محترم حاجی محمد عیسیٰ صاحب کھرل

محترم حاجی محمد عیسیٰ صاحب کھرل

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 10جون 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ4؍ستمبر2013ء میں محترم حاجی محمد عیسیٰ صاحب کھرل کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم محمد یوسف صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم شہابل خان صاحب کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن میں سے تیسرے نمبر پر مکرم حاجی محمد عیسیٰ صاحب تھے۔ آپ نے رواج کے مطابق عام تعلیم حاصل نہیں کی لیکن قرآن کریم پڑھ لیا۔ اپنے حالات کے مطابق زمیندارہ کرتے۔ کالیہ میں 45 مرلے کی وسیع و عریض حویلی بنائی۔ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی قرآن کریم پڑھایا اور کچھ سورتیں بھی یاد کروائیں۔ جوانی میں خود بھی حج کیا اور ایک بہن نے بھی حج کیا تو یہ حاجیوں کا گھرانہ مشہور ہوگیا۔ دونوں بھائی اپنی زمین کے ساتھ بنے ہوئے کنویں پر نمازیں ادا کرتے۔ ایک روز موضع آنبہ کے پرائمری سکول کے احمدی ماسٹر پیر لال شاہ صاحب نے آپ کے کنویں پر آکر نہایت محبت سے تبلیغ کی تو آپ پر شاہ صاحب کی محبت کا اتنا اثر ہوا کہ اُن کے ساتھ مسلسل تین سال جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے کے لیے جاتے رہے اور آخر 1935ء میں بیعت کرلی۔ پھر خود بھی تحریک جدید کے مالی جہاد میں شامل ہوئے اور اپنے گھرانے کے دیگر افراد کو بھی شامل کیا۔ چاروں افراد کے نام پانچ ہزاری فہرست میں درج ہیں۔ سارے گھر والوں کی وصیت بھی کروائی۔ زکوٰۃ اور چندے باقاعدگی سے حساب کرکے دیتے۔ آپ کی شادی کے کچھ عرصے بعد بیٹی کی پیدائش ہوئی لیکن آپ کی بیوی کی وفات ہوگئی تو پھر آپ نے دوسری شادی کرلی۔ بڑے بھائی اور بھابھی بھی جوانی میں ہی ایک بیٹا چھوڑ کر وفات پاگئے تو اُس یتیم بچے کو بھی آپ نے پالا۔
نماز تہجد کے عادی تھے۔ تبلیغی پروگراموں میں شوق سے جایا کرتے اور اپنے گھر پر بھی ایسے پروگرام رکھتے۔ وقف عارضی بھی کرتے رہتے۔ گھر میں نمازوں کا جائزہ لیتے اور کہتے کہ بےنماز کا ہمارے گھر میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ کہا کرتے کہ یتیم وہ نہیں جس کے ماں باپ فوت ہوگئے ہوں بلکہ یتیم وہ ہے جس کی تربیت نہ ہوئی ہو۔
خدمت خلق شوق سے کرتے۔ ایک گھوڑی بھی رکھی جسے ضرورت مند مانگ کر لے جاتے۔ احمدی ہوئے تو خاندان میں ہونے والی شادی کی پہلی تقریب میں کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ مَیں احمدی ہوگیا ہوں، آج کے بعد میرا آپ کی رسومات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مَیں نے کسی سے قرض لینا تھا تو مَیں نے چھوڑ دیا اور کسی نے اگر مجھ سے قرضہ لینا ہے تو حساب کرلے۔ پھر آپ نے اپنے گاؤں میں نماز کے لیے ایک مکان خرید کر اُسے مسجد کے طور پر وقف کردیا۔ اُس کے ساتھ چھ کنال کا رقبہ برادری کے عام استعمال اور بچوں کے کھیلنے کے لیے وقف کیا۔
آپ نے محسوس کیا کہ اولاد اگر زمیندارہ میں پھنس گئی تو عبادت، آرام اور ترقیات حاصل نہ کرسکے گی۔ چنانچہ آپ نے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ذمہ داری اٹھائی اور جلد ہی قادیان میں مکان بناکر اولاد کو وہاں پڑھنے بھیج دیا۔ تقسیم ہند کے بعد ربوہ کی بنیاد رکھی گئی تو آغاز میں ہی آپ نے یہاں بھی پلاٹ خریدا اور مکان بناکر بچوں کو یہاں بھیج دیا۔
1975ء میں آپ کے چھوٹے بھائی کی وفات ہوگئی تو آپ اداس ہوگئے اور اپنے گاؤں سے اپنے بیٹے کے پاس شرقپور ڈیرہ چلے گئے۔ وہیں 6؍دسمبر 1981ء کو 94 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں