محترمہ عاصمہ پروین صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 31دسمبر 2021ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍مئی 2013ء میں مکرم نصراللہ خان صاحب نے اپنی اہلیہ محترمہ عاصمہ پروین صاحبہ (بنت چودھری غلام دستگیر صاحب مرحوم سابق امیر جماعت احمدیہ فیصل آباد) کا ذکرخیر کیا ہے جن کی وفات 27؍فروری 2012ءکو ہوئی۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرا نکاح جلسہ سالانہ ربوہ 1961ء کے موقع پر ہوا اور شادی نومبر 1962ء میں ہوئی اور شہر میں پرورش پانے والی یہ بندی شیخوپورہ کے ایک گاؤں میں میرے پاس آبسی۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے عطا کیے جن میں سے ایک بیٹا صغرسنی میں فوت ہوگیا۔ میری ملازمت لاہور میں تھی۔ جب بچے سکول کی عمر کو پہنچے تو ہم لاہور منتقل ہوگئے۔ 1974ء کے فسادات پھوٹے تو ہم نے اپنا ضروری سامان ایک ہمسائے کے گھر رکھوادیا۔ ایک دن اُس کی بیوی میری اہلیہ کے پاس آئی کہ اپنا سامان لے جاؤ کیونکہ فلاں آدمی نے دھمکی دی ہے کہ اگر مرزائیوں کا سامان رکھا تو تمہارے سامان کو بھی آگ لگادیں گے۔ چنانچہ ہم اپنا سامان لے آئے۔ پھر گاؤں جانے کی تیاری کی تو ایک دوسری ہمسائی نے آکر کہا کہ اپنا سامان ہمارے گھر رکھوادو ہم جان دے کر بھی اس کی حفاظت کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا کرے۔
میری مالی حالت کمزور تھی۔ گاوں سے غلّہ، گھی وغیرہ کی صورت مدد مل جایا کرتی تھی۔ پھر میری توجہ محکمانہ امتحانات کی طرف ہوئی تو دفتری اوقات کے بعد وہیں امتحان کی تیاری ہوتی اور شام گئے گھروں کو لَوٹتے۔ مرحومہ نے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہت خیال رکھا۔ سب بچوں کو خود قرآن کریم پڑھایا اور نماز کا عادی بنایا۔ سلیقہ شعاری اور بچوں کے پہناوے سے کسی کو ہمارے گھر کی مالی حالت کا احساس نہ ہوتا تھا۔بہت دعاگو تھیں۔ اپنے سب بچوں کو بھی دعائیہ سیٹ کا تحفہ دیا۔ اپنی نسلوں کے لیے بھی دعائیں کرتیں۔
مرحومہ صاف ستھری عادات کی مالک تھیں۔ بہت کفایت شعار بھی تھیں اور کسی نعمت کا ضیاع بہت ناگوار گزرتا۔ آنحضورﷺ کے ہر چھوٹے سے چھوٹے حکم پر عمل کرتیں مثلاً کپڑوں اور بستر کو جھاڑ کر استعمال کرنا، جوتی کو جھاڑ کر پہننا، پانی ڈھانپ کر رکھنا اور رات کو آگ جلتے نہ چھوڑنا اور دروازوں کا احتیاط سے بند کرنا وغیرہ۔ چغلی سے کراہت تھی۔ طبیعت میں حیا تھی۔ہمیشہ میرے وسائل کے مطابق گھریلو اخراجات رکھے۔ چنانچہ میرے افسران کہا کرتے تھے کہ تم نے دوسروں کی طرح کبھی انسپکشن پر بھجوانے کا اشارہ بھی نہیں کیا۔ بلکہ ریٹائرمنٹ کے وقت ایک افسر نے کہا کہ آپ کو کنٹریکٹ پر رکھ لیتے ہیں تو مَیں نے معذرت کردی اور اُن کے پوچھنے پر، کہ گھر کے اخراجات کیسے چلتے ہیں، بتایا کہ میری بیوی اس سلسلے میں میری معاون و مددگار ہے۔ بےشک نیک بیوی نعمتِ غیرمترقبہ ہوا کرتی ہے۔
مرحومہ کو قرآن کریم سے بہت محبت تھی۔ روزانہ تلاوت کے علاوہ رمضان میں کم از کم تین دَور تو ہوتے۔ آخری ایام تک قرآن کریم کا تلفّظ بہتر کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔ جب تک صحت نے اجازت دی تو رمضان کے روزے رکھے۔ بعد میں فدیہ ادا کرتی رہیں۔ مالی تحریکات میں بشاشتِ قلب سے شامل ہوتیں۔ صدقہ و خیرات کی عادت تھی۔ ہمسایوں سے ہمیشہ اچھے تعلقات رکھتیں، بعض بچوں کو پڑھائی میں بھی مدد دی۔ خلیفہ وقت سے محبت کا تعلق رکھا اور باقاعدگی سے دعا کے لیے خطوط لکھا کرتی تھیں۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں