محترمہ صاحبزادی امۃالنصیر صاحبہ
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 28؍اکتوبر 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اکتوبر2013ء میں مکرمہ ر۔ظفر صاحبہ کے قلم سے محترمہ صاحبزادی امۃالنصیر صاحبہ بنت حضرت مصلح موعودؓ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترمہ صاحبزادی صاحبہ کہا کرتی تھیں کہ حضرت مصلح موعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ میرے گھر کے دروازے جماعت کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں، اور مَیں بھی یہی کہتی ہوں۔ چنانچہ کئی بچیوں کو تو وہ یہ بھی کہتی تھیں کہ یہ تمہارا میکہ ہے جب ربوہ آؤ تو ضرور آیا کرو۔ ان ملاقاتوں کے دوران وہ نہایت محبت سے حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت امّاں جانؓ کے واقعات بیان کرتیں۔ ایک بار بتایا کہ گرمیوں کی ایک شام حضورؓ باہر بیٹھے تھے، مَیں چائے لے کر آگئی۔ حضورؓ کی کمر پر گرمی کی وجہ سے دانے نکلے ہوئے تھے اور امّی اُن پر تیل لگارہی تھیں۔ حضورؓ اُس وقت حضرت مسیح موعودؑ کے واقعات بیان فرمارہے تھے کہ مَیں نے بےساختہ کہا کہ کاش اُس وقت مَیں بھی ہوتی۔ آپؓ نے فرمایا: شکر کرو کہ تم نے مصلح موعود کا زمانہ دیکھ لیا ہے، لوگ اس کو بھی ترسیں گے۔
آپ نے بتایا کہ شادی کے ساتویں دن حضورؓ مجھے گھر واپس لے جانے کے لیے خود لاہور آئے۔ جب مَیں گھر پہنچی اور ابھی بہنوں سے مل رہی تھی کہ حضورؓ نے میرا بازو پکڑا اور بچوں کی طرح جھلاتے ہوئے حضرت امّاں جانؓ کے پاس لے گئے اور کہا کہ مَیں آپ کی بیٹی کو لے آیا ہوں۔
شادی کے بعد جب ہم ربوہ آئے تو حضورؓ نے گھر بنواکر دیا اور کہا کہ یہ میرا گھر ہے اور تم اس میں رہ سکتی ہو۔ جب سب کے گھر بن گئے تو پھر الگ الگ نام کروا کردیے۔ پہلے اس لیے نام نہیں کروائے تاکہ جسے ضرورت ہو اُسے رہنے کے لیے دے سکیں۔
ایک دفعہ بی بی حکمی کے میاں کا آپریشن تھا تو وہ بھی اسی گھر میں رہیں۔ بیچ میں دیوار ڈال دی گئی۔ جب وہ واپس چلی گئیں تو ہم نے یہ سوچا کہ اب دیوار کی کیا ضرورت ہے چنانچہ ہم نے دیوار گرانی شروع کی۔ جب آدھی گرادی تو خیال آیا کہ حضورؓ سے بھی پوچھ لیتے ہیں۔ تو مَیں نے حضورؓ سے پوچھا کہ یہ دیوار ہم گرادیں۔ آپؓ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ صبح تو میاں بیوی دونوں دیوار گرا رہے تھے اب مجھ سے پوچھ رہے ہو!حضورؓ مصروفیات کے باوجود تمام بچوں پر نظر رکھتے تھے اور سب کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔
جب بچوں کی پیدائش کے وقت مَیں نے لاہور میں رہنے کی اجازت مانگی تو حضورؓ نے منع فرمادیا۔ چونکہ ہماری والدہ بچے کی پیدائش پر فوت ہوئی تھیں اس لیے بہت زیادہ فکر کرتے، اپنے پاس بلوالیتے۔ کمرہ تیار کرواتے اور ہر چیز سٹرلائیز کرواتے۔ پھر باہر پھرتے رہتے۔ جب میرے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تو میری حالت بالکل مُردہ جیسی ہوگئی اور پانچ منٹ تک سانس نہ آئی تو ڈاکٹر فاطمہ حضورؓ کو بلالائیں۔ حضورؓ اندر آئے، دعا کی اور منہ میں دوائی ڈالی اور میری طبیعت سنبھل گئی۔ تو فرمایا: دیکھو لاہور میں ہوتی تو اب مری پڑی ہوتی۔
ایک دن مَیں نے اپنے گھر سے بھائی کے گھر جاتے ہوئے نیچے کا برقع پہنا اور اوپر نقاب کی بجائے صرف دوپٹہ اچھی طرح لے لیا۔ باہر نکلی تو حضورؓ سامنے جارہے تھے۔ اگلے دن ناشتے کے وقت گئی تو آپؓ نے صرف اتنا فرمایا کہ تم ایک قدم اٹھاؤگی تو لوگ دس قدم اٹھائیں گے۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ بی بی بہت شفیق تھیں۔ ایک روز مَیں بی بی کے ہاں گئی تو وہ ایک خوبصورت شال اوڑھے ہوئے تھیں۔ مَیں نے تعریف کی تو بتایا کہ کسی نے دی ہے اور پہلی بار پہنی ہے۔ اگلی بار جب مَیں گئی تو آپ نے مجھے وہی شال لاکردی کہ مَیں نے چند دن پہن کر تمہارے لیے رکھ لی تھی۔ اسی طرح اگر کسی معمولی سی چیز کے لیےبھی مَیں نے پسندیدگی کا اظہار اُن کے سامنے کیا تو اگلی ملاقات پر وہ چیز موجود ہوتی۔ ایک دن مَیں نے کہا کہ مجھے آلوبخارے کی چٹنی بہت پسند ہے۔ آپ نے مجھے ترکیب بتائی کہ گھر پر بنالیا کرو۔ اگلی بار مَیں گئی تو آپ نے مجھے خود کی بنائی ہوئی چٹنی کھانے کو دی اور گھر لے جانے کے لیے بھی دی۔ اسی طرح ایک بار موسم سرما میں بہت خوبصورت جرابیں پہنی ہوئی تھیں۔ مَیں نے کہا یہ بہت خوبصورت ہیں۔ اگلی بار ملنے گئی تو اُس جیسی جرابیں میرے لیے منگواکر رکھی ہوئی تھیں۔
جب دل چاہتا مَیں اُن سے ملنے چلی جاتی اور انہوں نے کبھی بُرا نہیں مانا۔ اگر کبھی زیادہ دیر تک جانا نہ ہوتا تو فون کرکے پوچھتیں کہ کیا بات ہے کیوں نہیں آئے تم لوگ؟
آپ کہا کرتی تھیں کہ عورت کے سلیقے اور صفائی کا پتہ اُس کے کچن سے چلتا ہے۔ جب پہلی بار ہمارے گھر آئیں تو سب سے پہلے کچن دیکھا۔ پرانے کپڑوں کو پھینکنے سے منع کرتیں اور اُن کے کُشن کے کور بنالینے کو کہتیں۔ بتاتیں کہ ہم تو پرانے کپڑوں کو بھی دوبارہ رنگ کر پہن لیتے ہیں اور وہ بالکل نئے لگنے لگتے ہیں۔
کئی بار اپنی بعض دینی خدمات کو خوشی سے بیان کرتیں۔ اگر مَیں کہتی کہ یہ لکھوادیں تو کہا کہ مجھے اس کی خواہش نہیں۔ آخری ملاقات اُن سے ایسے ہوئی کہ اُن کو چکّر آرہے تھے اور اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھیں۔ ہم نے اطلاع کی تو وہیں بلالیا اور کافی دیر باتیں کرتی رہیں۔ ناسازیٔ طبع کا کہہ کر ہمیں منع بھی کرسکتی تھیں لیکن ایسا نہیں کیا۔ اکثر ملاقاتوں میں کہا کرتیں کہ دعا کرو کہ خدا مجھے چلتا پھرتا ہی اپنے پاس بلالے۔ اور پھر وہ واقعی بغیر کسی معذوری کے اچانک ہی چلی گئیں۔
بی بی ہمارے گھر بھی تشریف لے آتی تھیں کئی سال محلہ کی صدر رہیں اس کے بعد میری اہلیہ مریم محمود بنت ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب آٹھ سال اسی محلہ کی صدر رہیں. جب خاکسار “حیات ناصر” لکھ رہا تھا تو میری ایک بچی قرۃ العین بشری ان کے پاس جاکر حضرت اماں جان کی یادیں نوٹ کرتی تھیں کیونکہ وہ بچپن میں لمبا عرصہ حضرت اماں جان کے پاس رہی تھیں.