محترم خورشید احمد پربھاکر صاحب درویش قادیان

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں محترم خورشید احمد پربھاکر صاحب کے خودنوشت حالاتِ زندگی شائع ہوئے ہیں ۔ قبل ازیں 4مئی 2007ء کے شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں آپ کے بیان کردہ چند ناقابل فراموش واقعات شامل اشاعت ہوچکے ہیں ۔
محترم خورشید احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے آباء موضع دھنی دیو ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ محترم چودھری نواب الدین صاحب اور محترمہ جیواں بی بی صاحبہ کے ہاں 9؍ اپریل 1921ء کو میری پیدائش ہوئی۔ مڈل تک تعلیم ضلع لائلپور (فیصل آباد) میں اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ پھر دَورِ درویشی میں ہائی سکول، پھر انٹرمیڈیٹ کیا۔ B.A کرنے کے لئے G.F. کالج شاہجہانپور میں 1956ء میں داخلہ لیا لیکن انگریزی میں کامیاب نہ ہوسکا۔ پھر پنجاب یونیورسٹی (بھارت) سے ادیب فاضل کیا۔ بعدازاں جامعۃالمبشرین میں داخل ہوکر کلاس میں اوّل رہا۔ قادیان پہلی بار جولائی 1936ء میں آیا تو حضرت مصلح موعودؓ کی مجلس عرفان میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ عرفان کے موتی سمیٹے۔ محترم ماسٹر عبدالرحمن صاحب کی ترغیب پر 19سال کی عمر میں وصیت کر دی۔ مڈل اسکول پاس کرنے کے بعد جب آگے تعلیم جاری رکھنے سے مایوس ہوگیا تو کاشت کاری شروع کر دی۔ پھر بھائی سید محمد صاحب کے قادیان سے لکھنے پر دسمبر 1936ء میں حضورؓ کی سندھ کی زمینوں پر چلا آیا جہاں سے 1938 ء میں واپسی ہوئی۔
میری پہلی شادی محترمہ عالم بی بی صاحبہ بنت مکرم چودھری نور محمد صاحب سے 1944ء میں ہوئی۔جس سے ایک بیٹا منیر احمد پیداہوا۔ 1946ء میں میرے بڑے بھائی سید محمد ہم سے کہنے لگے کہ حضورؓ کی خواہش ہے کہ ہر گھرانہ میں سے ایک فرد دین کی خدمت کے لئے زندگی وقف کرے ۔ ہم تین بھائی ہیں ۔ مَیں نوکری کررہا ہوں ، خورشید احمد زندگی وقف کردے اور چھوٹا محمد طفیل گھر اور زمین سنبھالے ۔ چنانچہ میں نے بذریعہ خط زندگی وقف کی درخواست حضورؓ کی خدمت میں بھجوادی اور مئی 1947ء کے شروع میں خود بھی قادیان پہنچ گیا۔ جہاں اُن دنوں دیہاتی مبلغین کلاس 3 کے امیدواروں کا انٹرویو چل رہا تھا۔ امیدوار کے لئے پرائمری پاس ہونا شرط تھی۔ عمر کی کوئی قید نہ تھی۔ انٹرویو مولوی عبد الرحمن صاحب انور لے رہے تھے۔ مجھے انہوں نے سندھ کی اراضیات پر بطور منشی بھجوانے کے لئے الگ کرلیا تھا جبکہ مَیں سندھ جانا نہیں چاہتا تھا۔ انٹرویو جاری تھا کہ دربار خلافت سے میری چٹھی حضور کے ارشاد کے ساتھ مولانا انور صاحب کو ملی کہ خورشید احمد کو مبلغین کلاس میں رکھ لیا جائے ۔ خدا نے میری سُن لی اور مجھے بغیر انٹرویو لئے چن لیا گیا۔
کچھ عرصہ کے بعد طالب علموں نے اس دیہاتی کلاس کا نام خود ہی جامعۃالمبشرین رکھ لیا۔ یہی نام بعد میں رجسٹرڈ کروالیا گیا۔ یہاں ہم قریباً 60 طلباء تھے۔ کلاس مسجد اقصیٰ میں لگا کرتی تھی۔ ہر طالب علم کو بیس روپے ماہانہ وظیفہ ملا کرتا تھا۔ ہم نے ایک بڑا سا مکان کرایہ پر لے کر کھانا پکانے کے لئے باورچی رکھ لیا۔
اسی دوران تقسیم ملک کے نتیجہ میں حالات خراب ہوگئے۔ قادیان کے چاروں طرف دیہات جلنے لگے اور مسلمان پناہ گزین قادیان پہنچنے لگے۔ مَیں رخصت لے کر اپنی اہلیہ اور چار ماہ کے بیٹے کے ساتھ ناقابل بیان حالات میں لاہور پہنچا تو ٹرانسپورٹ کا پورا نظام مفلوج ہوچکا تھا۔ نہایت مشکل سے پرائیویٹ کمپنی کی بس سے ہم سچاسودا پہنچے اور وہاں سے لوکل ٹرین کے ذریعہ لائلپور پہنچ گئے۔ رات اسٹیشن پر گزاری ۔ صبح کو بس اڈا پر گئے مگر ہُو کا عالم تھا بازار سنسان تھے۔ ہمارے گاؤں کے چودھری اللہ رکھا صاحب کے رشتہ دار بھی بس اڈّا پر بیٹھے تھے۔ چودھری صاحب نے انتظامیہ کے ذریعہ ایک منی بس کا لائلپور سے نواں لاہور تک کا انتظام کیا۔ان کی مہربانی سے میری فیملی بھی پہلے بس اور پھر انہی کی بیل گاڑی سے گاؤں پہنچ گئی۔ مجھے اور بیوی کو لاہور میں لگائے گئے کالرا کے ٹیکہ کی وجہ سے شدید بخار تھا۔ جوان سال اہلیہ اسی ٹیکہ کے اثر سے نمونیا میں مبتلا ہوئی اور وفات پاگئی۔ پھر مَیں اپنا چار مہینے کا اکلوتا بیٹا اپنی بیمار والدہ اور کنوارے بہن بھائی کے سپرد کرکے اکتوبر 1947ء میں دوبارہ قادیان آنے کے لئے نکلا تو بارہ دن کے بعد والدہ ماجدہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ مجھے بذریعہ رؤیا بتادیا گیا تھا کہ اکلوتے بیٹے کے ہاں اولاد نہیں ہوگی۔ چنانچہ بعد میں منیر احمد نے B.A. کرکے شادی کی مگر ساری زندگی اُس کے ہاں اولاد نہیں ہوئی۔
وقف زندگی کے نتیجہ میں ذاتی مکان، اراضیاتِ سیالکوٹ اور لائلپورکی جائیداد سے کلیۃً محروم ہوگیا۔ مَیں قادیان میں اُبلی گندم کھایا کرتا تھا اور میرا بیٹا گاؤں میں دربدر بھٹکتا پھرا کرتا تھا۔ ہم قادیان میں آزادی تقریر، آزادی تحریر، آزادی ضمیر، آزادی آمد ورفت سے بھی محروم کردیئے گئے ۔ ذاتی ڈاک تین جگہ سنسر کئے جاتے اور قابل اعتراض لیٹرزکے متعلقہ حصص ضبط کرلیتے تھے ۔ جذبات کی قربانی۔ عزت و وقارکی قربانی سب سے زیادہ مشکل ثابت ہوئی۔ یہ الہام پورا ہوا کہ ’’ بڑے چھوٹے کئے جائیں گے اور چھوٹے بڑے کئے جائیں گے‘‘۔ آغاز میں حملے، بائیکاٹ اور موقع ملتے ہی قتل و غارت ایک معمول کی بات تھی۔ درویشی کے شروع کے ایام 1948ء میں مَیں سات روز تک ایک سکھ دوست کا دیا ہوا ساگ پکاکر کھاتا رہا۔ لیکن بائیکاٹ کے دنوں میں یہ نعمت بھی چھن گئی۔
مجھے لڑکپن سے سچے خواب آیا کرتے تھے جو اپنے وقت پر پورے ہوتے رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات اور خلافت ثالثہ کے انتخاب کے بارہ میں بھی بتایا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی عمر وغیرہ بھی خواب میں بتائی گئی۔
1948ء میں صدر انجمن احمدیہ قادیان کی جانب سے جامعۃ المبشرین کلاس کے چار طلبا کو مولوی فاضل کی تعلیم کے لئے اور چار طلبا کو ہندی کے تینوں درجات پاس کرنے کے لئے چن لیا گیا۔ ہندی سیکھنے والے طلبا میں خاکسار بھی شامل تھا۔ اپریل 1950ء میں خاکسار کو تعلیم و تربیت کے لئے بنارس بھجوایا گیا۔ پولیس کی نگرانی میں خاکسار نے ہندی کے تینوں درجوں رتن، بھوشن اور پربھاکر کا کورس پاس کیا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ میں نے 1952ء سے مضامین لکھنے بھی شروع کئے۔ اب تک خاکسار کے 250سے زائد مضامین اور 60سے زائد نظمیں مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوچکی ہیں ۔ اسی طرح 10سے زائد کتب اور پمفلٹ شائع ہوئے ہیں ۔ اور دس بارہ مسودات ابھی طباعت کے انتظار میں ہیں ۔ خاکسار کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا ہندی ترجمہ کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائی۔ یہ کام 1959ء سے شروع ہوکر 1967ء میں مکمل ہوا۔
خدا تعالیٰ کی خالص عبادت کی توفیق پانا اس کا بہت بڑا احسان ہے ۔ میں نے آٹھ دس سال کی عمر میں نمازیں ادا کرنا شروع کی تھیں اور آٹھویں کلاس سے نماز تہجد پڑھنا شروع کی۔ الحمدللہ کہ 92سال کی عمر تک ایک بھی نماز ترک نہیں ہوئی اور تہجد بھی باقاعدہ پڑھتا ہوں ۔
خاکسار کو دوسری اہلیہ محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ سے پانچ بیٹے اور تین دختران عطا ہوئیں ۔ سبھی صاحب علم، صاحب اولاد اور صاحب جائیداد ہیں ۔
(نوٹ: محترم خورشید احمد صاحب پربھاکر کی وفات 28؍جولائی 2015ء کو بعمر 94 سال ہوئی)۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں