محترمہ فرحت سکینہ اختر صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15 جنوری 2010ء میں مکرم مسعود احمد ناصر وینس صاحب نے اپنی والدہ محترمہ فرحت سکینہ اختر صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرمہ فرحت سکینہ اختر صاحبہ 1936ء میں کالیہ ضلع شیخوپورہ میں ایک معزز زمیندار مکرم محمد اسماعیل صاحب چندھڑ کے گھر پیدا ہوئیں۔ آپ کی والدہ محترمہ رحیم بی بی صاحبہ نیک سیرت اور خدمت خلق کرنے والی خاتون تھیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے پہلے جب ایک بار کالیہ تشریف لائے تو اجلاس کے بعد فرمایا کہ جہاں رحیم بی بی صاحبہ جیسی نیک اور فرشتہ سیرت خاتون موجود ہیں، اس کا نام کالیہ کیسے ہوسکتا ہے۔ لہٰذا آج سے اس مقامی جماعت کا نام کالیہ نوریہ ہوگا۔ کالیہ ان لوگوں کے لئے ہے جو کہ حضرت مسیح موعودؑ کی معرفت اور ہدایت سے ناآشنا ہیں۔ حضورؒ نے محترمہ رحیم بی بی صاحبہ کی خدمت خلق کا بھی ذکر کیا۔ جب اُن کی وفات 1983ء میں ہوئی تو جنازہ ربوہ لایا گیا۔ حضورؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور پھر قبرستان جاکر دعا بھی کروائی۔
محترمہ فرحت سکینہ صاحبہ کو بچپن ہی سے قرآن کریم پڑھنے پڑھانے سے شغف تھا۔ پہلے آپ کا نام سکینہ تھا کہ ایک جلسہ پر آپ کو ہنستے مسکراتے ڈیوٹی دیتے ہوئے دیکھ کر حضرت سیدہ نواب مبارکہ صاحبہؓ نے سردی کی وجہ سے آپ کو نہ صرف اپنا سویٹر بھی اتار کر دیدیا بلکہ آپ کا نام فرحت سکینہ اختر رکھ دیا۔
ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر گاؤں کی پانچ لڑکیاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو ایک لڑکی نے حضورؓ سے عرض کیا کہ سکینہ قرآن کریم کا درس بہت اچھا دیتی ہے۔ حضورؓ نے قرآن کریم منگوایا اور آپ کو درس دینے کا ارشاد فرمایا۔ آپ کی گھبراہٹ کو جب حضورؓ نے پدرانہ شفقت سے دُور کردیا اور آپ نے سورۃ الفاتحہ کا درس دیا تو حضورؓ نے پوچھا کہ آپ نے ترجمہ و تفسیر کہاں سے سیکھی ہے؟ آپ نے حضرت سید لال شاہ صاحب کا نام لیا تو حضورؓ نے فرمایا کہ’’ آپ نے اُن کی شاگردی کا حق ادا کردیا ہے اسے آئندہ بھی زندگی میں جاری رکھنا اور شادی کے بعد چھوڑ نہ دینا‘‘۔ آپ کی شادی موضع ’’بیدادپور‘‘ ضلع شیخوپورہ کے معزز زمیندار گھرانے حضرت چوہدری محمد حیات صاحبؓ کے اکلوتے بیٹے چوہدری احمد حیات صاحب وینس کے ساتھ ہوئی۔ آپ نے سسرالی گاؤں آکر بھی قریباً سارے گاؤں کی بچیوں کو قرآن کریم سکھایا۔ پھر لاہور میں اور ربوہ آکر بھی بے شمار بچوں کو قرآن کریم پڑھایا اور خواتین کے اجلاسات میں لمبا عرصہ درس قرآن بھی دیا۔ اسی وجہ سے آپ کو قرآن کریم قریباً حفظ ہوچکا تھا۔
آپ انتہائی صابرہ شاکرہ شفیق ملنسار دعاگو مہمان نواز اور خوش خلق خاتون تھیں۔ تصنع یا بناوٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔ آپ خلافت کی فدائی اور پُرجوش داعی الی اللہ تھیں۔ خاندان حضرت مسیح موعود سے گہرا عشق و وفا کا تعلق رکھتی تھیں۔ ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتی تھیں اور اولاد کو بھی اس کی تلقین فرماتیں۔ موصیہ تھیں اور سارے واجبات اپنی زندگی میں ادا کرچکی تھیں۔ آپ نے قریباً 22 سال کا عرصہ ایام بیوگی میں صبر شکر سے گزارا۔ ہمدردی مخلوق خدا کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ہمیشہ اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دیتی تھیں اور کوئی موقع خدمت خلق کاہاتھ سے جانے نہ دیتی تھیں۔ اپنی پنشن اور دوائی کی رقم بھی بسااوقات غرباء کو دیدیتی تھیں۔ رمضان میں اشیائے خورونوش کے پیکٹ بناکر غرباء کو بھجواتیں۔
آپ نہایت باہمت خاتون تھیں۔ خاوند کی وفات کے بعد انتہائی نامساعد حالات کے باوجود سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ ترکہ میں ملنے والی زمین اور گھر کو خیرباد کہہ کر بچوں کی تربیت کی خاطر ربوہ میں رہائش رکھی۔ بچوں کی شادیاں کیں۔ اپنے بڑے بیٹے اور ایک نواسے کو حافظ قرآن بنانے کی سعادت پائی۔
اقرباء پروری کا جذبہ ہمیشہ موجزن رہتا تھا اور جب کسی سے ناراضگی ہوتی تو ہمیشہ سلام میں پہل کیا کرتی تھیں اور ناراضگی دل میں نہ رکھتی تھیں۔ کوئی لالچ نہ تھا۔ ترکہ میں ملنے والی جائیداد بھی اپنے بھائیوں کو ھبہ کر دی۔ عید کے موقع پر محلے کی سب بچیوں کو جو گھر ملنے آتی تھیں عیدی ضرور دیتیں۔ اگر کوئی بچہ گھر نہ آتا تو اس سے شکوہ کرتی تھیں کہ تم عید ملنے کیوں نہ آئے۔
شعروشاعری سے شغف تھا۔ درّثمین کی کئی نظمیں زبانی یاد تھیں۔ پنجابی زبان میں قرآن کریم کا شعری ترجمہ بھی کیا کرتی تھیں۔ اپنے اچھے حافظہ کی وجہ یہ بیان کرتیں کہ بچپن سے ہی عربی قصیدہ یاد کیا ہوا تھا۔
15؍اگست 2007ء کی شب نماز عشاء سے قبل غسل کیا، پھر عشاء کی نماز ادا کی اور پھر لیٹ کر دعائیں کرتی رہیں اور بلند آواز سے درود شریف پڑھ کر مولائے حقیقی سے جاملیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی غائبانہ نماز جنازہ لندن میں پڑھائی۔ آپ نے 3 بیٹیاں، 4 بیٹے اور متعدد نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں چھوڑے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں