محترم عبدالرشید اغبولہ صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍جون 2003ء میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب اپنے مضمون میں مکرم عبدالرشید اغبولہ صاحب مربی سلسلہ نائیجیریا کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ میرے کلاس فیلو تھے۔ رات کو کثرت سے نوافل ادا کرتے اور لمبی تہجد میں دعائیں کرتے۔ کسی کو نماز میں سست دیکھتے تو ناراض ہونے کی بجائے دعاؤں کے ساتھ اُس کی تربیت کی کوشش کرتے۔ خدام الاحمدیہ ربوہ کے ناظم تربیت بھی رہے۔ کئی بار نماز فجر سے قبل ہوسٹل سے نکلتے اور مختلف محلّوں کا چکر لگاتے ہوئے صل علیٰ کرتے۔ قرآن کریم سے ازحد عشق تھا۔ یوں لگتا کہ گویا انہوں نے حفظ کر رکھا ہے۔ کلاس میں کسی آیت کے حوالہ کی ضرورت ہوتی تو فوراً متعلقہ آیت پڑھ دیتے۔
غیرملکی اور اردو زبان سے ناآشنا ہونے کے باوجود بہت محنت کے عادی تھے۔ جلد ہی زبان پر اتنا عبور حاصل کرلیا کہ کلاس میں بھی پوزیشن لینے لگے۔ علم حاصل کرنے کا جنون تھا اور بہت جفاکش اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ جامعہ کے پیدل سفر میں جو ربوہ سے خوشاب تک اور واپس ربوہ تک ہوتا ہے اور چار دن میں مکمل ہوتا ہے، آپ نے دو روز میں مکمل کرلیا اور اگلے ہی دن ایک فٹ بال کا میچ بھی کھیلا۔
قواعد کی خود بھی پابندی کرتے اور دوسروں سے بھی کرواتے۔ کسی تعلق کی وجہ سے کبھی رعایت نہ کرتے۔ ہوسٹل میس کے صدر بنے تو اس کا عملی نمونہ دکھایا۔ انگریزی زبان کے بہت اچھے مقرر تھے اور مقابلوں میں انعامات حاصل کرتے تھے۔
آنحضورﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ سے انتہائی عشق تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے کلام سے آنحضورﷺ کی مدح میں بیسیوں شعر یاد تھے۔ کثرت سے درود شریف پڑھتے۔ ایک بار سیالکوٹ گئے تاکہ مقامات مقدسہ کی زیارت کریں۔ وہاں درودیوار سے لپٹ لپٹ کر روتے اور فدائیت کا اظہار کرتے رہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمارا محبوب اور خدا کا مسیح آیا تھا۔