محترم رشید احمد صاحب

جماعت احمدیہ امریکہ کے صد سالہ خلافت سووینئر میں مکرم رشید احمد صاحب (Rudolph Thomas) کے بارہ میں مکرم ناصرالدین شمس صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
محترم رشید احمد صاحب 26؍مارچ 1923ء کو East St. Louis, Illionois میں Albert Thomas کے ہاں پیدا ہوئے جو ایک کیمیکل انجینئر تھے۔ لڑکپن سے ہی اُنہیں اللہ تعالیٰ کو پانے کی خواہش پیدا ہوچکی تھی اور وہ جانتے تھے کہ اُن کا خاندان بلاسوچے سمجھے اپنی مذہبی روایات پر عمل پیرا ہے۔ چنانچہ جب بھی انہوں نے کوئی سوال کیا تو کبھی تسلی بخش جواب نہ ملا۔ چنانچہ پھر وہ دنیاداری اور دولت کی تلاش میں اتنے آگے نکل گئے کہ منشیات اور جرائم کی دنیا میں داخل ہوگئے۔ ایک دن شکاگو کی سڑکوں پہ انہیں ایک آدمی یہ آوازیں لگاتا ہوا ملا کہ مسیح صلیب پہ فوت نہیں ہوئے تھے۔ اُس شخص سے مزید گفتگو کرکے وہ قریبی احمدیہ مسجد جاپہنچے جہاں مبلغ سلسلہ محترم غلام یاسین صاحب سے ملاقات ہوئی۔ احمدیوں کے سادہ کپڑوں کو دیکھ کر، سالن پکنے کی خوشبو کو منشیات کی تیاری اور حقّہ پینے کو منشیات لینے کا طریقہ سمجھتے ہوئے وہ اپنے آپ کو یقین دلا چکے تھے کہ یہ یقینا منشیات کے کاروبار میں ملوّث کوئی گروہ ہے۔ چنانچہ روزانہ نماز کے اوقات میں مسجد پہنچ جاتے تاکہ وہ اس خطرناک گروہ کی تہ تک پہنچ سکیں۔ لیکن بالآخر سچائی پہ ایمان لاتے ہوئے وہ ایک سال کے اندر ہی احمدی ہو گئے۔
جب محترم رشید احمد صاحب نے احمدیت قبول کرلی تو حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو پاکستان آنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ آپ نے انتہائی محنت کرتے ہوئے ساڑھے پانچ سو ڈالر جمع کئے اور بحری جہاز کا ٹکٹ لے لیا۔ اس پر حضورؓ نے آپ کے لئے ہوائی جہاز کے ٹکٹ کا انتظام کروادیا تاکہ آپ جلدی پاکستان پہنچ سکیں۔
سفر کا آغاز ہوا تو آپ کی جیب میں پچاس ڈالر تھے۔ لیکن آپ کو بے شمار پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا خصوصاً عراق میں چند دن زیرحراست بھی رہے۔ جب وہاں کے کرنل کو ایک ویسے ہی سابقہ کیس میں ایک احمدی مسافر ڈاکٹر خلیل احمد ناصر کی یاد آئی تو اُس نے رشید صاحب کو بھی جانے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ آپ کراچی پہنچے اور راستہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے صبح دو بجے اپنے میزبان کے ہاں پہنچ گئے۔ پھر کراچی سے ٹرین کے ذریعے لاہو ر پہنچے جہاں جماعت نے آپ کے لئے پریس کانفرنس کا انتظام کیا ہوا تھا۔ لیکن آپ نے فوری طور پر ربوہ جانے پہ اصرار کیا چنانچہ آپ کو اُسی وقت ربوہ روانہ کردیا گیا۔ ربوہ ریلوے سٹیشن پر حضورؓ اور کثیر تعداد میں احمدیوں نے آپ کا استقبال کیا۔ بعد میں جب آپ سے حضورؓ سے ملاقات کے حوالے سے پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ جس نے کبھی چینی چکھی بھی نہ ہو اُسے مٹھاس کیسی لگے گی؟ ان میں تو ایسی صفت ہے کہ ان کی صحبت میں رہنے کو دل کرتا ہے۔ ان کے پاس بیٹھ کر دنیا کی تمام فکریں بھول جاتی ہیں اور ویسا ہی اطمینان محسوس ہوتا ہے جو ایک بچے کو اپنی ماں کی گود میں محسوس ہوتا ہے۔
چنانچہ پانچ سال تک آپ حضورؓ کے ساتھ ہی رہے۔ آپ بیان کرتے تھے کہ حضور کی تقریر میں ایک مقناطیسی کشش تھی، جب حضورؓ خوشی کا اظہار یا تعریف کرتے تو سامعین کو زندگی بخش احساس ہوتا اور جب ناراضگی کا اظہار کرتے توسزا کا احساس ہوتا۔
ایک موقعہ پہ حضورؓ نے رشید صاحب کو حضرت عمرؓ ابن خطاب کا وہ واقعہ سنایا جس میں انہوں نے ایک حاکم کو ایک پرانی ٹوپی دی جس کے پہننے سے اس حاکم کی سردرد ختم ہو جاتی تھی۔ وہ شاہانہ لباس پہنتا مگر سر پر وہی پرانی ٹوپی پہنتا جس کو اتارنے سے اس کی سردرد پھر سے شروع ہو جاتی۔ یہ سنانے کے بعد حضورؓ نے آپ کو اپنا ایک پرانا کلّہ دیا جس کے اندر کی جانب حضرت مسیح موعودؑ کی قمیض کا ایک ٹکڑا حضرت امّ ناصرؓ نے سیا ہؤا تھا۔
پاکستان میں قیام کے دوران آپ کے استاد محترم ماسٹر محمد خلیل صاحب نے اپنی ایک بیٹی کا رشتہ آپ کو پیش کیا تو آپ نے خواب دیکھا کہ آپ کو تین دودھ کی بوتلوں میں سے سب سے پرانی تاریخ کی بوتل کی پیشکش ہو رہی ہے۔ آپ نے حضورؓ کی خدمت میں خواب عرض کیا تو حضورؓ نے فرمایا کہ دودھ سے مراد اسلام ہے اور سب سے پرانا اسلام یعنی حضر ت محمد ﷺ کے زمانے کا اسلام آپ کو حاصل ہورہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ بہترین بچی کا رشتہ آپ کے لئے آیا ہے۔ چنانچہ آپ کی شادی ہوگئی۔ آپ کے ہاں دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔ آپ کی اہلیہ سائرہ قدسیہ صاحبہ بھی جماعتی خدمات میں بہت مستعد تھیں۔
1953ء میں جب فسادات کے بعد عدالت میں کارروائی شروع ہوئی تو رشید صاحب حضورؓکے ساتھ سیکورٹی کی ڈیوٹی دیتے ہوئے بیٹھتے۔ آپ کو یاد تھا کہ چیف جسٹس منیر نے غیراحمدیوں کے خلاف یہ فیصلہ دیا کہ وہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار نہیں دے سکتے کیونکہ وہ خود ایک مسلمان کی تعریف پر متفق نہیں ہوسکے۔
10؍مارچ 1954ء کو آپ کی اہلیہ کے ہاں تیسرے بیٹے کی پیدائش متوقع تھی۔ اپنی اہلیہ کے کہنے پر آپ نرس کا انتظام کرنے باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ کسی بدبخت نے حضورؓ پر چھری سے حملہ کردیا ہے۔ آپ وہیں سے مسجد مبارک پہنچے تو دیکھا کہ حضورؓ نے اپنی خون سے بھری گردن پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا اور حضورؓ بلند آواز میں فرما رہے تھے کہ اسے مار نہ دینا۔ مجرم کو احمدیوں نے گھیر رکھا تھا۔ بعد میں آپ کو معلوم ہوا کہ نماز کے دوران مجرم اُسی جگہ پہ کھڑا تھا جہاں روزانہ آپ کھڑے ہوتے تھے۔جب آپ گھر پہنچے تو بچے کی پیدائش ہوچکی تھی۔
محترم رشید احمد صاحب کو حضورؓ نے ان کی امریکہ واپسی کے بعد ایک خط لکھا جس میں کچھ رقم کے علاوہ بہت سی دعائیں بھی دیں۔ محترم رشید صاحب اب 84 برس کے ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ میں مقیم ہیں۔ وہ آج بھی حضرت مصلح موعودؓ کی باتیں ایسے بیان کرتے ہیں جیسے حضورؓ زندہ ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں