محترم خلیل احمد صاحب سولنگی شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3 دسمبر 2010ء میں مکرم اکبر احمد عدنی صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم خلیل احمد صاحب سولنگی شہید کا ذکرخیر کیا گیا ہے جنہوں نے 28؍مئی 2010ء کو دارالذکر لاہور میں شہادت کا جام پیا۔

محترم خلیل احمد سولنگی صاحب ابن مکرم نصیر احمد صاحب سولنگی کے آباؤ اجداد کا تعلق کھارا نزد قادیان کے ساتھ تھا۔ ان کے دادا حضرت ماسٹر محمد بخش سولنگی صاحبؓ تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ خاندان گوجرانوالہ میں آباد ہوا۔
شہید مرحوم نے گورنمنٹ کالج لاہور سے الیکٹریکل انجینئرنگ کرنے کے بعد پانچ سال واپڈا میں ملازمت کی پھر اپنے والد صاحب کے ساتھ کاروبار شروع کردیا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد اپنا کاروبار شروع کیا۔ 1997ء میں یہ لاہور آگئے اور یہاں کاروبار کرتے رہے اور ایک سال پہلے گارمنٹس کے امپورٹ کا امریکہ میں کاروبار شروع کیا اور امریکہ میں رہائش پذیر تھے۔
محترم سولنگی صاحب نے خدمت دین ساری زندگی جاری رکھی۔ پاکستان میں قیام کے دوران پہلے گوجرانوالہ میں آپ بطور ناظم اطفال، قائد ضلع اور قائد علاقہ مجلس خدام الاحمدیہ ضلع گوجرانوالہ کی حیثیت سے خدمت بجالاتے رہے۔ لاہور شفٹ ہونے کے بعد یہاں بھی ناظم مجلس انصار اللہ علاقہ لاہور اور جنرل سیکرٹری ضلع لاہور کے علاوہ مرکزی مشاورتی بورڈ برائے صنعت و تجارت کے صدر اور ممبر کے طور پر لمبا عرصہ خدمات بجالاتے رہے۔
شہادت کے وقت شہید مرحوم کی عمر 51 سال تھی۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ایک ماہ قبل امریکہ سے پاکستان اپنے کاروبار کے سلسلے میں پاکستان آئے تھے اور شہادت کے روز نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد دارالذکر پہنچے تھے۔ حملہ کے دوران صحن میں سیڑھیوں کے نیچے باقی احباب کے ساتھ قریباً ایک گھنٹہ رہے ۔ شائد بیسمنٹ میں چلے جاتے لیکن انہوں نے دیکھا کہ ایک زخمی بھائی ہے اس کو بچانے کے لئے سیڑھیوں سے نیچے کھینچنے کی کوشش میں دہشتگرد کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے اور ان کے سینے کی دائیں طرف گولی لگی۔ کافی دیر تک زخمی حالت میں سیڑھیوں کے نیچے رہے اور پھر شہید ہوگئے۔
حضور انور ایدہ اللہ نے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ انتہائی مخلص مالی جہاد میں پیش پیش تھے، گوجرانوالہ میں محلہ بھگوان پورہ میں مسجد بھی تعمیر کروائی۔ دارالضیافت ربوہ میں ریسیپشن ڈیسک قائم کرنے کے لئے بھی آپ نے خرچ دیا۔ محنتی اور نیک انسان تھے۔ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف بڑی توجہ دیتے رہے۔ ہر کام شروع کرنے سے پہلے خلیفہ وقت سے اجازت اور رہنمائی لیتے تھے۔ ان میں خلافت کی اطاعت بے مثال تھی۔ ان کا بزنس پاکستان میں تھا۔ ان کے کاروباری اور بعض دوسرے حالات کی وجہ سے میں نے ان کو کہا کہ امریکہ چلے جائیں تو لاہور سے اسی وقت فوری طور پر وائنڈ اَپ کر کے امریکہ چلے گئے۔ انہوں نے بہت سے احمدی بے روز گار افراد کی ملازمت کے سلسلہ میں مدد کی۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں ہماری گھریلو زندگی بھی بڑی مثالی تھی ۔ مثالی باپ تھے، مثالی شوہر تھے۔ ہر طرح سے بچوں کا اور بیوی کا خیال رکھنے والے۔ دروازے پر کوئی ضرورتمند آ جاتا تو کبھی اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ لوگ آپ کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لئے آتے اور بڑا اچھا مشورہ دیا کرتے تھے۔ اسی لئے مرکزی صنعتی بورڈ کے ممبر بھی بنائے گئے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور زندہ دل انسان تھے۔ ہر مشکل کام جو بھی ان کے سپرد کیا جاتا بڑی خوشی سے لیتے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو صلاحیت دی ہوئی تھی اس کو بخوبی سرانجام دیتے تھے۔ انہیں دوسروں سے کام لینے کا بھی بڑا فن آتا تھا۔ بہت نرم گفتار تھے، اخلاق بہت اچھے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مسجد بیت الفتوح کی جب تحریک کی ہے تو فوراً فیکس کے ذریعے اپنا وعدہ کیا اور وعدہ فوری طور پہ ادا بھی کردیا۔ جلسہ سالانہ قادیان کے انتظامات میں ان کے پاس ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہوتا تھا اور انتہائی خوبی اور ذمہ داری سے یہ کام کرتے تھے۔
حضور انور نے فرمایا کہ میرے ساتھ بھی ان کا تعلق کافی پرانا خدام الاحمدیہ کے زمانہ سے ہے۔ مرکز سے مکمل تعاون اور اطاعت کا نمونہ تھے۔ جیسے بھی حالات ہوں جس وقت بلاؤ فورا ً اپنے کام کی پروا نہ کرتے ہوئے حاضر ہو جایا کرتے تھے۔ اب بھی جب (پاکستان) گئے ہیں، مجھے لندن مل کے گئے ہیں۔ اور گو حالات کی وجہ سے میں نے ان کو کہا بھی تھاکہ احتیاط کریں، بہر حال اللہ تعالیٰ نے شہادت مقدّر کی تھی۔ ان کویہ بھی فکر تھی کہ جو حضرت مسیح موعود کو ماننے میں پہل کرنے والے ہیں، ان کی بعض اولادیں وہ خدمت نہیں کر رہیں۔ میرے ساتھ درد سے یہ بات کر کے گئے اور بعض معاملات میرے پوچھنے پر بتائے بھی۔ رائے دینے میں بھی بہت اچھے تھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ خلافت کے مقابلے پہ کوئی دوستی اور رشتے داری کسی قسم کی حیثیت نہیں رکھتی۔ 1974ء میں آپ کے خاندان کے بعض افراد نے کمزوری دکھائی۔ آپ اس وقت بہت کم عمر تھے مگر اپنے خاندان کو اسی حالت میں چھوڑ کر امیر جماعت چوہدری عبدالرحمن صاحب کے گھر چلے گئے جہاں ساری جماعت پناہ گزین تھی اور وہاں ڈیوٹیاں دینی شروع کر دیں۔ مالی قربانی کھلے دل سے کرتے تھے۔ ایک پلاٹ کی قیمت پچاس لاکھ روپے تھی۔ انہوں نے کہا میں ادا کر دوں گا۔ بہر حال وہ تو نہیں ملا لیکن اس کے مقابلے پر ایک اور کوٹھی چوالیس لاکھ روپے کی مل گئی، جس کی قیمت انہوں نے ادا کی اور جو جماعت کے گیسٹ ہاؤس کے طور پر اس وقت استعمال ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے مسجد کے لئے بھی کافی بڑی رقم دے چکے تھے لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ہے میں نے رقم دی ہے۔ خلافت جوبلی کے موقع پر لاہور کی طرف سے جو قادیان میں گیسٹ ہاؤس بنا ہے، اس کی تعمیر کے لئے بھی انہوں نے دس لاکھ روپیہ دیا۔ خدام الاحمدیہ کا گیسٹ ہاؤس جو ربوہ میں ہے اس کی رینوویشن کے لئے انہوں نے بڑی رقم دی۔ غرض کہ مالی قربانیوں میں پیش پیش تھے، وقت کی قربانی میں بھی پیش پیش تھے۔ اطاعت اور تعاون اور واقفینِ زندگی اور کارکنان کی عزت بھی بہت زیادہ کیا کرتے تھے۔ پیسے کا کوئی زعم نہیں۔ جتنا جتنا ان کے پاس دولت آتی گئی میں نے ان کو عاجزی دکھاتے ہوئے دیکھا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ محترم خلیل احمد سولنگی صاحب شہید کی خلافت سے محبت اور اطاعت کی کیفیت کو بیان کرنا مشکل ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح کے اشاروں کو بھی سمجھ کر اس کی تعمیل پر کمربستہ رہنے والے اور اطاعت میں برکت کے متلاشی رہتے۔ جب 1974ء میں گوجرانوالہ میں فسادات ہوئے تو اس وقت ان کے میٹرک کے امتحانات ہو رہے تھے۔ یہ اپنے گھر والوں کو لاہور چھوڑ کر خود واپس گوجرانوالہ آگئے تھے۔ جب ان کے گھر پر حملہ ہوا تو انہوں نے پڑوسیوں کے گھر میں جا کر جان بچائی اور شرپسندوں نے ان کا سارا گھر جلا دیا۔ حملہ ہونے کے بعد گھر سے نکلتے ہوئے واحد چیز جو شہید مرحوم نے اٹھائی وہ آپ کی حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ساتھ تصویر تھی۔
خلافت سے یہ وابستگی صرف ان کی ذات تک محدود نہ تھی۔ بلکہ ہر سال بچوں کو جلسہ سالانہ برطانیہ پر لے کر جاتے اور کوئی بات ہوتی تو بچوں کو فوراً حضور انور کی خدمت میں دعا کے لیے لکھنے کی تلقین کرتے۔ حضور انور سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے تو خلافت سے محبت آپ کی آنکھوں سے چھلکتی۔
مالی قربانی میں ہمیشہ پیش پیش رہتے لیکن جو بھی خدمت کرتے تھے کبھی اس کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ بہت سے خاندانوں کی خاموشی سے مدد کرنے والے تھے۔ کسی نے بھی مدد طلب کی تو کبھی نہ نہیں کی۔ بہت سے بے روزگاروں کو انہوں نے نوکری دی، بہت سے بچوں کی سکول کی فیس کی ذمہ داری انہوں نے اٹھائی ہوئی تھی۔ آپ خدمت خلق کے یہ کام بلا تمیز مذہب و ملت کیا کرتے تھے ۔بعض غیر احمدی ڈاکٹرز بھی آپ کی اس خدمت کے وصف کو جانتے ہوئے آپ سے رابطے میں رہتے اور جب کبھی کوئی مستحق مریض ان کے پاس آتا تو مرحوم ہزاروں روپے ان کو مستحق مریضوں کے علاج معالجہ کے لیے بھجوا دیتے۔
جماعتی کاموں کے سلسلہ میں ہمیشہ انہوں نے فوری اور اچھے ردعمل کا اظہار کیا اور اکثر ایسا ہوتا کہ کوئی کام کہا جاتا تو فوراً خود بھی ساتھ ہی چل پڑتے تھے۔ اپنے تمام کاموں پر جماعتی کاموں کو ترجیح دیتے تھے۔ جب بھی کبھی امیر صاحب ضلع کا یا صدر صاحب حلقہ کا فون آتا تو اپنے تمام کام چھوڑ چھاڑ کر، کوئی بھی وقت ہوتا،خواہ رات ہوتی،بلا تردّد چلے جاتے۔ غرض آپ نے اپنی اولاد کی بھی اسی رنگ میں تربیت کی۔ ان کے بچے بیان کرتے ہیں کہ جب بھی ہمارے والد صاحب گھر آتے تھے تو سب سے پہلے ہم سے یہی پوچھتے تھے کہ آپ نے نماز ادا کی یا نہیں۔ بچوں کو خاص طور پر بچیوں کو خود جماعتی اجلاسات وغیرہ میں چھوڑنے جاتے ،واپسی پر ان سے اجلاس میں ہونے والی باتیں پوچھتے اور ہمیشہ ان کو کہتے تھے کہ جماعتی پروگرام سے غیر حاضری نہیں کرنی چاہیے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ اگلے دن کوئی امتحان ہوتا۔مگر آپ کہتے تھے کہ جماعتی کام کرو گے تو اس میں برکت پڑے گی، امتحان اور اچھے ہو جائیں گے۔
نہایت دھیمی اور خوشگوار طبیعت پائی۔ ہر وقت چہرے پر تبسم چھلکتا اور عمدہ اور لطیف مذاق رکھنے والے تھے۔جو بھی ان سے ملا گہرے نقوش اس کے ذہن پر مرتسم ہوئے۔ عائلی زندگی مثالی، مخلص اور محبت کرنے والے دوستوں کا حلقہ،کاروباری دنیا میں اعتماد اور دیانت کی علامت اور جماعتی حلقوں میں وفا شعار اطاعت گزار نیک منش اورنیک چلن۔ ان کی زندگی قابل رشک اور قابل صد ستائش تھی۔ اور مر کر بھی بلاشبہ اس گروہ ِ عشاق میں شامل ہوئے جو رہتی دنیا تک قابل فخر و ستائش رہے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں