محترم شیخ منیر احمد صاحب شہید
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل جون 2025ء)
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 19؍فروری2014ء میں محترم شیخ منیر احمد صاحب (شہید لاہور) کی سوانح اور سیرت پر شائع ہونے والی ایک کتاب سے چند واقعات پیش کیے گئے ہیں جن سے شہید مرحوم کی خدمت خلق کے پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ کتاب اُن کی ہمشیرہ محترمہ کفیلہ خانم صاحبہ نے تحریر کی ہے۔

کئی یتامیٰ اور بیوگان کے ہاں باقاعدہ راشن بھجواتے۔ بعض ضرورت مند خاندانوں کی کفالت دوسروں کے ذریعے سالہاسال تک کرتے رہے مگر اُن کو بھی خبر نہ ہوتی کہ کون اُن کی ضروریات پوری کررہا ہے۔ ڈاکٹر اسحاق بقاپوری صاحب کے ہاتھ بھی ایک ایسے ہی خاندان کو ماہوار خرچ بھجوایا جاتا تھا۔ انہوں نے کئی بار اپنے محسن کا نام پوچھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہی جواب دیا کہ مجھے منع کیا ہوا ہے۔
آپ کے ملازم غلام رسول نے بتایا کہ کچھ ماہ قبل ایک بےحد غریب شخص اچانک آپ کی گاڑی کے آگے آگیا اور بڑی مشکل سے بچا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ اس شخص کا معمول ہے، کسی دن مرے گا۔ آپ نے غلام رسول کے ذریعے گھر سے دس ہزار روپے منگواکر اُس شخص کو دیے اور کہا کہ جو اپنی جان داؤ پر لگاتا ہے، وہ نہ جانے کتنا ضرورت مند ہوگا۔
آپ کے ملازم غلام رسول نے آپ کے اخلاق سے ہی متأثر ہوکر بیعت کی تھی جس کے بعد اُس کے والدین اور بیوی بچوں کا گاؤں میں رہنا مشکل کردیا گیا تھا۔ اُس زمانے میں اُس کو آپ تین ہزار روپے ماہوار دیتے تھے لیکن اس رقم میں اُس کے لیے لاہور میں کرائے کا مکان لینا ممکن نہیں تھا۔ اُس نے آپ سے ذکر کیا تو آپ نے اپنی جان پہچان والے ایک ایسے نمبردار سے رابطہ کیا جس کی زرعی زمین لاہور کے مضافات میں تھی جس کے وہ پلاٹ بناکر بیچ رہا تھا اور کافی رقم کماچکا تھا۔ آپ نے اُس سے کہا کہ اُس پر اللہ نے بےحد فضل کیا ہے اب ایک غریب کو دس مرلے زمین صدقے کے طور پر دے دیں یا پھر بہت کم قیمت لگائیں جو وہ اقساط میں ادا کردے۔ اُس نے بہت کم قیمت میں پلاٹ غلام رسول کو دے دیا۔ شہید مرحوم نے اپنے بہن بھائیوں کے ذریعے غلام رسول کی مدد کی۔ اسی اثنا میں ایک کوٹھی جو گراکر دوبارہ تعمیر کی جانی تھی اُس کے مالکان کے کہنے پر کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو لے جاسکتے ہیں، آپ نے اینٹیں اور دیگر عمارتی سامان غلام رسول کی زمین پر منتقل کروایا اور کچھ عرصے میں ہی اُس کا گھر تیار ہوگیا جس کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔
آپ کے برادرنسبتی راجہ غالب صاحب کی ملازمہ کے تین سالہ بیٹے کا ہونٹ پیدائشی طور پر کٹا ہوا تھا جس سے اُسے کھانے پینے میں خاصی دقّت ہوتی۔ کسی کو اس طرف خیال نہیں آیا لیکن شہید مرحوم نے ایک سرجن سے اس کا کامیاب آپریشن کروادیا۔ اسی طرح آپ کی ایک ہمشیرہ کا سسرالی رشتہ دار بوجہ فالج بیمار ہوگیا۔ وہ گوجرانوالہ میں ڈاکخانہ میں ملازم تھا۔ محکمہ نے بتایا کہ اُس کے کاغذات نہیں ملتے اس لیے پنشن نہیں دی گئی۔ وہ بےچارہ مفلوک الحالی میں بیوی بچوں کے ساتھ اپنی بیوہ ماں کے ہاں آگیا۔ آپ کے علم میں یہ بات آئی تو خود گوجرانوالہ جاکر کاغذات تلاش کروائے، پھر اس کا کیس کیا اور محکمانہ بورڈ کے ذریعے تفتیش کرکے پنشن جاری کروائی۔
شہید مرحوم اپنے ملازمین کی خوشی غمی میں شریک ہوتے۔ کسی کی شادی ہوتی تو اپنے بیٹے کو اپنی گاڑی دے کر بھیج دیتے۔ آپ کے باورچی ولایت کی بیوی کی وفات ہوئی تو خود اپنی اہلیہ کے ہمراہ اُس کے گاؤں گئے جہاں تک پہنچنے کے لیے کئی میل کچی سڑک تھی۔ ولایت آپ کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسی طرح ایک ملازم یاسین کے ہاں بچے کی ولادت متوقع تھی۔ آپ کی اہلیہ اُس کی بیوی کو لے کر ہسپتال گئیں اور تب تک وہاں رہیں جب تک یاسین کے عزیز گاؤں سے نہیں پہنچ گئے۔
ایک عزیز کا جواں سال بھانجا نہر میں ڈوب گیا تو نعش نہیں مل رہی تھی۔ شہید مرحوم نے متعلقہ افسروں کو کہہ کر نہر پر جال لگوایا۔ دو تین دن بعد نعش اُس جال میں پھنس گئی لیکن بہت ہی بُری حالت میں تھی۔ شہید مرحوم خود وہاں پہنچے، تمام لواحقین کو ہٹاکر رضاکارانہ طور پر خود اپنے ہاتھوں سے میت کو صاف کرکے کفن پہنایا اور تابوت میں منتقل کیا۔
ایک بار آپ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں لوگوں کا جمگھٹا دیکھا۔ وہاں حادثے کا شکار ایک زخمی نوجوان بےہوش پڑا تھا۔ آپ نے اُسے اپنی گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال بھاگے۔ ایسے کام آپ کے معمول میں شامل تھے۔ پھر جب تک مریض کو ہوش نہ آجاتی یا اُس کے لواحقین نہ پہنچ جاتے، آپ وہیں رہتے اور اُن کاموں کو بھول جاتے جن کو کرنے کےلیے گھر سے نکلے ہوتے۔ خدمت کا ایسا جذبہ تھا کہ کبھی کسی کو انکار نہ کرتے۔ بظاہر ایسے کاموں سے بھی انکار نہ کرتے جہاں صاف پتہ چلتا کہ آپ کو ناجائز طور پر تکلیف دی جارہی ہے۔