محترم جنرل نذیر احمد صاحب – پاک فوج کے پہلے احمدی جنرل
پاکستانی فوج میں جو احمدی پہلی مرتبہ جرنیلی کے رتبہ پر فائز ہوئے وہ محترم جنرل نذیر احمد صاحب تھے۔ کچھ عرصہ پہلے برطانوی حکومت نے تقسیم ہند کے وقت انتقال اقتدار کے تمام کاغذات تاریخ محفوظ رکھنے کی غرض سے شائع کردئے ہیں۔ ان میں ایک جگہ وائسرائے کا کمانڈر انچیف کے نام خط ہے جس میں ہدایت دی گئی ہے کہ پاکستانی فوج کی تشکیلِ نو کے وقت بریگیڈیر نذیر احمد سے ضرور ملاقات کرلیں۔
جنرل نذیر احمد صاحب کے بارہ میں مکرم پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کا ایک مختصر مضمون ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا جنوری 2000ء میں شامل اشاعت ہے۔
جنرل نذیر احمد صاحب حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے ہم زلف تھے اور جب حضرت چودھری صاحبؓ کی تعیناتی چین میں ہوئی تو آپؓ کے ملٹری سیکرٹری کی حیثیت سے میجر نذیر احمد بھی آپؓ کے ہمراہ چین گئے تھے۔ حضرت چودھری صاحبؓ اپنی خودنوشت ’’تحدیث نعمت‘‘ میں بھی مختصراً میجر صاحب کا ذکر کیا ہے۔
جناب سید ضمیر جعفری اپنی ڈائری ’’ضمیر حاضر ضمیر غائب‘‘ میں 1948ء کے حوالہ سے رقمطراز ہیں: ’’میجر جنرل نذیر احمد، GOC بڑی جاندار شخصیت کے مالک ہیں۔ چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد، گٹھا ہوا جسم، کوہستان نمک کی پیداوار، اُس کی چٹانوں کی طرح مضبوط اور نمک کی طرح خوش ذائقہ۔ بیک وقت آسان بھی اور مشکل بھی۔ آسان یوں کہ اُن سے ملنا آسان ہے۔ مشکل بھی یہی تھی کہ ان سے ملنا آسان ہے۔ GOC کے دفتر پر کھلی کچہری کا گمان ہوتا تھا۔ مشفق انسان، بارعب سپاہی۔ …
جنرل سٹاف کے افسروں کے بقول جنرل نذیر کی مشکل یہ تھی کہ وہ کتاب کے مطابق نہیں لڑتے۔ کوئی پینترا اگر کتاب کے مطابق باندھ بھی لیتے تو بہت جلد کتاب سے باہر نکل آتے۔…
ایک انگریز کرنل میکے کے نزدیک جنرل نذیر اپنی ترائی میں ایک چھوٹا سا جنرل نیٹرنگ تھا۔ وہ اپنی لڑائی منصوبہ بندی کے تحت لڑتا۔ وہ ان جرنیلوں میں سے تھا جو اوپر والوں کے قابو میں نہیں آتے اور نیچے والوں کو قابو سے نکلنے نہیں دیتے اور جب میدان میں اتریں تو اپنی ذہنی اور جسمانی توانائی کا ایک ’’اونس‘‘ تک بچاکر نہیں رکھتے۔ وہ عام کوٹ پتلون میں بھی جرنیل معلوم ہوتا ہے۔ (جنرل نیٹرنگ ’’جرمن افریقی کور‘‘ میں جنرل رومیل کا جانشین تھا)۔‘‘