محترم صاحبزادہ غلام قادر صاحب کی اہلیہ محترمہ کے جذبات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍جولائی 1999ء میں محترم صاحبزادہ غلام قادر صاحب کی اہلیہ محترمہ نصرت قادر صاحبہ لکھتی ہیں کہ بچپن سے امی سے سنتے آئے تھے کہ بڑی پھوپھی جان (حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ) فرمایا کرتی تھیں کہ لڑکی کو چھوٹی عمر سے اپنے نیک نصیب کے لئے دعا مانگنی چاہئے، اس لئے مَیں نے اپنے نیک نصیب کے لئے دعا مانگنے کے ساتھ یہ دعا بھی شامل کی کہ یا اللہ! میرے ہم عمروں میں جو تجھے سب سے پیارا ہو اس سے میرا نصیب باندھنا اور جب قادر کی جانی قربانی کے کچھ دیر بعد حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ نے روتے ہوئے فون پر مجھے یہ فرمایا کہ ’’نچھو! اللہ میاں نے اپنے گلشن کا سب سے خوبصورت پھول چن لیا ہے‘‘، تو چند دن بعد میری توجہ حضور کی اس بات کے ساتھ اپنی اس دعا کی طرف گئی اور مَیں نے سوچا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری دعا کو قبول فرمالیا۔
وہ سادہ مزاج، بے تکلف، سادگی پسند، سچا اور کھرا انسان تھا۔ اُس نے مجھے سمجھایا تھا کہ اپنے گھر کو سادہ رکھنا مجھے زیادہ سجے سجائے گھر پسند نہیں ہیں۔
اُسے جماعت سے بہت محبت تھی۔ اُس نے انجینئرنگ کی لائن چھوڑ کر کمپیوٹر میں ماسٹر ڈگری کرنے کا فیصلہ بھی اسی لئے کیا کہ آئندہ جماعت کو کمپیوٹر کے ماہرین کی ضرورت ہوگی۔ اگر کوئی جماعت پر معمولی سا اعتراض بھی کرتا تو فوراً غیرت میں آ جاتا اور بڑا ٹھوس جواب دیتا۔ جماعت کے پیسے کا ضیاع برداشت نہیں کرتا تھا۔ صائب الرائے تھا اور ہر پہلو سامنے رکھ کر مشورہ دیتا تھا۔ بہادر انسان تھا۔ چند سال پہلے بھی جب غیراحمدیوں کی کانفرنس کے موقع پر اُس کی ڈیوٹی بہشتی مقبرہ میں تھی تو چند غیراحمدی اسلحہ بردار دیوار پھاند کر بہشتی مقبرہ میں داخل ہوگئے۔ یہ اُن کے سامنے ڈٹ گیا اور انہیں واپس جانے پر مجبور کردیا۔
جو کام اُس کے سپرد کیا جاتا اُسے پورا کرنے کے لئے دن رات کا ہوش بھلا دیتا تھا۔ کبھی مَیں نے اسے کام کا شور مچاتے یا رونا روتے نہیں دیکھا۔
اپنے والدین کی بے حد خدمت کی۔ ان کے حقوق اپنی جگہ ادا کرتا رہا۔ میرے اور بچوں کے حقوق اپنی جگہ ادا کرتا رہا۔ کبھی ایک دوسرے کی وجہ سے کسی کی حق تلفی نہیں کی۔ بہت نرم دل تھا۔ کسی کی تکلیف پر فوراً آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔
طبیعت میں مزاح بھی بہت تھا۔ بے ساختہ بات کرتا تھا۔ لطیفے کو انجوائے بھی بہت کرتا تھا۔ مَیں جب بھی کوئی اچھا لطیفہ اُس کی غیرموجودگی میں سنتی تو میری کوشش ہوتی تھی کہ قادر آئے تو اُس کو سناؤں۔ دوسرے جب کوئی خاص بات ہوتی تو اس کے چہرے پر ایک خاص مسکراہٹ آ جاتی جس سے مجھے پتہ چل جاتا تھا کہ اب تھوڑی دیر میں یہ کوئی اہم بات بتائے گا۔ ایک دفعہ سحری کے وقت اس کے چہرے پر وہی خاص مسکراہٹ تھی۔ مَیں نے قادر سے کہا بتاؤ کیا اہم خواب دیکھی ہے رات کو۔ تو ہنس پڑا کہ تمہیں کس طرح پتہ چلا۔ … اور واقعی میرا قیاس درست نکلا۔
بس ایک مذاق جو مجھے اس کا کبھی پسند نہیں آیا وہ یہ کہ کئی دفعہ سانس روک کر لیٹ جاتا تھا اور میرے شور مچانے پر کہ قادر ایسے مذاق نہ کیا کرو بے حد ہنستا تھا۔ وفات سے ایک ہفتے پہلے بھی ایسا ہی کیا … ہنس کر کہنے لگا کہ مَیں نے سانس روکا ہوا تھا کہ تم سمجھوگی کہ مرگیا ہے تو دیکھوں کہ تمہاری کیا حالت ہوتی ہے۔ آج اگر وہ یہ حالت دیکھ لے جو اس کے جانے کے بعد میری ہے تو میرے ساتھ وہ بھی تڑپ کر رودے۔
شکار اور کھیل کا شوقین تھا۔ ایبٹ آباد سکول میں فٹ بال ٹیم کا کیپٹن بھی رہا۔ ایک دفعہ لاہور سے ایبٹ آباد تک کا سفر سائیکل پر کیا۔ دو تین دفعہ ہائیکنگ پر بھی گیا۔ مجھے موٹر سائیکل سیکھنے کا شوق تھا جو اُس نے پورا کیا۔ چونکہ اپنی بے انتہا مصروفیت کی وجہ سے گھر میں کم وقت دیتا تھا اس لئے جب کبھی زمینوں وغیرہ کے کام سے باہر جاتا تو ہمیں بھی لے جاتا۔ چھٹی کے دن کبھی دریا پر اور کبھی ویسے ہی گھومنے پھرنے نکل جاتے۔
تین چار مہینوں سے قادر کی طبیعت میں نمایاں تبدیلی تھی۔ بہت نرم مزاج ہوگیا تھا۔ ان مہینوں میں گھر میں وقت نہ دینے کا اور بعض کام دیر سے کرنے کا شکوہ بھی اُس نے دور کردیا تھا۔… ایک بار مَیں نے کہا کہ تھوڑا سا وقت آرام کے لئے بھی نکال لو تو کہنے لگا کہ ہاں اب میں فارغ ہوں۔ بس ایک کام رہ گیا ہے۔ وہ کسی سے دعوت کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ یہ وعدہ پورا کرلوں تو پھر فارغ ہو جاؤں گا۔ مجھے اُس کے اس طرح بات کرنے پر حیرت بھی ہوئی … آخری دو دن تو اُس نے دفتر سے آنے کے بعد تقریباً سارا دن ہمارے ساتھ گزارا۔ 11؍اپریل کو مَیں سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعودؑ کا وہ کمرہ جہاں آپؑ چار سال تک رہائش پذیر رہے، دیکھ کر آئی تھی۔ واپسی پر مجھے اتنی اداسی تھی کہ مَیں دو دن قادر کو یہی کہتی رہی کہ مجھے لگتا ہے کہ مَیں اپنا دل وہیں چھوڑ آئی ہوں۔ 14؍اپریل کی صبح ناشتے پر بھی اسے وہاں کی باتیں بتاتی رہی۔ پھر وہ ناشتہ کرکے تیار ہوکے چلا گیا اور مَیں اسی اداسی کی وجہ سے میز پر بیٹھ کر روتی رہی اور وہاں سے اٹھ کر آئی تو وہ اپنی کوئی چیز ڈھونڈ رہا تھا اور پھر وہ ہمیشہ کے لئے اس گھر کو خدا حافظ کہہ گیا۔ اس کا وہی چہرہ میری نظر میں ٹھہر گیا ہے۔ شاید میری اداسی مجھے پہلے سے خبر دے رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔
وہ میرا بہترین دوست تھا، میری خوشیوں کو ترجیح دینے والا اور میرے لئے غیرت رکھنے والا، وہ میرے دل کی ڈھارس تھا … مجھے اپنے دکھ سے زیادہ بچوں کی اداسی تکلیف دیتی ہے کیونکہ مَیں نے خود چھوٹی عمر سے یتیمی کا دکھ دیکھا ہوا ہے اور مَیں جانتی ہوں کہ یہ دکھ بعض دفعہ کس قدر بے قرار کر دیتا ہے۔ کرشن (بیٹا) چند دن ہوئے مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ ماما قیامت کب آئے گی؟۔ مَیں نے کہا بچے اس کا علم تو صرف اللہ میاں کو ہے، تم کیوں پوچھ رہے ہو؟۔ کہنے لگا ماما ! دعا کرو قیامت جلدی آ جائے میرا بابا سے ملنے کو بہت دل کرتا ہے۔
حضرت صاحب نے فون بند کرتے ہوئے مجھے دعا دی تھی ’’میری نچھو بیٹی کا خدا حافظ ہو‘‘۔ یا اللہ! تو اپنے پیارے خلیفہ کی یہ دعا اپنے فضل سے قبول فرمالے … قادر کے آنگن کے یہ چار پھول جن کی ساری ذمہ داری اب مجھ پر آن پڑی ہے اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں میری راہنمائی فرمانا۔ ان سب کو اس سے بڑھ کر خادم دین بنانا اور اسی کی طرح بہادر بھی۔ آمین۔ (از درّ عدن ؎)
مرے مولیٰ کٹھن ہے راستہ اس زندگانی کا
مرے ہر ہر قدم پر خود رہ آسان پیدا کر
تری نصرت سے ساری مشکلیں آسان ہو جائیں
ہزاروں رحمتیں ہوں فضل کے سامان پیدا کر
جو تیرے عاشق صادق ہوں فخر آل احمد ہوں
الٰہی نسل سے میری تُو وہ انسان پیدا کر