا کہ بچی بڑی ہو گئی ہے، اب اس کو برقع پہنائیں۔ امی نے کہا کہ بی بی دعا کریں۔ اس وقت ہماری زمینوں پر غیراحمدی قابض تھے اور ہمارے مالی حالات اتنے کمزور تھے کہ برقع خریدنے کی گنجائش نہیں تھی۔ آپ نے صرف دعا کا کہنے سے ہی بات سمجھ لی اور اگلے ہی روز خاد مہ کے ہاتھ برقع کا خوبصورت اور نیا کپڑا تحفۃً بھجوادیا۔ یہ احساس تو کوئی اپنا ہی کرسکتا ہے۔
میری بڑی بہن کا رشتہ طے پا رہا تھا اور امی نے دعا کے لیے کہا تو بڑی توجہ سے لڑکے اور ان کے خاندان کے متعلق پوچھا اور دعا کا وعدہ کیا۔ پھر جب شادی طے پائی تو شادی سے چند ہفتے قبل خادمہ کے ساتھ تشریف لائیں، کئی خوبصورت اَن سلے سوٹ امی کو دیے اور ہر سوٹ کا ڈیزائن بھی بتایا کہ اس کا کرتا پاجامہ بنائیں اس کرتے پر یہ گلا بنائیں وغیرہ۔ ایک انتہائی خوبصورت کپڑا دیا کہ اس کا لہنگا بنوائیں۔ پھر پوچھنے لگیں کہ بچی نے رخصت ہوکر کہاں جانا ہے؟ امی نے بتایا کہ گجرات جانا ہے۔ کہنے لگیں کہ وہ تو کافی دُور ہے، جون کا مہینہ ہے لڑکی تو گرمی سے گھبرا جائے گی۔ اس لیے رخصتی کے وقت بچی کے کپڑے بدلوا دیں۔ کوئی لان کا سوٹ پہنادیں لیکن کوشش کریں کہ لان کا سوٹ سرخ ہواور اس پر ہلکا سا گوٹا لگالیں تاکہ کپڑے بدل کر بھی لڑکی دلہن ہی لگے اوراس کی نند کو سمجھا دیں کہ گھر پہنچ کر بچی کو دلہن کی طرح دوبارہ سجا دیں۔
شادی والے دن خاندان کی خواتینِ مبارکہ ہمارے گھر تشریف لائیں۔ حضرت چھوٹی آپا نے اپنے کانوں سے بالیاں اتار کر تبرک کے طور پر میری بہن کو دیں۔ حضرت صاحبزادی امۃالنصیربیگم صاحبہ بارات کے ساتھ آئی ہوئی خواتین سے کہنے لگیں کہ مجھے اور سارے محلے کو ان بچیوں پر فخر ہے۔ وہ گھر خوش قسمت ہیں جن میں یہ بیاہ کر جائیں گی۔ ان کی یہ بات سن کر ہم سب کے تو آنسو نکل آئے کہ ہم کہاں اس قابل ہیں یہ تعریف کرنا تو ان کا بڑاپن ہے۔
حضرت صاحبزادی صاحبہ کا رویہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ماں کی طرح کا ہی رہا۔ ذرا سا کوئی اچھا کام کرتے تو بہت سراہتیں لیکن جب کوئی غلطی کرتے تو بہت حکمت سے بغیر نام لیے غلطی کی نشاندہی کر دیتیں تاکہ غلطی کرنے والے کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہو جائے اور ندامت بھی نہ ہو۔
آپ کی طبیعت میں سادگی تھی لیکن بہت پُروقار تھیں۔ ایک نظر میں ہی کسی کی ضرورت کا اندازہ لگالیتیں۔ ایک دفعہ ہمارے گھر بہت اچھی حالت کا بڑے سائز کا بہت خوبصورت قالین اس پیغام کے ساتھ بھجوایا کہ یہ بچیوں کے لیے ہے تاکہ وہ قالین پر بیٹھ کر سکول، کالج کا کام آسانی سے کرسکیں۔
میری فیملی جرمنی میں بیس سال سے رہ رہی ہے۔ اتنا وقت گزر جانے کے باوجود جب بھی ہم میں سے کسی کی اُن سے ملاقات ہوتی تو باقی سب بہنوں کے نام لےکر خیریت دریافت کرتیں اور پُرخلوص سلام اور دعاؤں کا تحفہ بھجواتیں۔