محترم صوبیدار صلاح الدین رشید صاحب

ماہنامہ ’’النور‘‘ دسمبر 2008ء میں مکرمہ عطیہ دین صاحبہ نے اپنے دادا محترم صوبیدار صلاح الدین صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
آپ ایک انتہائی پیاری شخصیت کے مالک تھے۔آپ کا وجود آپ کے اپنوں اور غیروں سب کے لئے انتہائی شفقت لئے ہوئے تھا۔خلیفۂ وقت اور نظامِ جماعت سے آپ کو انتہا درجے کا عشق اور وابستگی تھی۔ حضور کی خدمت میں روزانہ خط لکھتے۔ ایک دفعہ میں نے آپ کو دُعا کا خط دیتے ہوئے کہا کہ یہ حضور کو پوسٹ کردیں۔ آپ نے خط کو سرسری انداز میں دیکھا اور مجھے واپس کرکے کہا کہ اسے دوبارہ لکھو تم نے دو تین لفظ کاٹے ہوئے ہیں اور یہ خلیفۂ وقت کی بے ادبی ہے۔
1974ء کے ہنگاموں میں آپ کا گھر سرگودھا میں جلادیا گیا۔ گھر سے نکلتے ہوئے آپ کو چھت سے چھلانگ لگانی پڑی جس سے ریڑھ کی ہڈی میں شدید چوٹ آئی اور آپ کچھ عرصہ فضل عمر ہسپتال ربوہ میں داخل رہے۔ کچھ عرصہ بعد لاہور منتقل ہوگئے اور مقامی جماعت میں دینی خدمت بجالاتے رہے۔1984 ء میں آپ ربوہ آگئے اور 2002 تک یہاں مقیم رہے۔ اس دوران دس سال تک گولبازار ربوہ کی جماعت کے صدر بھی رہے اور مسجد المہدی کے امام الصلوٰۃ بھی۔ دفتر انصارﷲ میں بھی رضاکارانہ طورپر خدمت سرانجام دیتے رہے۔ مسجد المہدی میں جب 2 ؍ستمبر1996 ء کو بم دھماکہ ہوا تو آپ وہاں موجود تھے۔ آپ بیان کرتے تھے کہ دھماکہ کے وقت میں نے ایک ٹکڑے کو اپنی طرف انتہائی تیزی سے آتے اور پھرواپس مُڑتے دیکھا۔
آپ تہجد گزار تھے اور تہجد میں اُن کے نام لے کر دعا کرتے جنہوں نے آپ سے دعا کے لئے کہا ہوتا۔ قرآن پاک سے محبت ورثے میں ملی تھی۔ رمضان اور شوال کے روزے ہمیشہ رکھتے۔ وفات سے قبل 90 سال کی عمر ہونے کے باوجود آپ نے اس سال بھی سارے روزے رکھے تھے۔ بہت چھوٹی عمر میں نظام وصیت میں شامل ہوئے اور وفات کے وقت آپ کی تیسرے حصہ کی وصیت تھی۔ چندوں کی ادائیگی میں بھی بہت آگے تھے۔ ملازمت کے دَور میں کئی بار اپنی پوری تنخواہ چندوں میں دے آتے تھے اور گھر میں اتنی تنگی ہوتی کہ کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا۔ گھر کے کاموں میں ہاتھ خوشی سے بٹاتے کہ یہ سنّت ہے۔ میری شادی کے کچھ دن بعد آپ نے مجھے بلوایا اور 500 ڈالردیئے اور پوچھا کہ تم ان پیسوں کا کیا کروگی۔ میں نے کہا کہ سوچوں گی۔ تو آپ کہنے لگے زیور کپڑے تو تم نے بہت بنالئے ہیں اب میرا مشورہ مانو تو ان پیسوں سے اپنے زیور کی زکوٰۃ ادا کردو اور اس کے ساتھ ہی مجھے فارم پُر کرنے کیلئے دیا اَور کہا کہ اگر تم نے نیت کرلی ہے تو ابھی یہ فارم پُر کرکے مجھے دو، سو میں نے ایسا ہی کیا۔ دیگر چندے دیتے وقت بھی ہمیں شامل کرتے۔ نادار طلبہ اور نادار مریضوں کی امداد بھی اکثر کرتے۔ اور اِس نیکی کو انجام دینے کے لئے تکلیف اٹھاکر بھی ہر ممکن بچت کرتے۔
آپ ہر شخص کی ذہنی سطح کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اُس سے بات کرتے۔بے انتہاء عاجزی تھی۔ اگرچہ آپ دینی اور علمی معلومات کا خزانہ تھے لیکن کبھی دوسروں کو متأثر کرنے کی کوشش نہ کرتے۔
آپ نے31 ؍دسمبر2007 ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں