محترم انشاء اللہ خان صاحب اور محترم محمد شہزادہ خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24مئی 2011ء میں مکرم محمد شفیع خانصاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں دو مخلص احمدیوں (محترم انشاء اللہ خانصاحب اور محترم محمد شہزادہ خان صاحب کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
مکرم محمد شفیع خان صاحب لکھتے ہیں کہ 1965ء میں میری تبدیلی کراچی سے لاہور ہوئی تو محترم انشاء اللہ خان صاحب سے میری پہلی ملاقات دہلی دروازہ کی مسجد میں ہوئی جو اُن دنوں جماعت احمدیہ لاہور کی مرکزی مسجد تھی۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ہم مسجد سے اکٹھے نکلے اور پیدل چلتے ہوئے میو ہسپتال چوک تک آئے۔ وہاں سے اپنی اپنی راہ لی۔ راستہ میں انہوں نے اپنا تعارف کروایا اور اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔ وہ عمر میں پچاس کے لگ بھگ ہوں گے جبکہ مَیں ابھی خادم تھا۔ وہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے۔ اُس وقت لاہور میں دو یا تین چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ لیکن انشاء اللہ خانصاحب اپنے لباس اور طرز زندگی کے لحاظ سے نہایت سادہ مگر پُروقار اور منکسرالمزاج انسان تھے۔ اُن کی ذات کا عکس میری روح پر آج بھی نقش ہے۔
ایک روز انہوں نے مجھے کہا کہ تم مجھے کچھ ایسے بچے ڈھونڈکر دو جنہیں مَیں قرآن شریف پڑھا دیا کروں۔ مَیں نے ان سے کہا کہ میں آپ کے گھر سے دو تین میل دُور ساندہ کلاں میں رہتا ہوں۔ کیا آپ کے پاس گاڑی ہے جس پر آپ اتنی دُور آ سکیں گے؟ کہنے لگے گاڑی تو ہے لیکن مَیں پیدل جایا کروں گا تاکہ سیر بھی ہو جائے۔ کچھ دن بعد پھر انہوں نے مجھ سے مطالبہ دہرایا تو مَیں نے کہا ابھی تک کسی سے رابطہ نہیں ہؤا۔ میرا جواب سن کر وہ مجھ سے ناراض ہوگئے۔ پھر کئی روز بعد ملے تو بہت خوشی سے بتایا کہ مجھے بچے مل گئے ہیں۔ آپ صبح گھر سے تہجد ادا کرکے نکلتے اور پیدل چل کر بچوں کے گھر جاکر پہلے نماز فجر باجماعت ادا کرتے پھر بچوں کو قرآن کریم پڑھا کر پیدل واپس آتے۔ پھر دفتری اوقات کے بعد پیدل نکلتے اور قرآن کریم پڑھا کر مغرب تک واپس آجاتے۔ آپ نے ’یسرنا القرآن‘ منگوا کر بلامعاوضہ بچوں کو دیئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد سناتے کہ جو قرآن کریم کو دنیا میں عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔
ایک روز میں ان کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک غریب شخص اُن کے پاس آیا۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ آپ نے پوچھا کیسے آئے ہو ؟ وہ کہنے لگا اِدھر سے گزرا تھا میں نے سوچا آپ کو سلام کرتا چلوں۔ آپ نے کھانے کے لئے پوچھا پھر چائے پینے کے لئے کہا لیکن وہ نہ مانا۔ وہ جانے لگا تو آپ نے پوچھا: تمہارے بیوی بچے تمہارے ساتھ رہتے ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں ۔ پوچھا: کیا تمہارے گھر میں پنکھا ہے؟ کہنے لگا: نہیں۔ اسی وقت اپنے ملازم کو پیسے دے کر اُس کے ساتھ بھیجا کہ اسے چھت کا پنکھا لے دو۔
آپ کا مکان تین منزلہ تھا۔ پہلی منزل پر مرکزِ نماز، دوسری منزل پر دفتر اور تیسری منزل پر رہائش تھی۔ پہلی منزل پر مہمان خانہ بھی تھا۔ مرکزی مہمانوں کا قیام و طعام اکثر آپ کے ہاں ہوتا۔ محترم عبداللہ اعجاز صاحب ریٹائرڈ ہوکر کام کی تلاش میں لاہور آئے تو آپ نے یہ کہہ کر اُنہیں مستقل ملازمت دیدی کہ آپ ہمیں نمازیں پڑھا دیا کریں، قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعودؑکا درس دے دیا کریں اور چونکہ آپ خلیفۂ وقت کی صحبت میں رہے ہیں اس لئے حضور سے جو کچھ آپ نے کسی موقعہ پر بھی سنا ہو وہ ہمیں بتادیا کریں۔
محترم انشاء اللہ خان صاحب کی وفات کے بعد اُن کے ایک ملازم نے بتایا کہ ہم چھ لڑکے ایک بار آپ کے ہمراہ آڈٹ کرنے ملتان گئے۔ چار لڑکے احمدی تھے جبکہ دو غیرازجماعت۔ سب بہت خوش تھے کہ وہاں اچھا کھانا ملے گا۔ سیر کے لئے موٹر ہو گی وغیرہ۔ جب وہاں پہنچے تو ادارہ کے مالک نے کہا کہ سب کے لئے تھری سٹار ہوٹل کے کمرے بُک ہیں۔ اعلیٰ قسم کا کھانا اور موٹر گاڑی کی سہولت بھی مہیا ہوگی۔ لیکن انشاء اللہ خان صاحب نے کہا کہ ہمیں آپ اپنی مِل میں ہی ایک کمرہ دے دیں جس میں اگر چارپائیاں میسر ہوں تو ٹھیک ہے ورنہ زمین پر چٹائیاں ڈال دیں۔ ہم اپنے کھانے کا خود بندوبست کریں گے۔ پھر ہم اس ادارہ کے آڈٹ کے لئے وہاں ہفتہ بھر رہے۔ کمرہ میں صفیں بچھاکر پنجگانہ نماز باجماعت ادا کرتے۔ صبح کی نماز کے بعد درس کلام پاک ہوتا اور عصر کی نمازکے بعد کتب حضرت مسیح موعودؑ کا درس ہوتا۔ لیکن صرف احمدی لڑکوں کو ہی وہ اپنے ساتھ نماز باجماعت پڑھنے کے لئے کہا کرتے۔ قریبی تنور سے روٹیاں اور ساتھ میں کبھی دہی اور کبھی تندور پر پکا ہوا کھانا (سبزی یا دال) منگوا لیتے۔ جب سات یوم بعد آڈٹ ختم ہوا تو مِل مالکان نے کھانے کا بِل دینے کے لئے بہت اصرار کیا۔ اس پر آپ نے جو بِل انہیں دیا وہ صرف 265/-روپے کا تھا۔ وہ حیرانی سے کہنے لگے کہ یہاں تو پہلے بھی آڈٹ کے لئے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اپنی ٹیم کے ہمراہ آتے رہے ہیں، ان کی رہائش اور خوراک کا بل تو ہم ہزاروں میں ادا کرتے تھے پھر ان کو ہم تحفے بھی دیا کرتے تھے۔ محترم خانصاحب نے فرمایا کہ ہم نے آپ کا آڈٹ بغیر کسی رعایت کے کیا ہے۔ خامیوں کا ذکر اپنی آڈٹ رپورٹ میں کر دیا ہے۔ جب ہم اپنا مقرر شدہ معاوضہ آپ سے وصول کرتے ہیں تو پھر اضافی مراعات کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ ہم بددیانتی سے آپ کو فائدہ پہنچائیں جو کہ گناہ ہے۔ کیونکہ ایک قطرہ حرام سارے رزق کو ناپاک بنا دیتاہے۔
خان صاحب نہایت متقی انسان تھے۔ ہر ضرورتمند کی کھلے دل سے مدد کرتے بلکہ قرآن شریف کے اُس حکم پر بھی عمل کرتے تھے کہ بعض لوگ شرم کی وجہ سے سوال نہیں کرتے لہٰذا تمہیں چاہئے کہ ان کے چہروں سے ان کی ضرورت کا اندازہ لگا کر ان کی مدد کرو۔
قرآن کریم سے عشق تھا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور محبت کا دم بھرتے رہے۔ حضرت مسیح موعودؑاور خلیفۃ المسیح کے احکامات اور اطاعت میں ہردم مستعدی دکھاتے۔ جلسہ سالانہ پر عام مہمانوں کی طرح ٹھہرتے اور لنگر خانہ مسیح موعودؑ کا کھانا بطور برکت تناول فرماتے۔ آپ موصی تھے۔ 1977ء میں لاہور میں وفات پائی۔
……………………
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم محمد شہزادہ خان صاحب مولوی فاضل حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے زمانہ میں قادیان آکر بیعت سے مشرّف ہوئے۔ پھر ساری زندگی مرکز میں گزاردی۔ آپ تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ چنانچہ قیام پاکستان کے وقت جب اکثر احمدیوں کی ملازمتیں ختم ہوگئیں اور بہت سے اپنی فصلیں چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے۔ تو ایسے حالات میں جماعتی چندوں میں کمی یقینی امر تھا۔ جماعت نے اخراجات میں کمی کے لئے کارکنان میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں جامعہ احمدیہ سے جو استاد فارغ کر دئے گئے ان میں آپ بھی تھے۔ آپ کی نہ تو کوئی زرعی زمین تھی نہ ہی کوئی اور ذریعہ معاش تھا اس لئے گھر میں فاقہ کشی نے ڈیرے ڈال دیئے۔ اسی سال جلسہ سالانہ پر یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ڈیوٹی دینے والا کوئی کارکن یا ربوہ کا رہائشی لنگرخانہ سے کھانا نہیں کھائے گا۔ لنگرخانہ کا کھانا صرف مہمانوں کے لئے مخصوص ہو گا۔ یہ اعلان سن کر والد محترم نے ہم تینوں بھائیوں کو بلایا اور فرمایا کہ تم ڈیوٹی دینے جاؤگے لیکن مرکز کے اس حکم کی نافرمانی نہ کرنا اور کھانا ہمیشہ گھر آکر کھانا۔
پھر جب مہمانوں کے لئے کھانا گھر لے جانے کی اجازت ہوگئی تو ہم بھی اپنے مہمانوں کے لئے لنگرخانہ سے کھانا لانے لگے۔ ایک روز والد صاحب نے دیکھا کہ رات کو جو کھانا آیا تھا اس میں سے دو روٹیاں بچی پڑی ہیں۔ آپ نے غصہ سے فرمایا یہ جماعت کے پیسے کا ضیاع ہے۔ دانہ دانہ تمہارے پاس جماعت کی امانت ہے جس کا جواب تمہیں دینا ہو گا۔ ہر احمدی جماعت کا امین ہے۔ آئندہ اگر روٹی کم پڑ جائے تو گھر میں پکالو لیکن جماعت کے ایک دانہ کا ضیاع بھی تقویٰ کے منافی ہے۔
60ء کی دہائی میں میرے بھائی محمد رفیع خان صاحب نے میٹرک کے امتحان میں سکول میں پہلی یا دوسری پوزیشن حاصل کی تو حضرت مصلح موعودؓ نے ازراہ شفقت 200 رو پے والد صاحب کو بھجوائے کہ اس سے بچے کی تعلیمی ضروریات پوری کریں۔ والد صاحب نے رفیع خان کو بلایا اور خوشخبری دی کہ خلیفۂ وقت نے اس کی تعلیم کے لئے پیسے بھجوائے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ اگر آپ پہلے مجھے ان پیسوں سے سائیکل لے کر دیں اور اچھے کپڑے سلوا دیں تو تب میں آگے پڑھوں گا۔ والد صاحب نے فرمایا یہ پیسے کتب اور کاپیوں کے لئے ہیں تمہاری خوش پوشی کے لئے نہیں ہیں۔
پھر آپ بھائی کا مطالبہ سُن کر اتنے رنجیدہ ہوئے کہ مجھے ایک رقعہ لکھ کر دیا کہ جاؤ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو یہ خط اور 200 روپے ابھی واپس کرکے آؤ۔ رقعہ میں تحریر تھا: ’’حضور پُر نور! آپ کی شفقت اور غریب پروری کا بے حد شکریہ۔ مجھ ناچیز پر آپ کی اتنی زیادہ نظر کرم ہیں میں ان احسانوں کا بدلہ نہیں دے سکتا۔ میرے حق میں دعا فرماویں میرا بچہ مزید تعلیم حاصل کرنے کا خواہاں نہیں اس لئے بصد عجز و انکسار عطا کردہ رقم ارسال خدمت ہے۔
فقط احقر العباد۔ محمد شہزادہ خان‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں