محترم سیّد مقبول شاہ خلیل صاحب

جماعت احمدیہ امریکہ کے انگریزی ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ میں محترم سیّد مقبول شاہ خلیل صاحب کا ذکرخیر اُن کے دو بیٹوں مکرم صابر احمد خلیل صاحب اور مکرم محمد اقبال ولی اللہ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم سیّد مقبول شاہ خلیل صاحب 1916ء میں پشاور کے ایک قریبی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بڑی محنت سے ابتدائی تعلیم کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور پھر ملازمت کے دوران پشاور یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری بھی لی۔ آپ نے جنگ عظیم دوم کے دوران فوج میں شمولیت اختیار کرلی اور ایران، عراق اور مصر میں خدمات بجالائے۔ فوج سے فراغت کے بعد آپ سول سروسز کے تحت ایک نیم فوجی ادارہ سے وابستہ ہوئے اور سینئر سپرنٹنڈنٹ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ آپ کا احمدیت سے تعارف 13سال کی عمر میں اُس وقت ہوا جب آپ کے اسلامیات کے استاد نے احمدیت کے بارہ میں منفی باتیں بیان کیں ۔ تاہم آپ نے اپنی تحقیق شروع کی اور ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ آپ تحریک جدید کے دفتر اوّل کے مجاہدین میں شامل تھے۔
قبول احمدیت کے بعد آپ کو اپنے خاندان کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم آپ کے اخلاق کی وجہ سے بعد میں یہی مخالفین آپ کے معترف بنتے چلے گئے کیونکہ آپ اپنے خاندان میں ایمانداری اور شرافت کا بہترین نمونہ تھے۔ تبلیغ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہ کرتے اور روزانہ رات کو عشاء کی نماز کے بعد اپنے حجرہ میں تبلیغی نشست کا انعقاد کرتے۔
محترم سیّد مقبول شاہ صاحب کو مقبول دعاؤں کی توفیق ملتی تھی۔ ایک بار آپ کے ایک بریگیڈیئر نے تبلیغ کرنے کے جرم میں آپ کو فوری طور پر طلب کیا۔ دراصل آپ کی ایمانداری کی وجہ سے بدعنوان ساتھیوں نے آپ کو راستہ سے ہٹانے کے لئے یہ شکایت کی تھی کہ آپ انہیں احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ جب بریگیڈیئر نے آپ کو فوری طلبی کا نوٹس بھیجا تو آپ اُس وقت رخصت پر تھے اور اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے کہا کہ رخصت ختم ہوکر ہی وہ بریگیڈیئر سے مل سکتے ہیں ۔ اس پر پیغام لانے والے افسر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح تو شاید آپ اپنی ملازمت سے محروم ہوجائیں ۔ لیکن آپ اپنی بات پر قائم رہے۔ بعد میں علم ہوا کہ مذکورہ بریگیڈیئر کو GHQ کی طرف سے مشرقی پاکستان جانے کا فوری حکم ملا۔ بعدازاں وہ بھارت کی قید میں چلا گیا اور چند سال بعد اُس کو رہائی ملی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے محترم شاہ صاحب کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھا۔
محترم شاہ صاحب کی قبولیتِ دعا کا ایک واقعہ یوں ہے کہ ایک روز جب آپ کام سے گھر پہنچے تو علم ہوا کہ آپ کی والدہ محترمہ (جن کی عمر اُس وقت 85 سال تھی) جان کنی کے عالم میں ہیں اور اُن کی تدفین وغیرہ کے انتظامات بھی شروع کئے جاچکے ہیں ۔ آپ نے یہ دیکھتے ہی فوراً جائے نماز بچھائی اور سجدہ میں گرگئے۔ کچھ دیر کے بعد سر اٹھایا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مزید چھ سال زندگی بڑھادی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مریضہ کی حالت سنبھل گئی اور پھر 91 سال کی عمر میں اُن کی وفات ہوئی۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میری زندگی میں اُن کی قبولیتِ دعا کے کئی واقعات میں سے ایک یہ ہے کہ جب تعلیم مکمل کرنے کے بعد مَیں نے ایک بینک میں مناسب ملازمت کے حصول کے لئے درخواست دی تو کئی امتحانات اور انٹرویوز سے گزرنے کے بعد ابھی مَیں بینک کے جواب کا انتظار کر رہا تھا کہ میرے والد نے دعا کرکے بتایا کہ انہوں نے بینک کی عمارت میں ساتویں منزل کے ایک کمرہ میں میرا نام اُسی عہدہ کے لئے لکھا ہوا دیکھا ہے جس کے لئے مَیں نے اپلائی کیا تھا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ افسر جس نے میری ملازمت کا فیصلہ کیا اُس کا دفتر ساتویں منزل پر ہے۔
محترم شاہ صاحب کے ایک دوسرے بیٹے نے امریکہ کے امیگرینٹ ویزا کے لئے درخواست دی تو شاہ صاحب نے دعا کے بعد بتایا کہ آپ نے خواب میں دیکھا ہے کہ اُسے ویزا دے دیا گیا ہے۔ لیکن جب انٹرویو کے بعد سفارتخانہ میں بیٹے کو بتایا گیا کہ اُس کی درخواست ردّ کردی گئی ہے تو وہ بہت مایوس ہوا۔ تاہم اُس نے قونصلر آفیسر سے ملنے کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی۔ مذکورہ آفیسر نے میٹنگ کے دوران مطمئن ہونے کے بعد انٹرویو آفیسر کے فیصلہ کو ختم کرکے ویزا جاری کردیا۔
محترم سیّد مقبول شاہ خلیل صاحب کا اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق تھا جس کا اظہار اُن کی زندگی کے ہر پہلو سے ہوتا تھا۔ آپ کی وفات 8؍اکتوبر 1972ء کو حرکت قلب بند ہوجانے سے اُس وقت ہوئی جب آپ نماز فجر کے دوران سجدہ کی حالت میں تھے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ سلطانہ بیگم صاحبہ بھی بہت خداخوفی رکھنے والی خاتون تھیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں