محترم شیخ عبدالقدیر صاحب درویش قادیان
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں محترم شیخ عبدالقدیر صاحب درویش کے خودنوشت حالات زندگی شامل اشاعت ہیں ۔
محترم شیخ عبدالقدیر صاحب کے والد محترم شیخ عبدالکریم صاحب کو امام مہدیؑ کی تلاش تھی کہ اُن کی ملاقات اتفاقاً حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب سنوریؓ سے ہوگئی جو انہیں اپنے ہمراہ قادیان لے آئے اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضورؓ نے اُن کو مکرم مرزا مہتاب بیگ صاحب انچارج درزی خانہ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں درزی کا کام سکھائیں ۔ کچھ عرصہ بعد محترم شیخ عبدالکریم صاحب نے احمدیت قبول کرلی اور پھر کبھی اپنے وطن (ریاست پٹیالہ کے گاؤں ) واپس جانے کا خیال تک آپ کے دل میں نہیں آیا۔ اگرچہ اُن کے والد مکرم شیخ شہاب الدین صاحب اور بھائی نے بہت زور دیا کہ بے شک صرف ایک بار اپنے گاؤں آکر مل جائیں لیکن ان کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا کہ اب میں صحیح جگہ پر پہنچ چکا ہوں اس لئے اگر ملنا ہو تو یہاں آکر مل لیا کریں ۔ تقسیم ہند کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی ہجرت کے معاً بعد پہلے قافلہ میں حضورؓ کے چند دیگر قریبی خدام کے ہمراہ ان کو بھی لاہور بلانے کا ارشاد فرمایا۔ جبکہ ان کے اہل و عیال بعد میں قادیان سے جانے والے آخری کانوائے کے ذریعہ لاہور بھجوائے گئے۔ محترم شیخ عبدالکریم صاحب موصی تھے اور وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔
16نومبر 1947ء کو جب آخری قافلہ قادیان سے روانہ ہوا تو محترم شیخ عبدالکریم صاحب کی اہلیہ محترمہ علیل تھیں چنانچہ محترم شیخ عبدالقدیر صاحب اپنی والدہ محترمہ کو سہارا دے کر ٹرک میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب قافلہ قادیان کی سرحد پر پہنچا تو آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ سے فرمایا کہ اب اُتر جاؤ اور آگے نہیں جانا، تمہیں مقامات مقدسہ کی خدمت و حفاظت کے لئے وقف کیا ہوا ہے۔ چنانچہ آپ اُتر آئے اور درویشوں میں شامل ہوگئے۔
ابتداء درویشی میں قریبی دیہات میں سروے کرکے رپورٹ دینے کی ذمہ داری آپ کو ملی۔ اس فرض کی ادائیگی کے لئے گول کمرہ میں سات آٹھ سال تک آپ کا قیام رہا۔ بعدازاں بہشتی مقبرہ کے گرد حفاظتی دیوار کو بنوانے کی نگرانی کی ذمہ داری بھی ادا کی۔ یہ کام کئی ماہ میں مکمل ہوا۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ ابتدائی دورِ درویشی میں پاکستان سے آنے والے غیرمسلم مہاجرین نے مقامی انتظامیہ پر زور ڈالا کہ قادیان سے مسلمانوں کو نکال کر انہیں آباد کیا جائے۔ حالات ایسے تھے کہ انتظامیہ بے بس نظر آتی تھی۔ غیرمسلموں کے گروپ ننگی تلواریں ہاتھ میں لئے احمدیہ چوک کے قریب چکر لگاتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی طرف سے پیدا کیا گیا خوف اُنہیں آگے بڑھنے سے روکتا رہا۔ پھر انہوں نے احمدیہ علاقہ کا محاصرہ کرکے ناکہ بندی کردی تو خداتعالیٰ نے غیب سے رزق کے سامان پیدا فرمائے اور یہ محاصرہ ناکام رہا۔ پھر قریبی چوباروں پر سے پتھراؤ کرکے اور مینارۃالمسیح پر گولیاں داغ کر درویشان کو ہراساں کرکے نکال دینے کی کوشش اختیار کی گئی لیکن اس میں بھی انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔
مسجد اقصیٰ قادیان کے مؤذن محترم سراج الدین صاحب کو منارۃالمسیح کے اوپر والی منزل پر جاکر اذان دینے کاجنون تھا۔ جوشیلی آواز کے مالک تھے اذان کی آواز دُور دُور تک سنی جاتی تھی۔ اذان دیتے وقت پڑوسی کے مکان سے ان پر گولیاں بھی چلائی گئیں جو اُن کے ارد گرد سے گزرتی رہیں ۔ ان حالات میں احمدیوں کی طرف سے نرمی سے پڑوسیوں کو پیغام بھجوایا گیا۔ کیونکہ ایسے مواقع کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے یہ اصولی ہدایت ملی ہوئی تھی کہ: ’’…جو لوگ وہاں رہیں ان کو یہ سمجھ کر رہنا چاہئے کہ انہوں نے مکّی زندگی اور مسیح ناصری والی زندگی کا نمونہ دکھانا ہے۔ اگر ہمارے کسی آدمی کی سختی کی و جہ سے یا مقابلہ کی وجہ سے مقاماتِ مقدسہ کی ہتک ہوئی تو اس کا ذمہ وار وہ ہوگا ‘‘۔ بعد میں وہ پڑوسی خاندان ہی ختم ہوگیا اور ان کا مکان جماعت کی ملکیت میں آگیا۔
خدمت سلسلہ کے ساتھ ساتھ کچھ ذاتی کمائی کے لئے حضورؓ کی طرف سے جب تحریک ہوئی تو محترم شیخ عبدالقدیر صاحب نے 300روپے اُدھار لے کر چائے کی دکان شروع کی اور یہ قرض صرف آٹھ ماہ میں واپس کرنے کی توفیق پائی۔ خدا تعالیٰ نے اتنی برکت دی کہ قریباً دوسال تک چائے کی دکان کو چلانے کے بعد آموں کے باغات خریدنے شروع کر دیئے گئے ۔
جب حضور انور کی طرف سے ہدایت موصول ہوئی کہ درویشان شادیاں کریں تو آپ کی والدہ کو جماعتی طور پر قادیان بھجوایا گیا جبکہ لڑکی (محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ) اور ان کے والد بھی چارکوٹ پونچھ سے قادیان آئے اور شادی سرانجام پائی۔ بعدازاں آپ پاکستان آکر حضورؓ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے اور تین بیٹیوں سے نوازا جنہیں خدمتِ دین کی سعادت مل رہی ہے۔ دو بیٹیاں نصرت گرلز وومین کالج میں لیکچرار کے فرائض بجالاتی رہی ہیں جبکہ بیٹے مکرم ناصر وحید صاحب تعلیم الاسلام ہائی اسکول میں خدمت بجا لارہے ہیں ۔