محترم غلام سرور وڑائچ صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 21؍اکتوبر 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍اکتوبر2013ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں مکرم بشارت احمد وڑائچ صاحب نے اپنے برادراکبر محترم غلام سرور وڑائچ صاحب ابن محترم چودھری عنایت اللہ وڑائچ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جو اوپن ہارٹ سرجری کےچند روز بعد یکم ستمبر 2009ء کو بعمر 61 سال وفات پاگئے۔مرحوم اور اُن کے والد، دونوں کو جماعت احمدیہ قلعہ کالروالہ ضلع سیالکوٹ کے صدر کے طور پر خدمت کی توفیق ملتی رہی۔
1903ء میں قلعہ کالروالہ (سابق قلعہ صوبہ سنگھ)کی مسجد اہل حدیث کے خطیب حضرت حکیم مولوی فضل کریم صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی کی خبر ہوئی تو وہ اپنی گھوڑی پر سوار ہوکر قادیان چلے گئے۔ وہاں حضورعلیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوکر چند دن قیام کیا اور پھر جب واپس گاؤں تشریف لائے تو وہ جمعہ کا دن تھا۔ آپؓ نے خطبہ جمعہ میں مسیح موعود کی بعثت کے متعلق احباب کو بتایا اور بیعت کرنے کی دعوت دی جس پر اکثر احباب نے ناگواری کا اظہار کیا لیکن حضرت چودھری پیرمحمد صاحبؓ اور اُن کے بارہ سالہ بیٹے عبداللہ خان صاحب نے کھڑے ہوکر بیعت کا اقرار کیا۔
چند دن بعد گاؤں کے چودھری عمردین صاحب کی ایک قیمتی گھوڑی چوری ہوگئی۔ چودھری صاحب کو تحقیق سے پتہ چلا کہ گھوڑی امرتسر لے جائی گئی ہے۔ چنانچہ برادری کے دس پندرہ بزرگ گھوڑیوں پر سوار ہوکر امرتسر روانہ ہوئے اور وہاں کے ایک ڈیرے سے گھوڑی برآمد کرلی۔ پھر اُن سب نے مشترکہ طور پر پروگرام بنایا کہ مولوی فضل کریم صاحب نے جس امام مہدی کا قادیان میں آنا بتایا تھا، اتنی قریب آکر وہاں بھی جانا چاہیے۔چنانچہ یہ قافلہ قادیان پہنچا تو حضورعلیہ السلام کی قوّتِ قدسیہ کا اسیر ہوکر بیعت کرکے واپس آیا۔ گاؤں میں ان احباب نے جب اپنے قبولِ احمدیت کی خبر دی تو بہت سے سعید فطرت احباب کو بھی قادیان جاکر دستی بیعت کی توفیق ملی جن کی تعداد بتیس ہے۔ (البدر 26؍جون 1903ء)
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ہمارے دادا حضرت چودھری سردار خان صاحبؓ کو ستمبر 1907ء میں بذریعہ خط بیعت کی توفیق ملی۔ مکرم غلام سرور صاحب 15؍مئی 1948ء کو قلعہ کالروالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ مجھ سے ڈیڑھ سال بڑے تھے۔ مقامی سکول صرف ایک برآمدے پر مشتمل تھا۔ اکثر کلاسیں درختوں کے نیچے لگتیں۔ بارش میں سکول بند ہوجاتا۔ جب بھائی مڈل کے امتحان میں فیل ہوئے تو ہمارے والد صاحب نے ہم دونوں بھائیوں کو تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں میں آٹھویں کلاس میں داخل کروادیا۔ سکول تین میل دُور تھا لیکن اس کا معیار نہایت اعلیٰ تھا اور میٹرک کا نتیجہ عام طور پر سوفیصد ہوتا تھا۔ غالباً 1961ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ جناب حسنات احمد صاحب کے ہمراہ تشریف لاکر تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں کا سنگ بنیاد رکھا اور ایک سال سے کم عرصے میں کالج اور ہوسٹل کی عمارات اور پرنسپل کی رہائشگاہ تیار ہوگئے۔ محترم عبدالسلام اختر صاحب پہلے پرنسپل تعینات ہوئے۔ عمدہ پڑھائی کے علاوہ غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی کالج نے خوب شہرت حاصل کی۔ جون 1965ء میں ہم دونوں بھائی میٹرک میں پاس ہوئے تو مکرم غلام سرور صاحب نے جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخلہ کی درخواست دی لیکن جنگ کی وجہ سے داخلے ملتوی ہوگئے تو ہم دونوں بھائی گھٹیالیاں کے کالج میں داخل ہوگئے۔ F.Aکے امتحان میں بھائی کی دو مضامین میں کمپارٹ آگئی لیکن مَیں نے ربوہ جاکر کالج کے تیسرے سال میں داخلہ لے لیا۔
مکرم غلام سرور صاحب نے ایف اے پاس کرکے سیالکوٹ میں ایک انسٹیٹیوٹ سے ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھی اور بطور کلرک پسرور کے ایک ہائی سکول میں ملازمت کرلی۔ دورانِ ملازمت انہوں نے PTC اور پھر CT کا کورس بھی کرلیا اور گورنمنٹ مڈل سکول گھنوکے ججّہ میں بطور ٹیچر کام شروع کردیا اور پھر قریباً تیس سال کی ملازمت کے بعد یہیں سے ریٹائرمنٹ لی۔ آپ نے ملازمت بہت ایمانداری اور اخلاص سے کی جس کی وجہ سے علاقے بھر میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے۔ گو آپ زندگی وقف نہ کرسکے لیکن عملاً ایک واقف زندگی کے طور پر جماعت کی خدمت کا جذبہ آپ میں موجود تھا۔ بچپن سے ہی نماز باجماعت کے پابند تھے۔ بعد میں تہجد اور چاشت کے نوافل بھی باقاعدگی سے ادا کرنے لگے۔ قرآن کریم کی تلاوت ترجمہ کے ساتھ کرتے۔ دس سال سے زیادہ عرصہ بطور قائد خدام الاحمدیہ خدمت کرتے رہے۔ بارہا اجتماع وغیرہ پر ربوہ کا سائیکل سفر بھی کیا۔ بطور صدر جماعت آپ کو دو ادوار میں خدمت کا موقع ملا۔ پہلا دَور پندرہ سال پر محیط تھا جبکہ کچھ وقفے کے بعد دوبارہ صدر منتخب ہوئے اور تاوفات یہ ذمہ داری نبھائی۔ مجلس انصاراللہ میں بھی خدمت کرتے رہے۔ زیادہ وقت مسجد میں گزرتا لیکن ساری مصروفیات کے باوجود زمیندارہ بھی کرتے۔ خلافت خامسہ میں وصیت کرنے کی تحریک ہوئی تو آپ نے بھی وصیت کرلی۔ چندہ جات کی ادائیگی میں بہت باقاعدہ تھے۔ مہمان نوازی میں بہت خوشی محسوس کرتے اور اس خوبی میں آپ کی اہلیہ بھی برابر کی شریک رہیں۔ آپ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا لیکن وہ جلد ہی وفات پاگیا۔ پھر آپ نے دوسری شادی بھی کی لیکن وہ زیادہ دیر نہ چل سکی۔ بچوں کی کمی کو آپ نے اپنے عزیزوں کے بچوں سے بہت زیادہ پیار کی صورت میں پورا کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

محترم غلام سرور وڑائچ صاحب” ایک تبصرہ

  1. برادرم غلام سرور صاحب وڑائچ سے متعلق خاکسار کا مضمون مورخہ 21 اکتوبر 2022 کو شائع کرنے پر آپ کا ممنون ہوں

اپنا تبصرہ بھیجیں