محترم حافظ عبدالکریم خان صاحب۔ خوشاب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل … اپریل 2025ء)

محترم حافظ عبدالکریم صاحب آف خوشاب کا ذکرخیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍جنوری 2014ء میں مکرم راناعبدالرزاق خان صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔

رانا عبدالرزاق صاحب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات خوشاب پہنچے تو کئی بزرگان نے احمدیت قبول کرلی جن میں سے حضرت مولوی فضل الدین صاحبؓ، حضرت میاں حاجی وریام صاحبؓ اور حضرت حبیب شاہ صاحبؓ کا ذکر ’’انجام آتھم‘‘ میں تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست میں شامل ہے۔
حضرت مولوی فضل الدین صاحبؓ آہیرانوالی مسجد کے امام تھے۔ آپؓ کی وفات 1908ء میں ہوئی تو حبیب شاہ صاحب 1929ء تک امام رہے اور اُن کی وفات کے بعد حافظ عبدالکریم خان صاحب باقاعدہ امام مقرر ہوئے۔ آپ بھی احمدیت کی صداقت کے دل سے قائل تھے لیکن اظہار نہ کرتے تھے۔ 1931ء میں مردم شماری کے موقع پر آپ مع اپنے 73 مقتدیوں کے احمدیت میں داخل ہوگئے۔ اس کا ذکر الفضل میں شائع ہوا اور اُس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی تقریر میں بھی اس کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد خوشاب میں احمدیوں کی شدید مخالفت شروع ہوگئی۔ حتیٰ کہ 20؍فروری1931ء کو عیدالفطر کے موقع پر مخالفین نے اعلان کیا کہ وہ احمدیوں کو مسجد میں عید نہیں پڑھنے دیں گے۔
آہیرقوم میں سے ملک کبیر خان صاحب احمدیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ اُن کو معلوم ہوا تو انہوں نے مخالفین کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔ جب مخالفین نہ مانے تو انہوں نے کہا کہ احمدی تھانے میں اطلاع کریں گے تو تم کو پولیس پکڑ کر لے جائے گی۔ اُن دنوں حضرت سیّد عزیزاللہ شاہ صاحبؓ خوشاب میں جنگل کے داروغہ تھے اسی طرح ملک گُل محمد صاحب احمدی بھی SDO کے ریڈر تھے۔ ملک صاحب کے کہنے پر احمدیوں نے مولوی عبدالکریم صاحب کی اقتدا میں مسجد میں نماز عید ادا کی۔
فروری 1932ء میں مولوی عبدالقادر صاحب قادیان سے تشریف لائے اور اللہ دتہ ولد جیون کے گھر جمعہ پڑھایا۔ یہاں احمدیوں نے اپنی مسجد بنانے سے متعلق مشورہ کیا تو اللہ دتہ نے اپنی دو مرلے زمین پیش کی۔ اس پر حافظ عبدالکریم صاحب نے زیادہ بڑی جگہ پیش کی۔ اس زمین میں اُن کے بھائی عبدالرحیم خان صاحب کا بھی نصف حصہ تھا جس کی اُس وقت مالکہ ان کی پھوپھی فتح بی بی صاحبہ تھیں۔ انہوں نے بھی مسجد کے لیے بخوشی زمین دے دی۔
مسجد کا نقشہ حافظ عبدالکریم صاحب نے بنایا۔ یہ دو منزلہ مسجد تھی جس میں اوپر مسجد اور نیچے لائبریری، مہمان خانہ اور ایک کمرہ حافظ صاحب کے لیے تھا۔ مخالفین نے میونسپل کمیٹی میں احمدیوں کو مسجد کی اجازت نہ دینے کی درخواست دی جو ردّ ہوئی اور احمدیہ مسجد کا نقشہ 24؍مارچ1932ء کو منظور کرلیا گیا۔ اگلے روز حدبندی ہوئی اور اُس سے اگلے روز سے تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔ مسجد کی تعمیر کے لیے ہر احمدی نے حسب استطاعت شاندار مالی قربانی پیش کی۔ بہت سوں نے ایک ایک ماہ کی تنخواہ پیش کردی۔ خواتین نے زیور دیے۔ تین چار احمدی مستریوں نے مفت اپنی خدمات پیش کیں۔ مزدوروں نے بلامعاوضہ کام کیا۔ مئی 1932ء میں تکمیل ہونے پر محترم سیّد سردار شاہ صاحب نے یہاں اس میں جمعہ پڑھایا اور محترم ملک گُل محمد صاحب نے افتتاح کیا۔
محترم حافظ عبدالکریم خان صاحب 1901ء میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ لمبا عرصہ خوشاب میں سیکرٹری مال اور صدر جماعت رہے۔ امام الصلوٰۃ بھی رہے اور قریباً چالیس سال نماز تراویح پڑھائیں۔ بےشمار احمدیوں اور غیراحمدیوں کو قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھایا۔ آپ نہایت متقی اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ چندوں میں سبقت لے جانے والے تھے اور تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے۔ آپ کے چھ لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں۔ آپ موصی تھے۔ 4؍جنوری1981ء کو اسّی سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے دادا اور محترم حافظ مظفر احمد صاحب کے نانا تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں