محترم رانا عطاء الکریم صاحب نون شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍مارچ 2011ء میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم رانا عطاء الکریم صاحب نون کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
محترم رانا عطاء الکریم صاحب کے والد محترم رانا کریم بخش صاحب نون 1977ء میں احمدیت کے نورسے منور ہوئے۔ اُن کو احمدیت کا پیغام ’جمال والا کھاکھی‘ کے ایک بزرگ مکرم رانا فیض بخش صاحب نون کے ذریعہ پہنچا جو علاقہ کے معروف معزز زمیندار تھے۔ مستجاب الدعوات انسان تھے اور علاقہ پر ان کا نیک اثر تھا۔ محترم رانا کریم بخش صاحب کا اُن سے تبادلہ خیال اکثر ہوتا تھا تاہم استخارہ کیا اور ایک خواب کی بنا پر فوراً بیعت کرلی۔ بعد میں کافی مخالفت ہوئی، دباؤ اورلالچ سے دوچار کئے گئے مگر خداتعالیٰ نے ثبات قدم عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی خدمت کی بھی توفیق پائی اور زعیم مجلس انصاراللہ بھی رہے۔ اُس وقت مکرم رانا عطاء الکریم صاحب کی عمر سات سال تھی۔
مکرم عطاء الکریم صاحب کو اللہ تعالیٰ نے روشن دماغ عطا فرمایا تھا۔ تعلیمی میدان میں امتیازی حیثیت سے کامیابی سے ہمکنار ہوتے رہے۔ F.Sc. کرکے پہلے کچھ عرصہ ملتان میں بی فارمیسی میں زیرتعلیم رہے لیکن پھر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں داخل ہوکر 1995ء میں پوسٹ گریجوایشن کیا۔
آپ ایک سادہ دل، نیک نیت، علم دوست اور محب وطن جوان تھے۔ زرعی یونیورسٹی کی ’’مَیس انتظامیہ‘‘ نے پہلے چند دن برتن الگ کر دئیے۔ بعد ازاں کھانا فراہم کرنے سے معذرت کرلی اور عملہ نے بھی بائیکاٹ کردیا۔ مجبوراً ہوٹل سے کھانا کھانا پڑا جس سے اخراجات میں خاصہ اضافہ ہو گیا۔ والدین کی آمد کا ذریعہ صرف فصل تھا۔ ان سالوں میں کپاس کی فصل پر علاقہ میں وائرس کا حملہ ہو گیا تو تعلیمی اخراجات کے لئے گھر سے امداد میں کمی آگئی۔ پھر بزرگوں کے مشورہ سے نظارت تعلیم ربوہ سے تعلیم کی تکمیل کے لئے قرضۂ حسنہ کے لئے درخواست پیش کی۔ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ اُس وقت ناظراعلیٰ تھے۔ آپ نے نون صاحب کو بالمشافہ ملاقات کے لئے بلایا اور ازراہ شفقت مشورہ عطا فرمایا کہ قرض نہ لیں بلکہ تعلیمی وظیفہ لے لیں، واپس کرنے کی نیت ہے تو اپنی مرضی سے واپس کر دینا۔ آپ نے نون صاحب کے لئے پانچ صد روپے ماہانہ وظیفہ جاری فرمادیا اور تاکید فرمائی کہ جب بھی ربوہ آئیں تو ملاقات کرکے جایا کریں۔
تکمیل تعلیم پر محترم نون صاحب کو ایک پرائیویٹ کمپنی کی طرف سے پُر کشش مراعات کے ساتھ ملازمت مل گئی۔ اپنی نیک نیتی، قابلیت و دیانتداری کی بنا پر بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ گو نظارت تعلیم کی طرف سے تعلیمی وظیفہ کی واپسی کا کوئی مطالبہ نہ تھا لیکن آپ نے پہلی تنخواہ ملنے پر وصول شدہ وظیفہ کے مطابق یکمشت ادائیگی کردی۔ جب بھی کہیں دعوت الی اللہ کا موقع ملتا تو اپنے تعلیمی وظیفہ سے بات شروع کرتے جو آخر جماعت کے عقائد تک جاپہنچتی۔
رانا صاحب نے ملازمت سے مستعفی ہو کر اپنا ذاتی کاروبار شروع کر لیا تھا اور کئی افراد کو روزگار فراہم کیا تھا۔ جماعت احمدیہ ’’جمال والا کھاکھی‘‘ ضلع ملتان‘‘ کے صدر بھی رہے۔ ایک محنتی فعال اور قابل انسان تھے۔ تفسیر حضرت مصلح موعودؓ اور جماعتی کتب ر سائل زیر مطالعہ رہتے۔ الفضل باقاعدگی سے منگواتے اور اپنے دفتر کی میز پر رکھتے جس سے عوام الناس استفادہ کرتے رہتے۔
6؍ اگست 2009ء کو چند شرپسندوں نے آپ کے گھر واقع ملتان میں داخل ہوکر فائرنگ کرکے آپ کو شہید کردیا۔ آپ کی عمر 36سال تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ نے لندن میں آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں